دور کنارا۔ مصحف اقبال توصیفی

الف عین

لائبریرین
والدۂ مرحومہ محترمہ ادیب زہرہ بیگم
اور
والدِ محترم جناب عبدالمعطی مرحوم
کے نام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ مِٹی کی خوشبو
مِری ماں کے آنچل سی ہے
یہ بابا کے چہرے پہ گزرے ہوئے
و قت کے کچھ نشاں
زمان و مکاں کی طرح
مِرے گِرد اِک دائرہ بن گئے ہیں...
۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
پیش لفظ
گذشتہ چند دہائیوں میں سائنس اور ٹکنالوجی کی حیرت انگیز ترقیّ نے ہمارے طرزِحیات اور فکر و عمل پر گہرے اثرات مرّتب کیے ہیں۔سائنس نے ہماری طاقت کئی گُنا بڑھا دی ہے۔ جہاں اس نے ہمیں زندگی کی کئی نعمتیں اور آسانیاں عطا کی ہیں وہیں ہمیں کچھ ایسے ہتھیار بھی دیئے ہیں جن کی دھار بہت تیز ہے۔ ان ہتھیاروں سے ہم انسان دشمن طاقتوں کے خلاف اپنا دفاع کرسکتے تھے لیکن ہم نے اسے اپنے فرضی دشمنوں کے خلاف استعمال کیا۔ ہم نے شہروں اور جنگلوں کو انسانی لاشوں سے پاٹ دیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ چونکہ یہ ہتھیار ہمیں بے حد عزیز تھے اس لیے ہم نے انھیں اتنی زور سے تھاما اور رگِ جاں سے اس قدر قریب رکھا کہ ہماری انگلیوں سے خون ٹپکنے لگا اور ہمارا سارا جسم لہولہان ہوگیا۔ عراق، افغانستان، عالمی دہشت گردی، بھوپال گیس ٹریجڈی، e-Waste سے پیدا شدہ مسائل، ماحولیاتی آلودگی وغیرہ ان دونوں انواع کی چند مثالیں ہیں۔
یہ ہمارا اعمال نامہ ہوا۔ اس کے علاوہ ہمارے کچھ ایسے سروکار بھی ہیں جن کے آگے اپنی تمام تر ذہنی اُپج، تحقیقی ندرت اور تکنیکی مہارت کے باوصف ہم خود کو ایک نرسری جماعت کے بچےّ کے مانند بے بس پاتے ہیں۔ سماوی آفات یا قدرتی حادثات جیسے قحط، سیلاب، آتش فشاں، ہبوطِ ارض (landslides)، زلزلے یا ان سے پیداشدہ سونامی کی تباہ کاریاں جن سے ہمیں مفر نہیں...، ہمیں ان ناکردہ گناہوں کی سزا بھی مل رہی ہے۔
یہی نہیں ہمارے کردہ اور ناکردہ گناہوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ خارجی عوامل ہماری زندگی پر اس طرح حاوی ہوگئے ہیں کہ اُنھوں نے ہمارے معمولاتِ زندگی ہی کو بدل کر رکھ کر دیا ہے۔ عام آدمی معمولاتِ زندگی ہی کو زندگی سمجھتا ہے۔ اس کی مثال ایک عادی مجرم کی سی ہے جو اس طرح جرم کرتا ہے جیسے ہم بیڈٹی پیتے ہیں یا شیو کرتے ہیں۔ شاعر بھی ایک عام آدمی، ایک عادی مجرم کی طرح ہے لیکن تھوڑے سے فرق کے ساتھ اور وہ یہ کہ اُسے اپنے جرائم کا احساس ہے۔ وہ جرم تو کرتا ہے، مجرم ہے لیکن پھر اُچک کر جج کی کرسی پر بھی جابیٹھتا ہے اور اپنے آپ کو مسلسل سزائیں سناتا رہتا ہے۔ جب وہ انسانی قدروں، اپنے آدرشوں، اپنے خوابوں کو ٹوٹتے بکھرتے دیکھتا ہے تو اعلانِ جنگ کردیتا ہے۔ خود اپنے خلاف بلکہ اس معاشرے کے خلاف بھی جس کا وہ حِصّہ ہے۔اخترالایمان نے اپنے مجموعۂ کلام ’’نیا آہنگ‘‘ (۱۹۷۷ء) کے پیش لفظ کی ابتدائی سطور میں لکھا ہے کہ ’’معاشرہ اور شاعر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ یہی معاندانہ رویّہ شعری تخلیقات کی بنیاد ہے۔ یہ معاندانہ رویّہ کب شروع ہوا یہ تو نہیں کہا جاسکتا۔ کیوں شروع ہوا اس بارے میں ضرور قیاس آرائی کی جاسکتی ہے۔‘‘ یہ قیاس آرائیاں آج بھی جاری ہیں۔ یہ سارا منظرنامہ جو علوم، معاشرے اور تہذیب کی ترقی کے متوازی انسانی کا حِصّہ رہا ہے، میں بھی اسی ’ کُل‘ کا ’جُز‘ اور اسی خط کا ایک نقطہ ہوں۔ پھر میرا اپنا محلِ وقوع ۔ میری locale ہے، میری داخلی کیفیات ہیں، جنھوں نے مجھے جکڑ رکھا ہے۔ دُنیا کو دیکھنے اور سمجھنے کا میرا الگ اپنا انداز ہے۔ شاعری کی زبان انسانی حالات اور ماحول میں تبدیلی اور تغیّر سے لاتعلق نہیں رہ سکتی۔ پرانے رموز و تلمیحات اور اشارات و کنایات گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ بوڑھے ہوجاتے ہیں اور اپنی معنویت کھونے لگتے ہیں۔ کبھی یہ آواگوَن کے فلسفے کے زیراثرنیا جنم بھی لے لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کہ زماں و مکاں کی ایک بڑی چھتری کے نیچے ہمارے کچےّ اینٹوں کے مکانوں کے دروازے، روشندان، کھڑکیاں اور اُن پر لٹکے ہوئے پردے الگ الگ ساخت اور الگ الگ رنگوں کے ہیں۔ تو جب ہمارے تجربات اور ہمارے responses مختلف ہیں تو اظہار کے پیرائے بھی جُدا ہونے چاہئیں۔ لیکن عمومی طور پر اچھی شاعری چاہے وہ کسی عہد کی پروردہ ہو، حقیقت کو واہمہ (fantasy) اور واہمے کو حقیقت میں بدلنے کا وصف رکھتی ہے اوریوں نامانوس کو مانوس اور مانوس کو نامانوس میں بدل دیتی ہے۔
میں نہیں جانتا کہ میں نے جو باتیں کہی ہیں خود میری شاعری پر اُن کا کہاں تک اطلاق ہوتا ہے۔ میری شاعری میں میرے عہد کی اور میرے اندر جو کائنات ہے، جو حشر بپا ہے اُس کی عکاّسی کہاں تک ہوسکی ہے۔ وقت میرے حق میں کیا فیصلہ کرے گا؟ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ میرے ذہن و دِل، خواب و حقیقت، خارج و باطن اور چند پیادہ سانسوں کی وقت کے اس عظیم لشکر سے جنگ میں میرا کیا حال ہوا۔۔۔’کچھ ہوش جو آیا تو گریباں نہیں دیکھا‘۔۔ میں نے جو بویا تھا، جو کاٹا ہے سب لے آیا ہوں...
مصحف اقبال توصیفی
فلیٹ نمبر101، گولڈن کریسٹ اپارٹمنٹ،
12-2-823/B/55
انکم ٹیکس کالونی، مہدی پٹنم، حیدرآباد۔500028، انڈیا
 

