محمد علم اللہ
محفلین
نئی دہلی، ۶؍نومبر۲۰۱۳: آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے ایک اعلی سطحی وفد نےگزشتہ کل بروزمنگل ۵؍نومبر کو مظفرنگر اور شاملی اضلاع میں متعدد پناہگزیں کیمپوں کا دورہ کیا جن میں کاندھلہ، شاہ پور اوس سنیٹھی کے متعدد کیمپشامل ہیں۔ وفد نے وہاںموجودہ صورت حال کا جائزہ لیا۔ وفد صدر مشاورتڈاکٹرظفرالاسلام خان اور مشاورت کے رکن رکین مولانا عطاء الرحمٰن قاسمی پرمشتمل تھا اور ان کے ساتھ دو صحافی محمد علم اللہ اصلاحی ،ندیم احمد اور ایک سوشل ورکر بھی تھے۔ مغربی یوپی کے اس علاقہ کے اضلاع مظفرنگر، شاملی اور باغپت میں ستمبر کے فساد کے بعدمشاورت کا یہ تیسرا دورہ تھا۔ جماعت اسلامی ہند کے ایک سروے کے مطابق اس فساد میں 115لوگ مارے گئے تھے جن میں 97مسلمان ہیں۔ اس علاقہ میں مسلمانوں کے قتل اور حملوں کی وارداتیں اب بھی واقع ہو رہی ہیں۔
وفد نے کاندھلہ، کیرانہ اور شاملی کے متعدد کیمپوں کا دورہ کیا اور سمجھنےکی کوشش کی کہ پناہ گزینوں کی ضروریات کیا ہیں۔ یہ پناہ گزیں بی جے پی کےہمنوا جاٹوں کے ہاتھوں۷؍ستمبر سے ہونے والے تشدد کی وجہ سے ہندواکثریتی گاؤوں میں اپنے گھروں سے بھاگ کر ان درجنوں کیمپوں میں آ بسے ہیں۔ تقریباًایک لاکھ آدمی اپنی خواتین اور بچوں کے ساتھ درجنوں گاؤوں سے بھاگنے پرمجبور ہو ئے تھے، مثلاً پھگانہ، لساڑھ، کٹبا، کٹبی، بٹاؤڈی وغیرہ جہاں بےشمار قتل، زندہ جلانے، گھروں کو نذرِآتش کرنے، عورتوں کی عصمت دری اوربچیوں کے اغوا کے واقعات پیش آئے۔ پہلے ان گاؤوں کے مسلمان ۷؍ستمبر سےبھاگنا شروع ہوئے۔پھر جلد ہی درجنوں دوسرے گاؤوں کے لوگ خوف و دہشت کی وجہسے اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھاگے اور آس پاس کے مسلم اکثریتی گاؤوں اورجنگلات کی زمینوں پر آبسے جہاں ہزاروں ٹینٹ ان کی موجودگی کا اعلان کرتےہیں۔ صرف دہشت کی وجہ سے بھاگنے والوں میں سے کچھ لوگ اپنے گاؤوں کو واپسجا چکے ہیں، جبکہ کچھ کرایہ کے مکانات میں منتقل ہوگئے ہیں یا اپنے رشتہداروں کے یہاں مختلف گاؤوں میں رہ رہے ہیں۔
مشاورت کے وفد نے پایا کہ مقامی اور بیرونی مسلمانوں کا جذبۂ معاونت ابتقریبا ٹھنڈا پڑ چکا ہے جبکہ دسیوں ہزار بے کس و بے سہارا پناہ گزیں اب بھیدرجنوں کیمپوں میں پلاسٹک ٹینٹوں میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں حفظانِ صحتکی سہولتیں ناپید ہیں اور راشن بھی تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ اس وقت ان پناہگزینوں کو راشن کے علاوہ رضائیوں اور گدوں کی سخت ضرورت ہے تا کہ ٹھنڈک کامقابلہ کر سکیں۔ ان کے کچھ بچے قریب کے مدرسوں میں جارہے ہیں جبکہ اکثر بچےکیمپوں میں بیکار طور سے گھومتے نظر آتے ہیں کیونکہ مقامی اسکولوں نے انکو بیچ سال میں قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔
مشاورت کے وفد کے علم میں یہ بات بھی آئی کہ سرکاری امداد ان کیمپوں کوبرائے نام ہی آئی ہے۔ کبھی کبھار کچھ راشن اور دودھ کے علاوہ انھیں کچھ نہیں ملا ہے اور فی الحال یہ سلسلہ بھی بند ہو چکا ہے۔مقامی انتظامیہ نےکوشش کی کہ زبردستی ان لوگوں کو واپس ان کے گاؤوں بھیج دیا جائے مگر ان پناہ گزینوں نے واپس جانے سے پوری طرح انکار کر دیا ہے۔ اب انتظامیہ انلوگوں کو مظفرنگر، شاملی اور باغپت کے درجنوں کیمپ بند کر کے تین بڑےکیمپوں میں منتقل کرنا چاہتی ہے۔ دہلی کے مضافات لونی میں بھی اس طرح کاایک کیمپ قائم ہے۔ ان لوگوں کو یہ پلان منظور نہیں ہے اور وہ کیمپوں کے پاس ہی مستقل طور سے بسنا چاہتے ہیں۔ کچھ تنظیموں اور افراد نے زمینیں خرید کران کو بسانے کا بھی پروگرام بنا لیا ہے تاکہ پولیس، مقامی لوگ اور محکمۂجنگلات انھیں تنگ نہ کریں۔
وفد نے یہ بھی پایا کہ پانچ لاکھ روپیہ کی رقم جس کا صوبائی حکومت نے ہرخاندان کو دینے کا اعلان کیا ہے وہ درحقیقت صرف 12گاؤوں کے لوگوں کے لئے ہےجہاں تشدد، قتل اور گھروں کو جلانے کے واقعات ہوئے ہیں لیکن یہ مدد بھی مستحق لوگوں کو نہیں مل رہی ہے۔ اس مدد کا ایک قابل اعتراض پہلو یہ بھی ہےکہ ہر خاندان کے سربراہ کو ایک افیڈیویٹ پر دستخط کرنا ہوتا ہے جس میں وہاقرار کرتا ہے کہ وہ اپنے گاؤں واپس نہیں جائے گا۔ اس اقرارنامہ کا مطلب یہ ہے کہ ان کے گھر اور جائدادوں پر جلد ہی دوسروں کا قبضہ ہو جائے گا۔
وفد کے علم میں یہ بات آئی کہ مرکزی حکومت کی طرف سے ان پناہ گزینوں کوکوئی امداد نہیں دی گئی ہے حالانکہ وزیراعظم بذاتِ خود وسط ستمبر میں اسجگہ کا دورہ کر چکے ہیں۔ وفد مشاورت کے علم میں یہ بات بھی آئی کہ اگرچہمقامی مدارس اور علاقائی لوگوں نے ان پناہ گزینوں کی خبرگیری شروع میں عمدہطور سے کی تھی لیکن اب کچھ مقامی عناصر کیمپوں پر حاوی ہو کر باہر سے آنےوالی امداد پر قابض ہورہے ہیں اور اسے مارکیٹ میں فروخت کر رہے ہیں۔
مشاورت ملت سے پرزور اپیل کرتی ہے کہ ان بے کس پناہ گزینوں کی مدد جاریرکھی جائے لیکن اس کے ساتھ مخیر حضرات اور باہر کی تنظیموں کو مشاورت کامشورہ ہے کہوہبذات خود کیمپوں میں آئیں اور اپنے ہاتھ سے مستحقین کوامداد دے کر جائیں۔ کیمپوں کے باہر یا گیٹوں پر کھڑے مقامی لوگوں کو یہ مدددے کر ہرگز نہ چلے جائیں۔ فی الحال ان پناہ گزینوں کو راشن بشمول خشکدودھ، رضائیوں، گدے، واٹرپروف ٹینٹوں کی ضرورت ہے۔ مزید برآں ان کو طبیامداد کی بھی مستقلضرورت ہے۔ ڈاکٹروں کی ٹیموں کو وقتا فوقتا دواؤں کےساتھ آکر یہاں مختلف کیمپوں میں مدد پہنچانی چاہئے۔
