::: دونوں عیدوں کے دن اور نمازوں سے متعلقہ مسائل :::


عید الاضحی اور عید الفِطر، شرعی حُکم (حیثیت ) ، اور اہم مسائل
*** شرعی حُکم (حیثیت ) ***
عیدکی نماز ہر ایک مُسلمان پر واجب ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کبھی بھی کِسی بھی عید کی نماز نہیں چھوڑی ، اور دوسروں کویہ نماز پڑھنے اور اِس کا مُشاھدہ کرنے کا شدید حُکم دِیا ہے۔
:::::: دلیل ::::: اُم عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ( اَمَرَنَا رسولُ اللَّہِ صَلی اللَّہُ عَلِیہ وسلم اَن نُخرِجَہُنَّ فی الفِطرِ وَالاَضحَی العَوَاتِقَ وَالحُیَّضَ وَذَوَاتِ الخُدُورِ فَاَمَّا الحُیَّضُ فَیَعتَزِلنَ الصَّلَاۃَ وَیَشہَدنَ الخَیرَ وَدَعوَۃَ المُسلِمِینَ ) قُلت ُ یا رَسُولَ اللَّہِ اِحدَانَا لَا یَکُونُ لہا جِلبَابٌ( قال لِتُلبِّسہَا اُختُہَا من جِلبَابِہَا ) (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (عورتوں ) کو حُکم فرمایا کہ ہم سب (عید )الاضحی اور (عید ) الفِطرمیں( مُصلّے کی طرف )جائیں ، نئی بالغ ہونے والی لڑکیاں ، اور حیض (ماہواری ) کی حالت والیاں، اور جوان کنواریاں (سب کی سب مُصلّے جائیں )لیکن حیض والی عورتیں نماز نہ پڑہیں بلکہ( نماز کی جگہ سے ذرا ہٹ کر) مسلمانوں کی خیر اور دعوت ( اسلام کی تبلیغ) کا مشاہدہ کریں) میں نے کہا :: اے اللہ کے رسول اگر ہم میں سے کِسی کے پاس پردے کے لیے چادر نہ ہو تو وہ کیا کرے ؟:: تو فرمایا ( اُس کی کوئی دوسری (مسلمان) بہن اُسے اپنی چادر میں لپیٹ (کر ساتھ ) لائے ) صحیح البُخاری /کتاب العیدین / باب ٢٠،٢١ ، صحیح مُسلم ، حدیث ٨٩٠ /کتاب صلاۃ العیدین /پہلا باب، اُوپر نقل کیئے گئے اِلفاظ مُسلم کی روایت کے ہیں۔
گو کہ اِن احادیث میں حُکم عورتوں کے لیے ہے ، لیکن یہ بات بالکل سیدھی سادھی ہے کہ مَردوں کے لیے عید کی نماز کی ادائیگی کے لیے مُصلّے جانے کا حُکم بدرجہ اول ہے ، کیونکہ اگر مَرد نہیں جائیں گے تو کیا عورتیں اپنی نماز پڑہیں گی ، اور مسلمانوں کے کون سے اجتماع کی خیر اور دعوت کا مشاہدہ کر سکیں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حُکم عید کے مُصلّے میں حاضر ہونے کو واجب قرار دیتا ہے ، اور اِس حاضری کا سبب عید کی نماز ادا کرنا ہے ، لہذا عید کی نماز ہر مُسلمان پر واجب ہے ، فرضِ کفایہ نہیں اور نہ ہی سُنّت ، اور جمعہ کے دِن عید کی نماز پڑھ لینے کی صورت میں جمعہ کی نماز سے معافی دی گئی ہے ، اِس کا ذِکر اِن شاء اللہ آگے آئے گا ، یہ معاملہ عید کی نماز کے واجب ہونے کی دوسری دلیل ہے ۔
یہاں یہ بات بھی بہت اچھی طرح سے یاد رکھنے کی ہے خواتین کو مُصلّے جانے کا حُکم دِیا گیا ہے ، تو ساتھ ہی ساتھ پردے کے بارے میں بھی یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ جِس کے پاس چادر نہ ہو اُسے اُس کی کوئی بہن اپنی چادر میں لپیٹ کر لائے ، یعنی بے پردگی نہ ہو ، اور نہ ہی کِسی قِسم کی کوئی بے حیائی ہو ، اور نہ ہی مَردوں کے ساتھ میل جول کا کوئی سبب بنے ۔

*** عیدکادِن،تابع فرمانی یا نافرمانی،اِسلامی عزت و وقار کا اِظہار یا کافروں کی غلامی میں اُنکی نقالی کا اِظہار ***
مسئلہ ::::: عید کے دِن کھیل کُود تفریح وغیرہ جائز ہے :::::
انس رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ سے ) مدینہ تشریف لائے تو مدینہ والوں کے لیے دورِ جاھلیت میں سے دو دِن ایسے تھے جِن میں وہ لوگ کھیل کوُد کرتے تھے ( یہ دو دِن یوم النیروز اور یوم المھرجان تھے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( قَدِمتُ عَلَیکُم وَلَکُم یَومَانِ تَلعَبُونَ فِیہِمَا فاِن اللَّہَ قد اَبدَلَکُم یَومَینِ خَیراً مِنہُمَا یوم الفِطرِ وَیَومَ النَّحرِ ) ( میں جب تُم لوگوں کے پاس آیا تو تُم لوگوں کے لیے دو دِن تھے جِن میں تُم لوگ کھیل کُود کرتے تھے ، اللہ نے تُم لوگوں کو اُن دو دِنوں کے بدلے میں اُن سے زیادہ خیر والے دو دِن فِطر کا دِن اور اضحی کا دِن دے دیے ہیں ) مُسند احمد/ جلد ٣/صفحہ ١٧٨،٢٣٥، سلسلہ الاحادیث الصحیحہ حدیث ٢٠٢١۔
جی ہاں ::::: دونوں عیدوں کے دِنوں میں مُسلمانوں کو اجازت دِی گئی کہ وہ کھیل کُود کے ذریعے خود کو خوش کرنا چاہیں تو کر لیں ، اوروہ عام طور پر ایسے کھیل ہوتے تھے جِن میں کافروں کو مرعوب کرنے کے لیے طاقت و قوت اور جنگی مہارت کا اظہار ہوتا تھا ،،،،، نہ کہ ایسے کھیل جِن میں وقت اور مال ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ ، کِسی پردہ و غیرت کے بغیر ، کِسی حد و حیاء کے بغیر مرد و عورت کا اختلاط ہو ، طاقت و قوت و جنگی مہارت کے اظہار کی بجائے عزت و حمیت کی دھجیاں اُڑائی جاتی ہوں۔
جی ہاں ::::: دونوں عیدوں کے دِنوں میں مُسلمانوں کو اجازت دِی گئی کہ وہ دف وغیرہ بجا لیں اور ایسا کلام پڑھ لیں جِس میں شرک و کفر ، بے حیائی و جھوٹ وغیرہ نہ ہو ،،،،، نہ کہ ہر طرف موسیقی کی مجلسوں ( میوزک پارٹیز) کے ذریعے ، عید ملن پارٹیز ،یا اُن کے بغیر شیطان کی ہر آواز ( موسیقی کے آلات ، میوزک انسٹرومنٹس ) بلند کی جائے ،اور جھوٹ ،بے حیائی ، عشق و محبت ، فِسق و فجور ، کفر و شرک پر مبنی شیطانی کلام گایا جائے ، اور مَرد و عورت رقص کرتے ہوں ، جسے اپنی عِزت کا موتی پردے میں چھپا کر رکھنے کا حُکم ہے وہ خوشی کے نام پر اپنا انگ انگ سب کو دِکھاتی رہے ، اور ، نامحرم مَردوں کے ہاتھوں میں کھیلتی رہے، اور ، اور ، اور ۔
جی ہاں ::::: اِن دونوں عیدوں کے دِنوں میں مُسلمانوں کو ایک مُصلّے میں نماز کے ذریعے عظیم اجتماع کی تعلیم دی گئی ، کہ اِسلام اور مسلمانوں کی شان و شوکت کا اِظہار کِیا جائے ، کافروں کو اسلامی شعائر دِکھائے جائیں ، مُسلمانوں کا بھائی چارہ اور باہمی مُحبت و اخوت دِکھائی جائے ،،،،، نہ کہ کافروں کی عیدوں اور تہواروں پر جو کچھ وہ کرتے ہیں وہی کچھ بلکہ اپس سے بھی کچھ بڑھ کر کر کے دِکایا جائے اور اُنہیں یہ تسلی دِلائی جائے کہ ہم اور تُم ایک ہیں ، ناموں کے فرق سے کچھ نہیں ہوتا ، جو تُم کرتے ہیں ہم بھی وہی کرتے ہیں ، لہذا ہم سے ڈرنے کی جرورت نہیں ہم وہ مسلمان نہیں ہیں جو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کا ٹصور بھی نہیں کیا کرتے تھے اور اللہ او راللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکموں کے نفاذ اور اپنے دِین کی سر بلندی کے لیے کِسی سے ڈرتے تھے نہ ہی کِسی کا لحاظ رکھتے تھے ،
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا ::::: کارواں کے دِل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