الف عین

لائبریرین
پس نوشت:
یہ مجموعہ میں نے زائد از تین سال قبل ترتیب دے دیا تھا۔ نہ جانے کیوں اور کیسے یہ کام ٹلتا ہی گیا۔ ابتدائً اس کتاب کے لیے میں نے کسی شاعر یا نقاّد کی رائے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ آل احمد سرور صاحب کے آخری دِنوں میں میری ان سے خط و کتابت رہی۔ اچانک میراجی چاہا کہ اس مجموعے کے بارے میں اُن کی رائے حاصل کرنے کی کوشش کروں۔ میں نے اُنھیں خط لکھا اور اس مجموعے میں شامل اکٹھّی نظمیں غزلیں اُنھیں بھیجیں۔ اُن دِنوں سرور صاحب فالج کا شکار تھے۔ ضعفِ بصارت الگ لاحق تھا۔ اس کے باوجود اُنھوں نے میری شاعری کے بارے میں اظہارِ خیال کیا۔ اس کے فوراً بعد اگلے خط (۴!اکتوبر ۲۰۰۱ء) میں لکھا کہ ’’...میں آپ کے مجموعے پر تفصیل سے لکھتا لیکن ضعفِ بصارت کی وجہ سے مجبور ہوں۔ چند سطریں بول کر لکھوا دی تھیں۔ اُمید ہے کہ آپ آزردہ نہ ہوں گے...دراصل اب آپ کا مقام جدید اُردو شاعری میں مسلّم ہے۔ میرے یا کسی اور کے کلمات کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ یہ تو محض آپ کی دلجوئی کے لیے لکھا تھا...‘‘ یہ میری بڑائی نہیں اُن کی بڑائی تھی۔ خدا اُنھیں کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے۔ پھر میری ہوس اور بڑھی اور میں نے ضیا جالندھری صاحب کی رائے حاصل کی جن کی شاعری کا میں ہمیشہ مدّاح رہا ہوں (محترمہ کشور ناہید کا شکرگزار ہوں کہ اُنھوں نے اس سلسلے میں میری مدد فرمائی)۔ میں جنابِ ضیا جالندھری کا تہہِ دل سے ممنون ہوں۔ میں اپنے محترم دوست اور مشہور مزاح نگار جنابِ مجتبیٰ حسین کا بھی ممنون ہوں کہ اُنھوں نے میری خواہش پر اس کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں دلچسپی لی اور پریم گوپال متّل صاحب سے اس ضمن میں بات کی۔ پریم گوپال متّل صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ اُنھوں نے اس کتاب کو موڈرن پبلشنگ ہاؤس کے زیرِ اہتمام شائع کیا۔
اس کتاب کی اشاعت کے مختلف مراحل میں جنابِ اعجاز عبید، جنابِ سیّد خالد قادری، جنابِ علی ظہیر، جنابِ اسدفاروقی اور جنابِ سیّد امتیازالدین کے مشورے مجھے حاصل رہے۔ مشہور مصوّر عزیز آرٹسٹ نے اپنے موقلم سے اس کتاب کی زینت بڑھائی۔ میں ان احباب کا بھی شکرگزار ہوں۔
م۔ا۔ت
 

الف عین

لائبریرین
نعت


نقشِ پائے رسولؐ آنکھوں میں
پھُول سینے میں ، پھُول آنکھوں میں
جیسے خوشبو کلی کےتُکمے میں
یوں ہے نامِ رسولؐ آنکھوں میں
اُن کی اُلفت کا داغ سینے میں
باغِ عالم کے پھُول آنکھوں میں
روئیں جی بھر کے ، تھام لیں دامن
اُگ رہی ہے ببول آنکھوں میں
عمر بڑھ جائے گی اسیروں کی
شوق کھینچے گا طُول آنکھوں میں
طاقِ دل میں چراغِ حسرتِ دید
مہ و انجم کی دھول آنکھوں میں
دِل میں اِک شاخِ غم کہ سبز بہت
اور لالہ کے پھول آنکھوں میں
آسماں پر دماغ مصحفؔ کا
اُن کے قدموں کی دُھول آنکھوں میں​
******
 

الف عین

لائبریرین
گھاس پہ پاؤں رکھنا

کتنا ا چھّا لگتا ہے
گھاس پہ پاؤں رکھنا
بھورے بادل
ہلکی بارش
اُڑتے اُڑتے ، چڑیوں کا اِک شاخ پہ رُک جانا
کتنا ا چھٓا لگتا ہے
اور اچانک
میرے اندر
اِک طوفانی بارش
تیز ہواؤں کے جھکّڑ چلتے ہیں
بجلی، ٹیلیفون کے کھمبے
اُونچے پیڑ اُکھڑتے ہیں
جب یہ آندھی رُکتی ہے
اور یہ کالے بادل میرے سینے سے ہٹتے ہیں
میں پھر پاس کے ریستوراں میں بیٹھ کے چائے پیتا ہوں
پھر اُڑتی چڑیوں کو گنتا ہوں
گھاس پہ پاؤں رکھتا ہوں

