محمد جاوید اختر
محفلین
عصر حاضر میںجہاںترقیاتی منصوبوںکے ساتھ زندگی کو بھی پرآسائش بنانے کی ایک کبھی ختم نہ ہونے والی دوڑ ہے، وہیںمسلمانوںکا نہ سمجھ آنے والا لائف اسٹائل اظہر من الشمس ہے۔
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود۔۔
یہ تو خوب کہنے والے نے کہدیا۔۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم پر جدیدیت کا فتنہ ایسا طاری ہے کہ ہم ہماری مسلمانیت بھولتے جاتے ہیں۔
روڈ پر نکل جائیں۔
ٹی وی آن کریں۔
کھیل کے میدان میںدیکھیں۔
فیملی کلچرز پر نظر دوڑائیںِ
میڈیا کے حوالے سے آنیوالی نیوزز۔
ایجوکیشنل کلچرز۔
معاشرتی رسم و رواج ۔
آپس کے تعلقات کے جھول۔
آخر کیا کچھ نہیںہے، جہاںہم نے مغرب سے کچھ لینے کی کوشش کی، کہیںسے کچھ لینے کی کوشش کی اور کہیںسے کچھ۔۔اور یہی ایک طرف تو بہترین معیار زندگی، اور لائف اسٹائل قرار پایا، تو دوسری طرف مذہب کو اسقدر بری طرح سے سوتیلا بنادیا گیا کہ وہ ایک آپشنل سججیکٹ بن کر رہ گیا۔
پھر قران کی وہ آیت کا مفہوم "تمہارے لئے بہترین طریقہ زندگی اسلام ہے" سے پھر ہم نے کیا مراد لیا ہے۔۔۔۔۔!!!!؟ کیا یہ برکات و رحمات کے مراقبوںاور صرف مساجد اور اسپیشل ایونٹس کے لئے محدود ہوکر رہ گیا، یا پھر پیدائش، شادی اور موت کے ہنگاموں میں استعمال میںآنیوالی کوئی مقدس شئے ہے۔
اگر کسی کی جاب چلی جاتی ہوں، یا بزنس کا کچھ مسئلہ ہو، یا معاشی مسائل ہو تو سارا خاندان یک جٹ ہوکر سوچتا ہے، دوست احباب سے مشورے مانگے جاتے ہیں، تعلیمی قابلیتوںکی دہائیاںدی جاتی ہیں، تجربات کو کام میںلایا جاتا ہے، اور جو بھی اویلیبل ٹولز ہیں کو استعمال میںلاکر۔۔۔۔دو وقت کی روٹی کا سوکالڈ "سیکیوریٹی" والا ذریعہ نکال لیا جاتا ہے، ورنہ تب تک نہ رات کی نیند اور نہ دن کا سکون۔۔چلیں یہ ایک ضرورت بھی ہے۔۔اور گناہ بھی نہیں۔۔۔۔!!!
لیکن کبھی ہم نے اپنے بگڑنے اور بکھرتے معاشرتی مشنری کی جانب بھی ایک نگاہ کی ہے، شائد نہیں۔۔۔۔! اگر کی ہوتی تو ہم اسکے لئے بھی ٹولز تلاش کرنے لگ جاتے، خاندانوںمیںکسی فرد کی معاشرتی برائی پر بات کی جاتی، آگاہ کیا جاتا، ایجوکیٹ کیا جاتا، جاکر صلاح دی جاتی، اور پھر ڈرایا جاتا، نتائج سے آگاہ کیا جاتا، نصیت کی جاتی، لیکن ہم اس معاملے میںتو کہتے ہیں کہ بھی جسکا دین وہ ذمہ دار، اور اگر دوسرے کے "پرسنلز میں دخل اندازی" کریں تب یہ چیز۔۔۔رشتوںکو خراب کردے گی وغیرہ۔۔اور یہ تو پرسنل معاملہ ہے۔۔۔!!!
کتنا عجیب معاملہ ہے۔۔دو دن کی زندگی کی مصائب کے لئے ہم اپنے قریبی عزیز ، بھائی، دوست، یا جان پہچان والے کے لئے تک و دو کرتے ہیں، اور کوشش کرتے ہیںکہ جو بھی بن پڑے ہم کریں۔۔لیکن کبھی ختم نہ ہونے والی ایک لامتنا ہی زندگی کے لئے ہم اپنے اعزہ، اقارب، دوست احباب اور جان پہچان والے کے بارے میںسوچتے ہیں۔۔۔۔۔!
اسلام اسی لئے اجتماعیت کی روحچاہتا ہے۔۔۔کہ اگر معاشرہ اجتماعی طور پر جڑا رہے تب یہ اجتماعیت نہ صرف ہمارے عام مسائل کے حل کرنے میں ایکدوسرے کے لئے معاون و مدد گار ثابت ہوسکتی ہے ، بلکہ اس سے بہت آگے بڑھکر یہ ایک دینی ضرورت بھی ہے کہ ایدکوسرے کے غم ا ور دکھ در ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے دینی رجحانات، شیطانی وسوسوںکے بھی ہمیںہی ایکدوسرے کے قریب رہکر ، وعظ و نصیحت کے ذریعہ ہی دور کرنا ہے۔۔لیکن ہائے افسوس کہ ہم اسکو دخل اندازی متصور کرکے۔۔اپنی جگہ مطمئن ہوجاتے ہیں۔
سوسائیٹی کسقدر پستی کا شکار ہے ، یہ دیکھنے کے بعد تو خون کے آنسو رونے کو دل کرتا ہے، جب ٹی وی آن کی جاتی ہے، تب مسلم ناموںجیسے کچھ تھرکتے پھرکتے، انسانی ہیولے، جب بولتے نظر آتے ہیں تو کبھی بھی یہ مسلمان نظر نہیںآتے، کبھی ائنکر کی شکل میں کبھی ایکٹر کی شکل میں کبھی سیاستدان کی شکل میںیا کبھی ایک عام عوام کی حیثیت کی شکل میںکہیںسے بھی کچھ ایسا نظر نہیںآتا کہ ہم "مسلمان کی شناخت کرلیں" اب نیتوںاور دلوںکا حال تو اللہ ہی بہتر جانے لیکن بظاہر تو لگتا کہ اسلامی حدود کی پاسداری کرنا بھی ہم میں سے بہت سوںکے لئے ، وبال جان ہے، یا یہ غیر ضروری یا غیر اہم چیز متصور کی جاتی ہے۔
فرد کے اصلاح کے لئے ضروری چیزیںجس میںہم سب سے پہلے بنیادی چیزوںپر بحث کرلیںتو ہم عبادات اور اخلاقیات کو لے سکتے ہیں، لیکن ہم نماز جیسی اہم عبادت نہ ہم پر 100 فی صد نافذ کرتے ہیں اور خود پر کر بھی لیں تو اپنے بھائی کو اس معاملہ میں قدر اہمیت کے ساتھ جتا کر نہیںکہتے، جتنا ہم انہیں کسی معاشی ضرورت کے تحت مشورے دیتے ہیں۔
اخلاقیات کا چیپٹر تو اسقدر بوسیدہ ہوچلا ہے کہ اللہ کی پناہ، ہمارے اخلاق بھی آجکل پروفیشنل ازم کی نظر ہو چلے ہیں، کہ اگر کوئی معیار کے لحاظ سے ادب کے قابل ہو تب کہیںہم ان سے اخلاق سے پیش آئیگے، یا ہمارا ن سے کوئی مفاہد ہو، ورنہ ہم تو سلام کرنے اور لینے میںبھی کنجوس ہو چلے ہیں۔
اقدار اور ویلوز کی بات ایسی ہے۔۔
لیکن وہیں چلیں۔۔۔مغرب اور جدیدیت کی طرب۔۔!
