فرخ منظور
لائبریرین
دوری
پہلے تیری مُحبّتیں چُن کر
آرزو کے محل بناتے تھے
بے نیازانہ زیست کرتے تھے
صرف تجھ کو گلے لگاتے تھے
زندگی کی متاعِ سوزاں کو
تیری آواز لُوٹ جاتی تھی
تیرے ہونٹوں کی لے ابھرتے ہی
زخم کی تان ٹوٹ جاتی تھی
تو کنول تھی، ایاغ تھی، کیا تھی
روشنی کا سراغ تھی، کیا تھی
میرا دل تھی، دماغ تھی، کیا تھی
ساری دنیا چراغ تھی، کیا تھی
اور اب یا شراب پیتے ہیں
یا فلک کو دعائیں دیتے ہیں
تیرے خاوند کی معیّت میں
دور سے تجھ کو دیکھ لیتے ہیں
(مصطفیٰ زیدی)
پہلے تیری مُحبّتیں چُن کر
آرزو کے محل بناتے تھے
بے نیازانہ زیست کرتے تھے
صرف تجھ کو گلے لگاتے تھے
زندگی کی متاعِ سوزاں کو
تیری آواز لُوٹ جاتی تھی
تیرے ہونٹوں کی لے ابھرتے ہی
زخم کی تان ٹوٹ جاتی تھی
تو کنول تھی، ایاغ تھی، کیا تھی
روشنی کا سراغ تھی، کیا تھی
میرا دل تھی، دماغ تھی، کیا تھی
ساری دنیا چراغ تھی، کیا تھی
اور اب یا شراب پیتے ہیں
یا فلک کو دعائیں دیتے ہیں
تیرے خاوند کی معیّت میں
دور سے تجھ کو دیکھ لیتے ہیں
(مصطفیٰ زیدی)