دن زندگی کے یوں ہی تنہا گزارے ہم نے --- برائے اصلاح

شام

محفلین
ایک غزل برائے اصلاح پوسٹ کر رہا ہوں

دن زندگی کے یوں ہی تنہا گزارے ہم نے​
تجھ سے بچھڑ کے کب ڈھونڈے ہیں سہارے ہم نے​
جیسے کوئی فرشتہ لیکر وحی کو اترے​
زخمِ جگر یوں دیکھو دل میں اتارے ہم نے​
جب پہلی بار ان سے دوچار ہوئی نظریں​
کیا کیا کیے تھے ان آنکھوں سے نظارے ہم نے​
ان کی وہ جانیں ہم تو ہیں اب بھی ان پہ قائم​
وہ وعدے جو کیے تھے دریا کنارے ہم نے​
شب ہجراں جان پائے گی تو نہ ان کی حدت​
وہ جو چھپائے ہیں دامن میں شرارے ہم نے​
اور اگر یہ بحر میں ہے تو بحر کا نام بھی بتا دیں​
شکریہ​
 

محمد وارث

لائبریرین
جی یہ غزل موزوں ہے اور بحر کا نام بحر مضارع مثمن اخرب ہے۔ افاعیل، مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن ہیں۔

اشعار تو بے وزن نہیں ہیں لیکن دو تین جگہ ایک عیب شکستِ ناروا پایا جاتا ہے۔ یہ عیب ان بحروں سے مخصوص ہوتا ہے جو مقطع ہوتی ہیں یعنی جو دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی ہیں جیسے آپ کی غزل کی بحر ہے۔

مطلع کا دوسرا مصرع دیکھیے

تجھ سے بچھڑ کے کب ڈھونڈے ہیں سہارے ہم نے

اس میں لفظ ڈھونڈے، دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا ہے ڈھو پہلے فاعلاتن کے تُن کے وزن ہے اور ڈے مفعول کے مف پر اور یہی شکستِ ناروا ہے۔ یعنی مقطع بحروں میں جہاں بحر تقسیم ہوتی ہے وہاں شعر کے الفاظ، ارکان کے مقابل ٹوٹنے نہیں چاہیں۔ جیسے مطلع کا پہلا مصرع ہے دن زندگی کے یونہی - مفعول فاعلاتن تنہا گزارے ہم نے - مفعول فاعلاتن۔

اسی طرح تیسرے شعر کے دوسرے مصرعے میں لفظ آنکھوں اور آخری شعر کے دوسرے مصرعے میں لفظ دامن بھی تقسیم ہو رہا ہے۔
 

شام

محفلین
جی یہ غزل موزوں ہے اور بحر کا نام بحر مضارع مثمن اخرب ہے۔ افاعیل، مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن ہیں۔

اشعار تو بے وزن نہیں ہیں لیکن دو تین جگہ ایک عیب شکستِ ناروا پایا جاتا ہے۔ یہ عیب ان بحروں سے مخصوص ہوتا ہے جو مقطع ہوتی ہیں یعنی جو دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی ہیں جیسے آپ کی غزل کی بحر ہے۔

مطلع کا دوسرا مصرع دیکھیے

تجھ سے بچھڑ کے کب ڈھونڈے ہیں سہارے ہم نے

اس میں لفظ ڈھونڈے، دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا ہے ڈھو پہلے فاعلاتن کے تُن کے وزن ہے اور ڈے مفعول کے مف پر اور یہی شکستِ ناروا ہے۔ یعنی مقطع بحروں میں جہاں بحر تقسیم ہوتی ہے وہاں شعر کے الفاظ، ارکان کے مقابل ٹوٹنے نہیں چاہیں۔ جیسے مطلع کا پہلا مصرع ہے دن زندگی کے یونہی - مفعول فاعلاتن تنہا گزارے ہم نے - مفعول فاعلاتن۔

اسی طرح تیسرے شعر کے دوسرے مصرعے میں لفظ آنکھوں اور آخری شعر کے دوسرے مصرعے میں لفظ دامن بھی تقسیم ہو رہا ہے۔

شکریہ وارث بھائی اتنی اچھی معلومات دینے کا
مطلب یہ ہوا کہ جن اشعار میں شکست ناروا ہے ان کو تبدیل کرنا پڑے کا
یا گزارہ چل سکتا ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ وارث بھائی اتنی اچھی معلومات دینے کا
مطلب یہ ہوا کہ جن اشعار میں شکست ناروا ہے ان کو تبدیل کرنا پڑے کا
یا گزارہ چل سکتا ہے

