دودھ پلانے والے سمندری جانور

تانیہ

محفلین
وہیل، ڈولفن، سیل اور والرس (دریائی گھوڑی) دودھ پلانے والے سمندری جانور ہیں۔ مچھلیوں کی طرح وہ پانی کے اندر سانس لینے کے لیے پانی سے آکسیجن جذب نہیں کرسکتے۔ بلکہ انہیں انسانوں کی طرح ہوا میں سانس لینے کے لیے پانی کی سطح پر آنا پڑتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ وہ انسانوں کے مقابلے میں بہت زیادہ عرصے تک اپنی سانس روک سکتے ہیں۔ بعض تو ایک گھنٹہ یا اس سے بھی زیادہ عرصے کے لیے سانس روک لیتے ہیں۔ وہیل کے سر کے اوپر ایک سوراخ ہوتا ہے، جس کے ذریعے وہ سانس باہر نکالتے ہیں، اس طرح ایک فوارہ اس کے سوراخ سے نکل کر ہوا میں بڑی اونچائی تک جاتا ہے۔
دودھ پلانے والے خشکی کے جانوروں کی طرح یہ سمندری جانور بھی انڈے نہیں دیتے، بلکہ ان کے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ سیل اور والرس بچے دینے کے لیے خشکی پر آتے ہیں۔ جب کہ وہیل اور ڈولفن سمندر کے اندر بچے دیتے ہیں۔ پانی میں پیدا ہونے والے بچے کو سانس لینے کے لیے فوراً سطح پر آنا پڑتا ہے۔
کوہان دار وہیل گرم پانیوں میں منتقل ہونے وقت گیت گاتے ہیں۔ جیسے جیسے وہ سفر طے کرتے جاتے ہیں گیس کی لے بھی بدلتی جاتی ہے، لیکن جب وہ موسم بدلنے کے بعد دوبارہ ٹھنڈے پانی کی طرف واپس جاتے ہیں تو اپنا گت اسی مقام سے شروع کرتے ہیں جہاں سے آتے وقت ختم کیا تھا۔
کوہان دار وہیل سمندر کے اندر پائے جانے والی چٹانوں سے اپنے بدھ کو رگڑتے ہیں تاکہ بدن پر چپک جانے والی آلائشوں کو صاف کرسکیں۔
دنیا بھر میں پائے جانے والے تمام جانوروں میں نیلا وہیل سب سے بڑا ہوتا ہے۔ اس کی لمارئی 30 میٹر(98 فٹ) ہوتی ہے، گویا تین بسوں کی لمبائی کے برابر، اسی وجہ سے نیل وہیل دنیا کا سب سے زیادہ بھاری جانور بھی ہے۔ اس کا وزن تقریباً 190 ٹن ہوتا ہے یعنی 2000 بھاری انسانوں یا 52 بسوں کے وزن کے برابر۔
نیلے وہیل سمندر کے بہت چھوٹے جانوروں کا شکار کرکے انہیں اپنی خوراک بناتے ہیں۔ ان کے دانت نہیں ہوتے۔ وہ ایک وقت میں منھ کے اندر بہت سا پانی بھر لیتے ہیں اور اپنے منھ میں بنی ہوئی ہڈیوں کی چھلنی سے چھان کر پانی باہر نکال دیتے ہیں اور کھانے والی چیزوں کو نگل جاتے ہں۔ یہ وہیل ایک وقت میں ایک ہزار کلو گرازم وزن تک غذا کھالیتے ہیں۔
نیلے وہیل کے نومولود بچے کا قد تقریباً 7 میٹر(23 فٹ) اور وزن تین ٹن کے قریب ہوتا ہے۔ ایک برس کی عمر تک پہنچنے پر اس کا وزن 26 ٹن ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک گھنٹہ میں اس کے وزن میں ڈھائی کلو گرام کا اضافہ ہوتا ہے۔
نیلے وہیل موسم گرما قطب شمالی یا قطب جنوبی میں گزارتے ہیں۔ اس کے بعد وہ 15000 کلو میٹر کا سفر طے کرکے خط استوا کے گرم پانیوں میں جا کر مادہ وہیل بچے دیتی ہیں، لیکن ان گرم علاقوں میں انہیں کھانے کے لیے بہت کم غذا ملتی ہے، اس لیے گرمیوں کے زمانہ میں وہ اپنے بدن کے اندر جو چربی جمع کرلیتی ہیں، اسی پر گزارا کرتی ہیں۔