::::: مضمون جاری ہے :::::
 
گذشتہ سے پیوستہ
*****عید کی نماز کا طریقہ صحیح سُن۔ت کے مُطابق*****
: مسئلہ (١) ::::: عید کی نماز کے لیے نہ اذان ہوتی ہے اور نہ ہی اقامت :::::
::::: دلیل ::::: (١) ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ ( کان رسولُ اللَّہِ صَلی اللَّہُ عَلِیہِ وَسلمَ یَخرُجُ یوم الفِطرِ وَالاَضحَی اِلی المُصَلَّی فَاَوَّلُ شَیء ٍ یَبدَا بِہِ الصَّلَاۃُ ،،، ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فِطر (چھوٹی عید ) کے دِن اور اضحی (بڑی عید ) کے دِن مُصلّے کی طرف تشریف لے جاتے اور (وہاں پہنچ کر ) سب سے پہلے نماز کا آغاز فرماتے ،،، ) صحیح البُخاری ، حدیث ٩١٣ /کتاب العیدین /باب ٦ ، صحیح مُسلم ، حدیث ٨٨٩ / کتاب صلاۃ العیدین کی نویں حدیث۔
:::::دلیل ::::: (٢) جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ ( میںنے ایک دو دفعہ نہیں ، کئی دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دونوں عیدون کی نماز بغیر اذان اور اِقامت کے پڑہی ہے ) صحیح مُسلم ، حدیث ٨٨٧ /کتاب صلاۃ العیدین حدیث ٧
(دلیل ::::: (٣) عبداللہ ابن عباس اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ ( (عید)الفِطر اور(عید ) الاضحی کے دِن ( عیدوں کی نماز کے لیے )کوئی اذان نہ ہوتی تھی ) اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے ( (عید ) فِطر کے دِن (نمازِ عید کے لیے ) کوئی اذان نہیں ، اور جب اِمام( نماز کے لیے )نکلے اور نہ ہی جب (نماز کی جگہ ) پہنچ جائے ، اور نہ ہی کوئی اقامت ہے اور نہ ہی کوئی بھی آواز اور نہ ہی کوئی (اور) چیز ، اُس دِن کوئی آواز نہیں اور نہ ہی اقامت ) صحیح مُسلم ، حدیث ٨٨٦ /کتاب صلاۃ العیدین حدیث ٥ ،
یعنی یہ کہنا کہ صلاۃ العید ، نمازِ عید ، یا گلہ وغیرہ کھنکھارنا ، یا کوئی بھی اور آواز پیدا کر کے لوگوں کو یہ خیال کروانا کہ نماز شروع ہو رہی ہے، وغیرہ ، سب کچھ خِلافِ سُنّت ہے ۔
: مسئلہ (٢) ::::: عید الفِطر کی نماز کی دو رکعتیں ہوتی ہیں :::::
:::::دلیل ::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے خلیفہ بلا فصل عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کا فرمان ہے کہ ( صَلاَۃُ السَّفَرِ رَکعَتَانِ وَصَلاَۃُ الاَضحَی رَکعَتَانِ وَصَلاَۃُ الفِطرِ رَکعَتَانِ وَ صَلاَۃُ الجُمُعَۃِ رَکعَتَانِ تَمَامٌ غَیرُ قَصرٍ علی لِسَانِ مُحَمَّدٍ صلّی اللَّہ عَلِیہ وسلم ) ( سفر میں نماز دو رکعت ہے اور قُربانی والے دِن (بڑی عید )کی نماز دو رکعت ہے ، اور فِطر والے دِن (چھوٹی عید ) کی نماز دو رکعت ہے اور جمعہ کی نماز دو رکعت ہے اور اِن دو دو رکعتوں میں کوئی کمی نہیں (اور یہ حُکم) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زُبان سے ہے ) مُسند احمد /حدیث ٢٥٧ ، سنن النسائی / حدیث ١٤١٩/کتاب الجمعہ/ باب ٣٧، سنن البیھقی الکبریٰ / کتاب الجمعہ/ باب١٥، حدیث صحیح ہے ۔
: مسئلہ (٣) ::::: نماز کا آغاز کِسی بھی اور نماز کی طرح تکبیرِ تحریمہ سے ہو گا ، پہلی رکعت میں تلاوت سے پہلے سات تکبیریں کہی جائیں گی ، اور دوسری رکعت میں سجدے سے کھڑے ہو چکنے کے بعد پانچ تکبیریں :::::
::::: دلیل ::::: اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ ( اَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلی اللَّہُ عَلِیہِ وسَّلَم کَان یُکَبِّرُ فی الفِطرِ وَالاَضحَی فی الاولَی سَبعَ تَکبِیرَاتٍ وفی الثَّانِیَۃِ خَمسًا سِوَی تَکبِیرَتَي الرُّکُوعِ ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فِطراور قُربانی ( والے دِن کی نمازوں میں ) پہلی رکعت میں سات تکبیریں بلندکیا کرتے اور دوسری میں پانچ تکبیریں ، (دونوں رکعتوں کی یہ تکبیریں) رکوع کی تکبیروں کے عِلاوہ ہیں ) سنن ابو داؤد /حدیث ١١٤٤/باب ٢٥٠ التکبیر فی العیدین ، سنن ابن ماجہ /حدیث ١٢٨٠ /کتاب اِقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا/ باب ١٥٦، حدیث صحیح ، اِرواء الغلیل/حدیث ٦٣٩
: مسئلہ (٤) ::::: عید کی نماز میں اضافی تکبیروں کے ساتھ رفع الیدین کرنا ( دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھانا ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ::::: سنن البیہقی میں عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں جو روایت ہے کہ وہ نمازِ جنازہ اور نمازِ عید میں سب تکبیروں کے ساتھ رفع الیدین کیا کرتے تھے ، یہ روایت ضعیف یعنی کمزور ناقابلِ حُجت ہے، اِرواء الغلیل/حدیث ٦٤٠ ،
: مسئلہ (٥) ::::: نمازِ عید کی اضافی تکبیروں کے درمیان کوئی خاص ذِکر کرنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ::::: لیکن عبداللہ ابن مسعود ر ضی اللہ عنہُ سے ثابت ہے کہ( وہ ہردو تکبیروں کے درمیان اللہ کی حمد و ثناء کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ کرتے ) حدیث صحیح اِرواء الغلیل / حدیث ٦٤٢ ،
: مسئلہ (٦) ::::: تکبیروں کے بعد سورت الفاتحہ اوراُسکے بعد مندرجہ ذیل سورتوں میں سے کوئی سورت پڑہی جائے گی:::::
(١)سورت الاعلیٰ ( سَبِّحِ اسمَ رَبِّکَ الاَعلی)(٢) سورت الغاشیہ( وَھَل اَتَاکَ حَدِیثُ الغَاشِیَۃِ ) صحیح مُسلم ، حدیث ٨٧٨ /کتاب الجمعہ /باب١٦ ۔۔۔۔۔ (٣) سورت ق ( قۤ وَالقُرآنِ المَجِیدِ) (٤) سورت الانشقاق ( وَاقتَرَبَت السَّاعَۃُ وَانشَقَّ القَمَرُ ) صحیح مُسلم ، حدیث ٨٩١ /کتاب صلاۃ العیدین / باب ٣۔
: مسئلہ (٧) ::::: اِس کے عِلاوہ عیدکی نمازیں باقی نمازوں کی طرح ہی ہیں کوئی اور فرق نہیں:::::
: مسئلہ (٨) ::::: اگر کِسی کی عید کی نماز رہ جائے ، خواہ کِسی وجہ سے یا جان بوجھ کر چھوڑی ہو تو وہ دو رکعت نماز پڑھے گا ::::: صحیح البخاری / کتاب العیدین / باب ٢٥ کا عنوان ، اور، فتح الباری شرح صحیح البُخاری ،اسی باب کی شرح۔
: مسئلہ (٩) ::::: شافعی مذھب کے مُطابق اگرکوئی اِمام کے ساتھ نمازِ عید نہیں پڑھ پایا تو وہ ( نماز عید کی نیت سے ) دو رکعت نماز پڑہے گا ، گو کہ وہ با جماعت نمازِ عید کی فضیلت حاصل نہیں کر سکا (لیکن وہ اکیلے ہی نمازِ عید پڑہے ) تا کہ اُس نمازِ عید کی فضیلت مل سکے ،،، اور حنفی مذھب کے مُطابق اگر کوئی اِمام کے ساتھ نمازِ عید نہیں پڑھ سکا تو اُسے خود نماز (قضاء کر کے) پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔ شرح تراجم ابوب البخاری / صفحہ ٨٠ ،
: مسئلہ (١٠) ::::: اِمام مالک علیہ رحمۃُ اللہ کا فتویٰ ہے '''اگر کِسی کی نمازِ عید رہ گئی تو ضروری نہیں کہ وہ اُسے (خود سے ) پڑہے نہ ہی مصلیٰ ( نماز پڑہنے کی جگہ ) میں اور نہ ہی گھر میں، لیکن اگر کوئی خود (اپنی) نمازِ عید پڑہے عورت ہو یا مرد ، تو میں کہتا ہوں کہ وہ ( ثابت شدہ سُنّت کے مُطابق) پہلی رکعت میں تلاوت سے پہلے ساتھ تکبیریں کہے اور دوسری رکعت میں تلاوت سے پہلے پانچ تکبیریں ''' المؤطاء /کتاب العیدین / باب ٩ ، مطبوعہ دار الحدیث ، القاھرہ۔
: مسئلہ (١١) ::::: نماز عید سے پیچھے رہ جانے والا جتنی نماز سے رہ گیا اُسے نماز کی کیفیت کے مُطابق مکمل کرے گا ::::: المغنی ، اِمام ابو قدامہ المقدسی۔
: مسئلہ (١٢) ::::: نمازِ عید کی اضافی تکبیریں اور اُن کے درمیان ذِکر سُنّت ہے ، واجب نہیں ، اگر یہ تکبیریں رہ جائیں بھول سے یا جان بوجھ کر تو نماز باطل (ضائع) نہیں ہوگی ::::: المغنی ، اِمام ابو قدامہ المقدسی۔ لیکن جان بوجھ یہ اضافی تکبیریں چھوڑنے والا یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّتِ مُبارکہ کا مُخالف قرار پائے گا ۔
::::: مضمون جاری ہے :::::
 