جدید ٹولز ہو، فیشن ہو، بے حیائی ہو، یا بے حیائی کے ٹولز، ۔۔۔بے با کیاںہو یا حدود ے تجاوز کرنا ان تمام میں اس سے انکار نہیںکہ لذت ہی لذت ہے، اور رغبت بھی لیکن انکے بارے میںہمیں تما م تر علم رکھنے کے بھی بھی۔۔۔کبھی بھی ان سے بچنے کی کم ہی سوچتے ہیں۔۔اور ان شااللہ ، ماشااللہ کی گردان کے ساتھ تمام وہ کام جے فحش ہیں، ڈائرکٹ یا انڈارکٹ ہم بہ آسانی ملوث ہوجاتے ہیں، یا اگر کوئی ملوث ہیںتب بہ آسانی وہاں سے گذرجاتے ہیں۔۔جبکہ ہمیںاچھی طرح سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حرام کاریاں، ہیں برے کام ہیں، مسلم معاشرہ کے لئے ناسور ہیں، ایسا کرنے سے ہمارے مسلمانیت خطرے میں پڑسکتی ہے۔۔۔لیکن ہم پر بھی جدیدیت اس قدر حاوی ہوتی ہے کہ ہماری آنکھیںبند ہوتی ہیں۔۔۔اور ہم ہماری اقدار جو کہ ماخذ ہدایت "قران و سنہ" ہیںسے ہٹکر "ماخذ ذلت ورسوائی" شیطان حربے" کی جانب لپکتے ہیں۔۔وہیںسے روشن خیال، لبرل ازم سوکالڈ موڈریٹ ازم، اور بے حیائیوںاور برائیوںکا جنم ہوتا ہے۔۔۔اور پھر ہم اس میں ڈوبتے چلے جارہے ہیں۔۔۔! بہت سوںکو غلط فہمی ہے کہ ہم اس کا شکار نہیں۔۔۔بالکل۔۔لیکن بہت سے اس غلط فہمی سے نہ نکلیںتب کل کے دن روز آخرت کو اللہ کی پکڑ میںوہ درمیانی لوگ بھی خدانخواستہ آسکتے ہیں۔
گلوبلائیزیں، ترقیات، آسائیشیں اور اسکے توسط سے جنم لینے والے فتنے کیا، انسان کے خاک سے بنے وجود سے واقف نہیں، اور یہ کہ یہ ایک دن خاک ہوجانے بھی والا ہے۔۔۔پھر کیا بات ہے کہ اہل علم و نظر بھی ان فتنوںکو کسی حد میںشکار ہوجاتے ہیں۔۔کم از کم ذرہ برابر بھی علم رکھنے والوںکو تو "تقویٰ کی روش پر بنے رہنے بہت ضروری ہے، کیونکہ شیطانی حربے خاص طور پر ایسے لوگوںکو سب سے پہلے اپنی پکڑ میںلے لینگے جو کہ کسی پرسنٹیج میںعلم رکھتے ہوںاور اللہ سے ڈرتے ہوں، انہیںبہت محتاط رہکر۔۔زندگی بھی گزارنی ہے، اور ساتھ میں جس بڑے انبیائی منصب پر فائز امت مسلمہ سے وابستہ ہیںیہ ضرور سوچتے رہنا چاہئے۔
اس ایک مثال پیش کرنا چاہونگا۔۔۔بعض روش خیال اور لبرل افراد۔۔۔ان افراد کو جو کہ دینی رجحانات رکھتے ہیں، اپنے قیمتی وقت سے بہت سا راوقت دینی کاز میںصرف کردیتے ہیں، یہاںتک کہ۔۔۔اپنی ذات اور فیملیوںکو بھی اللہ کے حضور قربان کردیا، یعنی، صرف اس حد تک دنیا کو حاصل کرنے کی انکی کوشش کہ۔۔۔بس گذ ر بسر ہوجائے۔۔۔لبرل اور روشن خیال افراد ایسے افراد کو۔۔۔۔بیوقوف سمجھتے ہیں۔۔۔! یعنی روشن خیال صرف اپنے حد تک رہتی اور لبرل ازم صرف اپنا یا جاتا تو بھی کوئی بات نہیںتھی۔۔ایک قدم آگے بڑھکر۔۔یہ طبقہ ان جو کہ حقیقت میںاللہ کے قرب کی کوشش میںاپنا سب کچھ لٹا پٹا دینا چاہتے ہیں۔۔انکو بیوقوف اور احمق سمجھتے ہیںکہ ۔۔۔تھوڑی سی زندگی میں"انجوائے یہ نہ کرلو" کہ فقط دین اور اسلام اور دعوت الی اللہ ، اور سادگی، اور رسم و رواج سے دوری اور پتہ نہیںکیا کیا کہتے ہیں۔۔دین تو محض اتنا ہے کہ۔۔۔نماز پڑھ لو اپنی اور اپنی راہ لو۔۔۔"یعنی یہ روشن خیالی اور لبرل ازم کی پیداوار۔۔۔۔کہیں۔۔۔کفر کے قریب نہ کردے۔۔۔ناشکری تو بے عملی سے عیاںہو ہی جاتی ہے۔۔لیکن عمل کرنیوالوںکو احمق سمجھنے والے، خود دنیا کے بیوقوف ترین اور احمق تریںاشخاص ہوتے ہیںکہ۔۔یہ لوگ۔۔دنیا کی حقیت جانکر۔۔۔وہ طرز زندگی اپنا نا چاہتے ہیں جسکی تعلیم ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔۔۔اور اگر اس طرز زندگی کو قدامت پسندی اور مزید کچھ کہا جائے تو یہ بات ، انہی کی طرف واپس پلٹ جاتی ہے۔
دوسری طرف روشن خیال اور لبرل ازم سوچ مذہب بیزاری اور دین سے دوری کا بھی سبب بن جاتی ہے، اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ، سوکالڈ ترقی پسند، روشن خیال ، ماڈریٹ اذہان کی تشکیل اور وہ طریقے اپنانے کے بجائے ہر کسی کو اختیار ہے کہ وہ اسوہ حسنہ کو خود سے مطالعہ کرکے انکی زندگی کو اپنا ماڈل بنائے۔۔تب کیسے ۔۔۔۔آج کل کی سوکالڈ روشن خیالی اور لبرل ازم سوچ کا ازالہ نہ ہوگا۔۔صرف نظر آنیوالی چمک دمک کے پیچھے پڑجائیں تو صرف اتنا ہی کافی ہے " اس دنیا کی چمک دمک ہی نہیں۔۔بلکہ مکمل حقیقت مالک حقیقی کی نظر میں مکھی کے پر کے برابر بھی نہیں" کتنا بھی روشن خیال اور ترقی پسند بن جائیں۔" خاک سے بنے، خاک ہیںاور خاک ہوجائینگے"
جدیدت کا سب سے آسان مظہر کسی کی بھی شادی شدہ زندگی کا آغاز ہے۔
اگر خوف خدا اور حدود اللہ کی پاسداری کرنے نمازی پرہیزگار لوگ بھی ہوںتب بھی شادی شدہ زندگی کا آغاز دیکھ کر پتہ چل جاتا ہے کہ کس کے اندر کتنی مغرب پرستی، جدیدیت اور مذہب بیزاری کا عنصر نمایاںہے۔
شادی کے پہلے دن سے ہی بیگم صاحبہ کے ساتھ جو عہد و پیمان ہوتے ہیں وہ یہی جدیدیت کی بنیاد پر بنے ہوئے ہوتے ہیں، یہ کوئی ڈرافٹ نہیںلیکن دیکھنے والی نظر پھانپ لیتی ہے کہ یہ گاڑی کس رخ سفر کرنے والی ہے، جب تک ماںباپ کے ساتھ تھے، تب تک، نماز اور روزہ، اور قران کی تلاوت کے ساتھ اجتماعات اور مذہبی سرگرمیوںمیںحصہ لینے والے صاحب اچانک ان محفلوںمیںکم نظر آنے لگتے ہیں، اور پھر یہ ابتدا، آہستہ آہستہ مسجدوںکی طرف رغبت کے بجائے مارکٹس اور پارکس اور تفریحگاہوںکی جانب رغبت بھی ایک طرح سے جدیدیت کا رجحان ظاہر کرتے ہیں۔
پھر جیسے جیسے دن گذرتے چلے جاتے ہیں، جدید اذہان کی ایک کے بعد ایک، نت نئے انداز اختیار کرلئے جاتے ہیںاور ایک دفعہ جب یہ دروازہ کھلتا ہے، تب اسکی پھر کوئی انتہا نہیں، نماز وں بے رغبتی سے شروع ہوا یہ سفر، گھر میں ٹی پر میوزک، اور ڈریس کوڈز میںمغربیت، بچوں کے عریاںلباس، اور پارٹیز میں آہستہ آہستہ مغربیت جھلکنے لگتی ہے۔۔اور پھر یہ سفر جدیدیت رواںدواںرہتا ہے۔
حدود اللہ کی پاسداری ہو تب ، ماڈرن اپروچ اور تھوڑا بہت لبرل ذہن حد میں رہ سکتا ہے، لیکن جب حدود اللہ کا کچھ پاس ہی نہ ہو تو مذہب بیزاری سے شروع ہو کر سیکولر انداز جہاںبس روایتی دینداری، اور جہاںحلال و حرام کا چیپٹر آپشنل، اور جہاںحجاب وغیرہ کا معاملہ اللہ اللہ خیر صلہ تب پھر کوئی ایسی طاقت نہیں جو کہ بندے کو اپنی چھوٹی سی فیملی جو کہ مغرب کے طوفان میں بہی جانے کے لئے بے تا ہوتی ہے، روک سکے۔۔۔اور توفیق تو اسے ہیںملتی ہے، جہاں طلب ہو، جہاںطلب ہی شیطانی اور ایسے سوکالڈ جدیدیت کے ٹولز ہوںجو کہ ایجاد ہی شیطان کی ہو تب کیسے کسی کو توفیق ملے۔۔۔!
انسان چاہے کتنا بھی بگڑ ا ہوا ہو، اللہ تعالی اسے موقعے دیتا ہے کہ سدھر جائے، اگر نوجوانی کی ابتدا میںخوف خدا اور تقوٰی وپرہیزگار کی روش مشکل ہے۔۔۔تب شادی اور شادی کے بعد کی ذمہ داریاں، بچے اور پھر چھوٹی سی فیملی کی ہیڈ ہونے کے ناطے سے ذمہ دار بننے کے وقت بھی کم از کم اپنی فیملی اور بچوںکے لئے اسلامی رجحانات پیدا کرلینا ناممکن نہیںتب فرد کا خود کا بھی اور اپنی فیملی اورایک جنریشن کا بھلا ممکن ہے، اگر اللہ سے اسکی رحمت کی طلب کے ساتھ بدلیں تب۔۔ورنہ۔۔۔تو یہ جدیدیت کا سیلا، فرد کے ساتھ فیملی اور پھر جنریشن کو ایک ایسی اتاہ پستیوںکی گہرائیوںمیںڈھکیل دیتا ہے۔۔جہاںسے پھر ہدایت کی طرف پلٹنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔۔۔