اسپرم نامی وہیل سمندر کی گہرائی میں دور تک غوطہ لگا کر اسکویڈ نامی بڑی مچھلیوں، ہشت پا اور دوسرے جانوروں کا شکار کرکے انہیں غذا کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ پانی کی سطح سے ایک کلو میٹر گہرائی تک غوطہ لگا سکتے ہیں اور پانی کے اندر ڈیڑھ گھنٹے تک رہ سکتے ہیں۔
کلر وہیل گروپ بنا کر شکار کرتے ہیں۔ وہ پنگوئین، سیل اور بعض مچھلیوں یہاں تک کہ وہیل پر بھی حملہ کردیتے ہیں۔ یہ اپنے تیز اور نوکیلے دانوں کی مدد سے انہیں کھا جاتے ہیں، لیکن ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ کلر وہیل انسانوں پر حملہ نہیں کرتے۔ کلر وہیل 55 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرسکتی ہیں۔
ڈولفن بہت ہی ذہین مخلوق ہے۔ یہ پتا نہیں چل سکا کہ وہ انسانوں سے کیوں اتنی محبت کرتی ہے۔ یہ سمندر میں تیرنے والے انسانوں سے اٹھکیلیاں کرتی رہتی ہیں اور ڈوبنے والوں کی مدد کرتی ہیں۔
ڈولفن بھی ایک طرح کی وہیل ہے۔ وہ دوسری ڈولفنوں سے رابطہ قائم کرنے کے لیے زیادہ فریکوینسی میں سیٹی جیسی آوازیں نکالتی ہیں۔ ڈولفن کی نظریں بہت کمزور ہوتی ہیں۔ وہ ان ہی آوازوں کی مدد سے اپنا راستہ بھی تلاش کرلیتی ہیں۔ ان کی یہ آوازیں بھی سمندر کے اندر موجود پہاڑوں، چٹانوں اور دوسری رکاوٹوں سے ٹکرا کر واپس آتی ہیں تو ان کی گونج سے انہیں رکاوٹوں کا پتا چل جاتا ہے۔
ایک ڈولفن کا نام پلیورس جیک تھا۔ وہ نیوزی لینڈ کی کک نامی کھاڑی میں بحری جہازوں کے ساتھ سفر کیا کرتی تھی۔ وہ کھاڑی کے ایک کنارے سے جہاز کا پیچھا کرتی اور دوسرے کنارے تک اس کے ساتھ جاتی، پھر مخالف سمت سے آنے والے جہاز کے ساتھ تیرتی ہوئی کھاڑی کے پہلے کنارے تک پھر واپس آجاتی، وہ 24 برس تک ایسا ہی کرتی رہی، یہاں تک کہ کسی نے 1612 میں اسے گولی مار کر ہلاک کردیا۔
سیل اور والرس اپنی زندگی کا ایک حصہ خشکی پر گزارتے ہیں۔ وہ اپنے ہاتھ نما پروں کو تیرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، لیکن خشکی پر یہی پیروں کا کام دیتے ہیں۔ والرس اپنی لمبی سونڈوں سے سمندر کی تہ کھود کر شیل فش تلاش کرلیتے ہیں، جو ان کی غذا ہے، وہ ان کی مدد سے اپنے آپ کو پانی سے نکال کر برف پر چڑھ جاتے ہیں۔
 

میر انیس

لائبریرین
بہت ہی معلوماتی مراسلہ ہے عزیز امین کے ساتھ ساتھ میرے بیٹے احمد کے لئے بھی دلچسپی کا باعث ہوگا
 

میر انیس

لائبریرین
بس شمشاد ہمارے ساتھ یہی مسئلہ ہے آتے ہیں تو مسلسل آتے ہیں غائب ہوگئے تو کئی کئی دن نہیں آپاتے۔ دل تو کرتا ہے سار سار دن یہیں رہیں پر کبھی کمپیوٹر ناراض تو کبھی نیٹ ناراض اور کبھی تمہاری بھابھی
 
Top