مخیر حضرات زمین خرید کر ان پناہ گزینوں کو ہبہ کردیں تاکہ وہ پرائیویٹ اورمحکمۂ جنگلات کی زمینوں سے نکل کر اپنے چھوٹے چھوٹے گھر بنا کر اپنی زندگی کا دوبارہ آغاز کرسکیں۔ محکمۂ جنگلات نے متعدد ایف آئی آر پولیس میں درجکرائی ہے لیکن ابھی تک ان پناہ گزینوں کو زبردستی نکالنے کا کام شروع نہیںہوا ہے۔ زمینیں خرید کر ہبہ کرنے کے خواہشمند لوگ مشاورت اور چیریٹی الائنس سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔ مشاورت اور چیریٹی الائنس پناہ گزینوں کیمسلسل امداد کر رہی ہیں ۔ کل کے دورے کے دوران مشاورت نے مقامی ڈیلروں کو۳۰۰ (تین سو) رضائی اور گدّوں کے سیٹ کا آرڈر دیا ہے جو ایک ہفتہ کے بعدتقسیم کر دئے جائیں گے۔ چیریٹی الائنس کچھ زمین خرید کر ان بے کس لوگوں کوبسانے کا بھی فیصلہ کر چکی ہے۔
وفد نے کاندھلہ، کیرانہ اور شاملی کے متعدد کیمپوں کا دورہ کیا اور سمجھنےکی کوشش کی کہ پناہ گزینوں کی ضروریات کیا ہیں۔ یہ پناہ گزیں بی جے پی کےہمنوا جاٹوں کے ہاتھوں۷؍ستمبر سے ہونے والے تشدد کی وجہ سے ہندواکثریتی گاؤوں میں اپنے گھروں سے بھاگ کر ان درجنوں کیمپوں میں آ بسے ہیں۔ تقریباًایک لاکھ آدمی اپنی خواتین اور بچوں کے ساتھ درجنوں گاؤوں سے بھاگنے پرمجبور ہو ئے تھے، مثلاً پھگانہ، لساڑھ، کٹبا، کٹبی، بٹاؤڈی وغیرہ جہاں بےشمار قتل، زندہ جلانے، گھروں کو نذرِآتش کرنے، عورتوں کی عصمت دری اوربچیوں کے اغوا کے واقعات پیش آئے۔ پہلے ان گاؤوں کے مسلمان ۷؍ستمبر سےبھاگنا شروع ہوئے۔پھر جلد ہی درجنوں دوسرے گاؤوں کے لوگ خوف و دہشت کی وجہسے اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھاگے اور آس پاس کے مسلم اکثریتی گاؤوں اورجنگلات کی زمینوں پر آبسے جہاں ہزاروں ٹینٹ ان کی موجودگی کا اعلان کرتےہیں۔ صرف دہشت کی وجہ سے بھاگنے والوں میں سے کچھ لوگ اپنے گاؤوں کو واپسجا چکے ہیں، جبکہ کچھ کرایہ کے مکانات میں منتقل ہوگئے ہیں یا اپنے رشتہداروں کے یہاں مختلف گاؤوں میں رہ رہے ہیں۔
مشاورت کے وفد نے پایا کہ مقامی اور بیرونی مسلمانوں کا جذبۂ معاونت ابتقریبا ٹھنڈا پڑ چکا ہے جبکہ دسیوں ہزار بے کس و بے سہارا پناہ گزیں اب بھیدرجنوں کیمپوں میں پلاسٹک ٹینٹوں میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں حفظانِ صحتکی سہولتیں ناپید ہیں اور راشن بھی تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ اس وقت ان پناہگزینوں کو راشن کے علاوہ رضائیوں اور گدوں کی سخت ضرورت ہے تا کہ ٹھنڈک کامقابلہ کر سکیں۔ ان کے کچھ بچے قریب کے مدرسوں میں جارہے ہیں جبکہ اکثر بچےکیمپوں میں بیکار طور سے گھومتے نظر آتے ہیں کیونکہ مقامی اسکولوں نے انکو بیچ سال میں قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔
مشاورت کے وفد کے علم میں یہ بات بھی آئی کہ سرکاری امداد ان کیمپوں کوبرائے نام ہی آئی ہے۔ کبھی کبھار کچھ راشن اور دودھ کے علاوہ انھیں کچھ نہیں ملا ہے اور فی الحال یہ سلسلہ بھی بند ہو چکا ہے۔مقامی انتظامیہ نےکوشش کی کہ زبردستی ان لوگوں کو واپس ان کے گاؤوں بھیج دیا جائے مگر ان پناہ گزینوں نے واپس جانے سے پوری طرح انکار کر دیا ہے۔ اب انتظامیہ انلوگوں کو مظفرنگر، شاملی اور باغپت کے درجنوں کیمپ بند کر کے تین بڑےکیمپوں میں منتقل کرنا چاہتی ہے۔ دہلی کے مضافات لونی میں بھی اس طرح کاایک کیمپ قائم ہے۔ ان لوگوں کو یہ پلان منظور نہیں ہے اور وہ کیمپوں کے پاس ہی مستقل طور سے بسنا چاہتے ہیں۔ کچھ تنظیموں اور افراد نے زمینیں خرید کران کو بسانے کا بھی پروگرام بنا لیا ہے تاکہ پولیس، مقامی لوگ اور محکمۂجنگلات انھیں تنگ نہ کریں۔
