عمار ابن ضیا
محفلین
اپنے گھر کے آنگن سے دور اک پہاڑی پر کچھ گھروں کی پرچھائی دیکھتا ہوں میں اکثر بالخصوص راتوں میں ان گھروں میں جب مدھم بلب ٹمٹاتے ہیں، روشنی کی خاطر جب اپنا خوں جلاتے ہیں، مجھ کو ایسا لگتا ہے دور بسنے والوں کو پاس وہ بلاتے ہیں۔
اور اُس پہاڑی سے دور شہر کے باسی اپنی اپنی محفل میں جب کبھی بھی ملتے ہیں، اپنی گفت گو میں وہ دور اُس پہاڑی پر بسنے والے لوگوں کا تذکرہ بھی کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ شاید وہ چور ہیں اچکے ہیں، یا کوئی بھگوڑے ہیں، اس لیے تو اتنی دور اور اس قدر اوپر رہ رہے ہیں وہ چھپ کر۔ شہر کے تماشائی اس لیے پہاڑی کے پاس بھی نہیں جاتے، دور سے گزرتے ہیں اور پھر بھی ڈرتے ہیں۔
دور اس پہاڑی پر رات کے اندھیرے میں چند بلب روشن ہیں اور شہر سویا ہے۔ میں سکون کا دشمن، اپنے گھر کی آنگن سے دیکھتا ہوں اس جانب اور پھر خموشی سے اپنے دل کی کھڑکی سے جھانکتا ہوں اک گھر میں، چند جسم لاغر سے سو رہے ہیں مٹی پہ۔
اب ہوئی ہے کچھ حرکت، غالباً کوئی بچہ کچی نیند سے جاگا اور ساتھ میں لیٹی ماں کو بھی جگا ڈالا، اپنی بھیگی آنکھوں سے ماں سے شکوہ کرتا ہے، ’’بھوک! بھوک!‘‘ کہتا ہے۔
۲۷ جولائی ۲۰۱۳ء
اور اُس پہاڑی سے دور شہر کے باسی اپنی اپنی محفل میں جب کبھی بھی ملتے ہیں، اپنی گفت گو میں وہ دور اُس پہاڑی پر بسنے والے لوگوں کا تذکرہ بھی کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ شاید وہ چور ہیں اچکے ہیں، یا کوئی بھگوڑے ہیں، اس لیے تو اتنی دور اور اس قدر اوپر رہ رہے ہیں وہ چھپ کر۔ شہر کے تماشائی اس لیے پہاڑی کے پاس بھی نہیں جاتے، دور سے گزرتے ہیں اور پھر بھی ڈرتے ہیں۔
دور اس پہاڑی پر رات کے اندھیرے میں چند بلب روشن ہیں اور شہر سویا ہے۔ میں سکون کا دشمن، اپنے گھر کی آنگن سے دیکھتا ہوں اس جانب اور پھر خموشی سے اپنے دل کی کھڑکی سے جھانکتا ہوں اک گھر میں، چند جسم لاغر سے سو رہے ہیں مٹی پہ۔
اب ہوئی ہے کچھ حرکت، غالباً کوئی بچہ کچی نیند سے جاگا اور ساتھ میں لیٹی ماں کو بھی جگا ڈالا، اپنی بھیگی آنکھوں سے ماں سے شکوہ کرتا ہے، ’’بھوک! بھوک!‘‘ کہتا ہے۔
۲۷ جولائی ۲۰۱۳ء