گذشتہ سے پیوستہ
*** عیدکی نماز کا وقت ***
: مسئلہ (١) ::::: عید الفِطر(چھوٹی عید ) کی نماز کا وقت سورج کے ایک نیزہ (تقریباً تین میٹر ) بلند ہو چکنے پرہے :::::
:::::دلیل ::::: عبداللہ بن بُسر رضی اللہ عنہُ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ عید ( فِطر یا اضحی) کی نمازکے لیے گئے ، اِمام نے دیر کئی تو اُس کے اِس عمل پر انکار کرتے ہوئے فرمایا ( ہم لوگ اِس وقت تک فارغ ہو جایا کرتے تھے ) اور وہ تسبیح کا وقت تھا ::::: سنن ابو داؤد ، حدیث ١١٣٢ /کتاب الصلاۃ / باب ٢٤٥، سنن ابن ماجہ حدیث ١٣١٧ /کتاب اِقامۃ الصلاۃ / باب ١٧٠، المستدرک الحاکم ، حدیث ١٠٩٢/کتاب صلاۃ العیدین کی حدیث ٥ ، سنن البیہقی الکبریٰ، حدیث ٥٩٣٤ / کتاب العیدین /باب ٣٣ ،
تسبیح کے وقت سے مُراد نمازِ ضُحیٰ کا وقت ہے ، یعنی جب سورج طلوع ہوجانے کے بعد مکروہ وقت ختم ہوجاتا ہے ۔ شرح سنن ابن ماجہ ، اِمام ابی الحسن الحنفی السندی ۔
کچھ علماء کا کہنا ہے کہ ، عید الفِطر(چھوٹی عید ) کی نماز کچھ دیر سے ، تاکہ لوگ مُناسب اور دُرُست طور پر فِطرانہ کی ادائیگی کر سکیں، اور عید الاضحی کی نماز جلد پڑہاہی جانی چاہیئے تا کہ لوگوں کو قُربانی کرنے اور بعد کے کاموں سے اچھے طور پر فارغ ہو سکنے کا مُناسب وقت مِل سکے