جی میں نے پہلے کہا تھا کہ اشعار وزن میں ہیں یعنی گذارہ چل سکتا ہے لیکن اس عیب سے اجتناب بہتر ہے :)
 
شام بھائی کیا عمدہ بحر کا انتخاب کیا ہے آپ نے۔ مزہ آگیا حقیقت میں۔
دراصل یہ بحر مثمن تو ہے لیکن اسکی تقسیم در حقیقت چار حصوں میں کریں تو ہی مزا دیگی جیسے پیانو کا نوٹ تو وہی ہوتا ہے پر متعین تسلسل سے ہٹ کر چاہے صحیح نوٹ کے مطابق بھی پلے کریںگے لیکن سر کہیں کی کہیں ہو جائیگی۔
اسی طرح اس طرح کی بحر بھی ہر 2 ارکان کے بعد فاصلہ مانگتی ہے جس پے لفظ ختم نا ہو تو مزا نھیں آتا۔
اسی طرح کی اور بھی بحریں جیسے ’’بحر ہزج مثمن اخرب‘‘ شعر کے چار حصے مانگتی ہے،
معصوم محبت کا - بس اتنا فسانہ ہے
کاغذ کی حویلی ہے - بارش کا زمانہ ہے
(واہ کیا ترنم ہے!)
اب ذرا اس پے غور کریں:

تجھ سے بچھڑ کے کب ڈھون - ڈے ہیں سہارے ہم نے
تجھ سے بچھڑ کے ڈھونڈے - ہیں کب سہارےہم نے

کیا کیا کیے تھے ان آن - کھوں سے نظارے ہم نے
ان آنکھوں سے کئے تھے - کیا کیا نظارے ہم نے

وہ جو چھپائے ہیں دا - من میں شرارے ہم نے
وہ جو چھپائے دامن - میں ہیں شرارے ہم نے

نوٹ: یہ میرا تجزیہ ہے جو تصدیق یا اصلاح کا منتظر ہے کیونکہ میں مبتدی ہوں۔
حتمی فیصلہ قابلِ احترام محمد وارث اور الف عین صاحبان ہی کرینگے۔
 

الف عین

لائبریرین
دن زندگی کے یوں ہی تنہا گزارے ہم نے
تجھ سے بچھڑ کے کب ڈھونڈے ہیں سہارے ہم نے
//جیسا کہ کہا جا چکا ہے کہ یہاں لفظ دو ٹکروں میں بٹ رہا ہے کہ بحر ہی دو حصوں میں تقسیم ہے۔
ڈھونڈے ہیں کب بچھڑ کے تجھ سے سہارے ہم نے

جیسے کوئی فرشتہ لیکر وحی کو اترے
زخمِ جگر یوں دیکھو دل میں اتارے ہم نے
//وحی میں ’ی‘ ساکن ہے۔ یہاں متحرک آ رہا ہے۔
جیسے کوئی فرشتہ آیات لے کے اترے
یوں دیکھو زخم/داغ الفت دل میں اتارے ہم نے

جب پہلی بار ان سے دوچار ہوئی نظریں
کیا کیا کیے تھے ان آنکھوں سے نظارے ہم نے
//یوں کر دو
جب پہلی بار ان سے اپنی ملی تھیں نظریں
ان آنکھوں سے کیے تھے کیا کیا نظارے ہم نے

ان کی وہ جانیں ہم تو ہیں اب بھی ان پہ قائم
وہ وعدے جو کیے تھے دریا کنارے ہم نے
//درست

شب ہجراں جان پائے گی تو نہ ان کی حدت
وہ جو چھپائے ہیں دامن میں شرارے ہم نے
//اے شام ہجر کیسے جانے گی ان کی گرمی
رکھے ہیں جو چھپا کر دل میں شرارے ہم نے
یا
دامن میں جو چھپائے رکھے شرارے ہم نے
 

شام

محفلین
شکریہ استاد محترم

آپ کی اصلاح سےغزل کی اصل شکل کچھ ایسے بنی ہے

دن زندگی کے یوں ہی تنہا گزارے ہم نے​
ڈھونڈے ہیں کب بچھڑ کے تجھ سے سہارے ہم نے​
جیسے کوئی فرشتہ آیات لے کے اترے​
یوں دیکھو زخم الفت دل میں اتارے ہم نے​
جب پہلی بار ان سے اپنی ملی تھیں نظریں​
ان آنکھوں سے کیے تھے کیا کیا نظارے ہم نے​
ان کی وہ جانیں ہم تو ہیں اب بھی ان پہ قائم
وہ وعدے جو کیے تھے دریا کنارے ہم نے​
اے شام ہجر کیسے جانے گی ان کی گرمی
رکھے ہیں جو چھپا کر دل میں شرارے ہم نے​
 
Top