دور رہ کر نہ اُسے ، پاس بلانے سے کیا
میں نے اندازہ محبت کا ، بہانے سے کیا
اس کے اپنے ہی خیالات ، پریشاں تھے بہت
جس نے آغاز مجھے ، خواب دکھانے سے کیا
کچھ تسلی مجھے ، اندازِ تغافل سے ہوئی
کچھ یقیں میں نے مزید ، اس کے نہ آنے سے کیا
کام کرنا تھا جو ہم نے کبھی ، خاموشی سے
اس قدر وہ بھی یہاں ، شور مچانے سے کیا
کارِ دنیا میں ، بُھلا بھی نہیں سکے ہم تجھ کو
آخر اتنا بھی ترے ، یاد دلانے سے کیا
شاعری تھی یہ کسی اور زمانے کے لیئے
میں نے مربوط اسے ، اپنے زمانے سے کیا
سازگار آب و ہوا ہی نہ ہوئی، جس کو ظفر
تجربہ ہم نے وہی ، فصل اُگانے سے کیا
ظفر اقبال