ڈاکٹر جوشن نے پوچھا کہ آج کل پاکستان میں لبرل فاشزم کا بہت ذکر ہوتا ہے، یہ کیا چیز ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد امریکہ کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف شروع کی جانے والی جنگ نے پاکستانی معاشرے کو تقسیم کر دیا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو امریکہ کو دوست نہیں بلکہ دشمن سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ امریکہ کی جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف ہے اور اس جنگ میں امریکہ ڈالروں کے عوض مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ یہ لوگ بعض قبائلی روایات کو اسلام قرار دینے پر مُصر رہتے ہیں، کوئی اپنی مرضی سے کہیں بھی کسی لڑکی کو کوڑے مارنے شروع کر دے تو یہ لوگ اس عمل کو قرآنی آیات کے حوالے دے کر جائز ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو مذہبی انتہا پسند سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں، جو خود کو لبرل اور سیکولر کہتے ہیں، لیکن حقیقت میں مذہب سے بیزار ہیں اور مذہبی لوگوں سے شدید نفرت کہتے ہیں۔ ان لوگوں کے سیاسی و معاشی مفادات امریکی پالیسیوں کے دفاع سے مشروط ہیں، لیکن یہ کھل کر امریکہ کی حمایت کرنے سے کتراتے ہیں، تاہم امریکہ کی خوشنودی کیلئے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں فوجی طاقت کے اندھے استعمال کی حمایت کرتے ہیں، ڈرون حملوں کے حق میں انتہائی بے ڈھنگی دلیلیں پیش کر کے اپنے اصلی آقاؤں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، قبائلی عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی بات کرنے والوں کو ملک دشمن قرار دیتے ہیں، لیکن سفارتی تقاریب میں بیئر کا بڑا سا مگ اپنے دائیں ہاتھ میں تھام کر بھارتی سفارت کاروں کو یقین دلارہے ہوتے ہیں کہ حضور ! ہم تو لاہور اور فیصل آباد میں بم دھماکے کرنے والے سربجیت سنگھ کی رہائی کیلئے صدر آصف علی زرداری کو روز خط لکھ رہے ہیں۔ امریکہ اور بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا پاکستان میں دفاع کرنے والوں کو لبرل فاشسٹ کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر جوشن نے پوچھا کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندوں اور لبرل فاشسٹوں میں سے زیادہ حمایت کسے حاصل ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ مذہبی انتہا پسندوں کی حمایت دور دراز پسماندہ قبائلی علاقوں میں زیادہ ہے جہاں ابھی تک علم کی روشنی نہیں پہنچی جبکہ لبرل فاشزم کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے امیر طبقے میں زیادہ نظر آتا ہے۔ اس طبقے کے کچھ لوگوں نے جولائی 2007ء میں اپنے فرقہ وارانہ تعصب کو ریاست کی عمل داری کی جنگ قرار دے کر جنرل پرویز مشرف کو اسلام آباد کی لال مسجد پر چڑھ دوڑنے کا مشورہ دیا۔ آج ان ہی متعصب عناصر نے صدر آصف علی زرداری کو گھیر رکھا ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت نہ تو مذہبی انتہا پسندوں کے ساتھ ہے اور نہ ہی ان لبرل فاشسٹوں کے ساتھ ہے بلکہ ہماری قوم ان دونوں کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر جوشن ہیلپر جرمنی کی یونیورسٹی آف ڈوئس برگ کے انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اینڈ پیس میں ریسرچ فیلو ہے۔ وہ پچھلے کئی سالوں سے مغرب اور مسلمانوں کے درمیان بڑھتے ہوئے ذہنی فاصلوں پر تحقیق کر رہا ہے۔ پاکستان پر جرمن زبان میں ایک کتاب لکھ چکا ہے، تاہم مسلم معاشروں میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر اس کی ایک حالیہ کتاب کو جرمن کے علاوہ عربی اور انگریزی زبان میں بھی شائع کیا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے برلن میں پاک جرمن میڈیا ڈائیلاگ کے موقع پر ڈاکٹر جوشن سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ میں صرف ڈاکٹر جوشن کو ملنے کیلئے محض ایک دن کیلئے جرمنی گیا۔ کانفرنس میں چائے اور کھانے کے وقفے کے دوران ڈاکٹر جوشن مجھ سے پاکستان کے موجودہ حالات کے بارے میں سوالات کرتا رہا۔ اس کی کتاب ” وار، ریپریشن اینڈ ٹیرر ازم “ پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ پاکستان کو بڑی اچھی طرح جانتا ہے۔ وہ اس رائے سے اتفاق کرتا ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت نہ تو مذہبی انتہا پسند ہے اور نہ ہی لبرل فاشزم کو پسند کرتی ہے۔ ڈاکٹر جوشن فلسطین، عراق، افغانستان، لبنان اور دیگر ممالک میں اپنے تجربات کی روشنی میں کہتا ہے کہ خودکش حملہ آوروں کو ایف 16 طیاروں اور ٹینکوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ زیادہ تر خودکش حملہ آور ایسے نوجوان بنتے ہیں، جن کے والدین یا عزیز فضائی بمباری کا نشانہ بنتے ہیں یا جنہیں دوران حراست شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسے نوجوانوں کی زندگی کا مقصد صرف انتقام بن جاتا ہے اور جب تک بمباری جاری رہتی ہے، خودکش حملہ آور پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر جوشن کی تحقیق کے مطابق تامل ٹائیگرز یا ترکی کے کرد گوریلوں کے خودکش حملوں کا مقصد جنت کا حصول نہیں بلکہ سیکورٹی فورسز سے انتقام لینا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر جوشن کہتے ہیں کہ جب تک فلسطین کے علاقوں پر اسرائیلی فوج، کشمیریوں کی سرزمین پر بھارتی فوج اور افغانستان و عراق میں امریکی فوج موجود رہے گی، مسلمان نوجوانوں کو امن پسندی کا درس دینا منافقت کے سوا کچھ نہیں۔ ڈاکٹر جوشن نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ امریکہ مسلم ممالک میں دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ ان ممالک کے قدرتی وسائل پر قبضے کی جنگ لڑ رہا ہے اور یہ جنگ دنیا کو تہذیبوں کے تصادم کی طرف دھکیل رہی ہے۔ جب اس نے بار بار کہا کہ سوات کے طالبان دراصل سماجی نا انصافیوں کی پیداوار ہیں اور جب تک یہ نا انصافیاں ختم نہیں ہوتیں، طالبان ختم نہ ہوں گے، تو میں ہنس دیا۔ ڈاکٹر جوشن نے کہا کہ تم ہنستے کیوں ہو؟ میں نے جواب میں کہا کہ اگر آپ یہ باتیں پاکستان میں جا کر کریں تو لبرل فاشسٹ آپ کو طالبان کا ایجنٹ قرار دے کر امیر عزت خان کی طرح بم دھماکے میں ” پار “ کر دینے کا مشورہ دیں گے۔ یہ سن کر ڈاکٹر جوشن چند لمحوں کیلئے خاموش ہو گیا اور پھر کچھ توقف کے بعد کہنے لگا کہ نا انصافی، جہالت اور بے روزگاری سے جنم لینے والی عسکریت کو صرف فوجی طاقت سے ختم کرنا ممکن نہیں، اس کیلئے سیاسی و سماجی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