: مسئلہ (٢) ::::: اگر ِ عید کے ہونے کا پتہ عید کے دِن کافی دیر سے لگے تو اُس دِن کا روزہ کھول دِیا جائے گا اور اگلے دِن عید کی نماز پڑہی جائے گی :::::
:::::دلیل :::::
ابی عمیر بن انس سے روایت ہے کہ ''''' اُن کے دادا خاندان والے جو کہ انصاری صحابہ تھے ، اُن میں سے کچھ نے اِنہیں بتایا کہ ::::: (ایک دفعہ )ہم لوگوں کے لیے شوال کا چاند واضح نہ ہوا پایا ( یعنی ہم لوگ متوقع رات میں شوال کا چاند نہ دیکھ پائے ) تو ہم نے اگلے دِن بھی روزہ رکھ لیا ، دِن کے آخری حصے میں کچھ سوار لوگ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گواہی دِی کہ اُنہوں نے کل رات میں (شوال کا ) چاند دیکھا تھا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اَنصار کو حُکم دِیا کہ( روزے کھول دیں اور اگلے دِن صُبح اپنی عید کی نماز ادا کرنے کے لیے اپنے مُصلیٰ جائیں ) ''''' حدیث صحیح ہے ، سنن ابن ماجہ ،حدیث ١٦٥٣ / کتاب الصیام / باب ٦ ، سنن ابو داؤد ، حدیث ١١٥٤ /کتاب الصلاۃ / باب ٢٥٤ ، سنن النسائی / کتاب صلاۃ العیدین / باب ٢ ، ترجمہ تینوں روایات کے الفاظ کو جمع کر کے کیا گیا ہے ، یہ حدیث اِس بات کی بھی ایک اور دلیل ہے کہ عید کی نماز مسجد میں نہیں بلکہ مُصلّے میں پڑہی جائے گی ، یہ مسئلہ اِنشاء اللہ آگے بیان کیا جائے گا۔
*** نمازِ عید سے پہلے کے مسائل ***
: مسئلہ (١) ::::: صدقہِ الفِطر (فِطرانہ ) نمازِ عید سے پہلے پہلے ادا کر دیا جانا چاہیئے ::::: فِطرانہ کے احکام اور مسائل کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون الگ سے نشر کیا جا چکا ہے :::::
: مسئلہ (٢) ::::: عید کی نماز کے لیے نہانا ::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ ثابت نہیں کہ وہ عید کی نماز کے لیے خصوصی طور پر نہایا کرتے تھے ، سنن ابن ماجہ ، حدیث١٣١٥، کتاب کتاب اِقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا/ باب١٦٩ کی روایت ضعیف یعنی کمزور اور ناقابل حُجت ہے ، کہ اِ سکی سند میں دو راوی (١) جبارۃ بن المُغلس اور (٢) حجاج بن تمیم ضعیف ہیں ، اِرواء الغلیل / حدیث ١٤٦۔
لیکن صحابہ اور تابعین کے بارے میں یہ خبر ملتی ہے کہ وہ عید کی نماز کے لیے غُسل کیا کرتے تھے، لہذا ایسا کرنا پسندیدہ عمل ہے۔
: مسئلہ (٣) ::::: عید کی نماز کے لیے جائز حد میں رہتے ہوئے خوبصورتی (سجاوٹ )اختیار کرنا :::::
(دلیل :::::
عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ اُن کے والد عمر رضی اللہ عنہُ نے بازار سے اِستبرق ( کمخواب ) کا ایک جُبہ( عام لباس کے اُوپر پہننے والا سامنے سے کُھلا ہوا لمبا چوغہ) خریدا اور اُسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہوئے اور کہا ::: اے اللہ کے رسول یہ لے لیجیے اور عید اور (مُلاقات کے لیے آنے والے ) وفود ( وفد کی جمع ) کے لیے سجاوٹ اختیار فرمایا کیجیے ::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِنَّمَا ھَذہِ لِبَاسُ مَن لَا خَلَاق َ لَہ ُ ::: یہ تو اُس کا لباس ہے جِس کا آخرت (کی خیر) میں کوئی حصہ نہیں)پھرجب تک اللہ نے چاہا عمر( رضی اللہ عنہُ )رُکے رہے ، پھر اُس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عُمر (رضی اللہ عنہُ ) کو دیباج (ریشم کی تاروں سے بُنا ہوا کپڑا ) کا ایک جُبہ بھیجا ، تو عُمر (رضی اللہ عنہُ ) وہ جُبہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا ::: اے اللہ کے رسول ، آپ نے فرمایا تھا کہ (یہ تو اُس کا لباس ہے جِس کا آخرت (کی خیر) میں کوئی حصہ نہیں )اور پھر میری طرف یہ جبہ ارسال فرما دِیا ؟::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( یہ جبہ (میں نے ) اِس لیے بھیجا ہے کہ تُم اِسے بیچ لو یا اِس کے ذریعے اپنی کوئی ضرورت پوری کر لو ) صحیح البخاری ، حدیث٩٠٦ /کتاب العیدین / باب ١ ، صحیح مُسلم ، حدیث ٢٠٦٨، کتاب اللباس و الزینہ / باب٢۔
حدیث میں یہ دلیل ہے کہ عید کے لیے سجاوٹ اختیار کرنا تو جائز ہے لیکن شریعت کی حدود سے خارج ہو کر نہیں ، یعنی ایسا لباس پہننا جو ممنوع مواد یا ممنوع ڈھنگ کا ہو یا جِس پر فضول خرچی کی گئی ہو یا جِس میں کوئی بھی اور ممانعت والا کام شامل ہو ، مثلاً مَرد عورتوں کی نقالی نہ کریں جیسا کہ اب ہمارے ہاں نظر آتا ہے کہ مَرد رنگ برنگ کڑہائی اور گوٹے لپے والے کپڑے پہنتے ہیں اور گلے میں دوپٹہ نُما کپڑا بھی لٹکا رکھا ہوتا ہے ، اور عورتیں مَردوں کے ڈھب (سٹائل) کے کپڑے پہن رہی ہیں ، کیونکہ وسیع الخیال مُسلمانوں کی حکومت ہے ۔
: مسئلہ (٤) ::::: عید کی نماز کی ادائیگی مسجد میں نہیں بلکہ بیرونی مُصلیٰ میں کرنا سُنّت ہے :::::
(دلیل ::::
ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ ( کَانَ رسولُ اللَّہ صلی اللَّہ عَلِیہ وسلم یَخرُجُ یوم الفِطرِ وَالاَضحَی اِلی المُصَلَّی )( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فِطر اور اضحی کے دِن (کی نماز ) کے لیے مُصلّے کی طرف جایا کرتے تھے) صحیح البُخاری ، حدیث ٩١٣ /کتاب العیدین /باب ٦ ، صحیح مُسلم ، حدیث ٨٨٩ / کتاب صلاۃ العیدین کی نویں حدیث۔
امام ابن الحاج المالکی رحمۃُ اللہ علیہ کا کہنا ہے ''' دونوں عید کی نماز میں یقینی سُنّت یہ رہی کہ یہ نمازیں (مسجد میں نہیں بلکہ) مُصلیٰ میں ادا کی جائیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ( میری اِس مسجد میں ادا کی گئی نماز کِسی اور مسجد میں ادا کی گئی نماز سے ہزار درجہ بہتر ہے ، سوائے مسجدِ حرام ( مسجدِ کعبہ )کے) صحیح البخاری ، صحیح مسلم ، اور یہ فرمانے کے ساتھ اِس عظیم فضیلت کو چھوڑ کر عیدوں کی نماز اپنی مسجد میں نہیں ادا کی بلکہ باہر مُصلّے میں تشریف لے گئے ''' المدخل /جلد٢/صفحہ٢٨٣ ،
تو یقینی بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کِیا وہ اُس سے زیادہ افضل اور بہتر ہے جِسے چھوڑ دِیا ، لہذا عید کی نماز مسجد میں نہیں بلکہ مُصلّے میں ادا کی جانی چاہیئے ، اِس معاملے میں کچھ فلسفیانہ عذر پیش کیئے جاتے ہیں طوالت کے خوف سے اُن کا ذِکر نہیں کر رہا ہوں ۔
: مسئلہ (٥) ::::: مُصلّے کی طرف ایک راستے سے جایا جائے اور واپس آتے ہوئے دوسرے راستے سے آیا جائے :::::
::::: دلیل :::::
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کا کہنا کہ ( کان النبی صلی اللَّہ عَلِیہ وسلم اِذا کان یَومُ عِیدٍ خَالَفَ الطَّرِیقَ ) ( عید کے دِن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ( مُصلیٰ جانے آنے کا )راستہ بدل لیا کرتے تھے ) صحیح البُخاری حدیث٩٤٣ /کتاب العیدین / باب ٢٤،
ایسا کرنے کی حِکمت کے بارے میں اِماموں اور عُلماء کے کئی اقوال ہیں ، وقت کی کمی کے پیش نظر اُن کا ذِکر نہیں کِیا جا رہا ۔

