نمرہ
محفلین
دوستوں نے جب چلائے تیر ہیں
میرے حق میں وہ ہوئے اکسیر ہیں
اور تو کچھ خاص دشواری نہیں
ہم خود اپنے پاؤں کی زنجیر ہیں
شوق کس کو ہے چمن کی سیر کا؟
ہاں مگر کچھ گل کہ دامن گیر ہیں
خوب کھائے زخم سب تقدیر کے
آج کل تدبیرکے نخچیر ہیں
ان کہی کا غم ہمارے ساتھ ہے
کہہ دیا جو اس پہ بھی دلگیر ہیں
ایک عرصے سے ہیں استعجاب میں
اور اس ترکش میں کتنے تیر ہیں؟
شہر کے سب رہنے والے ہیں جدا
اپنے بت خانے ہیں، اپنے پیر ہیں
ہم نے بیناؤں میں بانٹی روشنی
مانتے ہیں، لائق تعزیر ہیں