عرفان سعید
محفلین
دورِ جدید کی زندگی
جب میں اپنے ارد گرد نگاہ ڈالتا ہوں، مجھے فنِ تعمیر کی شاہکار آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں دکھا ئی دیتی ہیں، لیکن شخصیت اور مزاج کی قد آوری مفقود نظر آتی ہے۔ بے شمار منازل کی طرف جانے والی شاہراہیں وسعت و کشادگی میں اپنی مثال آپ ہیں، لیکن خیالات و نظریات ضیق و تنگی کا شکار ہیں۔ ہمارے ہوش رُبا اخراجات ہماری قوتِ خرید کی خوش فہم ترجمانی پر مجبور کر دیتے ہیں، لیکن جیبیں در حقیقت خالی اور زندگی حقیقی خوشیوں سے عاری ہے۔ انتہائی مختصر کنبے کے لیے ضرورت سے کئی گنا بڑے گھر اوردنیا جہاں کی آسائشیں موجود ہیں، لیکن وقت کی کمی ان کے استعمال کی نوبت ہی کب آنے دیتی ہے؟ نو عمری کی دہائیاں اعلیٰ تعلیم کی خاطر گزارنے والے اذہان عقلِ سلیم سے عاری ہیں، دورِ جدید کی برق رفتار مواصلات نے معلومات کے انباروں کو ہمارے قدموں میں ڈال دیا ہے، لیکن ہماری عقلوں سے صادر ہونے والے درست فیصلے شاذ شاذ ہیں۔ جامعات اور درس گاہیں ماہرینِ علوم و فنون کا ایک جمِ غفیر معاشرے کو مسلسل مہیا کر رہے ہیں، لیکن انسانیت کے مسائل جوں کے توں اپنی جگہ سے ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ علومِ طب کے علمی سحر نے ادویات کے ذخیرے میں نہایت ضخیم اضافے کر ڈالے ہیں، لیکن نت نئی بیماریاں انسانوں کو ہمہ وقت بے چین و مضطرب رکھے ہوئے ہیں۔
ہم انواع و اقسام کے کھانوں اور مشروبات سےپیٹ کی آگ بجھاتے، سگرٹ نوشی کرتے، بے دریغ خرچ کرتے، بہت کم ہنستے، تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے، بہت جلد غصے میں آ جاتے، راتوں کو دیر تک جاگتے، تھکن سے چُور بستر سے بیدار ہوتے، مطالعے پر انتہائی کم وقت خرچ کرتے، اپنے وقت کی متاع کا کثیر حصہ ٹی وی کی نذر کرتے ، اپنے دست ہائے مشغول کو دعا کے لیے شاذ و نادر اٹھاتے، اور اپنے لبوں کو خدا کے حضور التجا و استدعا کے لیے کم ہی جنبش دیتے ہیں۔ہم نے اپنی جائیداد و املاک میں کئی گنا اضافہ کر لیا مگر ہماری اخلاقی اقدار مسلسل گراوٹ اور زوال کا شکار ہیں۔ ہمارےشیریں لب و لہجے اور گفتار شہد کی سی مٹھاس لیے ہوئے ، درحقیقت کتنے کھو کھلے ہیں؟ کیوں کہ ہمارے کردار پیار و محبت سے عاری اور تعصب و نفرت سے پُر ہیں۔
معاشِ زندگی کے نت نئے طریقے تو ہم نے سیکھ لیے ہیں لیکن زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط سے ابھی بھی ناآشنا ہیں۔ ہم نے گزرتے لمحوں سے اپنی زندگی کو بھر دیا ہے، مگر ہر گزرتا لمحہ زندگی کے وجود سے خالی ہے۔ کشش ثقل کے حصاروں کو توڑتے ہوئے ہم نے گردِ ماہِ کامل کو اپنے قدموں کی دُھول بنا دیا، مگر گلی کے پار بسنے والے ہمسائے سے دعا و سلام کے تصور سے ہی ہمارے قدم ڈگمگاتے اور آبلہ پا ہوئے جاتے ہیں۔ کرہ ارض کی فضاؤں اور اس کے باہر خلاؤں میں ہمارے ذوقِ تسخیرِ کائنات کے پھریرے لہلہا رہے ہیں، لیکن ہماری ڑوح اندر سے خالی، اضطراب سے مضمحل اور شکست و ریخت کا شکار ہے۔ انسانوں نے غیر معمولی اور بڑے بڑے کام کر دکھائے ہیں، مگر حقیقی عظمت اور گراں قدری ان اقدامات میں خال خال ہے۔
مسجودِ ملائک نے ماحولیاتی آلودگی کے عفریت سے نبرد آزما ہونے کے لیے اہلِ جہاں کو ہر طرح کے قوانین و ضوابط کا پابند کر دیا ہے، لیکن قلب و روح سے اٹھنے والے تعفن زدہ تھپیڑے اس کی طبیعت پر ذرا شاق نہیں گزرتے۔ سائنس کی محیر العقول ایجادات نےچشمِ آدم کو ذرات کے عالمِ صغریٰ کے نظارے کروا دیے ہیں، پھر بھی اسکی "چشمِ بینا" اسکے اپنے تعصبات و جانبداری کو دیکھنے سے قاصر ہے۔ ہر شعبۂ زندگی میں تجویز کردہ عظیم الشان منصوبے اور ان کی خاکہ سازی اور نقشہ پیمائی پر صرف ہونے والی طویل المدت کاوشوں کے باوجود، کامیابی کا تناسب انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔عجلت و جلد بازی ہماری عادتِ ثانیہ بن گئی ہے، جب کہ صبر و تحمل زندگیوں سے رخصت ہو چکا ہے۔ کمپیوٹر کا ہمارے روز مرہ کا جزوِ لازم بن جانے کے بعد، اخبارات و معلومات کا کوہ ہمالیہ ہمارے قدموں کے نیچے کھڑا ہے، لیکن باہمی تعلق و رابطے کی دیواروں میں دڑاڑیں پڑ چکی ہیں۔
آجکل کی قلتِ وقت سے بھرپورتیز رفتاراور ہنگامہ خیز زندگی سے چند لمحے ضرور چھین لیجیے، ان لمحوں کو اپنے پیاروں کے ساتھ گزارنے میں ضرور خرچ کریں، کیونکہ نہیں معلوم آنے والا کل ہمیں ان سے دور بہت دور کردے۔جو نظریں آپ کی مرعوبیت کی وجہ سے آج جھکی ہوئی ہیں، ان نگاہوں کی لاج رکھیے، اپنی برتری کے باوجود اپنے الفاظ اور لہجے میں اپنائیت و ہمدردی کی ندیاں انڈیل دیجیے، نہیں معلوم کاتبِ تقدیر نے مستقبل میں اس شخص کے لیے آپ پر فوقیت لکھ رکھی ہو۔ جو لوگ آپ کی عزت کرتے ہیں، آپ کی خاطر بجا لاتے ہیں، آپ پر اپنی جان نچھاور کرتے ہیں، ان کے لیے وقت نکالنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری سے فروگذاشت کی قیمت بہت مہنگی ہے۔اپنی شخصیت کے درخشاں جواہر کو، اپنی روح کے بیش قیمت اور حسین نغموں کو، اپنی نادر و نایاب سوچوں اور خیالات کو دنیا تک پہنچانے کے لیے، ان ہیرے اور موتیوں کی برق ریزی میں اپنے بھائی، بہنوں اور بچوں کو شریک کرنے کے لیے لازما وقت صرف کریں۔
آپ کی زندگی کا ہر گزرنے والا دن ایک خالی ورق کی مانند ہے۔ آئیے ان خالی اوراق پراپنے مثبت فکر و عمل کے قلم سے حسین و جمیل نقش و نگار بناتے ہوئے، اپنی بے نظیر کتابِ حیات تصنیف کریں۔
(عرفان)