دن اور ہی کچھ کہتے ہیں شب کہتے ہیں کچھ اور - منیبؔ احمد

منیب الف

محفلین
چند اشعار ہیں۔ آپ سن لیں تو ہم شکرگزار ہیں:

دن اور ہی کچھ کہتے ہیں شب کہتے ہیں کچھ اور
کچھ اور ہی کہتے ہیں وہ جب کہتے ہیں کچھ اور

اِتنا ہی تو کہتے ہیں کہ تو دل کی سنا کر
اے جان مری! ہم تجھے کب کہتے ہیں کچھ اور

اندر سے تو کیا ٹکڑوں میں دو ٹوٹ گیا ہے؟
آنکھیں تری کچھ کہتی ہیں لب کہتے ہیں کچھ اور

تو منہ سے تو کہتا ہے کہ ہوں آج بہت خوش
انداز یہ اطوار یہ ڈھب کہتے ہیں کچھ اور

کہتے ہیں سدا آپ منیبؔ اوروں کو اچھا
پر آپ کے بارے میں تو سب کہتے ہیں کچھ اور


:hatoff:
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم !

محترم آپ کی گزشتہ غزل کیا ہوئی' "صاحب" ردیف والی- مجھے بہت پسند آئی تھی داد و تحسین کے لئے پر تول ہی رہا تھا کہ غائب ہو گئی -

یہ غزل بھی اچھی لگی -داد حاضر ہے -

اندر سے تو کیا ٹکڑوں میں دو ٹوٹ گیا ہے؟
آنکھیں تری کچھ کہتی ہیں لب کہتے ہیں کچھ اور

بہت عمدہ

پہلے مصرع میں ذرا سی تعقید محسوس ہوئی -ایک صورت یہ دیکھ لیں :

اندر سے تو دو ٹکڑوں میں کیا ٹوٹ گیا ہے ؟

یاسر
 

منیب الف

محفلین
السلام علیکم !

محترم آپ کی گزشتہ غزل کیا ہوئی' "صاحب" ردیف والی- مجھے بہت پسند آئی تھی داد و تحسین کے لئے پر تول ہی رہا تھا کہ غائب ہو گئی -

یہ غزل بھی اچھی لگی -داد حاضر ہے -



بہت عمدہ

پہلے مصرع میں ذرا سی تعقید محسوس ہوئی -ایک صورت یہ دیکھ لیں :

اندر سے تو دو ٹکڑوں میں کیا ٹوٹ گیا ہے ؟

یاسر
وعلیکم السلام، یاسر بھائی!
اِس غزل کو پسند کرنے کا شکریہ :handshake:
صاحب ردیف والی غزل آج دوبارہ پوسٹ کروں گا۔
ایک دو باتوں کی وجہ سے میں نے چاہا کہ پہلے یہ غزل شیئر کروں، بعد میں وہ :)
 
Top