: مسئلہ (٦) ::::: عید کی نماز کے لیے جاتے ہوئے تکبیر بلند کرنا چاہیئے اور نماز شروع ہونے تک بلند کرتے رہنا چاہیئے::::
::::: دلیل ::::: ( کَان صَلی اللَّہُ عَلِیہِ وَسلمَ یَخرُجُ یَومُ الفِطرِ فَیُکَبِّرُ حَتَی یَاتِی المُصَّلَی وحَتَی یَقضِی الصَّلاۃَ فَاِذا قَضَی الصَّلاۃَ قَطعَ التَّکبِیر ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (عید )فِطر کے دِن (نماز کے لیے) نکلتے تو تکبیر بلند کرتے یہاں تک (اسی حالت میں ) مُصلّے پہنچتے اور نماز ادا فرماتے اور اسکے بعد تکبیر روک دیتے )
سلسۃ الاحادیث الصحیحۃ / حدیث ١٧١ ۔
افسوس کہ اب مسلمانوں میں سے اگر کوئی ایسا کرے تو اُسے ملامت بھری نگاہوںکا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جو شیطان کی آواز بلند کرتے یاسُنتے ہوئے چلے یعنی موسیقی بجاتے یا سُنتے اور گانے گاتے یا سنتے ہوا تو اُسے پسندیدہ نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ، اِنَّا لِلَّہِ وَ اِنَّا اِلِیہِ رَاجَعُونَ ۔
اِس تکبیر کے کوئی الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہوتے ، لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں مندرجہ ذیل صحیح روایات ملتی ہیں ، اِن میں سے کِسی پر بھی عمل کِیا جا سکتا ہے ،
(١) عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہُ یہ تکبیر بلند کِیا کرتے تھے ( اللّہُ اُکبر ، اللّہُ اُکبر ، لااِلَّہ اِلَّا اللَّہَ ، و اللَّہُ اُکبر ، اللّہُ اُکبرُ و لِلَّہِ الحَمد ) مُصنف ابن ابی شیبہ /حدیث ٥٦٣٣ / کتاب الصلوات / باب ١٣۔
(٢) عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ تکبیر بلند کِیا کرتے تھے (اللَّہُ اُکبرُ اللّہُ اُکبرُ ، اللّہُ اُکبرُ و لِلَّہِ الحَمد، ، اللّہُ اُکبرُ و اجلُّ ، ، اللّہُ اُکبرُ عَلَی مَا ھَدَانَا ) سنن البیھقی/ حدیث ٦٠٧٤ / کتاب صلاۃ العیدین / باب ٦٦۔
(٣) سَلمان الفارسی رضی اللہ عنہُ یہ تکبیر بلند کِیا کرتے تھے ( کبِّرُوا اللَّہَ : اللَّہُ اُکبر،اللّہُ اُکبر،اللّہُ اُکبرُ کَبِیرا ) سنن البیھقی / حدیث ٦٠٧٦ / کتاب صلاۃ العیدین / باب ٦٦۔؛؛
ہر مُسلمان اپنی اپنی الگ تکبیر کہتا رہے گا ، اجتماعی تکبیر ، یعنی آواز سے آواز اور لے ملا ملا کر تکبیر کہنا بدعت ہے ، ایسا کرنے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے کہیں کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔
: مسئلہ (٧) ::::: دونوں عیدوں میں پہلا کھانا (ناشتہ ) کب کیا جائے :::::
::::::: عید الفِطر ( چھوٹی عید ، رمضان کی عید ) کا پہلا کھانا :::::::
انس رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ ( فِطر والے دِن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجوریں کھائے بغیر صُبح کا آغاز نہیں فرمایا کرتے تھے ، اور وتر عدد(یعنی تین ، پانچ ، سات جیسا عدد) میں کھایا کرتے تھے) صحیح البُخاری ، کتاب العیدین ، باب ٤ ،
::::::: عید الاضحیٰ ( بڑی عید ، قُربانی والی عید ، بکر عید ، بقر عید ) کا پہلا کھانا ::::::: بُریدہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم ( عید ) فِطر کے دِن کھائے بغیر باہر تشریف نہ لاتے ، اور (عید ) اضحی کے دِن (نماز سے ) واپس تشریف لانے کے بعد اپنی قربانی ( کے جانور کے گوشت ) میں سے کھاتے ) حدیث صحیح ہے ، سنن ابن ماجہ ، حدیث ١٧٥٦/کتاب الصیام /باب ٤٩ ، سنن الترمذی ، حدیث ٥٤٢ ، سنن الدارمی ، حدیث ١٦٠٠/کتاب الصلاۃ / باب ٢١٧ ۔ (ترجمہ مجموعہ روایات میں سے ہے )
*** کیا عید کی نماز سے پہلے یا بعد میں کوئی اور نماز نہیں پڑہی جائے گی؟ ***
:::::دلیل ::::: عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ ( اَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلی اللَّہُ عَلِیہِ وَسَّلمَ خَرَجَ یوم اَضحَی او فِطرٍ فَصَلَّی رَکعَتَینِ لم یُصَلِّ قَبلَہَا ولا بَعدَہَا ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (عید) الاضحی یا (عید )الفطر کے دِن(نماز کے لیے نکلے اور) دو رکعت نماز پڑہی اور اُس سے پہلے اور بعد میں اور کوئی نماز نہیں پڑہی )صحیح مُسلم ، حدیث ٨٨٤ /کتاب صلاۃ العیدین /باب ٢، صحیح البخاری ، حدیث ٩٨٩ /کتاب العیدین /باب ٨ ،سنن ابن ماجہ ، حدیث ١٢٩١ /کتاب اِقامۃ الصلاۃ /باب ١٦٠ ،
اِمام ابن القیم رحمہُ اللہ نے ''' زاد المعاد''' میں لکھا ''' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے صحابہ رضی اللہ عنہم جب (عید کی نماز کے لیے ) مُصلّے پہنچتے تو عید کی نماز سے پہلے اور بعد میں کوئی اور نماز نہیں پڑہا کرتے تھے '''
اِمام ابن حجر العسقلانی نے ''' فتح الباری شرح صحیح البخاری/کتاب صلاۃ العیدین /باب ٢٦''' میں لکھا ''''' حاصلِ( بحث)یہ ہے کہ عید کی نماز سے پہلے یا بعد میں کوئی اور نماز سُنّت سے ثابت نہیں ، اور یہ ( یعنی سُنّت کا معاملہ) اُن لوگوں کے خِلاف ہے جو نمازِ جمعہ پر قیاس کر تے ہیں '''''، یعنی وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ جیسے نمازِ جمعہ سے پہلے اور بعد سُنّت پڑہی جاتی ہے اِسی طرح عید کی نماز سے پہلے یا بعد میں بھی پڑہی جانی چاہیئے اُن کا یہ قیاس باطل ہے کیونکہ خِلافِ سُنّت ہے ، اور یُوں بھی عقیدے اور عِبادات کے مسائل میں قیاس یا اجتھاد کی کوئی گُنجائش نہیں۔
::::: مضمون جاری ہے :::::
 
گذشتہ سے پیوستہ
*** نمازِ عید کے بعد کے مسائل ***
*** عید کے خُطبہ کے مسائل ***
: مسئلہ (١) ::::: دونوں عید وں کے خُطبوں کا آغاز بھی دیگرعام خُطبوں کی طرح اللہ کی حمد و ثناء سے کی جائے گی، کیونکہ ،
: مسئلہ (٢) ::::: عیدوں کے خُطبوں کا آغاز تکبیریا تکبیروں سے کرنا سُنّت سے ثابت نہیں ،اور،
: مسئلہ (٣) ::::: یہ کہ نہ ہی اِن خُطبوں کے دوران یا درمیان میں تکبیریں کہنا سُنّت سے ثابت ہے :::::
عید کے خُطبوں کے درمیان ، دوران ، اور آغاز و اختتام میں تکبیریں بلند کرتے رہنے کی روایت ضعیف یعنی کمزور اور ناقابل حُجت ہے کیونکہ اِس کے راویوں میں سے عبدالرحمان بن سعد ضعیف ہے اور اُس کے والد اور دادا مجھول ہیں یعنی اُن کے حالاتِ زندگی کا پتہ نہیں ، یہ حدیث سنن ابن ماجہ ، حدیث ١٢٨٧، المُستدرک الحاکم ، حدیث ٦٥٥٤ ، سنن البیہقی الکبریٰ ، حدیث ٦٠٠٩ /کتاب صلاۃ العیدین /باب ٥١ ، میں ہے ۔
: مسئلہ (٤) ::::: عید کا خُطبہ ایک ہی حصے پر مُشتمل ہوتا ہے ، جمعہ کے خُطبہ کی طرح دو حصوں میں نہیں::::
عید کا خُطبہ دو حصوں میں ہونے کا ذِکر''' مُسند البزارمیں سے / مسند سعد / حدیث ٥٣ ''' ، کی روایت میں ہے ، اور یہ روایت بھی شدید ضعیف یعنی کمزور اور ناقابلِ حُجت ہے ، کیونکہ اِس کی سند کے مرکزی راوی عبداللہ بن شبیب کے بارے میں اِمام بُخاری کا کہنا ہے کہ ''' مُنکر الحدیث ''' یعنی اِس کی حدیث مُنکر ہوتی ہے ۔
لہذا عید کا خُطبہ ایک ہی حصے پر مُشتمل ہو گا ، جمعے کے خُطبے پر قیاس کرنا غلط ہے ۔
: مسئلہ (٥) ::::: عید کا خُطبہ نمازِ کے بعد ہوتا ہے نہ کہ پہلے ، اور،
: مسئلہ (٦) ::::: عید کے خُطبے کے لیے منبر کا اِستعمال نہیں کِیا جائے گا ::::: دلیل :::::
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ ( شَہِدتُ العِیدَ مَع رَسولَ اللَّہِ صَلی اللَّہُ عَلِیہِ وَسلَّمَ وَاَبِی بَکرٍ وَعُمَرَ وَعُثمَانَ رَضی اللَّہُ عَنہُم فَکُلُّہُم کَانُوا یُصَلُّونَ قَبل الخُطبَۃِ ) ( میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابو بکر، عُمر اور عُثمان (رضی اللہ عنہم ) کے ساتھ عید میں حاضر ہوا (اور دیکھا کہ ) سب کے سب خُطبہ سے پہلے نماز پڑھا کرتے تھے ) صحیح البُخاری ، حدیث ٩٦٢ /کتاب العیدین /باب٨، صحیح مُسلم ، حدیث ٨٨٤ /کتاب صلاۃ العیدین کی پہلی حدیث ۔
نماز ِ عید سے پہلے خُطبہ دینے اور اِس خُطبہ کے لیے منبر اِستعمال کرنے کی بدعت مروان بن عبدالملک امیر(گورنر) مدینہ نے شروع کی ، اُس کے لیے کثیر بن الصلت نے مٹی اور گارے کا منبر تیار کیا تھا ۔صحیح البخاری /کتاب العیدین /باب ٦ ، صحیح مُسلم ، حدیث ٨٨٩/ کتاب صلاۃ العیدین کی دسویں روایت ۔
: مسئلہ (٧) ::::: عید کی نماز کی طرح عید کے خُطبہ میں حاضر رہنا واجب نہیں ہے ::::: دلیل ::::: عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے :: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید کی نماز میں حاضر ہوا ، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کر لی تو فرمایا ( اِنَّا نَخطُبُ فَمَن اَحَبَّ اَن یَجلِسَ لِلخُطبَۃِ فَلیَجلِس وَمَن اَحَبَّ اَن یَذہَبَ فَلیَذہَب ) ( ہم اب خطاب کریں گے لہذا جو چاہے وہ خُطبہ (سُننے )کے لیے بیٹھے اور جو جانا چاہے وہ چلا جائے ) سنن ابو داؤد ، حدیث ١١٥٥/باب ٢٥٤ ، سننن ابن ماجہ ، حدیث ١٢٩١ /کتاب اِقامۃ الصلاۃ/باب ١٦٠، المستدرک الحاکم ، حدیث١٠٩٣، حدیث صحیح ہے۔
:::::مضمون جاری ہے :::::
 
