ذوالفقار نقوی
محفلین
دور تک اک سراب دیکھا ہے
وحشتوں کا شباب دیکھا ہے
ضو فشاں کیوں ہیں دشت کے ذرے
کیا کوئی ماہتاب دیکھا ہے
بام و در پر ہے شعلگی رقصاں
حُسن کو بے نقاب دیکھا ہے
نامہ بر اُن سے بس یہی کہنا
نیم جاں اک گلاب دیکھا ہے
اب زمیں پر قدم نہیں ٹکتے
آسماں پر عقاب دیکھا ہے
میری نظروں میں بانکپن کیسا
جاگتا ہوں کہ خواب دیکھا ہے
ذوالفقار نقوی
وحشتوں کا شباب دیکھا ہے
ضو فشاں کیوں ہیں دشت کے ذرے
کیا کوئی ماہتاب دیکھا ہے
بام و در پر ہے شعلگی رقصاں
حُسن کو بے نقاب دیکھا ہے
نامہ بر اُن سے بس یہی کہنا
نیم جاں اک گلاب دیکھا ہے
اب زمیں پر قدم نہیں ٹکتے
آسماں پر عقاب دیکھا ہے
میری نظروں میں بانکپن کیسا
جاگتا ہوں کہ خواب دیکھا ہے
ذوالفقار نقوی