چند اشعار ہیں۔ آپ سن لیں تو ہم شکرگزار ہیں:
دن اور ہی کچھ کہتے ہیں شب کہتے ہیں کچھ اور
کچھ اور ہی کہتے ہیں وہ جب کہتے ہیں کچھ اور
اِتنا ہی تو کہتے ہیں کہ تو دل کی سنا کر
اے جان مری! ہم تجھے کب کہتے ہیں کچھ اور
اندر سے تو کیا ٹکڑوں میں دو ٹوٹ گیا ہے؟
آنکھیں تری کچھ کہتی ہیں لب کہتے ہیں کچھ اور
تو منہ سے تو کہتا ہے کہ ہوں آج بہت خوش
انداز یہ اطوار یہ ڈھب کہتے ہیں کچھ اور
کہتے ہیں سدا آپ منیبؔ اوروں کو اچھا
پر آپ کے بارے میں تو سب کہتے ہیں کچھ اور
کچھ اور ہی کہتے ہیں وہ جب کہتے ہیں کچھ اور
اِتنا ہی تو کہتے ہیں کہ تو دل کی سنا کر
اے جان مری! ہم تجھے کب کہتے ہیں کچھ اور
اندر سے تو کیا ٹکڑوں میں دو ٹوٹ گیا ہے؟
آنکھیں تری کچھ کہتی ہیں لب کہتے ہیں کچھ اور
تو منہ سے تو کہتا ہے کہ ہوں آج بہت خوش
انداز یہ اطوار یہ ڈھب کہتے ہیں کچھ اور
کہتے ہیں سدا آپ منیبؔ اوروں کو اچھا
پر آپ کے بارے میں تو سب کہتے ہیں کچھ اور