جدید رجحانات نے سب سے پہلے خاندان کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا، اور جہاںاپنائیت، خلوص محبت آپ کا میل ملاپ بنیاد تھی، وہاں ، اسٹیٹس ، خود غرضیاں ااور لیولز نے لے لی۔۔۔خاندانوں کا شیرازہ بکھرنا، بھی ای جدید رجحان ہی ہے، جہاںفرد، اسکی وائف، اور پھر جنریشن۔ ۔۔یہی ایک گھر کے لوگ قرار پائے اور پھر فائدے اور نقصانات، اور پھر میل جول بھی اسی فیملی کے اندر تک ہی محدود ہوکر رہ گئے،ورنہ تھوڑا سے پیچھے پلٹیںتب نانا نانی، دادادادی سے تعبیر بذرگوںکے ساتھ۔۔۔اور انکے سرپرستی میںپلنے والی جنریشنز کتنا ایکدوسرے سے محبت اور میل جول والی گروتھ پاتی تھیں۔۔آج اسکا جنازہ نکل رہا ہے۔۔۔اور مختصر پیکٹس جیسے فیملیز کا رجحان ہے، 5 وہ بھائی جنکے ایک ہی ماںاور باپ ہیں۔۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ۔۔۔ڈاکٹر، انجینیر، ڈرایئور، مزدر اور ٹیلر کے زمروں میںبٹنے کے بعد تعلقات انکی معاشی حیثیت کے تابعدار ہوکر رہے گئے ہیں۔ ایک ہی ماںکو جنے گئے یہ دو بچے ایک مزدور بنا اور دوسرا ڈاکٹر اور انکے فیملیز اور وہ خود بعد میں ایکدوسرے کے قریب آنے کے ر وادار نہیںکیونکہ سوسائیٹی میںیہ۔۔۔چہرہ دکھانے کے قابل نہیںرہینگے کہ۔۔۔مزدور کے بھائی ہو۔۔۔یہ نئے رجحانات ہیں۔۔۔۔یہی رجحانات کی پیداوار مغربی سوچ نے بعد میںماںاور باپ کو بھی پولیس اسٹیشنز اور حوالات کی سیر کرائی ہے۔۔۔اگر ہمنئے اور جدید رجحانات کو قبول کرنے کے عادی بن جائیںتب ہم بھی بہت جلد اس سوکالڈ جدیدیت کی غلاظت سے متاثر ہوئے بنا نہیںرہ پاسکتے۔۔اسلئے ہمیںویلیوز کو ہمیشہ ریڈ کرنا چاہئے ورنہ کوا ہنس کے چال چلے تب کیا حال ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔!!!؟؟؟
ایک پراکٹیکل مثال کے ذریعہ ہم مزید کچھ جاننے کی کوشش کرینگے، اگر میں اپنے گھر کی مثال لوں تب آج بھی ہمارے گھر کے لیڈیز کے کپڑوںکی شاپنگ بھی ہمارے والد محترم ہی کرتے ہیں۔۔مثلا۔۔۔1۔ہمارے والد کے ایک دوست کی کپٹروںکی دکان ہے۔۔وہاں سے بہت سارے کپڑے والد صاحب اٹھالاتے ہیںکہ بھائی ان میں سے ، لڑکیوں اور امی کے لئے کپڑے سلیکٹ کرلو۔۔۔اور اسی طرح سے فنکشنز وغیرہ کے لئے بھی کچھ زیادہ کپڑے ورائیٹی لیکر آجاتے کے بھائی ان میں جو جو چاہئے۔۔رکھ کر باقی واپس کردو۔۔۔!2۔ روز مرہ کے سامان کے لئے شاید ہی کبھی ہمارے گھر کے خواتین نے مارکٹس کے رخ کئے ہوں۔۔۔3۔ لیڈیز بھی ہوٹلنگ کرتے ہیں۔۔یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔۔اور سفر وغیرہ میںجب ٹرین میں، کچھ خریدا ہوا خرید کر کھاتے ہیں تب ہماری خواتین۔۔عجیب محسوس کرکے تھوڑا بہت کھا پی لیتی یہں۔۔۔4۔پارکس وغیرہ میںپبلک گیدرنگ۔۔۔یہ آج بھی ہمارے لئے کبھی مہمانوںکے ہمراہ، انکو گھمانے پھرانے سے ہٹکر ویک اینڈز پر کبھی گھر کے سب لوگ پارکس یا تفریحکے لئے جاتے ہیں۔۔۔یہ کسی عجوبہ سے کم نہیں۔۔۔لیکن ۔۔۔۔۔آج کل رجحانات تو عجیب و غریب ہیں۔۔
مارکٹس لیڈیز سے تعبیر۔
ہوٹلس میںفیملی گیدرنگز۔
فیملی پارکس۔
تفریح گاہیں۔۔۔
یہ تمام کے تمام جدیدیت کا مظہر ہی لگتے ہیں۔ہی الگ بات ہے کہ۔۔۔ان تمام میںاعتدال کی راہ ہے، ضرورت پر حجاب کرکے خواتین بھی تفریحفرماسکتی ہیں، ہوٹلس میںضرورتا بیٹھنا ناجائیز نہیںاگر وہاںبا حجاب سسٹم ہو، شاپنگ بھی خواتین کرسکتی ہیں، مارکٹس میں بھی خواتین کا آنا جانا کوئی ممنوع نہیں۔۔لیکن رجحات کسقدر عجیب ہوچلے ہیں کہ۔۔۔۔بعد میںیہی رجحانات اعتدال کی راہ کو پھلانگنے کی دعوت دیتے ہیں
عورت کے جو حقوق ہیںوہ ایک اسلامی ذہن کے ہونے کے ماں، بیوی، بیٹی بہن اور بہت سی شکلوںمیںاسلام نے کسقدر احترام دیا ہے۔۔یہ اظہر من الشمس ہے۔
لیکن جدید ذہن کے تحت۔۔مرد حضرات اپنے اس پوزیشن کو بھول جاتے ہیں۔۔جہاںانہیں ایک ذمہ دارانہ رول پلے کرنا ہوتا ہے۔۔۔اسکے بجائے۔۔۔کہا کچھ جاتا ہے۔۔لیکن کنٹرول عام طور پر خواتین کے ہاتھوںمیںدینا پسند کرتے ہیں۔۔۔محبت اور احترام اور ایکدوسرے سے کورآڈینیشن کے تحت بہت سی چیزوںمیںعورتوںکو اپنے معاون بنانا وہ تو فطری بھی اور ضرورت کے تحت بھی ہوتا ہے۔۔لیکن میں جس جدید ذہن کی طرف اشارہ کر کرہا ں ، سوسائیٹی ایسے ذمہ دار افراد کی تلاش میںہے۔۔۔جہاں واقعی ایسے مرد حضرات کی ڈیمانڈ کرتی ہے۔۔جو کہ واقعی ہیڈ آف دی فیملی ہو۔۔۔آجکل ہیڈ آف دی فیملی بعضجگہوںپر عورتیںہوتیںہیں۔۔۔۔۔! بہر حال بیٹوین دی لائینز باتیںہے۔۔۔!! اللہ ہم سبکو ہدایت دے۔۔آمین
ایک اور عجیب و غریب جدیدیت کا فتنہ ہے، جس میںہر وہ ذہن جو کہ مغرب کا پیروکار ہے، مبتلا ہے، مثال کے طور پر علمائے دین کو تعلیم یافتہ افراد ناکارہ سمجھتے ہیں، داڑھی رکھنے والے مذہبی رجحانات رکھنے والوںکو بیوقوف سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور تو اور کسی بھی تحریک، جماعت، یا گروپ سے منسلک افراد کو سوکالڈ تعلیم یافتہ، اور جدیدیت کے حامی افراد مشورہ دیتے نظر آتے ہیںکہ بھائی۔۔۔اپنی فیملی کی جانب بھی نگاہ کرو، یہ اللہ اللہ کرنے سے دنیا تھوڑے نا ملنے والی ہے، کچھ اپنے بچوںکے مستبقل کے بارے میں سوچو، کچھ اپنے فیملی کے مستقبل کی فکر کرو، یہ کام کرنے لگوگے تو فیملی متاثر ہوکر رہ جائیگی۔۔یہ کچھ کچھ، سرمایادارانہ نظام کے حامی افراد کی سوچ بھی ہوتی ہے، لیکن جو کچھ ہے۔۔۔یہ ایسا رجحان ہے، جو کہ ماضی میں آج سے بہت کم پایا جاتا تھا۔۔۔لیکن آج خاص طور پر جب سے دنیا گلوبل ویلیج بنی ہے۔۔۔۔ولیوز اختیار کرنے والوںکو دنیا کا بیوقوف ترین فرد تصور کیا جارہا ہے۔۔۔! اگر کوئی جاہل ترین فرد ماسٹرز، یا آئی ٹی یا کسی بھی شعبہ میںپروفیشنل ہو اسکو سماج کے ہر شعبہ میں عزت کی جانے لگی ہے۔۔۔کو اوہ ہ ہ یہ تو تعلیم یافتہ ہے۔۔وہیںحافظ قران، عالم دین، اور دین کا علم رکھنے والا وہ فرد جو کہ عصری تعلیم سے نا آشنا ہے۔۔اسکو جاہل مطلق سمجھا جاتا ہے۔۔۔۔(ا س سے بالکل بھی قطع نظر کے عصری تعلیم خود ۔۔اللہ تعالی کی سرزمین میںہونیوالی ریسرچ کا ہی حصہ ہے، اور یہ کوئی غیر اسلامی معاملہ نہیں) لیکن ایک ایسی تعلیم جسکا حاصل کرنا آجکل صرف معاش سے جڑا ہو، اسکو دینی تعلیم سے کمپیر کرکے۔۔دینی تعلیم کو بالکل ہی کمتر قراردینےعملی مظاہر ہ کوئی اور نہیںہمارے ہی بھائی بند کرتے ہیں۔۔اللہ ہمیں ایسے عناصر کو پہچاننے کی صلاحیت بچشے۔۔اور ہمارے باشعور طبقہ کو توفیق دیے کہ وہ ایسے فتنوںکے سدد باب کے لئے بھی کوشش کرے، کیونکہ سوسائیٹی میںخیر کے کام کرنے والے تو خیر کے کاموںکی کوشش کرتے چلے جاتے ہیں،لیکن فتنوںمیںمبتلا عناصر کے فتنے خود فتنوں کی ایک خاموش تبلیغ ہوتی ہے۔۔۔اور پھر یہ تو دنیا ہے۔۔۔جہاںرغبت ایسے چیزوںمیںہی رکھی گئی ہے۔۔!
نیوڈیٹی جدید یت کا ایک ایسا فتنہ ہے، جو کہ زمانہ قدیم کے عریانیت کو جامہ پہنانے کی ایک ناکام کوشش ہے، اور اس میں خا ص طور پر خواتین کو نشانہ پر رکھا گیا ہے۔۔لیکن اس میںخاص طور پر نیو جنریشن مبتلا ہے اور یہ ایک ایس فتنہ ہے جہاں اخلاقیات کی دھجیاںبکھیر دی جاتی ہیں۔
سب سے پہلے تو مسلم حضرات نے چہرے کے پردے پر ایسے ایسے انداز سے دلائل پیش کرنے شروع کئے کہ ایسی کوئی دلیل واضح نہیںہے کہ جہاںچہرے کا پردہ کیا جائے سے شروع ہوا یہ فتنہ ۔۔۔آہستہ آہستہ ، لڑکیوں اور لڑکوںکو پھٹے پرانے اور شیڈڈ بد نما کپڑوںمیںلپیٹا گیا، اور اسکو فیشن کا نام دے دیا گیا، جینز سے لیکر جدید تراش خراش کے سارے لباس ہمارے معصوم بچوں کے مقد س بدن ڈھانکے میںناکام جب رہتے ہیںتب کیسے انکے اندر اخلاقیات کے مکمل معیار کی تشکیل بھلا ممکن ہے۔۔۔اور ایسا ہی ہورہا ہے۔۔۔نت نئے قسم کے لباس جس کے پہننے سے ہی لگتا کہ کپڑے ستر پوشی کے لئے نہیںبلکہ فیشن کے لئے پہنے جارہے ہیں، اور پھر اس فیشن کے اندر جھانکیں تب عریانیت کے سوا کچھ نہ ملے گا۔۔عجیب عجیب تراش خراش کے جدید لباس کو اپنا نا گویا ہمارے لئے ایک اعزاز سا بن گیا ہے۔۔۔کیا خواتین اور کیا مرد اور کیا معصوم بچے۔۔سب ہی ان پھٹےہوئے عجیب و غریب کپٹروںکے دلدادہ ہیں۔۔۔!ایسے ایسے عجیب و غریب قسم کے کپٹروں سے بنے لباس جس کے پہننے پر بدن مزید عریاںہوجائے۔۔۔اور پھر یہ سب ملا تفریق مذہب ہم بھی اختیار کرتے چلے جاتے ہیں۔۔یہ بہت ہی مہذب جامہ میںپہنا ہوا، اخلاقیات کی دھجیاںاڑانے والا نہایت ہی معروف فتنہ ہے۔۔ہمیںاس حوالے سے مزید معلومات "ڈریس کوڈ" کے موضوع میں مل سکتی ہیںکہ "مسلمان شخص" بچے ہوںیا خواتین ہو ںیا مرد انکے لباس کیسے ہوںکہ وہ شائستہ نظر آئیں۔۔ورنہ یہ جدید تراش خراش سے تو ہم کہیں سے بھی ہماری شناخت محسوس کرسکتے ہیں۔۔۔!!!
