پیش لفظ
گذشتہ چند دہائیوں میں سائنس اور ٹکنالوجی کی حیرت انگیز ترقیّ نے ہمارے طرزِحیات اور فکر و عمل پر گہرے اثرات مرّتب کیے ہیں۔سائنس نے ہماری طاقت کئی گُنا بڑھا دی ہے۔ جہاں اس نے ہمیں زندگی کی کئی نعمتیں اور آسانیاں عطا کی ہیں وہیں ہمیں کچھ ایسے ہتھیار بھی دیئے ہیں جن کی دھار بہت تیز ہے۔ ان ہتھیاروں سے ہم انسان دشمن طاقتوں کے خلاف اپنا دفاع کرسکتے تھے لیکن ہم نے اسے اپنے فرضی دشمنوں کے خلاف استعمال کیا۔ ہم نے شہروں اور جنگلوں کو انسانی لاشوں سے پاٹ دیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ چونکہ یہ ہتھیار ہمیں بے حد عزیز تھے اس لیے ہم نے انھیں اتنی زور سے تھاما اور رگِ جاں سے اس قدر قریب رکھا کہ ہماری انگلیوں سے خون ٹپکنے لگا اور ہمارا سارا جسم لہولہان ہوگیا۔ عراق، افغانستان، عالمی دہشت گردی، بھوپال گیس ٹریجڈی، e-Waste سے پیدا شدہ مسائل، ماحولیاتی آلودگی وغیرہ ان دونوں انواع کی چند مثالیں ہیں۔
یہ ہمارا اعمال نامہ ہوا۔ اس کے علاوہ ہمارے کچھ ایسے سروکار بھی ہیں جن کے آگے اپنی تمام تر ذہنی اُپج، تحقیقی ندرت اور تکنیکی مہارت کے باوصف ہم خود کو ایک نرسری جماعت کے بچےّ کے مانند بے بس پاتے ہیں۔ سماوی آفات یا قدرتی حادثات جیسے قحط، سیلاب، آتش فشاں، ہبوطِ ارض (landslides)، زلزلے یا ان سے پیداشدہ سونامی کی تباہ کاریاں جن سے ہمیں مفر نہیں...، ہمیں ان ناکردہ گناہوں کی سزا بھی مل رہی ہے۔
یہی نہیں ہمارے کردہ اور ناکردہ گناہوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ خارجی عوامل ہماری زندگی پر اس طرح حاوی ہوگئے ہیں کہ اُنھوں نے ہمارے معمولاتِ زندگی ہی کو بدل کر رکھ کر دیا ہے۔ عام آدمی معمولاتِ زندگی ہی کو زندگی سمجھتا ہے۔ اس کی مثال ایک عادی مجرم کی سی ہے جو اس طرح جرم کرتا ہے جیسے ہم بیڈٹی پیتے ہیں یا شیو کرتے ہیں۔ شاعر بھی ایک عام آدمی، ایک عادی مجرم کی طرح ہے لیکن تھوڑے سے فرق کے ساتھ اور وہ یہ کہ اُسے اپنے جرائم کا احساس ہے۔ وہ جرم تو کرتا ہے، مجرم ہے لیکن پھر اُچک کر جج کی کرسی پر بھی جابیٹھتا ہے اور اپنے آپ کو مسلسل سزائیں سناتا رہتا ہے۔ جب وہ انسانی قدروں، اپنے آدرشوں، اپنے خوابوں کو ٹوٹتے بکھرتے دیکھتا ہے تو اعلانِ جنگ کردیتا ہے۔ خود اپنے خلاف بلکہ اس معاشرے کے خلاف بھی جس کا وہ حِصّہ ہے۔اخترالایمان نے اپنے مجموعۂ کلام ’’نیا آہنگ‘‘ (۱۹۷۷ء) کے پیش لفظ کی ابتدائی سطور میں لکھا ہے کہ ’’معاشرہ اور شاعر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ یہی معاندانہ رویّہ شعری تخلیقات کی بنیاد ہے۔ یہ معاندانہ رویّہ کب شروع ہوا یہ تو نہیں کہا جاسکتا۔ کیوں شروع ہوا اس بارے میں ضرور قیاس آرائی کی جاسکتی ہے۔‘‘ یہ قیاس آرائیاں آج بھی جاری ہیں۔ یہ سارا منظرنامہ جو علوم، معاشرے اور تہذیب کی ترقی کے متوازی انسانی کا حِصّہ رہا ہے، میں بھی اسی ’ کُل‘ کا ’جُز‘ اور اسی خط کا ایک نقطہ ہوں۔ پھر میرا اپنا محلِ وقوع ۔ میری locale ہے، میری داخلی کیفیات ہیں، جنھوں نے مجھے جکڑ رکھا ہے۔ دُنیا کو دیکھنے اور سمجھنے کا میرا الگ اپنا انداز ہے۔ شاعری کی زبان انسانی حالات اور ماحول میں تبدیلی اور تغیّر سے لاتعلق نہیں رہ سکتی۔ پرانے رموز و تلمیحات اور اشارات و کنایات گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ بوڑھے ہوجاتے ہیں اور اپنی معنویت کھونے لگتے ہیں۔ کبھی یہ آواگوَن کے فلسفے کے زیراثرنیا جنم بھی لے لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کہ زماں و مکاں کی ایک بڑی چھتری کے نیچے ہمارے کچےّ اینٹوں کے مکانوں کے دروازے، روشندان، کھڑکیاں اور اُن پر لٹکے ہوئے پردے الگ الگ ساخت اور الگ الگ رنگوں کے ہیں۔ تو جب ہمارے تجربات اور ہمارے responses مختلف ہیں تو اظہار کے پیرائے بھی جُدا ہونے چاہئیں۔ لیکن عمومی طور پر اچھی شاعری چاہے وہ کسی عہد کی پروردہ ہو، حقیقت کو واہمہ (fantasy) اور واہمے کو حقیقت میں بدلنے کا وصف رکھتی ہے اوریوں نامانوس کو مانوس اور مانوس کو نامانوس میں بدل دیتی ہے۔
میں نہیں جانتا کہ میں نے جو باتیں کہی ہیں خود میری شاعری پر اُن کا کہاں تک اطلاق ہوتا ہے۔ میری شاعری میں میرے عہد کی اور میرے اندر جو کائنات ہے، جو حشر بپا ہے اُس کی عکاّسی کہاں تک ہوسکی ہے۔ وقت میرے حق میں کیا فیصلہ کرے گا؟ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ میرے ذہن و دِل، خواب و حقیقت، خارج و باطن اور چند پیادہ سانسوں کی وقت کے اس عظیم لشکر سے جنگ میں میرا کیا حال ہوا۔۔۔’کچھ ہوش جو آیا تو گریباں نہیں دیکھا‘۔۔ میں نے جو بویا تھا، جو کاٹا ہے سب لے آیا ہوں...
مصحف اقبال توصیفی
فلیٹ نمبر101، گولڈن کریسٹ اپارٹمنٹ،
12-2-823/B/55
انکم ٹیکس کالونی، مہدی پٹنم، حیدرآباد۔500028، انڈیا