ڈاکٹر جمیل الرحمٰن
محفلین
خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے چند شعراء ساتھیوں نے پوچھا کہ لفظ رقیب کی کیا تحقیق ہے اور ہمارے شعراء اس لفظ کو اتنا کیوں استعمال کرتے ہیں اور پھر یہ تو اﷲ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے چنانچہ اس کے استعمال سے احتراز کرنا چاہیئے۔ اس مضمون کو یہاں ناظرین کے سامنے رکھتا ہوں شاید کوئی دوست استفادہ کرنا چاہتاہو !
لفظ ’’رقیب‘‘ کے لفظی اور معنوی تحقیق:
رقیب، رقب یرقب سے ہے، جس کے لفظی معنی ہیں نگہبان، پاسبان، محافظ، یا نگران یا نظر رکھنے والا۔ (فیروز اللغات)۔
معنی کے اعتبار سے اس سے ہم پیشہ حریف یا ایک معشوق کے عاشقوں میں سے کوئی ایک عاشق بھی مراد لئے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی کسی کا کسی بھی معاملے میں حریف بنے تو اسے رقیب کہا جائے گا۔
یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام بھی ہے۔ جیسے کہ قرآن کریم میں ہے کہ {وارْتَقِبُوْا إِنِيْ مَعَكُمْ رَقِيْبٌ} [هود/93]،) جس کا مطلب ہے حفاظت کرنے والا، انتظار کرنے والا اور دیکھنے والا۔
یہ مطلب یا تو محفوظ نگہبانی کی رعایت کے طور پر ہوگا یا پھر اپنے ذمے سے نگہبانی کی ذمہ داری اٹھانے کی رعایت سے ہوگا۔ جیسے کہ گذشتہ آیت سے معلوم ہوتاہے۔ نیز اس آیت {اِلاَّ لَدَيْهِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌ} (سورہ ق آیت نمبر ۱۸) یا جیسے {لاَ يَرْقَبُوْنَ فِيْ مُؤْمِنٍ إِلاًّ وَّلاَ ذِمَّةً}(سورہ توبہ آیت نمبر ۱۰) (مفردات القرآن للعلامہ راغب الاصفہانی مادہ ’’رقب‘‘)۔
ان مختلف آیات سے یہ پتہ چلتاہے کہ جہاں بھی لفظ ’’رقابت‘‘ کسی بھی شکل میں آیا ہے اس کا مطلب ہے نظر رکھنا، نگہبانی کرنا، لحاظ کرنا وغیرہ وغیرہ۔
اس کے یہ معنی اس لحاظ سے بھی ہے کہ لفظ ’’مرقب‘‘ اس بلند جگہ کو کہتے ہیں جس سے جھانک کر دیکھا جاتاہے اور نگرانی کی جاتی ہے۔ جہاں ’’رقیب‘‘ کا مطلب ہے پوری رقابت اور حریفانہ روش کے ساتھ کسی پر نظر رکھنا اور نگرانی کرنا۔ (مفردات القرآن)۔
اسی طرح جوا کھیلنے والوں کے محافظ اور نگران کو بھی ’’رقیب‘‘ کہا جاتاہے۔ (مفردات القرآن)۔
اسی مادہ سے ’’ترقب‘‘ بھی ہے جس کے معنی ہیں احتراز کرنا اور قدم پھونک پھونک کر چلنا۔ جیسے موسی علیہ السلام کی کہانی میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:{فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفًا يَّتَرَقَّبُ}(سورہ القصص، آیت نمبر ۲۱)۔ اس کے معنی انتظار اور توقع کے بھی ہے جیسے کہ عربی میں اس عورت کے بارے میں ’’رقوب‘‘ کا لفظ استعمال ہوتاہے جس کی اکثر اولاد مرجاتی ہوں اور وہ اپنے موجودہ بچے کے بارے میں بھی یہی خدشاتی انتظار رکھتی ہو۔
مندرجہ بالا تحقیق سے یہ ثابت ہوتاہے کہ لفظ ’’رقیب‘‘ اگر اﷲ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں پر کھڑی نظر رکھتاہے۔ ان کے اعمال کو بنظر غائر دیکھتاہے۔ جس سے یہ شہ بھی ملتی ہے کہ اگر کسی عاشق صادق کی راہ میں کوئی دوسرا ایسا شخص جو اُس عاشق صادق کے محبوب کو چاہتا ہو اس پر کھڑی نظر رکھتا ہو اور اس کی پوری طرح بیداری کے ساتھ نگرانی کرتا ہو تو اس کو ’’رقیب‘‘ کہا جائے گا۔