کیریر ازم بھی ایک فتنہ ہے، حیران نہ ہوںکہ یہ کیسے جدیدیت کے فتنہ میں شامل ہوگیا۔۔ہاںاصل میںتعلیم حاصل کی جاتی تھی۔۔علم کے حصول کے لئے کیونکہ علم سے ہی تعلیم کا ورڈ نکلا ہے۔۔لیکن آج دیکھیںکہ تعلیمی درسگاہیںکیسے اخلاقیات کی دھجیاںاڑاتی ہیں، اور کیسے تعلیمی میدان کرپٹ اور کمرشیل ہوگیا ہے، اور کیسے یہ تعلیم حاسل کرنے بعد ہی انسان ایک معاشی حیوان بن رہا ہے، دوسرے ورڈز میںآج کی تعلیم تو صرف معاش سے یہ جڑی ہوئی ہوگئی ہے۔۔۔یعنی تعلیم حاصل کرنا ایک زما نہ میں ایک اعزاز کی بات تھی، یہ الگ بات تھی کہ کچھ اس تعلیم کے زریعہ ذریعہ معاش بھی تلاش لیتے تھے۔۔لیکن آج کی سو کالڈ تعلیم اور تعلیمی معیارات ، درسگاہیں، اور نصاب یہ سب کہیںسے بھی اخلاق کے درس دیتے نظر نہیںآتے اور یہاںسے فارغ التحصیل کہیںسے بھی نہ کوئی انسان بننے کے لئے بے چین نظر آتے ہیں اور نہ یہ تعلیم سوسائیٹی کو کوئی اچھے انسان فراہم کرتے ہیں۔۔ہاںسوسائیٹی کے معاشی میدان میںچند معاشی حیوان ضرور پیدا کرتی ہے۔۔درسگاہوںکا ماحول، اور اس سے ملنے والے ریٹرنز بے حیائی اور چند روپوںکے پیسوں، ریالوں، پونڈز اور ڈالرز تک ہی تو م حدود ہوکر رہ گئے ہیں۔۔۔اور اگر یہ محدودودیت کے دائرے میںان مقاصد کے لئے حاصل کی گئی تعلیم ہو تب یہ بھی ایک دور جدید کا یک ایسا فتنہ ہے، جس کے ذریعہ صرف حیثیت اور اسٹیٹس کو بلند کرنے ہی کی خاطر تعلیم حاصل کی جاتی ہے۔۔ورنہ "تعلیم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرضہے" جیسے اہم بات کو ہم اتنے محدود مقاصد کے لئے محدود نہ کردیتے ، بلکہ اس کے ذریعہ ایک زبردست سوسائیٹی اور سماج کی تعمیر ہوتی۔۔۔
مسلمانوں اور نان مسلمز تمام لوگومیںمشترک ایک نئے سوچ کے حامل ازم کا نام ہے، لبرل ازم ، حالانکہ یہ کوئی نیا فتنہ نہیںہے، لیکن اگر مثالوںکے ذریعہ دیکھیںتب یہ فتنہ کسقدر آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے ، ملاحظہ ہو۔۔۔!
مثال 1۔میرے ایک بہت ہی مخلص ساتھی ہیں، کولیگ ہیں، برصغیر سے تعلق ہے، انکے "معاملات متقی اور پرہیزگار ہیں" نمازی ہیں ، حقوق کی ادائیگی وغیرہ میں بالکل ہی پرفیکٹ نظر آتے ہیں ، کسی بھی معاملے میںکسی کی خدمت میںپیش رہتے ہیں، سنجیدہ اور متین آدمی ہیں۔۔۔دوسرے معنوں ایک اچھے انسان ہیں۔
مثال2۔میرے ایک نان مسلم شناسا ہیں، بہت ہی ملنسار، مذہبی معاملات میں یہ جتنا پکے ہیںوہ بھی اپنی پوجا پاٹ، میں پرفیکٹ ہیں ، دان وغیرہ کرنے وغیرہ کے معاملوںمیںوہ بھی کم نہیں، سنجیدہ اور ریسپیکٹفل انسان ہیں۔
اوپر کی دونوں مثالوںکے افراد میں جو چیز مشترک ہے، دونوںبھی اپنی سوچ میںچند مذہبی چیزوںکو چھوڑ کر مکمل آزاد خیال ہیں ، نہ وہ نان مسلم شخص بھی اپنے طور پر جسطرح آزاد خیال اورآزاد فکر ہے، اسی طرح سے یہ میرے معزز مسلم ساتھی بھی انتہائی آزاد فکر و خیال ہیں، انہیںمخلوط ماحول پسند ہیںاپنی فیملی کے لئے بھی مخلوط ماحول کو غلط نہیں سمجھتے، ماڈرن سوچ کے جتنے مظاہر ہیں، سب میںبالکل ہی آزادی سے سوچتے ہیں، حالانکہ ایک طرف تو وہ نہایت ہی ستھرے کیرکٹر کے ہیں، یعنی معاملات ، نماز، اور خدمت خلق میں پیش پیش، لیکن وہیںکئی ایسے حدود اللہ، جو کہ انتہائی نازک ہیںمیںموصوف بالکل ہی خود مختار نظر آتے ہیں، مختصر یہ کہ ایک حق اور ایک باطل دونوںمذاہب کے ماننے والوںکے افراد میں لبرل سوچ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
عام طور پر ایک طبقہ ہوتا ہے جسکو دہریت اور کمیونسٹ مائنڈڈ کہا جاتا ہے، جہاںمذہب بیزاری اور خدا کے وجود کے متعلق (نعوذ باللہ) بھی خدشات ہوتے ہیں لیکن یہ جو لبرل طبقہ ہوتا ہے، یہ ایک ایسا درمیانی طبقہ ہے جو کہ صرف برصغیر ہی مٰیںنہیںبلکہ سارے عالم میںیہ فتنہ بے ہی کر و فر کے ساتھ موجود ہے۔
ہم یہاںسعودی عرب میںدیکھتے ہیںجہاںپر تمام عرب ممالک کے لوگ بکثرت موجود ہیں، یہ مسلمان بھی اسی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، جب انکے ذاتی معاملے دیکھیںتب وہ نہایت ہی ستھرے نظر آئین، سود و زیاں سے دور، نماز اور عبادات میںپرفیکٹشن کے قریب، وہیںفیملی اور سیلف کے لئے لبرل سوچ کے ہم عبادات سے ہٹکر عام انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بالکل ہی آزد ہیں۔۔۔۔۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ طبقہ اجتماعیت کو بالکل ہی فضول سمجھتا ہے، کہتے ہیں، اپنی جگہ پر رہکر عبادات اور خود کو صاف ستھرا رکھ لینا یہ مقصود و مطلوب ہے۔۔۔وغیرہ۔۔۔بہرحال یہ سوچ کے حامل لوگوںکی اکثریت ہے، حالانکہ ایسے مسلمان حضرات کچھ تو عقیدے کے معاملے میںصاف ستھرے بھی ہیں،لیکن ایسی انفرادی اور فیملی اور سوسائیٹی کی زندگی چاہتے ہیںجو کہ ہر باونڈری سے آزاد ہو۔۔۔۔!!!جبکہ ایک سچے اور پکے مسلمان کی باونڈریز کبھی بھی "اطیع اللہ واطیع الرسول والالوالامر منکم" سے کبھی بھی آزاد نہیںہوسکتی یا پھر مشروط بھی نہیںرہ سکتی۔
(نوٹ : پلیز غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، یہ تحریر ہرگذ بھی کسی نان مسلم اور مسلمان کا کمپیریزن نہیںہے)
حالیہ دور کی جدید ترقیوں نے دنیا کو سمیٹ دیا، اور دینا گلوبل ویلیج بنکر رہگئ، جدید ترین آلات، میڈیا کمیونیکیشن، فیشن اور تعلیم و فن میں اس قدر ترقی ہوئی ہے، کہ آج سے 50 سال پہلے شائد لوگوںنے سوچا بھی نہ تھا ہوگا، موبائیل، ویب، نیٹ، ٹی وی، موسیقی کے نت نئے آلات، نت نئے ٹرانسپورٹیشن کے ذریعہ، فیشن، درسگاہیں، اور پروفیشنل کورسس۔۔۔وغیرہ۔۔یہ تمام کے ذریعہ یقینا انسانیت کو بہت سے فائدے ہوئے، لیکن اسکے مضریات کے طور پر بہت سے فتنے نمودار ہوگئے۔
موبائیل فون حالنکہ رشتوںکو استوار رکھنے میں مددگار و معاون ثابت ہوا وہیں، اور تجارت میں اس کے فوائد ان گنت ہیں، لیکن وہیں اسکے نقصات کے طور پر سوسائیٹی میںغیر اسلامی رجحانات کی ترسیل میں بھی کافی مدد ہوئی جو کہ فتنہ ثابت ہوا۔
نیت اور ویب کی سہولت ایک بہت ہی زبردست ایجاد رہی، جس کے ذریعہ لوگ ایکدوسرے کے قریب آگئے، تجارت میں سہولت ہوئی، اور بین الاقوامی معاملات، اور رشتے سیکنڈس میں طئے پانے لگے ، لیکن نیوڈیٹی کو عام کرنے کے لئے ویب ورلڈ جتنا بڑا فتنہ شائد ہی کبھی وجود میں آیا ہو۔
میڈیا کے ذریعہ خبروںکی ترسیل لمحوںمیں لاکھوںمیل دور تک پہنچائی جانے لگی، وہیں اسکے ذریعہ غیر ضروری طور پر غلط خبروںکی آماجگاہ بھی یہی میڈیا بن گیا۔
تعلیم ، درسگاہیں، اور پروفیشنل و فنی کورسس معاش میں مدد گار و معاون ثابہت ہوئیں، وہیںاس کے کے رجحانات صحیحنہ ہونے کی وجہ سے حضرت انسانی ایک معاشی درندہ بنکر رہ گیا (کنڈیشنل)۔
جدید دور کے بہت سے آلات جہاں انسان کے لئے سہولت فراہم کرتے ہیں وہیں اسکے نقصانات دور رس ہیں۔
ان تمام کی روشنی میںیہ کہا جاسکتا ہے کہ اعتدال کی روش مندرجہ بالا تمام ٹولز کو اسلامائیز کرسکتی تھی اور کرسکتی ہے۔۔لیکن اس میں اگر کوئی حد نہ ہو تو اس کے ذریعہ انسان سماجی درندہ اور معاشی حیوان بن کر رہ جائے گا، جو کہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی سراسر نفی
اللہ میں علم و فہم کے ساتھ ساتھ شعور اور درد دل بھی عطا کرے، تقویٰکی روش پر بنے رہنے کی توفیق دے۔۔۔۔آمین، ہمیںہر فتنے سے محفوظ رکھے۔۔اور ہدایت کے ماخذ قران و سنہ سے ہمارا رشتہ مضبوط سے مظبوط تر بنادے۔۔ہمارے اندار دین حنیف کی ایسی محبت پیدا کرے کہ ہم خود کو بھی اور امت مسلمہ کو جدیدیت کے فتنوں سے بچانے کی کوشش کرے۔۔۔آمین ثم آمین
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود۔۔
یہ تو خوب کہنے والے نے کہدیا۔۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم پر جدیدیت کا فتنہ ایسا طاری ہے کہ ہم ہماری مسلمانیت بھولتے جاتے ہیں۔
روڈ پر نکل جائیں۔
ٹی وی آن کریں۔
کھیل کے میدان میںدیکھیں۔
فیملی کلچرز پر نظر دوڑائیںِ
میڈیا کے حوالے سے آنیوالی نیوزز۔
ایجوکیشنل کلچرز۔
معاشرتی رسم و رواج ۔
آپس کے تعلقات کے جھول۔
آخر کیا کچھ نہیںہے، جہاںہم نے مغرب سے کچھ لینے کی کوشش کی، کہیںسے کچھ لینے کی کوشش کی اور کہیںسے کچھ۔۔اور یہی ایک طرف تو بہترین معیار زندگی، اور لائف اسٹائل قرار پایا، تو دوسری طرف مذہب کو اسقدر بری طرح سے سوتیلا بنادیا گیا کہ وہ ایک آپشنل سججیکٹ بن کر رہ گیا۔
پھر قران کی وہ آیت کا مفہوم "تمہارے لئے بہترین طریقہ زندگی اسلام ہے" سے پھر ہم نے کیا مراد لیا ہے۔۔۔۔۔!!!!؟ کیا یہ برکات و رحمات کے مراقبوںاور صرف مساجد اور اسپیشل ایونٹس کے لئے محدود ہوکر رہ گیا، یا پھر پیدائش، شادی اور موت کے ہنگاموں میں استعمال میںآنیوالی کوئی مقدس شئے ہے۔
اگر کسی کی جاب چلی جاتی ہوں، یا بزنس کا کچھ مسئلہ ہو، یا معاشی مسائل ہو تو سارا خاندان یک جٹ ہوکر سوچتا ہے، دوست احباب سے مشورے مانگے جاتے ہیں، تعلیمی قابلیتوںکی دہائیاںدی جاتی ہیں، تجربات کو کام میںلایا جاتا ہے، اور جو بھی اویلیبل ٹولز ہیں کو استعمال میںلاکر۔۔۔۔دو وقت کی روٹی کا سوکالڈ "سیکیوریٹی" والا ذریعہ نکال لیا جاتا ہے، ورنہ تب تک نہ رات کی نیند اور نہ دن کا سکون۔۔چلیں یہ ایک ضرورت بھی ہے۔۔اور گناہ بھی نہیں۔۔۔۔!!!
