یہ شعر خوب ہے :
کیسے اندازہ لگاتا اپنی گہرائی کا میں
اپنی تہہ تک جب بھی پہنچا ذات گہری ہو گئی
البتہ ذوق دوسرے مصرع میں "مزید" یا "اور " جیسے کسی لفظ کا متلاشی ہے -
طالب دعا
یاسر
وعلیکم السلام ورحمت اللہ وبرکاتہ یاسر بھائی ، بہت شکریہ ! توجہ کے لئے بہت ممنون ہوں ۔
آپ جانتے ہی ہیں کہ نثر اور شعر میں وزن کے علاوہ اختصار ایک بڑا اہم اورنمایاں فرق ہے ۔ اکثر اوقات اختصار کی خاطر شعر میں کئی الفاظ حذف کردیئے جاتے ہیں اور ان سے شعر کے معنی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ غالب کا یہ شعر دیکھئے:
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
اس کو اگر نثر میں لکھاجائے تو کچھ ایسی صورت بنے گی : جب موت کا ایک دن معین ہے تو پھر نیند رات بھر کیوں نہیں آتی ؟ لیکن شعر میں "جب "اور "تو پھر "کے الفا محذوف ہیں ۔ گویا موجود ہیں لیکن پڑھے نہیں جارہے ۔ شعر کا مطلب بالکل واضح ہے اور بیانیہ مکمل ہے۔
کیسے اندازہ لگاتا اپنی گہرائی کا میں
اپنی تہہ تک جب بھی پہنچا ، ذات گہری ہوگئی
دوسر ےمصرع میں "جب بھی "کے الفاظ ایک مکرراور بار بار کےعمل کو ظاہر کررہے ہیں ۔یعنی جب بھی اپنی تہہ تک پہنچتا ہوں ذات پہلے سے بھی گہری ہوجاتی ہے ۔ اس کی تہہ ملتی ہی نہیں ۔ اس پیرائے میں " پہلے سے بھی" یا "مزید" کے الفاظ محذوف ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود بیانیہ مکمل ہے اور بات بغیر کسی قباحت کے واضح طور پرسمجھ میں آجاتی ہے ۔ کوئی الجھن نہیں ۔ میری ناقص رائے میں ایسی صورت میں کسی لفظ کا محذوف ہونا شعر کا سقم نہیں ہوگا کہ معنی اور اس کے ابلاغ پر کوئی اثر نہیں پڑرہا ۔
محترمی و مکرمی اس غزل کی زمین آپ نے نہایت دشوار منتخب کی ہے لہٰذا فکر سخن کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ چند تراکیب نئی درآمد ہوگئیں جیسے گردش حالات گہری ہوگئی ' مات گہری ہوگئی اور برسات گہری ہو گئی -
شاہ صاحب ، مطلع کی حد تک آپ سے متفق ہوں ۔ یہ سات آٹھ سال پرانی غزل ہے میں اسے رد کرچکا تھا لیکن دوتین اشعار چونکہ ڈھنگ کے تھے اس لئے شیئر کرنے میں قباحت محسوس نہ کی ۔ مطلع نکالنا چاہتا تھا لیکن بغیر مطلع کے غزل مجھے پسند نہیں ۔ مرمت کرنے کی بھی اب ہمت نہیں۔ سو طوعاً وکرہاً یونہی رکھ لیا ۔ ۔ مات اور برسات کے بارے میں البتہ رعایت لی جاسکتی ہے ۔ گہری چال ہونا یا گہری چال چلنا شطرنجیوں کی اصطلاح ہے ۔ اسی کی رعایت سے گہری مات ہونا اتنا برا نہیں ۔ اسی طرح دھند اور کہر کا گہرا ہونا معروف ہے سو اسی کی نسبت سے برسات کا گہرا ہونا بھی قابلِ فہم ہے ۔ مسئلہ عموماً تب ہوتا ہے جب اس طرح کی ترکیب یا تو خلافِ واقعہ ہو ، غیر معقول ہو یا خلافِ محاورہ ہو ۔ مثلاً برسات گہری ہوگئی کے بجائے اگر یہ کہا جائے کہ برسات گہری بن گئی تو یقیناً یہ قابلِ قبول نہ ہوگا ۔ اسی طرح کی رعایت میں نے ذات گہری ہوگئی میں بھی لی ہے ۔ ذات گہری ہونا معروف نہیں ۔ لیکن شخصیت گہری ہونا معروف ہے ۔ اسی کی رعایت سے ذات کا گہرا ہونا قابلِ قبول اور گوارا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہئے کہ شاعر کو لفظوں سے کھیلنے کی اجازت تو ہے لیکن حدود و قیودکے اندر۔