وفد نے یہ بھی پایا کہ پانچ لاکھ روپیہ کی رقم جس کا صوبائی حکومت نے ہرخاندان کو دینے کا اعلان کیا ہے وہ درحقیقت صرف 12گاؤوں کے لوگوں کے لئے ہےجہاں تشدد، قتل اور گھروں کو جلانے کے واقعات ہوئے ہیں لیکن یہ مدد بھی مستحق لوگوں کو نہیں مل رہی ہے۔ اس مدد کا ایک قابل اعتراض پہلو یہ بھی ہےکہ ہر خاندان کے سربراہ کو ایک افیڈیویٹ پر دستخط کرنا ہوتا ہے جس میں وہاقرار کرتا ہے کہ وہ اپنے گاؤں واپس نہیں جائے گا۔ اس اقرارنامہ کا مطلب یہ ہے کہ ان کے گھر اور جائدادوں پر جلد ہی دوسروں کا قبضہ ہو جائے گا۔
وفد کے علم میں یہ بات آئی کہ مرکزی حکومت کی طرف سے ان پناہ گزینوں کوکوئی امداد نہیں دی گئی ہے حالانکہ وزیراعظم بذاتِ خود وسط ستمبر میں اسجگہ کا دورہ کر چکے ہیں۔ وفد مشاورت کے علم میں یہ بات بھی آئی کہ اگرچہمقامی مدارس اور علاقائی لوگوں نے ان پناہ گزینوں کی خبرگیری شروع میں عمدہطور سے کی تھی لیکن اب کچھ مقامی عناصر کیمپوں پر حاوی ہو کر باہر سے آنےوالی امداد پر قابض ہورہے ہیں اور اسے مارکیٹ میں فروخت کر رہے ہیں۔
مشاورت ملت سے پرزور اپیل کرتی ہے کہ ان بے کس پناہ گزینوں کی مدد جاریرکھی جائے لیکن اس کے ساتھ مخیر حضرات اور باہر کی تنظیموں کو مشاورت کامشورہ ہے کہوہبذات خود کیمپوں میں آئیں اور اپنے ہاتھ سے مستحقین کوامداد دے کر جائیں۔ کیمپوں کے باہر یا گیٹوں پر کھڑے مقامی لوگوں کو یہ مدددے کر ہرگز نہ چلے جائیں۔ فی الحال ان پناہ گزینوں کو راشن بشمول خشکدودھ، رضائیوں، گدے، واٹرپروف ٹینٹوں کی ضرورت ہے۔ مزید برآں ان کو طبیامداد کی بھی مستقلضرورت ہے۔ ڈاکٹروں کی ٹیموں کو وقتا فوقتا دواؤں کےساتھ آکر یہاں مختلف کیمپوں میں مدد پہنچانی چاہئے۔
مخیر حضرات زمین خرید کر ان پناہ گزینوں کو ہبہ کردیں تاکہ وہ پرائیویٹ اورمحکمۂ جنگلات کی زمینوں سے نکل کر اپنے چھوٹے چھوٹے گھر بنا کر اپنی زندگی کا دوبارہ آغاز کرسکیں۔ محکمۂ جنگلات نے متعدد ایف آئی آر پولیس میں درجکرائی ہے لیکن ابھی تک ان پناہ گزینوں کو زبردستی نکالنے کا کام شروع نہیںہوا ہے۔ زمینیں خرید کر ہبہ کرنے کے خواہشمند لوگ مشاورت اور چیریٹی الائنس سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔ مشاورت اور چیریٹی الائنس پناہ گزینوں کیمسلسل امداد کر رہی ہیں ۔ کل کے دورے کے دوران مشاورت نے مقامی ڈیلروں کو۳۰۰ (تین سو) رضائی اور گدّوں کے سیٹ کا آرڈر دیا ہے جو ایک ہفتہ کے بعدتقسیم کر دئے جائیں گے۔ چیریٹی الائنس کچھ زمین خرید کر ان بے کس لوگوں کوبسانے کا بھی فیصلہ کر چکی ہے۔