لیکن کبھی ہم نے اپنے بگڑنے اور بکھرتے معاشرتی مشنری کی جانب بھی ایک نگاہ کی ہے، شائد نہیں۔۔۔۔! اگر کی ہوتی تو ہم اسکے لئے بھی ٹولز تلاش کرنے لگ جاتے، خاندانوںمیںکسی فرد کی معاشرتی برائی پر بات کی جاتی، آگاہ کیا جاتا، ایجوکیٹ کیا جاتا، جاکر صلاح دی جاتی، اور پھر ڈرایا جاتا، نتائج سے آگاہ کیا جاتا، نصیت کی جاتی، لیکن ہم اس معاملے میںتو کہتے ہیں کہ بھی جسکا دین وہ ذمہ دار، اور اگر دوسرے کے "پرسنلز میں دخل اندازی" کریں تب یہ چیز۔۔۔رشتوںکو خراب کردے گی وغیرہ۔۔اور یہ تو پرسنل معاملہ ہے۔۔۔!!!
کتنا عجیب معاملہ ہے۔۔دو دن کی زندگی کی مصائب کے لئے ہم اپنے قریبی عزیز ، بھائی، دوست، یا جان پہچان والے کے لئے تک و دو کرتے ہیں، اور کوشش کرتے ہیںکہ جو بھی بن پڑے ہم کریں۔۔لیکن کبھی ختم نہ ہونے والی ایک لامتنا ہی زندگی کے لئے ہم اپنے اعزہ، اقارب، دوست احباب اور جان پہچان والے کے بارے میںسوچتے ہیں۔۔۔۔۔!
اسلام اسی لئے اجتماعیت کی روحچاہتا ہے۔۔۔کہ اگر معاشرہ اجتماعی طور پر جڑا رہے تب یہ اجتماعیت نہ صرف ہمارے عام مسائل کے حل کرنے میں ایکدوسرے کے لئے معاون و مدد گار ثابت ہوسکتی ہے ، بلکہ اس سے بہت آگے بڑھکر یہ ایک دینی ضرورت بھی ہے کہ ایدکوسرے کے غم ا ور دکھ در ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے دینی رجحانات، شیطانی وسوسوںکے بھی ہمیںہی ایکدوسرے کے قریب رہکر ، وعظ و نصیحت کے ذریعہ ہی دور کرنا ہے۔۔لیکن ہائے افسوس کہ ہم اسکو دخل اندازی متصور کرکے۔۔اپنی جگہ مطمئن ہوجاتے ہیں۔
سوسائیٹی کسقدر پستی کا شکار ہے ، یہ دیکھنے کے بعد تو خون کے آنسو رونے کو دل کرتا ہے، جب ٹی وی آن کی جاتی ہے، تب مسلم ناموںجیسے کچھ تھرکتے پھرکتے، انسانی ہیولے، جب بولتے نظر آتے ہیں تو کبھی بھی یہ مسلمان نظر نہیںآتے، کبھی ائنکر کی شکل میں کبھی ایکٹر کی شکل میں کبھی سیاستدان کی شکل میںیا کبھی ایک عام عوام کی حیثیت کی شکل میںکہیںسے بھی کچھ ایسا نظر نہیںآتا کہ ہم "مسلمان کی شناخت کرلیں" اب نیتوںاور دلوںکا حال تو اللہ ہی بہتر جانے لیکن بظاہر تو لگتا کہ اسلامی حدود کی پاسداری کرنا بھی ہم میں سے بہت سوںکے لئے ، وبال جان ہے، یا یہ غیر ضروری یا غیر اہم چیز متصور کی جاتی ہے۔
فرد کے اصلاح کے لئے ضروری چیزیںجس میںہم سب سے پہلے بنیادی چیزوںپر بحث کرلیںتو ہم عبادات اور اخلاقیات کو لے سکتے ہیں، لیکن ہم نماز جیسی اہم عبادت نہ ہم پر 100 فی صد نافذ کرتے ہیں اور خود پر کر بھی لیں تو اپنے بھائی کو اس معاملہ میں قدر اہمیت کے ساتھ جتا کر نہیںکہتے، جتنا ہم انہیں کسی معاشی ضرورت کے تحت مشورے دیتے ہیں۔
اخلاقیات کا چیپٹر تو اسقدر بوسیدہ ہوچلا ہے کہ اللہ کی پناہ، ہمارے اخلاق بھی آجکل پروفیشنل ازم کی نظر ہو چلے ہیں، کہ اگر کوئی معیار کے لحاظ سے ادب کے قابل ہو تب کہیںہم ان سے اخلاق سے پیش آئیگے، یا ہمارا ن سے کوئی مفاہد ہو، ورنہ ہم تو سلام کرنے اور لینے میںبھی کنجوس ہو چلے ہیں۔
اقدار اور ویلوز کی بات ایسی ہے۔۔
لیکن وہیں چلیں۔۔۔مغرب اور جدیدیت کی طرب۔۔!
جدید ٹولز ہو، فیشن ہو، بے حیائی ہو، یا بے حیائی کے ٹولز، ۔۔۔بے با کیاںہو یا حدود ے تجاوز کرنا ان تمام میں اس سے انکار نہیںکہ لذت ہی لذت ہے، اور رغبت بھی لیکن انکے بارے میںہمیں تما م تر علم رکھنے کے بھی بھی۔۔۔کبھی بھی ان سے بچنے کی کم ہی سوچتے ہیں۔۔اور ان شااللہ ، ماشااللہ کی گردان کے ساتھ تمام وہ کام جے فحش ہیں، ڈائرکٹ یا انڈارکٹ ہم بہ آسانی ملوث ہوجاتے ہیں، یا اگر کوئی ملوث ہیںتب بہ آسانی وہاں سے گذرجاتے ہیں۔۔جبکہ ہمیںاچھی طرح سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حرام کاریاں، ہیں برے کام ہیں، مسلم معاشرہ کے لئے ناسور ہیں، ایسا کرنے سے ہمارے مسلمانیت خطرے میں پڑسکتی ہے۔۔۔لیکن ہم پر بھی جدیدیت اس قدر حاوی ہوتی ہے کہ ہماری آنکھیںبند ہوتی ہیں۔۔۔اور ہم ہماری اقدار جو کہ ماخذ ہدایت "قران و سنہ" ہیںسے ہٹکر "ماخذ ذلت ورسوائی" شیطان حربے" کی جانب لپکتے ہیں۔۔وہیںسے روشن خیال، لبرل ازم سوکالڈ موڈریٹ ازم، اور بے حیائیوںاور برائیوںکا جنم ہوتا ہے۔۔۔اور پھر ہم اس میں ڈوبتے چلے جارہے ہیں۔۔۔! بہت سوںکو غلط فہمی ہے کہ ہم اس کا شکار نہیں۔۔۔بالکل۔۔لیکن بہت سے اس غلط فہمی سے نہ نکلیںتب کل کے دن روز آخرت کو اللہ کی پکڑ میںوہ درمیانی لوگ بھی خدانخواستہ آسکتے ہیں۔
گلوبلائیزیں، ترقیات، آسائیشیں اور اسکے توسط سے جنم لینے والے فتنے کیا، انسان کے خاک سے بنے وجود سے واقف نہیں، اور یہ کہ یہ ایک دن خاک ہوجانے بھی والا ہے۔۔۔پھر کیا بات ہے کہ اہل علم و نظر بھی ان فتنوںکو کسی حد میںشکار ہوجاتے ہیں۔۔کم از کم ذرہ برابر بھی علم رکھنے والوںکو تو "تقویٰ کی روش پر بنے رہنے بہت ضروری ہے، کیونکہ شیطانی حربے خاص طور پر ایسے لوگوںکو سب سے پہلے اپنی پکڑ میںلے لینگے جو کہ کسی پرسنٹیج میںعلم رکھتے ہوںاور اللہ سے ڈرتے ہوں، انہیںبہت محتاط رہکر۔۔زندگی بھی گزارنی ہے، اور ساتھ میں جس بڑے انبیائی منصب پر فائز امت مسلمہ سے وابستہ ہیںیہ ضرور سوچتے رہنا چاہئے۔
اس ایک مثال پیش کرنا چاہونگا۔۔۔بعض روش خیال اور لبرل افراد۔۔۔ان افراد کو جو کہ دینی رجحانات رکھتے ہیں، اپنے قیمتی وقت سے بہت سا راوقت دینی کاز میںصرف کردیتے ہیں، یہاںتک کہ۔۔۔اپنی ذات اور فیملیوںکو بھی اللہ کے حضور قربان کردیا، یعنی، صرف اس حد تک دنیا کو حاصل کرنے کی انکی کوشش کہ۔۔۔بس گذ ر بسر ہوجائے۔۔۔لبرل اور روشن خیال افراد ایسے افراد کو۔۔۔۔بیوقوف سمجھتے ہیں۔۔۔! یعنی روشن خیال صرف اپنے حد تک رہتی اور لبرل ازم صرف اپنا یا جاتا تو بھی کوئی بات نہیںتھی۔۔ایک قدم آگے بڑھکر۔۔یہ طبقہ ان جو کہ حقیقت میںاللہ کے قرب کی کوشش میںاپنا سب کچھ لٹا پٹا دینا چاہتے ہیں۔۔انکو بیوقوف اور احمق سمجھتے ہیںکہ ۔۔۔تھوڑی سی زندگی میں"انجوائے یہ نہ کرلو" کہ فقط دین اور اسلام اور دعوت الی اللہ ، اور سادگی، اور رسم و رواج سے دوری اور پتہ نہیںکیا کیا کہتے ہیں۔۔دین تو محض اتنا ہے کہ۔۔۔نماز پڑھ لو اپنی اور اپنی راہ لو۔۔۔"یعنی یہ روشن خیالی اور لبرل ازم کی پیداوار۔۔۔۔کہیں۔۔۔کفر کے قریب نہ کردے۔۔۔ناشکری تو بے عملی سے عیاںہو ہی جاتی ہے۔۔لیکن عمل کرنیوالوںکو احمق سمجھنے والے، خود دنیا کے بیوقوف ترین اور احمق تریںاشخاص ہوتے ہیںکہ۔۔یہ لوگ۔۔دنیا کی حقیت جانکر۔۔۔وہ طرز زندگی اپنا نا چاہتے ہیں جسکی تعلیم ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔۔۔اور اگر اس طرز زندگی کو قدامت پسندی اور مزید کچھ کہا جائے تو یہ بات ، انہی کی طرف واپس پلٹ جاتی ہے۔