یا اگر وہ اس کی راہ میں پوری طرح رکاوٹ بن جاتاہے جو اس کے محبوب کو نہ صرف یہ کہ چاہتاہے بلکہ اس عاشق صادق کے ساتھ رقابت اور حسد بھی رکھتا ہو اور اس کو ورغلا کر اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کرتا ہو تو بھی یہی معنی ہونگے۔
یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ شاعر لوگ اپنے کلام میں رقیب کا لفظ اپنے حریف کے لئے کیوں استعمال کرتے ہیں؟ ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ یہ اﷲ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی جوتی کے بارے میں کہے کہ یہ تو بہت اعلیٰ جوتاہے۔ اب اس کا مطلب اس اعلیٰ ہونے سے اس کے بلند معیار کو ظاہر کرنا ہوتاہے۔ جبکہ یہ (اعلیٰ)بھی اﷲ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے۔ پھر اس طرح کہنا بھی غلط ہوگا۔ مگر یہاں اس سے مراد یہ نہیں ہے بلکہ اس کی صفت بیان کرنا ہوتاہے۔ چنانچہ جب اﷲ تعالیٰ نے خود اس لفظ کو کئی معنوں میں استعمال کیا ہے تو پھر ہم کیوں نہیں استعمال کرسکتے۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ کے دوسرے صفاتی نام بھی کئی معنوں میں عام زندگی میں استعمال کیئے جاتے ہیں جس پر کسی کو انگشتِ اعتراض کی گنجائش نہیں ہے، تو پھر ’’رقیب‘‘ ہی کیوں درخورِ اعتناء ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ جو لفظ جس زبان کا ہوتاہے اس زبان کے اہل کے روزمرہ اور محاورہ کے مطابق اس کی تفسیر کی جاتی ہے۔ جیسے کہ علامہ راغب نے مفردات القرآن میں اہل زبان کے اقوال ذکر کیئے ہیں۔
چنانچہ اگر ہم ’’رقیب‘‘ کو اپنے اشعار میں بُرا بھلا کہتے ہیں ، یہاں تک کہ اسے ہم ’’کتا‘‘ ’’خنزیر‘‘ وغیرہ بھی کہتے ہیں۔ تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ کیونکہ ’’رقیب‘‘ وہ شخص ہوتاہے جو کسی عاشق صادق کا کام بگاڑنا چاہتاہے اور اپنا مطلب نکالنا چاہتاہے۔ جیسے کہ عرب کے مشہور شاعر قیس (مجنون لیلیٰ) نے کہا ہے:
(ترجمہ: اگرچہ لیلیٰ کے بہت سارے رقیب ہیں۔ مگر میں تو لیلیٰ سے محبت کرتا رہوں گا تا آنکہ اس کا کوئی رقیب باقی نہ رہے)۔
اسی طرح اس کی مثالیں عربی کے دیگر دواوین میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ والعلم عنداللہ۔
لفظ رقیب کو سلف صالحین اور دیگر نامور شعراء (عربی، اُردُو، فارسی، پشتو) نے بکثر استعمال کیا ہے ، مثلاً علی خان جو پشتو کے مشہور شاعر ہیں اور جس کو عربی علوم پر پوری دسترس تھی، آپ کو خیبر پختونخوا کے غالب ہونے کا عزاز حاصل ہے ۔ آپ غالب کی طرح عربی فارسی کے بہت بڑے عالم تھے اور اس کے ساتھ ساتھ مفسرِ قرآن بھی تھے۔ آپ نے اپنے اشعار میں رقیب کو خنزیر اور کتا تک کہا ہے۔
طالب دُعا :
ڈاکٹرجمیل الرحمٰن
برقی ڈاک (almustajil@yahoo.com)
ملاحظہ:
لڑی کا عنوان اس طرح لکھا گیا ہے:
