فیصل عظیم فیصل
محفلین
دوری ہے اور تجھ سےطبیعت اداس ہے
لگتا ہے یوں کہ اب تو میرے آس پاس ہے
روح و بدن میں ایک عجب کشمکش رہی
تو پاس ہے بھی اور نہیں ، دل اداس ہے
بیتے ہیں چند دن یہ مرے تجھ سے دور جو
بتلا کہاں یہ ماہ و برس مجھ کو راس ہے
سنتے ہیں مئے پئییں گے تجھے بھول جائیں گے
مجھ کو نہیں ہےمئے کی طلب تیری پیاس ہے
دوری ہے قید و بند و اذیت دماغ کی
تیرے سوا کوئی نہ مرا غم شناس ہے
لگتا ہے یوں کہ اب تو میرے آس پاس ہے
روح و بدن میں ایک عجب کشمکش رہی
تو پاس ہے بھی اور نہیں ، دل اداس ہے
بیتے ہیں چند دن یہ مرے تجھ سے دور جو
بتلا کہاں یہ ماہ و برس مجھ کو راس ہے
سنتے ہیں مئے پئییں گے تجھے بھول جائیں گے
مجھ کو نہیں ہےمئے کی طلب تیری پیاس ہے
دوری ہے قید و بند و اذیت دماغ کی
تیرے سوا کوئی نہ مرا غم شناس ہے