:::::گذشتہ سے پیوستہ ::::: آخری حصہ :::::
*** اگر عید جمعہ کے دِن ہو عید کی نماز پڑہنے کے بعدجمعہ کی نماز چھوڑی جا سکتی ہے ***

::::: دلائل ::::: (١) ::::: ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( قَد اجتَمَعَ فی یَومِکُم ہذا عِیدَانِ فَمَن شَاء َ اَجزَاَہُ مِن الجُمُعَۃِ وَاِنَّا مُجَمِّعُونَ ) ( تُم لوگوں کے آج کے دِن میں دو عیدیں اکٹھی ہو گئی ہیں تو جو چاہے (عید کی نماز کے ذریعے ) جمعہ کو چھوڑے لیکن ہم دونوں نمازیں پڑہیں گے ) سنن ابو داؤد ، حدیث ١٠٦٩ / کتاب الصلاۃ / تفریع ابواب الجمعہ / باب ٢١٥ ، اِمام الالبانی نے کہا حدیث صحیح ہے ۔
:::::دلیل ::::: (٢) ::::: اِیاس بن ابی رملۃ رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے ''' میں معاویہ بن ابی سُفیان رضی اللہ عنہُ کے پاس تھا ، اُنہوں نے زید بن الاَرقم رضی اللہ عنہُ سے پوچھا ::: کیا تُم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی دِن میں دو عیدیں دیکھی ہیں؟ (یعنی جمعہ کے دِن عید الفِطر یا عید الاَضحی ) ::: زید رضی اللہ عنہُ نے کہا ::: جی ہاں ::: معاویہ بن ابی سُفیان رضی اللہ عنہ نے پوچھا ::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کِیا تھا ؟ ::: زید رضی اللہ عنہُ نے کہا ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑہی اور پھر جمعہ کی نماز میں رُخصت ( نہ پڑہنے کی اجازت) دیتے ہوئے فرمایا ( مَن شَاءَ اَن یُصَلِّی فَلیُصَلِّ):):: جو (جمعہ کی نماز) پڑہنا چاہے وہ پڑھ لے ( یعنی جو نہ چاہے وہ نہ پڑہے)) سنن ابو داؤد ، حدیث ١٠٦٦ / کتاب الصلاۃ / تفریع ابواب الجمعہ / باب ٢١٥ ، سنن ابن ماجہ ، حدیث ١٣١٠ /کتاب اِقامۃ الصلاۃ/ باب١٦٦، اِمام علی بن المدینی نے صحیح قرار دِیا ، بحوالہ ''' التلخیص الحبیر ''' اور اِمام الالبانی نے بھی صحیح قرار دِیا ،
:::::دلیل ::::: (٣) ::::: ایک دفعہ عید جمعہ کے دِن ہو گئی تو علی رضی اللہ عنہُ نے فرمایا ( مَن اَرادَ اَن یُجَمِّعَ فَلیُجَمِّع ، ومَن اَرادَ اَن یَجلِسَ فَلیَجلِس) ( جو دونوں نمازیں پڑہنا چاہے تو پڑہے اور جو بیٹھنا چاہے تو بیٹھے) اِمام سفیان الثوری نے کہا اِس کا مطلب ہے کہ ''' جو( جمعہ نہ پڑھنا چاہے اور) اپنے گھر میں بیٹھنا چاہے تو بیٹھے''' مصنف عبدالرزاق ،حدیث ٥٧٣١ / کتاب صلاۃ العیدین /باب ١٨ اجتماع العیدین ، مُصنف ابن ابی شیبہ ، حدیث ٥٨٣٩ / کتاب الصلوات /باب ٤٣٣ فی العِیدانِ یَجتَمِعانِ یَجزِیءُ اِحدُھما مِن الآخر ، حدیث صحیح ہے ۔
:::::دلیل :::: (٤) ::::: عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے دور میں عید جمعہ کے دِن ہوئی تو اُنہوں نے صرف عید کی نماز اور جمعہ کی نماز کو جمع کر لیا اور جمعہ کی نماز نہیں پڑہی بلکہ عید کی نماز پڑہنے کے بعد (عصرکے وقت ) عصرکی نماز پڑہی ::::: سنن ابو داؤد ، حدیث ١٠٦٨ / کتاب الصلاۃ / تفریع ابواب الجمعہ / باب ٢١٥ ، اِمام الالبانی نے کہا حدیث صحیح ہے ۔

*** عید کی مُبارک باد ***
صحابہ رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کو عید کی مُبارک باد کے طور پر کہا کرتے تھے :::
::: تَقَبَّلَ اللَّہ ُ مِنَّا و مِنکُم :::اللہ ہم سے اور تُم سے( ہمارے نیک عمل ) قُبُول فرمائے :::
’’’ ماہ شوال اور ہم ‘‘‘ کے مضامین میں اِس موضوع پر تفصیلی بات کر چکا ہوں
عید الاضحی ( قربانی والی عید) کے کچھ مسائل قربانی والے مضامین میں بیان کر چکا ہوں الحمد للہ ، اور کچھ مزید کرنے کا ارادہ ہے ، اِن شاء اللہ تعالیٰ بعد یا تو کسی الگ مضومن کی صورت میں پیش کروں گا اور یا اسی مضمون میں اضافہ کر کے دوسرے اصدار کی‌صورت میں ان شا اللہ ۔
اس موجودہ مضمون کو برقی کتاب کی صورت میں مندرجہ ذیل ربط سے اتارا جا سکتا ہے ،
http://s2.orbitfiles.com/index.php?link ... 07&force=1
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق سننے سمجھنے قُبُول کرنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ۔ طلبگارِ دُعا ، عادِل سُہیل ظفر ۔
 