مسلمانوں پر ظلم صرف مسلمان کی سرزمین پر نہیں بلکہ جرمنی میں بھی ہو رہا ہے۔ جرمنی کی ایک عدالت میں 31 سالہ مصری خاتون مروا کا وحشیانہ قتل مغربی معاشروں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ مروا نے پچھلے سال اگست میں اپنے ایک جرمن ہمسائے ایلکس کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا۔ مروا نے الزام لگایا تھا کہ وہ ایک پارک میں اپنے تین سالہ بیٹے مصطفیٰ کے ساتھ کھیل رہی تھی کہ ایلکس وہاں آگیا اور اس نے میرے حجاب کی وجہ سے مجھے دہشت گرد اسلامسٹ کہا۔ جس دن عدالت نے ایلکس کو 750 یورو کا جرمانہ کیا تو ملزم نے عدالت میں خنجر سے مروا پر حملہ کر دیا۔ ملزم نے مروا پر خنجر کے 18 وار کئے۔ اس دوران مروا کا خاوند اسے بچانے آیا تو پولیس نے خاوند کو گولی مار دی اور ملزم محفوظ رہا۔ تین سالہ مصطفی کے سامنے اس کی حاملہ ماں کو قتل کر دیا گیا۔ ملزم ایلکس کا تعلق جرمنی کی نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی سے ہے، جو مسلمانوں کی مخالف ہے اور جرمنی میں مساجد کی تعمیر کے خلاف مظاہرے بھی کر چکی ہے۔ مجھے افسوس صرف ان پاکستانی لبرل فاشسٹوں پر ہے جو سوات میں ایک لڑکی پر کوڑے برسنے کی فلم دیکھ کر اسلام آباد سے واشنگٹن تک سڑکوں پر نکل آئے لیکن اپنے حجاب کی وجہ سے شہید کی جانے والی مروا کا خون انہیں نظر نہیں آیا۔ عورتوں پر کوڑے برسانے والے اور خنجروں کے وار کرنے والے دراصل ایک ہی طرح کے لوگ ہیں۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=361950
ڈاکٹر جوشن ہیلپر جرمنی کی یونیورسٹی آف ڈوئس برگ کے انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اینڈ پیس میں ریسرچ فیلو ہے۔ وہ پچھلے کئی سالوں سے مغرب اور مسلمانوں کے درمیان بڑھتے ہوئے ذہنی فاصلوں پر تحقیق کر رہا ہے۔ پاکستان پر جرمن زبان میں ایک کتاب لکھ چکا ہے، تاہم مسلم معاشروں میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر اس کی ایک حالیہ کتاب کو جرمن کے علاوہ عربی اور انگریزی زبان میں بھی شائع کیا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے برلن میں پاک جرمن میڈیا ڈائیلاگ کے موقع پر ڈاکٹر جوشن سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ میں صرف ڈاکٹر جوشن کو ملنے کیلئے محض ایک دن کیلئے جرمنی گیا۔ کانفرنس میں چائے اور کھانے کے وقفے کے دوران ڈاکٹر جوشن مجھ سے پاکستان کے موجودہ حالات کے بارے میں سوالات کرتا رہا۔ اس کی کتاب ” وار، ریپریشن اینڈ ٹیرر ازم “ پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ پاکستان کو بڑی اچھی طرح جانتا ہے۔ وہ اس رائے سے اتفاق کرتا ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت نہ تو مذہبی انتہا پسند ہے اور نہ ہی لبرل فاشزم کو پسند کرتی ہے۔ ڈاکٹر جوشن فلسطین، عراق، افغانستان، لبنان اور دیگر ممالک میں اپنے تجربات کی روشنی میں کہتا ہے کہ خودکش حملہ آوروں کو ایف 16 طیاروں اور ٹینکوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ زیادہ تر خودکش حملہ آور ایسے نوجوان بنتے ہیں، جن کے والدین یا عزیز فضائی بمباری کا نشانہ بنتے ہیں یا جنہیں دوران حراست شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسے نوجوانوں کی زندگی کا مقصد صرف انتقام بن جاتا ہے اور جب تک بمباری جاری رہتی ہے، خودکش حملہ آور پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر جوشن کی تحقیق کے مطابق تامل ٹائیگرز یا ترکی کے کرد گوریلوں کے خودکش حملوں کا مقصد جنت کا حصول نہیں بلکہ سیکورٹی فورسز سے انتقام لینا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر جوشن کہتے ہیں کہ جب تک فلسطین کے علاقوں پر اسرائیلی فوج، کشمیریوں کی سرزمین پر بھارتی فوج اور افغانستان و عراق میں امریکی فوج موجود رہے گی، مسلمان نوجوانوں کو امن پسندی کا درس دینا منافقت کے سوا کچھ نہیں۔ ڈاکٹر جوشن نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ امریکہ مسلم ممالک میں دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ ان ممالک کے قدرتی وسائل پر قبضے کی جنگ لڑ رہا ہے اور یہ جنگ دنیا کو تہذیبوں کے تصادم کی طرف دھکیل رہی ہے۔ جب اس نے بار بار کہا کہ سوات کے طالبان دراصل سماجی نا انصافیوں کی پیداوار ہیں اور جب تک یہ نا انصافیاں ختم نہیں ہوتیں، طالبان ختم نہ ہوں گے، تو میں ہنس دیا۔ ڈاکٹر جوشن نے کہا کہ تم ہنستے کیوں ہو؟ میں نے جواب میں کہا کہ اگر آپ یہ باتیں پاکستان میں جا کر کریں تو لبرل فاشسٹ آپ کو طالبان کا ایجنٹ قرار دے کر امیر عزت خان کی طرح بم دھماکے میں ” پار “ کر دینے کا مشورہ دیں گے۔ یہ سن کر ڈاکٹر جوشن چند لمحوں کیلئے خاموش ہو گیا اور پھر کچھ توقف کے بعد کہنے لگا کہ نا انصافی، جہالت اور بے روزگاری سے جنم لینے والی عسکریت کو صرف فوجی طاقت سے ختم کرنا ممکن نہیں، اس کیلئے سیاسی و سماجی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
مسلمانوں پر ظلم صرف مسلمان کی سرزمین پر نہیں بلکہ جرمنی میں بھی ہو رہا ہے۔ جرمنی کی ایک عدالت میں 31 سالہ مصری خاتون مروا کا وحشیانہ قتل مغربی معاشروں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ مروا نے پچھلے سال اگست میں اپنے ایک جرمن ہمسائے ایلکس کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا۔ مروا نے الزام لگایا تھا کہ وہ ایک پارک میں اپنے تین سالہ بیٹے مصطفیٰ کے ساتھ کھیل رہی تھی کہ ایلکس وہاں آگیا اور اس نے میرے حجاب کی وجہ سے مجھے دہشت گرد اسلامسٹ کہا۔ جس دن عدالت نے ایلکس کو 750 یورو کا جرمانہ کیا تو ملزم نے عدالت میں خنجر سے مروا پر حملہ کر دیا۔ ملزم نے مروا پر خنجر کے 18 وار کئے۔ اس دوران مروا کا خاوند اسے بچانے آیا تو پولیس نے خاوند کو گولی مار دی اور ملزم محفوظ رہا۔ تین سالہ مصطفی کے سامنے اس کی حاملہ ماں کو قتل کر دیا گیا۔ ملزم ایلکس کا تعلق جرمنی کی نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی سے ہے، جو مسلمانوں کی مخالف ہے اور جرمنی میں مساجد کی تعمیر کے خلاف مظاہرے بھی کر چکی ہے۔ مجھے افسوس صرف ان پاکستانی لبرل فاشسٹوں پر ہے جو سوات میں ایک لڑکی پر کوڑے برسنے کی فلم دیکھ کر اسلام آباد سے واشنگٹن تک سڑکوں پر نکل آئے لیکن اپنے حجاب کی وجہ سے شہید کی جانے والی مروا کا خون انہیں نظر نہیں آیا۔ عورتوں پر کوڑے برسانے والے اور خنجروں کے وار کرنے والے دراصل ایک ہی طرح کے لوگ ہیں۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=361950