دوستوں نے پوچھا پشتو شعراء رلفظ قیب کیوں استعمال کرتے ہیں اور رقیب کو بُرا بھلا کیوں کہتے ہیں؟
ازراہِ کرم لڑی کے عنوان کو اس طرح پڑھا جائے:
دوستوں نے پوچھا پشتو شعراء لفظ ’’رقیب‘‘ کیوں استعمال کرتے ہیں اور ’’رقیب‘‘ کو بُرا بھلا کیوں کہتے ہیں؟
لفظ ’’رقیب‘‘ کے لفظی اور معنوی تحقیق:
رقیب، رقب یرقب سے ہے، جس کے لفظی معنی ہیں نگہبان، پاسبان، محافظ، یا نگران یا نظر رکھنے والا۔ (فیروز اللغات)۔
معنی کے اعتبار سے اس سے ہم پیشہ حریف یا ایک معشوق کے عاشقوں میں سے کوئی ایک عاشق بھی مراد لئے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی کسی کا کسی بھی معاملے میں حریف بنے تو اسے رقیب کہا جائے گا۔
یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام بھی ہے۔ جیسے کہ قرآن کریم میں ہے کہ {وارْتَقِبُوْا إِنِيْ مَعَكُمْ رَقِيْبٌ} [هود/93]،) جس کا مطلب ہے حفاظت کرنے والا، انتظار کرنے والا اور دیکھنے والا۔
یہ مطلب یا تو محفوظ نگہبانی کی رعایت کے طور پر ہوگا یا پھر اپنے ذمے سے نگہبانی کی ذمہ داری اٹھانے کی رعایت سے ہوگا۔ جیسے کہ گذشتہ آیت سے معلوم ہوتاہے۔ نیز اس آیت {اِلاَّ لَدَيْهِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌ} (سورہ ق آیت نمبر ۱۸) یا جیسے {لاَ يَرْقَبُوْنَ فِيْ مُؤْمِنٍ إِلاًّ وَّلاَ ذِمَّةً}(سورہ توبہ آیت نمبر ۱۰) (مفردات القرآن للعلامہ راغب الاصفہانی مادہ ’’رقب‘‘)۔
ان مختلف آیات سے یہ پتہ چلتاہے کہ جہاں بھی لفظ ’’رقابت‘‘ کسی بھی شکل میں آیا ہے اس کا مطلب ہے نظر رکھنا، نگہبانی کرنا، لحاظ کرنا وغیرہ وغیرہ۔
اس کے یہ معنی اس لحاظ سے بھی ہے کہ لفظ ’’مرقب‘‘ اس بلند جگہ کو کہتے ہیں جس سے جھانک کر دیکھا جاتاہے اور نگرانی کی جاتی ہے۔ جہاں ’’رقیب‘‘ کا مطلب ہے پوری رقابت اور حریفانہ روش کے ساتھ کسی پر نظر رکھنا اور نگرانی کرنا۔ (مفردات القرآن)۔
اسی طرح جوا کھیلنے والوں کے محافظ اور نگران کو بھی ’’رقیب‘‘ کہا جاتاہے۔ (مفردات القرآن)۔
اسی مادہ سے ’’ترقب‘‘ بھی ہے جس کے معنی ہیں احتراز کرنا اور قدم پھونک پھونک کر چلنا۔ جیسے موسی علیہ السلام کی کہانی میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:{فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفًا يَّتَرَقَّبُ}(سورہ القصص، آیت نمبر ۲۱)۔ اس کے معنی انتظار اور توقع کے بھی ہے جیسے کہ عربی میں اس عورت کے بارے میں ’’رقوب‘‘ کا لفظ استعمال ہوتاہے جس کی اکثر اولاد مرجاتی ہوں اور وہ اپنے موجودہ بچے کے بارے میں بھی یہی خدشاتی انتظار رکھتی ہو۔
مندرجہ بالا تحقیق سے یہ ثابت ہوتاہے کہ لفظ ’’رقیب‘‘ اگر اﷲ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں پر کھڑی نظر رکھتاہے۔ ان کے اعمال کو بنظر غائر دیکھتاہے۔ جس سے یہ شہ بھی ملتی ہے کہ اگر کسی عاشق صادق کی راہ میں کوئی دوسرا ایسا شخص جو اُس عاشق صادق کے محبوب کو چاہتا ہو اس پر کھڑی نظر رکھتا ہو اور اس کی پوری طرح بیداری کے ساتھ نگرانی کرتا ہو تو اس کو ’’رقیب‘‘ کہا جائے گا۔