جزاک اللہ خیرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عادل بھائی آپ نے لکھا ہے ۔
عید کی نماز میں اضافی تکبیروں کے ساتھ رفع الیدین کرنا ( دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھانا ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ::::: سنن البیہقی میں عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں جو روایت ہے کہ وہ نمازِ جنازہ اور نمازِ عید میں سب تکبیروں کے ساتھ رفع الیدین کیا کرتے تھے ، یہ روایت ضعیف یعنی کمزور ناقابلِ حُجت ہے، اِرواء الغلیل/حدیث ٦٤٠ ،
اگر اس کے تائید میں کوئی اور قوی حدیث آئے تو قبول کیا جائے گا یا نہیں ؟
مثلاً ذیل میں ہے ۔
ابن عمر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) رکوع سے پہلے ہر تکبیر میں رفع الیدین کرتے تھے۔
بحوالہ مسند احمد ، حدیث:6046
حافظ ابن حجر العسقلانی اپنی تصنیف کردہ کتاب "تلخيص الحبير في أحاديث الرافعي الكبير" جلد:2 میں لکھتے ہیں :
اس روایت (مسند احمد : 6046) سے امام بیھقی اور امام ابن المنذر رحمہما اللہ نے استدلال کیا ہے کہ تکبیرات عید میں رفع یدین کرنا چاہئے۔
بحوالہ :
التلخيص الحبير لابن حجر العسقلاني
ج:2 ، ص:83
حدیث : 692
ڈاؤن لوڈ ربط : یہاں
 
جزاک اللہ خیرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عادل بھائی آپ نے لکھا ہے ۔

اگر اس کے تائید میں کوئی اور قوی حدیث آئے تو قبول کیا جائے گا یا نہیں ؟
مثلاً ذیل میں ہے ۔
ابن عمر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) رکوع سے پہلے ہر تکبیر میں رفع الیدین کرتے تھے۔
بحوالہ مسند احمد ، حدیث:6046
حافظ ابن حجر العسقلانی اپنی تصنیف کردہ کتاب "تلخيص الحبير في أحاديث الرافعي الكبير" جلد:2 میں لکھتے ہیں :
اس روایت (مسند احمد : 6046) سے امام بیھقی اور امام ابن المنذر رحمہما اللہ نے استدلال کیا ہے کہ تکبیرات عید میں رفع یدین کرنا چاہئے۔
بحوالہ :
التلخيص الحبير لابن حجر العسقلاني
ج:2 ، ص:83
حدیث : 692
ڈاؤن لوڈ ربط : یہاں
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ خیرا ، بھائی مون لائیٹ ، اگر اسی طرح توجہ سے پڑھنے والے پیسر ہوں تو بہت اصلاح ہو جائے ، ان شا اللہ ،
سب سے پہلے تو آپ کے اس سوال کا شکریہ ، کہ اس سے مجھے ایک غلطی کا انداز ہوا ، اور وہ یہ کہ عمر رضی اللہ عنہ کی جگہ عبداللہ ابن عمر لکھا گیا ہے ، جزاک اللہ خیر ا، میں اس کی اصلاح کیے دیتا ہوں ،
اور دوسری گذارش یہ کہ اس وقت میں اپنی لائیبریری سے دور ہوں ، شاید دو یا تین دن کے لیے ، پس تفصیلی جواب نہیں دے پاوں گا ،
اتنی گذارش کرتا چولں کہ عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما والی روایت جس کی بنا پر امام ابن المنذر اور امام بیھقی کی طرف سے عید کی اضافی تکبیروں کے ساتھ رفع الیدین کرنے کی دلیل لی گئی ہے وہ عید کی نماز کے بارے میں نہیں ،
عیدوں اور جنازے کی نماز کی اضافی تکبیروں کے علاوہ دوسری نمازوں کی تکبیروں اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے اُٹھتے ہوئے فرع الیدین کرنا ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے انکار کی کوئی صحیح ثابت شدہ علمی دلیل نہیں ،
ان شا اللہ تعالیٰ ، عیدوں کی نمازوں میں اضافی تکبیرات کے ساتھ فرع الیدین والے معاملے کی مزید تفصیل چند دن بعد ارسال کروں گا ، امید ہے آپ میرا عذر قبول فرمایں گے ، و السلام علیکم۔
 
جزاک اللہ خیرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عادل بھائی آپ نے لکھا ہے ۔

اگر اس کے تائید میں کوئی اور قوی حدیث آئے تو قبول کیا جائے گا یا نہیں ؟
مثلاً ذیل میں ہے ۔
ابن عمر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) رکوع سے پہلے ہر تکبیر میں رفع الیدین کرتے تھے۔
بحوالہ مسند احمد ، حدیث:6046
حافظ ابن حجر العسقلانی اپنی تصنیف کردہ کتاب "تلخيص الحبير في أحاديث الرافعي الكبير" جلد:2 میں لکھتے ہیں :
اس روایت (مسند احمد : 6046) سے امام بیھقی اور امام ابن المنذر رحمہما اللہ نے استدلال کیا ہے کہ تکبیرات عید میں رفع یدین کرنا چاہئے۔
بحوالہ :
التلخيص الحبير لابن حجر العسقلاني
ج:2 ، ص:83
حدیث : 692
ڈاؤن لوڈ ربط : یہاں

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
بھائی مون لائیٹ ، آپ کے مندرجہ بالا سوال کا جواب حاضر ہے ، انتظار کرنے کا شکریہ ، اور سوال کرنے کا بھی شکریہ ، اور جزاک اللہ خیرا ،
الحمد للہ دو دن پہلے میں اپنے ٹھکانے پر پہنچا اور پہلی ہی فرصت میں آپ کے لیے یہ معلومات ترتیب دی ،
امام ابن حجر رحمہ اللہ کی بات سے آغاز کرتے ہیں ،

قال امام ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے """ تلخیص الحبیر ، مجلد ۲، کتاب صلاۃ العیدین ، کی حدیث رقم 692، کے بعد لکھا ہے """ وَاحْتَجَّ بن الْمُنْذِرِ وَالْبَيْهَقِيُّ بِحَدِيثٍ رَوَيَاهُ من طَرِيقِ بَقِيَّةَ عن الزُّبَيْدِيِّ عن الزُّهْرِيِّ عن سَالِمٍ عن أبيه في الرَّفْعِ عِنْدَ الْإِحْرَامِ وَالرُّكُوعِ وَالرَّفْعِ منه وفي آخِرِهِ وَيَرْفَعُهُمَا في كل تكبير ( ( ( تكبيرة ) ) ) يُكَبِّرُهَا قبل الرُّكُوعِ """

امام ابن المنذر اور امام البیھقی رحمہما اللہ نے جس حدیث کو رکوع سے پہلے سب تکبیروں کے ساتھ رفع الیدین کرنے کی دلیل سمجھا اور جس سند سے انہوں نے اس حدیث کو روایت کیا ، جو سند مندرجہ بالا اقتباس میں امام ابن حَجر رحمہ اللہ نے ذکر کی ،
اُس سند کے بارے میں امام الالبانی کا کہنا ہے """ . قلت : وبقية مدلس وقد عنعنه ، وبه أعله ابن التركماني في " الجوهر النقي " ، لكن قد صرح بالتحديث عند أبي داود ( 722 ) والدارقطني ( ص 108 ) فزالت شبهة تدليسه . """ الاِرواءُ الغلیل ، جلد 3 ، ص 112 ، حدیث640، کی تخریج ،
یعنی عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے لیے ان دونوں کی اپنی سند تو ناقابل حجت ہے ، لیکن اُن کی سند میں جو نقص ہے وہ سنن ابی داؤد اور سنن الدارقطنی کی اسناد میں نہیں ہے ، اب دیکھتے ہیں کہ امام الالبانی کی یہ بات درست ہے کہ نہیں ، تو ان دونوں کتابوں میں اس حدیث کی سند دیکھتے ہیں ،، ،