دوسری طرف روشن خیال اور لبرل ازم سوچ مذہب بیزاری اور دین سے دوری کا بھی سبب بن جاتی ہے، اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ، سوکالڈ ترقی پسند، روشن خیال ، ماڈریٹ اذہان کی تشکیل اور وہ طریقے اپنانے کے بجائے ہر کسی کو اختیار ہے کہ وہ اسوہ حسنہ کو خود سے مطالعہ کرکے انکی زندگی کو اپنا ماڈل بنائے۔۔تب کیسے ۔۔۔۔آج کل کی سوکالڈ روشن خیالی اور لبرل ازم سوچ کا ازالہ نہ ہوگا۔۔صرف نظر آنیوالی چمک دمک کے پیچھے پڑجائیں تو صرف اتنا ہی کافی ہے " اس دنیا کی چمک دمک ہی نہیں۔۔بلکہ مکمل حقیقت مالک حقیقی کی نظر میں مکھی کے پر کے برابر بھی نہیں" کتنا بھی روشن خیال اور ترقی پسند بن جائیں۔" خاک سے بنے، خاک ہیںاور خاک ہوجائینگے"
جدیدت کا سب سے آسان مظہر کسی کی بھی شادی شدہ زندگی کا آغاز ہے۔
اگر خوف خدا اور حدود اللہ کی پاسداری کرنے نمازی پرہیزگار لوگ بھی ہوںتب بھی شادی شدہ زندگی کا آغاز دیکھ کر پتہ چل جاتا ہے کہ کس کے اندر کتنی مغرب پرستی، جدیدیت اور مذہب بیزاری کا عنصر نمایاںہے۔
شادی کے پہلے دن سے ہی بیگم صاحبہ کے ساتھ جو عہد و پیمان ہوتے ہیں وہ یہی جدیدیت کی بنیاد پر بنے ہوئے ہوتے ہیں، یہ کوئی ڈرافٹ نہیںلیکن دیکھنے والی نظر پھانپ لیتی ہے کہ یہ گاڑی کس رخ سفر کرنے والی ہے، جب تک ماںباپ کے ساتھ تھے، تب تک، نماز اور روزہ، اور قران کی تلاوت کے ساتھ اجتماعات اور مذہبی سرگرمیوںمیںحصہ لینے والے صاحب اچانک ان محفلوںمیںکم نظر آنے لگتے ہیں، اور پھر یہ ابتدا، آہستہ آہستہ مسجدوںکی طرف رغبت کے بجائے مارکٹس اور پارکس اور تفریحگاہوںکی جانب رغبت بھی ایک طرح سے جدیدیت کا رجحان ظاہر کرتے ہیں۔
پھر جیسے جیسے دن گذرتے چلے جاتے ہیں، جدید اذہان کی ایک کے بعد ایک، نت نئے انداز اختیار کرلئے جاتے ہیںاور ایک دفعہ جب یہ دروازہ کھلتا ہے، تب اسکی پھر کوئی انتہا نہیں، نماز وں بے رغبتی سے شروع ہوا یہ سفر، گھر میں ٹی پر میوزک، اور ڈریس کوڈز میںمغربیت، بچوں کے عریاںلباس، اور پارٹیز میں آہستہ آہستہ مغربیت جھلکنے لگتی ہے۔۔اور پھر یہ سفر جدیدیت رواںدواںرہتا ہے۔
حدود اللہ کی پاسداری ہو تب ، ماڈرن اپروچ اور تھوڑا بہت لبرل ذہن حد میں رہ سکتا ہے، لیکن جب حدود اللہ کا کچھ پاس ہی نہ ہو تو مذہب بیزاری سے شروع ہو کر سیکولر انداز جہاںبس روایتی دینداری، اور جہاںحلال و حرام کا چیپٹر آپشنل، اور جہاںحجاب وغیرہ کا معاملہ اللہ اللہ خیر صلہ تب پھر کوئی ایسی طاقت نہیں جو کہ بندے کو اپنی چھوٹی سی فیملی جو کہ مغرب کے طوفان میں بہی جانے کے لئے بے تا ہوتی ہے، روک سکے۔۔۔اور توفیق تو اسے ہیںملتی ہے، جہاں طلب ہو، جہاںطلب ہی شیطانی اور ایسے سوکالڈ جدیدیت کے ٹولز ہوںجو کہ ایجاد ہی شیطان کی ہو تب کیسے کسی کو توفیق ملے۔۔۔!
انسان چاہے کتنا بھی بگڑ ا ہوا ہو، اللہ تعالی اسے موقعے دیتا ہے کہ سدھر جائے، اگر نوجوانی کی ابتدا میںخوف خدا اور تقوٰی وپرہیزگار کی روش مشکل ہے۔۔۔تب شادی اور شادی کے بعد کی ذمہ داریاں، بچے اور پھر چھوٹی سی فیملی کی ہیڈ ہونے کے ناطے سے ذمہ دار بننے کے وقت بھی کم از کم اپنی فیملی اور بچوںکے لئے اسلامی رجحانات پیدا کرلینا ناممکن نہیںتب فرد کا خود کا بھی اور اپنی فیملی اورایک جنریشن کا بھلا ممکن ہے، اگر اللہ سے اسکی رحمت کی طلب کے ساتھ بدلیں تب۔۔ورنہ۔۔۔تو یہ جدیدیت کا سیلا، فرد کے ساتھ فیملی اور پھر جنریشن کو ایک ایسی اتاہ پستیوںکی گہرائیوںمیںڈھکیل دیتا ہے۔۔جہاںسے پھر ہدایت کی طرف پلٹنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔۔۔
جدید رجحانات نے سب سے پہلے خاندان کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا، اور جہاںاپنائیت، خلوص محبت آپ کا میل ملاپ بنیاد تھی، وہاں ، اسٹیٹس ، خود غرضیاں ااور لیولز نے لے لی۔۔۔خاندانوں کا شیرازہ بکھرنا، بھی ای جدید رجحان ہی ہے، جہاںفرد، اسکی وائف، اور پھر جنریشن۔ ۔۔یہی ایک گھر کے لوگ قرار پائے اور پھر فائدے اور نقصانات، اور پھر میل جول بھی اسی فیملی کے اندر تک ہی محدود ہوکر رہ گئے،ورنہ تھوڑا سے پیچھے پلٹیںتب نانا نانی، دادادادی سے تعبیر بذرگوںکے ساتھ۔۔۔اور انکے سرپرستی میںپلنے والی جنریشنز کتنا ایکدوسرے سے محبت اور میل جول والی گروتھ پاتی تھیں۔۔آج اسکا جنازہ نکل رہا ہے۔۔۔اور مختصر پیکٹس جیسے فیملیز کا رجحان ہے، 5 وہ بھائی جنکے ایک ہی ماںاور باپ ہیں۔۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ۔۔۔ڈاکٹر، انجینیر، ڈرایئور، مزدر اور ٹیلر کے زمروں میںبٹنے کے بعد تعلقات انکی معاشی حیثیت کے تابعدار ہوکر رہے گئے ہیں۔ ایک ہی ماںکو جنے گئے یہ دو بچے ایک مزدور بنا اور دوسرا ڈاکٹر اور انکے فیملیز اور وہ خود بعد میں ایکدوسرے کے قریب آنے کے ر وادار نہیںکیونکہ سوسائیٹی میںیہ۔۔۔چہرہ دکھانے کے قابل نہیںرہینگے کہ۔۔۔مزدور کے بھائی ہو۔۔۔یہ نئے رجحانات ہیں۔۔۔۔یہی رجحانات کی پیداوار مغربی سوچ نے بعد میںماںاور باپ کو بھی پولیس اسٹیشنز اور حوالات کی سیر کرائی ہے۔۔۔اگر ہمنئے اور جدید رجحانات کو قبول کرنے کے عادی بن جائیںتب ہم بھی بہت جلد اس سوکالڈ جدیدیت کی غلاظت سے متاثر ہوئے بنا نہیںرہ پاسکتے۔۔اسلئے ہمیںویلیوز کو ہمیشہ ریڈ کرنا چاہئے ورنہ کوا ہنس کے چال چلے تب کیا حال ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔!!!؟؟؟