میں پھر ہنسنے لگتا ہوں...!!
******
 

الف عین

لائبریرین
درد کا نام پتہ مت پوچھو


درد کا نام پتہ مت پوچھو درد اِک خیمۂ افلاک اس اقلیم پہ ہے سایہ کناں (تم اسے قطبِ شمالی کہہ لو)
تم جدھر آنکھ اُٹھا کر دیکھو برف ہی برف ہے اور رات ہی رات ہم وہ ’موجود‘ کہ جن میں شاید زندگی بننے کے آثار ابھی باقی تھے حشرات ۔ ایسے کہ جن کو شاید روشنی اور حرارت کی ضرورت تھی ابھی اس اندھیرے میں کہو برف پہ رینگیں کیسے کوئی بتلاؤ کہ اِس رات کے آزار سے نکلیں کیسے رات ایسی کہ جو ڈھلتی ہی نہیں برف ایسی کہ پگھلتی ہی نہیں!!
******
 

الف عین

لائبریرین
کچھ بات نہیں کرتے ہم سے


کچھ کھوئے کھوئے رہتے ہو کچھ بات نہیں کرتے ہم سے کوئی اپنا رُوٹھ گیا جیسے کوئی ساتھی جیسے چھوٹ گیا اِک خواب تھا جو پَو پھٹتے ہی بالیں سے گرا اور چَھن سے جیسے ٹوٹ گیا اب اپنے لہو کی گردش میں اُس خواب کی چیخیں سنتے ہو کتنی شامیں بیتیں تم آج بھی اپنی پلکوں سے اُس خواب کی کرچیں چُنتے ہو اب تم کو کیسے سمجھائیں وہ رات گئی۔ وہ بات گئی دِن نکلا ہے۔ تمُ سے ملنے کتنی خوشیاں ، غم آئے ہیں دیکھو تو سہی۔ ہم آئے ہیں کچھ بات نہیں کرتے ہم سے!!
******
 

الف عین

لائبریرین
نمامی


ہاتھ میں ’’ہندو ‘۱ ‘ لب پر چائے کا پہلا بوسہ صابن کی دیوار پہ میری آدھی مونچھیں آدھا چہرہ۔ صبح کی سیر کو جاتے۔ شام کو دفتر سے گھر آتے۔ مجھ سے لمبا میرا سایہ
رات جب آئی اِک مندر کی روشنیوں میں کچھ لوگوں نے گنگا جَل سے اشنان کیا میں نے اپنے رب کو سجدہ کرنے سے پہلے چاروں کھونٹ اذاں دی پھر اپنے بستر پر لیٹا صدیوں کا جاگا تھا!!
******
۱ ایک انگریزی روزنامہ
*****
 

الف عین

لائبریرین
سرسبز چمن میرا ، اے بادِ صبا رکھنا
ہر پھول کھِلا رکھنا ، ہر پات ہَرا رکھنا
اِس نیند کی وادی سے میں تو نہ کبھی لوٹوں شانے پہ مِرے بکھری یہ زلفِ دوتا رکھنا
یہ کب سے نہیں روئیں ، یہ کب سے نہیں سوئیں ان جاگتی آنکھوں پر تم ہاتھ ذرا رکھنا
یہ نقدِ دِل و جاں ہی بس اپنا اثاثہ ہے میں دِل کی خبر ر کھّوں ، تم جاں کا پتہ رکھنا
وہ چاند جو تکتا ہے کھڑکی کی سلاخوں سے دروازے سے آئے گا ، دروازہ کھلا رکھنا

اشعار ہیں مصحفؔ کے اوروں سے الگ جیسے انداز لگاوٹ کے تم سب سے جدا رکھنا
******
 

الف عین

لائبریرین
سرسبز چمن میرا ، اے بادِ صبا رکھنا
ہر پھول کھِلا رکھنا ، ہر پات ہَرا رکھنا
اِس نیند کی وادی سے میں تو نہ کبھی لوٹوں شانے پہ مِرے بکھری یہ زلفِ دوتا رکھنا
یہ کب سے نہیں روئیں ، یہ کب سے نہیں سوئیں ان جاگتی آنکھوں پر تم ہاتھ ذرا رکھنا
یہ نقدِ دِل و جاں ہی بس اپنا اثاثہ ہے میں دِل کی خبر ر کھّوں ، تم جاں کا پتہ رکھنا
وہ چاند جو تکتا ہے کھڑکی کی سلاخوں سے دروازے سے آئے گا ، دروازہ کھلا رکھنا

اشعار ہیں مصحفؔ کے اوروں سے الگ جیسے انداز لگاوٹ کے تم سب سے جدا رکھنا
******
 
Top