حدثنا محمد بن الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ ثنا بَقِيَّةُ ثنا الزُّبَيْدِيُّ عن الزُّهْرِيِّ عن سَالِمٍ عن عبد اللَّهِ بن عُمَرَ قال ((( كان رسول اللَّهِ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم إذا قام إلى الصَّلَاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حتى تكونا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ كَبَّرَ وَهُمَا كَذَلِكَ فَيَرْكَعُ ثُمَّ إذا أَرَادَ أَنْ يَرْفَعَ صُلْبَهُ رَفَعَهُمَا حتى تكونا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ قال سمع الله لِمَنْ حَمِدَهُ ولا يَرْفَعُ يَدَيْهِ في السُّجُودِ وَيَرْفَعُهُمَا في كل تَكْبِيرَةٍ يُكَبِّرُهَا قبل الرُّكُوعِ حتى تَنْقَضِيَ صَلَاتُهُ )))
سنن ابی داؤد ، حدیث 722 ، کتاب الصلاۃ ، باب117 ، أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ بَاب رَفْعِ الْيَدَ ينِ في الصَّلَاةِ ،
سنن الدار قُطنی ، کتاب الصلاۃ ، باب 27 ، باب ذكر التكبير ورفع اليدين عند الافتتاح والركوع والرفع منه وقدر ذلك واختلاف الروايات ، کی تیسری حدیث ، کی سند بقیۃ تک یوں آتی ہے ، حدثنا الحسين بن إسماعيل المحاملي ومحمد بن سليمان الباهلي قالا نا أبو عتبة أحمد بن الفرج ثنا بقیۃ ،،،،،،،،،،،،،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ امام الالبانی نے یہ بھی ذکر کیا کہ یہ حدیث ایک اور صحیح سند سے مُسند احمد میں بھی میسر ہے ، اور وہ روایت مندرجہ ذیل ہے ،
حدثنا عبد اللَّهِ حدثني أبي ثنا يَعْقُوبُ ثنا بن أخي بن شِهَابٍ عن عَمِّهِ حدثني سَالِمُ بن عبد اللَّهِ ان عَبْدَ اللَّهِ قال ((( كان رسول اللَّهِ لی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم إذا قام إلى الصَّلاَةِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حتى إذا كَانَتَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ كَبَّرَ ثُمَّ إذا أَرَادَ ان يَرْكَعَ رَفَعَهُمَا حتى يَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ كَبَّرَ وَهُمَا كَذَلِكَ رَكَعَ ثُمَّ إذا أَرَادَ ان يَرْفَعَ صُلْبَهُ رَفَعَهُمَا حتى يَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ قال سمع الله لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ يَسْجُدُ وَلاَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ في السُّجُودِ وَيَرْفَعُهُمَا في كل رَكْعَةٍ وَتَكْبِيرَةٍ كَبَّرَهَا قبل الرُّكُوعِ حتى تنقضي صَلاَتُهُ )))
مسند أحمد ، حدیث 6175 ، جلد2 ، صفحہ531، مسند عبداللہ بن عمر بن الخطاب کی حدیث رقم 1727 ، (مطبوعہ عالم الکتب ، بیروت)
--------------------------------------------------------------------------------
اور اس روایت کے ذکر کے بعد امام الالبانی نے لکھا """"" قلت : وهذا سند صحيح على شرط الشيخين ، وابن أخي الزهري اسمه محمد بن عبد الله بن مسلم . لكن الاستدلال بهذه الجملة التي في آخر الحديث على ما ذهب إليه ابن المنذر والبيهقي ، لا يخلو من بعد ، ذلك لأن سياق الحديث في وصف الرفع في الصلاة المكتوبة التي ليس فيها تكبيرات الزوائد الخاصة بصلاة العيد ، والقول بأن ابن عمر أردها في هذا الحديث مما لا يساعد عليه السياق . والله أعلم .""""" الاِرواءُ الغلیل ، جلد 3 ، ص 112 تا 115 ، حدیث640 اور641 ، ملاحظہ فرمایے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام الالبانی نے مندرجہ بالا بات میں جو کہا کہ """ اس حدیث میں رفع الیدین کرنے کا جو بیان ہے وہ فرض نمازوں کی کیفیت (طریقہ) کے بیان میں ہے جن میں اضافی تکبیریں نہیں ہوتی ہیں جو کہ عید کی نماز میں ہوتی ہیں """
امام الالبانی کی اس بات کی دلیل ، ائمہ حدیث کی کتابوں کےاُن ابواب کے عناوین ہیں جن میں انہوں نے یہ حدیث ذکر کی ہے ،
اور مزید یہ کہ اسی کیفیت کا بیان دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف سے بھی میسر ہے ، جو یہ واضح کرتا ہے کہ ، عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کی مندرجہ بالا روایت میں """ وَيَرْفَعُهُمَا في كل رَكْعَةٍ وَتَكْبِيرَةٍ كَبَّرَهَا قبل الرُّكُوعِ """ میں سے """ کل تَکبِیرۃ """" کا کیا مفہوم ہے ؟ مثلا ، مندرجہ ذیل روایت ملاحظہ فرمایے ،

عَلِيِّ بن أبي طَالِبٍ رضي الله عنه رسول اللَّهِ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نماز کی کیفیت بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ((( أَنَّهُ كان إذا قام إلى الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ وَيَصْنَعُ مِثْلَ ذلك إذا قَضَى قِرَاءَتَهُ وَأَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ وَيَصْنَعُهُ إذا رَفَعَ من الرُّكُوعِ ولا يَرْفَعُ يَدَيْهِ في شَيْءٍ من صَلَاتِهِ وهو قَاعِدٌ وإذا قام من السَّجْدَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْهِ كَذَلِكَ وَكَبَّرَ ))) سنن ابی داود ، کتاب الصلاۃ ، باب122،

عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کی روایت ، کا متن بالکل واضح ہے کہ اس میں رفع الیدین عیدین کی نمازوں میں اضافی تکبیروں کے ساتھ کرنے کا ذکر نہیں اور نہ ہی اُن تکبیروں کے لیے اس کو روایت کو دلیل بنانے کا کوئی ذریعہ ہے ،
دوسری روزمرہ پڑھی جانے والی نمازوں میں رفع الیدین بالکل ثابت ہے اور اس کے انکار کی کوئی علمی دلیل میسر نہیں ،
اللہ اُن عُلماء کی قبروں کو اپنی رحمتوں سے بھر دے جنہوں نے اتنی باریک بینی سے معاملات کی چھان بین کی اور کسی مذہبی ، مسلکی ضد کے بغیر بات ظاہر کی ، اور ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے کہ ہم بھی حق بات کو بلا تردد قبول کر سکیں ،
بھائی رئیل لائٹ ان معلومات کے بعد بھی مزید کوئی ملاحظہ یا سوال ہو تو ضرور سامنے لایے گا ، اس طرح بھی ہم ایک دوسرے کے لیے سیکھنے اور ان شا اللہ حق بات تک پہنچنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں ،
میں عربی عبارات کا ترجمہ نہیں کیا ، اگر آپ کے لیے کوئی پریشانی یا اشکال ہو تو بتا دیجیے گا ، ان شا اللہ ترجمہ کر دوں گا ،
و السلام علیکم۔
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
ان شاء اللہ عید الفطر کی آمد ہے ، عید سے متعلقہ اہم بنیادی مسإئل کی یاد دہانی کے لیے اس دھاگے کو تازہ کر رہا ہوں ، اور یہ درخواست بھی ہے کہ اپنی عید کی خوشیوں کو حقیقی لذت دینے کے لیے اپنے سیلاب زدگان بھائیوں بہنوں کو مت بھولیے گا ، جہاں تک ممکن ہو اپنی خوشیاں ان کے ساتھ بانٹیے گا ، ان شاء اللہ ایسا سُرور میسر ہو گا جو سابقہ عیدوں میں نہ ملا ہو گا ، و السلام علیکم۔
 
وعلیکم السلام
ماشاءاللہ ،قوی دلائل سے مزین انتہائی اہم موضوعات پوسٹ کئے ہیں۔اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
جزاکم اللہ خیرا
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
الحمد للہ ، ایک دفعہ پھر ہماری زندگیوں میں عید الفطر آنے والی ہے ، اس سے متعلقہ مسإئل کی تذکیر کے لیے اس دھاگے کو پھر سے سامنے لا رہا ہوں ،و السلام علیکم۔
 

شمشاد

لائبریرین
جزاک اللہ عادل بھائی۔
بہت ہی معلوماتی دھاگہ ہے۔
خاص کر نئے اراکین محفل کے لیے اور وہ اراکین جنہوں نے پہلے نہیں پڑھا۔
 
Top