ایک پراکٹیکل مثال کے ذریعہ ہم مزید کچھ جاننے کی کوشش کرینگے، اگر میں اپنے گھر کی مثال لوں تب آج بھی ہمارے گھر کے لیڈیز کے کپڑوںکی شاپنگ بھی ہمارے والد محترم ہی کرتے ہیں۔۔مثلا۔۔۔1۔ہمارے والد کے ایک دوست کی کپٹروںکی دکان ہے۔۔وہاں سے بہت سارے کپڑے والد صاحب اٹھالاتے ہیںکہ بھائی ان میں سے ، لڑکیوں اور امی کے لئے کپڑے سلیکٹ کرلو۔۔۔اور اسی طرح سے فنکشنز وغیرہ کے لئے بھی کچھ زیادہ کپڑے ورائیٹی لیکر آجاتے کے بھائی ان میں جو جو چاہئے۔۔رکھ کر باقی واپس کردو۔۔۔!2۔ روز مرہ کے سامان کے لئے شاید ہی کبھی ہمارے گھر کے خواتین نے مارکٹس کے رخ کئے ہوں۔۔۔3۔ لیڈیز بھی ہوٹلنگ کرتے ہیں۔۔یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔۔اور سفر وغیرہ میںجب ٹرین میں، کچھ خریدا ہوا خرید کر کھاتے ہیں تب ہماری خواتین۔۔عجیب محسوس کرکے تھوڑا بہت کھا پی لیتی یہں۔۔۔4۔پارکس وغیرہ میںپبلک گیدرنگ۔۔۔یہ آج بھی ہمارے لئے کبھی مہمانوںکے ہمراہ، انکو گھمانے پھرانے سے ہٹکر ویک اینڈز پر کبھی گھر کے سب لوگ پارکس یا تفریحکے لئے جاتے ہیں۔۔۔یہ کسی عجوبہ سے کم نہیں۔۔۔لیکن ۔۔۔۔۔آج کل رجحانات تو عجیب و غریب ہیں۔۔
مارکٹس لیڈیز سے تعبیر۔
ہوٹلس میںفیملی گیدرنگز۔
فیملی پارکس۔
تفریح گاہیں۔۔۔
یہ تمام کے تمام جدیدیت کا مظہر ہی لگتے ہیں۔ہی الگ بات ہے کہ۔۔۔ان تمام میںاعتدال کی راہ ہے، ضرورت پر حجاب کرکے خواتین بھی تفریحفرماسکتی ہیں، ہوٹلس میںضرورتا بیٹھنا ناجائیز نہیںاگر وہاںبا حجاب سسٹم ہو، شاپنگ بھی خواتین کرسکتی ہیں، مارکٹس میں بھی خواتین کا آنا جانا کوئی ممنوع نہیں۔۔لیکن رجحات کسقدر عجیب ہوچلے ہیں کہ۔۔۔۔بعد میںیہی رجحانات اعتدال کی راہ کو پھلانگنے کی دعوت دیتے ہیں
عورت کے جو حقوق ہیںوہ ایک اسلامی ذہن کے ہونے کے ماں، بیوی، بیٹی بہن اور بہت سی شکلوںمیںاسلام نے کسقدر احترام دیا ہے۔۔یہ اظہر من الشمس ہے۔
لیکن جدید ذہن کے تحت۔۔مرد حضرات اپنے اس پوزیشن کو بھول جاتے ہیں۔۔جہاںانہیں ایک ذمہ دارانہ رول پلے کرنا ہوتا ہے۔۔۔اسکے بجائے۔۔۔کہا کچھ جاتا ہے۔۔لیکن کنٹرول عام طور پر خواتین کے ہاتھوںمیںدینا پسند کرتے ہیں۔۔۔محبت اور احترام اور ایکدوسرے سے کورآڈینیشن کے تحت بہت سی چیزوںمیںعورتوںکو اپنے معاون بنانا وہ تو فطری بھی اور ضرورت کے تحت بھی ہوتا ہے۔۔لیکن میں جس جدید ذہن کی طرف اشارہ کر کرہا ں ، سوسائیٹی ایسے ذمہ دار افراد کی تلاش میںہے۔۔۔جہاں واقعی ایسے مرد حضرات کی ڈیمانڈ کرتی ہے۔۔جو کہ واقعی ہیڈ آف دی فیملی ہو۔۔۔آجکل ہیڈ آف دی فیملی بعضجگہوںپر عورتیںہوتیںہیں۔۔۔۔۔! بہر حال بیٹوین دی لائینز باتیںہے۔۔۔!! اللہ ہم سبکو ہدایت دے۔۔آمین
ایک اور عجیب و غریب جدیدیت کا فتنہ ہے، جس میںہر وہ ذہن جو کہ مغرب کا پیروکار ہے، مبتلا ہے، مثال کے طور پر علمائے دین کو تعلیم یافتہ افراد ناکارہ سمجھتے ہیں، داڑھی رکھنے والے مذہبی رجحانات رکھنے والوںکو بیوقوف سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور تو اور کسی بھی تحریک، جماعت، یا گروپ سے منسلک افراد کو سوکالڈ تعلیم یافتہ، اور جدیدیت کے حامی افراد مشورہ دیتے نظر آتے ہیںکہ بھائی۔۔۔اپنی فیملی کی جانب بھی نگاہ کرو، یہ اللہ اللہ کرنے سے دنیا تھوڑے نا ملنے والی ہے، کچھ اپنے بچوںکے مستبقل کے بارے میں سوچو، کچھ اپنے فیملی کے مستقبل کی فکر کرو، یہ کام کرنے لگوگے تو فیملی متاثر ہوکر رہ جائیگی۔۔یہ کچھ کچھ، سرمایادارانہ نظام کے حامی افراد کی سوچ بھی ہوتی ہے، لیکن جو کچھ ہے۔۔۔یہ ایسا رجحان ہے، جو کہ ماضی میں آج سے بہت کم پایا جاتا تھا۔۔۔لیکن آج خاص طور پر جب سے دنیا گلوبل ویلیج بنی ہے۔۔۔۔ولیوز اختیار کرنے والوںکو دنیا کا بیوقوف ترین فرد تصور کیا جارہا ہے۔۔۔! اگر کوئی جاہل ترین فرد ماسٹرز، یا آئی ٹی یا کسی بھی شعبہ میںپروفیشنل ہو اسکو سماج کے ہر شعبہ میں عزت کی جانے لگی ہے۔۔۔کو اوہ ہ ہ یہ تو تعلیم یافتہ ہے۔۔وہیںحافظ قران، عالم دین، اور دین کا علم رکھنے والا وہ فرد جو کہ عصری تعلیم سے نا آشنا ہے۔۔اسکو جاہل مطلق سمجھا جاتا ہے۔۔۔۔(ا س سے بالکل بھی قطع نظر کے عصری تعلیم خود ۔۔اللہ تعالی کی سرزمین میںہونیوالی ریسرچ کا ہی حصہ ہے، اور یہ کوئی غیر اسلامی معاملہ نہیں) لیکن ایک ایسی تعلیم جسکا حاصل کرنا آجکل صرف معاش سے جڑا ہو، اسکو دینی تعلیم سے کمپیر کرکے۔۔دینی تعلیم کو بالکل ہی کمتر قراردینےعملی مظاہر ہ کوئی اور نہیںہمارے ہی بھائی بند کرتے ہیں۔۔اللہ ہمیں ایسے عناصر کو پہچاننے کی صلاحیت بچشے۔۔اور ہمارے باشعور طبقہ کو توفیق دیے کہ وہ ایسے فتنوںکے سدد باب کے لئے بھی کوشش کرے، کیونکہ سوسائیٹی میںخیر کے کام کرنے والے تو خیر کے کاموںکی کوشش کرتے چلے جاتے ہیں،لیکن فتنوںمیںمبتلا عناصر کے فتنے خود فتنوں کی ایک خاموش تبلیغ ہوتی ہے۔۔۔اور پھر یہ تو دنیا ہے۔۔۔جہاںرغبت ایسے چیزوںمیںہی رکھی گئی ہے۔۔!
نیوڈیٹی جدید یت کا ایک ایسا فتنہ ہے، جو کہ زمانہ قدیم کے عریانیت کو جامہ پہنانے کی ایک ناکام کوشش ہے، اور اس میں خا ص طور پر خواتین کو نشانہ پر رکھا گیا ہے۔۔لیکن اس میںخاص طور پر نیو جنریشن مبتلا ہے اور یہ ایک ایس فتنہ ہے جہاں اخلاقیات کی دھجیاںبکھیر دی جاتی ہیں۔
سب سے پہلے تو مسلم حضرات نے چہرے کے پردے پر ایسے ایسے انداز سے دلائل پیش کرنے شروع کئے کہ ایسی کوئی دلیل واضح نہیںہے کہ جہاںچہرے کا پردہ کیا جائے سے شروع ہوا یہ فتنہ ۔۔۔آہستہ آہستہ ، لڑکیوں اور لڑکوںکو پھٹے پرانے اور شیڈڈ بد نما کپڑوںمیںلپیٹا گیا، اور اسکو فیشن کا نام دے دیا گیا، جینز سے لیکر جدید تراش خراش کے سارے لباس ہمارے معصوم بچوں کے مقد س بدن ڈھانکے میںناکام جب رہتے ہیںتب کیسے انکے اندر اخلاقیات کے مکمل معیار کی تشکیل بھلا ممکن ہے۔۔۔اور ایسا ہی ہورہا ہے۔۔۔نت نئے قسم کے لباس جس کے پہننے سے ہی لگتا کہ کپڑے ستر پوشی کے لئے نہیںبلکہ فیشن کے لئے پہنے جارہے ہیں، اور پھر اس فیشن کے اندر جھانکیں تب عریانیت کے سوا کچھ نہ ملے گا۔۔عجیب عجیب تراش خراش کے جدید لباس کو اپنا نا گویا ہمارے لئے ایک اعزاز سا بن گیا ہے۔۔۔کیا خواتین اور کیا مرد اور کیا معصوم بچے۔۔سب ہی ان پھٹےہوئے عجیب و غریب کپٹروںکے دلدادہ ہیں۔۔۔!ایسے ایسے عجیب و غریب قسم کے کپٹروں سے بنے لباس جس کے پہننے پر بدن مزید عریاںہوجائے۔۔۔اور پھر یہ سب ملا تفریق مذہب ہم بھی اختیار کرتے چلے جاتے ہیں۔۔یہ بہت ہی مہذب جامہ میںپہنا ہوا، اخلاقیات کی دھجیاںاڑانے والا نہایت ہی معروف فتنہ ہے۔۔ہمیںاس حوالے سے مزید معلومات "ڈریس کوڈ" کے موضوع میں مل سکتی ہیںکہ "مسلمان شخص" بچے ہوںیا خواتین ہو ںیا مرد انکے لباس کیسے ہوںکہ وہ شائستہ نظر آئیں۔۔ورنہ یہ جدید تراش خراش سے تو ہم کہیں سے بھی ہماری شناخت محسوس کرسکتے ہیں۔۔۔!!!
