میرے خیال میں زلفی کا اشارہ اس طرح کی بہترین چیزوں کی طرف ہے۔
دنیا کی مہنگی ترین کافی جنوب مشرقی ایشیا کی پہاڑیوں سے آتی ہے۔
تاہم یہ کافی ہر کسی کے ذائقے کے مطابق نہیں۔ یہ ایسی کافی بینز سے بنتی ہے جو سی ویٹ (جو کہ بلی نما چھوٹے جانور ہیں) کھا کر خارج کر دیتے ہیں۔
اگر آپ یہ جاننے کے بعد بھی ایسی کافی پینا چاہیں تو دوسرا بڑا مسئلہ اس کا دام ہے۔ یہ کافی جاپان اور امریکہ میں آٹھ سو ڈالر فی بیگ کے حساب سے بکتی ہے۔ نیو یارک میں کچھ کافی کی دکانوں میں تو اس کافی کی ایک پیالی پچاس ڈالر تک کی بکتی ہے۔
تاہم ؤائی اور باسِل ریز کا خیال ہے کہ اس کافی کے لیے یہ دام کچھ زیادہ نہیں۔ انہیں اپنا کافی کا کاروبار شروع کیے ہوئے چھ سال ہو گئے ہیں اور ان کے مطابق کافی کی جو بینز سی ویٹ کھا کر خارج کرتےہیں وہ واقعی خاص ہوتی ہیں۔
اب کمپنیاں مقامی گاؤں والوں کو سی ویٹ کا فضلہ جمع کرنے کے لیے پیسے دیتی ہیں
وائی کا کہنا ہے، ’میں نے مختلف قسم کی بہت سی کافیاں پی ہیں، مگر میں ہمیشہ سی ویٹ کافی کا ذائقہ اور مزہ پہچان لیتی ہوں۔ اس کافی کی شکل، خوشبو، مزہ سب بالکل الگ ہیں۔
کافی کے شائقین کا کہنا ہے کہ سی ویٹ کافی کے منفرد ذائقے کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ سی ویٹ صرف وہ کافی بینز کھاتے ہیں جو نہایت ہی رسیلی ہوتی ہیں، اور دوسری یہ کہ سی ویٹ کے معدے میں ان بینز سے خمیر اٹھنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے جو انہیں ایک منفرد ذائقہ فراہم کرتا ہے۔
ان بینز کو بہت اچھی طرح دھو کر پھر بھونا جاتا ہے۔ اس طرح تیار ہونے والی کافی دیگر کافیوں کی طرح تلخ ہونے کی بجائے چاکلیٹ کے ذائقے کی ہوتی ہے۔
وائی اور باسِل ریز کو یہ کاروبار شروع کرنے کا خیال تب آیا جب انہوں نے انڈونیشیا میں اس کافی کی مقبولیت دیکھی۔ جب انہوں نے فلپائن کے کافی اگانے والوں علاقوں میں لوگوں سے بات کی تو انہیں پتہ چلا کہ مقامی آبادی پہلے سے اس طرح کی کافی کے فوائد سے آگاہ تھی اور مقامی لوگ صدیوں سے سی ویٹ کافی پیتے آ رہے تھے۔ تاہم انہیں سی ویٹ کافی کی بڑھتی مقبولیت کا علم نہیں تھا۔
ہر سال سی ویٹ کافی کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے
وائی ریز کے مطابق، ’مقامی لوگ یہ سمجھتے تھے کہ سی ویٹ کافی اتنی اچھی کافی نہیں ہوتی۔ ان کے مطابق جو کافی درخت پر ہو وہ بہتر ہے اور جو زمین پر پڑی ملے وہ کمتر۔ چونکہ وہ اس کافی کو بیچ نہیں سکتے تھے اس لیے وہ اسے خود پیا کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اس کا ذائقہ عام کافی سے بہتر ہے۔‘
اب وہ مقامی گاؤں والوں کو سی ویٹ کا فضلہ جمع کرنے کے لیے پیسے دیتے ہیں۔
دیگر کمپنیوں نے بھی ایسا کرنا شروع کر دیا ہے اور کچھ نے تو سی ویٹس کو پکڑ کر ان کی فارمِنگ شروع کر دی ہے، جس سے ان کا فضلہ جمع کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ تاہم کافی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح سے جو کافی تیار ہوتی ہے اس میں وہ بات نہیں ہوتی جو آزاد سی ویٹس کے فضلے سے تیار کردہ کافی میں ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو سی ویٹس قید ہوتے ہیں انہیں جو دیا جاتا ہے وہ وہی کھا لیتے ہیں، اور بہترین اور سب سے رسیلی کافی بینز نہیں۔
ہر سال سی ویٹ کافی کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے زیادہ تر شائقین ایشیا میں ہیں، خاص طور پر جاپان، تائوان اور جنوبی کوریا۔ تاہم یورپ اور امریکہ میں بھی اس کے شیدائیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
(بشکریہ بی بی سی)