یا اگر وہ اس کی راہ میں پوری طرح رکاوٹ بن جاتاہے جو اس کے محبوب کو نہ صرف یہ کہ چاہتاہے بلکہ اس عاشق صادق کے ساتھ رقابت اور حسد بھی رکھتا ہو اور اس کو ورغلا کر اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کرتا ہو تو بھی یہی معنی ہونگے۔
یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ شاعر لوگ اپنے کلام میں رقیب کا لفظ اپنے حریف کے لئے کیوں استعمال کرتے ہیں؟ ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ یہ اﷲ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی جوتی کے بارے میں کہے کہ یہ تو بہت اعلیٰ جوتاہے۔ اب اس کا مطلب اس اعلیٰ ہونے سے اس کے بلند معیار کو ظاہر کرنا ہوتاہے۔ جبکہ یہ (اعلیٰ)بھی اﷲ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے۔ پھر اس طرح کہنا بھی غلط ہوگا۔ مگر یہاں اس سے مراد یہ نہیں ہے بلکہ اس کی صفت بیان کرنا ہوتاہے۔ چنانچہ جب اﷲ تعالیٰ نے خود اس لفظ کو کئی معنوں میں استعمال کیا ہے تو پھر ہم کیوں نہیں استعمال کرسکتے۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ کے دوسرے صفاتی نام بھی کئی معنوں میں عام زندگی میں استعمال کیئے جاتے ہیں جس پر کسی کو انگشتِ اعتراض کی گنجائش نہیں ہے، تو پھر ’’رقیب‘‘ ہی کیوں درخورِ اعتناء ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ جو لفظ جس زبان کا ہوتاہے اس زبان کے اہل کے روزمرہ اور محاورہ کے مطابق اس کی تفسیر کی جاتی ہے۔ جیسے کہ علامہ راغب نے مفردات القرآن میں اہل زبان کے اقوال ذکر کیئے ہیں۔
چنانچہ اگر ہم ’’رقیب‘‘ کو اپنے اشعار میں بُرا بھلا کہتے ہیں ، یہاں تک کہ اسے ہم ’’کتا‘‘ ’’خنزیر‘‘ وغیرہ بھی کہتے ہیں۔ تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ کیونکہ ’’رقیب‘‘ وہ شخص ہوتاہے جو کسی عاشق صادق کا کام بگاڑنا چاہتاہے اور اپنا مطلب نکالنا چاہتاہے۔ جیسے کہ عرب کے مشہور شاعر قیس (مجنون لیلیٰ) نے کہا ہے:
لَئن كَثُرَتْ رُقَّابُ لَيْلَى فَطالَمَا
لهوتُ بليلىٰ ما لهنَّ رَقِيبُ
لهوتُ بليلىٰ ما لهنَّ رَقِيبُ
اسی طرح اس کی مثالیں عربی کے دیگر دواوین میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ والعلم عنداللہ۔
لفظ رقیب کو سلف صالحین اور دیگر نامور شعراء (عربی، اُردُو، فارسی، پشتو) نے بکثر استعمال کیا ہے ، مثلاً علی خان جو پشتو کے مشہور شاعر ہیں اور جس کو عربی علوم پر پوری دسترس تھی، آپ کو خیبر پختونخوا کے غالب ہونے کا عزاز حاصل ہے ۔ آپ غالب کی طرح عربی فارسی کے بہت بڑے عالم تھے اور اس کے ساتھ ساتھ مفسرِ قرآن بھی تھے۔ آپ نے اپنے اشعار میں رقیب کو خنزیر اور کتا تک کہا ہے۔
طالب دُعا :
ڈاکٹرجمیل الرحمٰن
برقی ڈاک (almustajil@yahoo.com)
ملاحظہ:
لڑی کا عنوان اس طرح لکھا گیا ہے:
دوستوں نے پوچھا پشتو شعراء رلفظ قیب کیوں استعمال کرتے ہیں اور رقیب کو بُرا بھلا کیوں کہتے ہیں؟
ازراہِ کرم لڑی کے عنوان کو اس طرح پڑھا جائے:
دوستوں نے پوچھا پشتو شعراء لفظ ’’رقیب‘‘ کیوں استعمال کرتے ہیں اور ’’رقیب‘‘ کو بُرا بھلا کیوں کہتے ہیں؟