کیریر ازم بھی ایک فتنہ ہے، حیران نہ ہوںکہ یہ کیسے جدیدیت کے فتنہ میں شامل ہوگیا۔۔ہاںاصل میںتعلیم حاصل کی جاتی تھی۔۔علم کے حصول کے لئے کیونکہ علم سے ہی تعلیم کا ورڈ نکلا ہے۔۔لیکن آج دیکھیںکہ تعلیمی درسگاہیںکیسے اخلاقیات کی دھجیاںاڑاتی ہیں، اور کیسے تعلیمی میدان کرپٹ اور کمرشیل ہوگیا ہے، اور کیسے یہ تعلیم حاسل کرنے بعد ہی انسان ایک معاشی حیوان بن رہا ہے، دوسرے ورڈز میںآج کی تعلیم تو صرف معاش سے یہ جڑی ہوئی ہوگئی ہے۔۔۔یعنی تعلیم حاصل کرنا ایک زما نہ میں ایک اعزاز کی بات تھی، یہ الگ بات تھی کہ کچھ اس تعلیم کے زریعہ ذریعہ معاش بھی تلاش لیتے تھے۔۔لیکن آج کی سو کالڈ تعلیم اور تعلیمی معیارات ، درسگاہیں، اور نصاب یہ سب کہیںسے بھی اخلاق کے درس دیتے نظر نہیںآتے اور یہاںسے فارغ التحصیل کہیںسے بھی نہ کوئی انسان بننے کے لئے بے چین نظر آتے ہیں اور نہ یہ تعلیم سوسائیٹی کو کوئی اچھے انسان فراہم کرتے ہیں۔۔ہاںسوسائیٹی کے معاشی میدان میںچند معاشی حیوان ضرور پیدا کرتی ہے۔۔درسگاہوںکا ماحول، اور اس سے ملنے والے ریٹرنز بے حیائی اور چند روپوںکے پیسوں، ریالوں، پونڈز اور ڈالرز تک ہی تو م حدود ہوکر رہ گئے ہیں۔۔۔اور اگر یہ محدودودیت کے دائرے میںان مقاصد کے لئے حاصل کی گئی تعلیم ہو تب یہ بھی ایک دور جدید کا یک ایسا فتنہ ہے، جس کے ذریعہ صرف حیثیت اور اسٹیٹس کو بلند کرنے ہی کی خاطر تعلیم حاصل کی جاتی ہے۔۔ورنہ "تعلیم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرضہے" جیسے اہم بات کو ہم اتنے محدود مقاصد کے لئے محدود نہ کردیتے ، بلکہ اس کے ذریعہ ایک زبردست سوسائیٹی اور سماج کی تعمیر ہوتی۔۔۔
مسلمانوں اور نان مسلمز تمام لوگومیںمشترک ایک نئے سوچ کے حامل ازم کا نام ہے، لبرل ازم ، حالانکہ یہ کوئی نیا فتنہ نہیںہے، لیکن اگر مثالوںکے ذریعہ دیکھیںتب یہ فتنہ کسقدر آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے ، ملاحظہ ہو۔۔۔!
مثال 1۔میرے ایک بہت ہی مخلص ساتھی ہیں، کولیگ ہیں، برصغیر سے تعلق ہے، انکے "معاملات متقی اور پرہیزگار ہیں" نمازی ہیں ، حقوق کی ادائیگی وغیرہ میں بالکل ہی پرفیکٹ نظر آتے ہیں ، کسی بھی معاملے میںکسی کی خدمت میںپیش رہتے ہیں، سنجیدہ اور متین آدمی ہیں۔۔۔دوسرے معنوں ایک اچھے انسان ہیں۔
مثال2۔میرے ایک نان مسلم شناسا ہیں، بہت ہی ملنسار، مذہبی معاملات میں یہ جتنا پکے ہیںوہ بھی اپنی پوجا پاٹ، میں پرفیکٹ ہیں ، دان وغیرہ کرنے وغیرہ کے معاملوںمیںوہ بھی کم نہیں، سنجیدہ اور ریسپیکٹفل انسان ہیں۔
اوپر کی دونوں مثالوںکے افراد میں جو چیز مشترک ہے، دونوںبھی اپنی سوچ میںچند مذہبی چیزوںکو چھوڑ کر مکمل آزاد خیال ہیں ، نہ وہ نان مسلم شخص بھی اپنے طور پر جسطرح آزاد خیال اورآزاد فکر ہے، اسی طرح سے یہ میرے معزز مسلم ساتھی بھی انتہائی آزاد فکر و خیال ہیں، انہیںمخلوط ماحول پسند ہیںاپنی فیملی کے لئے بھی مخلوط ماحول کو غلط نہیں سمجھتے، ماڈرن سوچ کے جتنے مظاہر ہیں، سب میںبالکل ہی آزادی سے سوچتے ہیں، حالانکہ ایک طرف تو وہ نہایت ہی ستھرے کیرکٹر کے ہیں، یعنی معاملات ، نماز، اور خدمت خلق میں پیش پیش، لیکن وہیںکئی ایسے حدود اللہ، جو کہ انتہائی نازک ہیںمیںموصوف بالکل ہی خود مختار نظر آتے ہیں، مختصر یہ کہ ایک حق اور ایک باطل دونوںمذاہب کے ماننے والوںکے افراد میں لبرل سوچ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
عام طور پر ایک طبقہ ہوتا ہے جسکو دہریت اور کمیونسٹ مائنڈڈ کہا جاتا ہے، جہاںمذہب بیزاری اور خدا کے وجود کے متعلق (نعوذ باللہ) بھی خدشات ہوتے ہیں لیکن یہ جو لبرل طبقہ ہوتا ہے، یہ ایک ایسا درمیانی طبقہ ہے جو کہ صرف برصغیر ہی مٰیںنہیںبلکہ سارے عالم میںیہ فتنہ بے ہی کر و فر کے ساتھ موجود ہے۔
ہم یہاںسعودی عرب میںدیکھتے ہیںجہاںپر تمام عرب ممالک کے لوگ بکثرت موجود ہیں، یہ مسلمان بھی اسی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، جب انکے ذاتی معاملے دیکھیںتب وہ نہایت ہی ستھرے نظر آئین، سود و زیاں سے دور، نماز اور عبادات میںپرفیکٹشن کے قریب، وہیںفیملی اور سیلف کے لئے لبرل سوچ کے ہم عبادات سے ہٹکر عام انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بالکل ہی آزد ہیں۔۔۔۔۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ طبقہ اجتماعیت کو بالکل ہی فضول سمجھتا ہے، کہتے ہیں، اپنی جگہ پر رہکر عبادات اور خود کو صاف ستھرا رکھ لینا یہ مقصود و مطلوب ہے۔۔۔وغیرہ۔۔۔بہرحال یہ سوچ کے حامل لوگوںکی اکثریت ہے، حالانکہ ایسے مسلمان حضرات کچھ تو عقیدے کے معاملے میںصاف ستھرے بھی ہیں،لیکن ایسی انفرادی اور فیملی اور سوسائیٹی کی زندگی چاہتے ہیںجو کہ ہر باونڈری سے آزاد ہو۔۔۔۔!!!جبکہ ایک سچے اور پکے مسلمان کی باونڈریز کبھی بھی "اطیع اللہ واطیع الرسول والالوالامر منکم" سے کبھی بھی آزاد نہیںہوسکتی یا پھر مشروط بھی نہیںرہ سکتی۔
(نوٹ : پلیز غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، یہ تحریر ہرگذ بھی کسی نان مسلم اور مسلمان کا کمپیریزن نہیںہے)
حالیہ دور کی جدید ترقیوں نے دنیا کو سمیٹ دیا، اور دینا گلوبل ویلیج بنکر رہگئ، جدید ترین آلات، میڈیا کمیونیکیشن، فیشن اور تعلیم و فن میں اس قدر ترقی ہوئی ہے، کہ آج سے 50 سال پہلے شائد لوگوںنے سوچا بھی نہ تھا ہوگا، موبائیل، ویب، نیٹ، ٹی وی، موسیقی کے نت نئے آلات، نت نئے ٹرانسپورٹیشن کے ذریعہ، فیشن، درسگاہیں، اور پروفیشنل کورسس۔۔۔وغیرہ۔۔یہ تمام کے ذریعہ یقینا انسانیت کو بہت سے فائدے ہوئے، لیکن اسکے مضریات کے طور پر بہت سے فتنے نمودار ہوگئے۔
موبائیل فون حالنکہ رشتوںکو استوار رکھنے میں مددگار و معاون ثابت ہوا وہیں، اور تجارت میں اس کے فوائد ان گنت ہیں، لیکن وہیں اسکے نقصات کے طور پر سوسائیٹی میںغیر اسلامی رجحانات کی ترسیل میں بھی کافی مدد ہوئی جو کہ فتنہ ثابت ہوا۔
نیت اور ویب کی سہولت ایک بہت ہی زبردست ایجاد رہی، جس کے ذریعہ لوگ ایکدوسرے کے قریب آگئے، تجارت میں سہولت ہوئی، اور بین الاقوامی معاملات، اور رشتے سیکنڈس میں طئے پانے لگے ، لیکن نیوڈیٹی کو عام کرنے کے لئے ویب ورلڈ جتنا بڑا فتنہ شائد ہی کبھی وجود میں آیا ہو۔
میڈیا کے ذریعہ خبروںکی ترسیل لمحوںمیں لاکھوںمیل دور تک پہنچائی جانے لگی، وہیں اسکے ذریعہ غیر ضروری طور پر غلط خبروںکی آماجگاہ بھی یہی میڈیا بن گیا۔
تعلیم ، درسگاہیں، اور پروفیشنل و فنی کورسس معاش میں مدد گار و معاون ثابہت ہوئیں، وہیںاس کے کے رجحانات صحیحنہ ہونے کی وجہ سے حضرت انسانی ایک معاشی درندہ بنکر رہ گیا (کنڈیشنل)۔
جدید دور کے بہت سے آلات جہاں انسان کے لئے سہولت فراہم کرتے ہیں وہیں اسکے نقصانات دور رس ہیں۔
ان تمام کی روشنی میںیہ کہا جاسکتا ہے کہ اعتدال کی روش مندرجہ بالا تمام ٹولز کو اسلامائیز کرسکتی تھی اور کرسکتی ہے۔۔لیکن اس میں اگر کوئی حد نہ ہو تو اس کے ذریعہ انسان سماجی درندہ اور معاشی حیوان بن کر رہ جائے گا، جو کہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی سراسر نفی
اللہ میں علم و فہم کے ساتھ ساتھ شعور اور درد دل بھی عطا کرے، تقویٰکی روش پر بنے رہنے کی توفیق دے۔۔۔۔آمین، ہمیںہر فتنے سے محفوظ رکھے۔۔اور ہدایت کے ماخذ قران و سنہ سے ہمارا رشتہ مضبوط سے مظبوط تر بنادے۔۔ہمارے اندار دین حنیف کی ایسی محبت پیدا کرے کہ ہم خود کو بھی اور امت مسلمہ کو جدیدیت کے فتنوں سے بچانے کی کوشش کرے۔۔۔آمین ثم آمین