دونوں میں کوئی فرق نہیں...قلم کمان …حامد میر

ڈاکٹر جوشن نے پوچھا کہ آج کل پاکستان میں لبرل فاشزم کا بہت ذکر ہوتا ہے، یہ کیا چیز ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد امریکہ کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف شروع کی جانے والی جنگ نے پاکستانی معاشرے کو تقسیم کر دیا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو امریکہ کو دوست نہیں بلکہ دشمن سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ امریکہ کی جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف ہے اور اس جنگ میں امریکہ ڈالروں کے عوض مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ یہ لوگ بعض قبائلی روایات کو اسلام قرار دینے پر مُصر رہتے ہیں، کوئی اپنی مرضی سے کہیں بھی کسی لڑکی کو کوڑے مارنے شروع کر دے تو یہ لوگ اس عمل کو قرآنی آیات کے حوالے دے کر جائز ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو مذہبی انتہا پسند سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں، جو خود کو لبرل اور سیکولر کہتے ہیں، لیکن حقیقت میں مذہب سے بیزار ہیں اور مذہبی لوگوں سے شدید نفرت کہتے ہیں۔ ان لوگوں کے سیاسی و معاشی مفادات امریکی پالیسیوں کے دفاع سے مشروط ہیں، لیکن یہ کھل کر امریکہ کی حمایت کرنے سے کتراتے ہیں، تاہم امریکہ کی خوشنودی کیلئے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں فوجی طاقت کے اندھے استعمال کی حمایت کرتے ہیں، ڈرون حملوں کے حق میں انتہائی بے ڈھنگی دلیلیں پیش کر کے اپنے اصلی آقاؤں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، قبائلی عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی بات کرنے والوں کو ملک دشمن قرار دیتے ہیں، لیکن سفارتی تقاریب میں بیئر کا بڑا سا مگ اپنے دائیں ہاتھ میں تھام کر بھارتی سفارت کاروں کو یقین دلارہے ہوتے ہیں کہ حضور ! ہم تو لاہور اور فیصل آباد میں بم دھماکے کرنے والے سربجیت سنگھ کی رہائی کیلئے صدر آصف علی زرداری کو روز خط لکھ رہے ہیں۔ امریکہ اور بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا پاکستان میں دفاع کرنے والوں کو لبرل فاشسٹ کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر جوشن نے پوچھا کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندوں اور لبرل فاشسٹوں میں سے زیادہ حمایت کسے حاصل ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ مذہبی انتہا پسندوں کی حمایت دور دراز پسماندہ قبائلی علاقوں میں زیادہ ہے جہاں ابھی تک علم کی روشنی نہیں پہنچی جبکہ لبرل فاشزم کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے امیر طبقے میں زیادہ نظر آتا ہے۔ اس طبقے کے کچھ لوگوں نے جولائی 2007ء میں اپنے فرقہ وارانہ تعصب کو ریاست کی عمل داری کی جنگ قرار دے کر جنرل پرویز مشرف کو اسلام آباد کی لال مسجد پر چڑھ دوڑنے کا مشورہ دیا۔ آج ان ہی متعصب عناصر نے صدر آصف علی زرداری کو گھیر رکھا ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت نہ تو مذہبی انتہا پسندوں کے ساتھ ہے اور نہ ہی ان لبرل فاشسٹوں کے ساتھ ہے بلکہ ہماری قوم ان دونوں کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر جوشن ہیلپر جرمنی کی یونیورسٹی آف ڈوئس برگ کے انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اینڈ پیس میں ریسرچ فیلو ہے۔ وہ پچھلے کئی سالوں سے مغرب اور مسلمانوں کے درمیان بڑھتے ہوئے ذہنی فاصلوں پر تحقیق کر رہا ہے۔ پاکستان پر جرمن زبان میں ایک کتاب لکھ چکا ہے، تاہم مسلم معاشروں میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر اس کی ایک حالیہ کتاب کو جرمن کے علاوہ عربی اور انگریزی زبان میں بھی شائع کیا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے برلن میں پاک جرمن میڈیا ڈائیلاگ کے موقع پر ڈاکٹر جوشن سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ میں صرف ڈاکٹر جوشن کو ملنے کیلئے محض ایک دن کیلئے جرمنی گیا۔ کانفرنس میں چائے اور کھانے کے وقفے کے دوران ڈاکٹر جوشن مجھ سے پاکستان کے موجودہ حالات کے بارے میں سوالات کرتا رہا۔ اس کی کتاب ” وار، ریپریشن اینڈ ٹیرر ازم “ پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ پاکستان کو بڑی اچھی طرح جانتا ہے۔ وہ اس رائے سے اتفاق کرتا ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت نہ تو مذہبی انتہا پسند ہے اور نہ ہی لبرل فاشزم کو پسند کرتی ہے۔ ڈاکٹر جوشن فلسطین، عراق، افغانستان، لبنان اور دیگر ممالک میں اپنے تجربات کی روشنی میں کہتا ہے کہ خودکش حملہ آوروں کو ایف 16 طیاروں اور ٹینکوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ زیادہ تر خودکش حملہ آور ایسے نوجوان بنتے ہیں، جن کے والدین یا عزیز فضائی بمباری کا نشانہ بنتے ہیں یا جنہیں دوران حراست شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسے نوجوانوں کی زندگی کا مقصد صرف انتقام بن جاتا ہے اور جب تک بمباری جاری رہتی ہے، خودکش حملہ آور پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر جوشن کی تحقیق کے مطابق تامل ٹائیگرز یا ترکی کے کرد گوریلوں کے خودکش حملوں کا مقصد جنت کا حصول نہیں بلکہ سیکورٹی فورسز سے انتقام لینا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر جوشن کہتے ہیں کہ جب تک فلسطین کے علاقوں پر اسرائیلی فوج، کشمیریوں کی سرزمین پر بھارتی فوج اور افغانستان و عراق میں امریکی فوج موجود رہے گی، مسلمان نوجوانوں کو امن پسندی کا درس دینا منافقت کے سوا کچھ نہیں۔ ڈاکٹر جوشن نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ امریکہ مسلم ممالک میں دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ ان ممالک کے قدرتی وسائل پر قبضے کی جنگ لڑ رہا ہے اور یہ جنگ دنیا کو تہذیبوں کے تصادم کی طرف دھکیل رہی ہے۔ جب اس نے بار بار کہا کہ سوات کے طالبان دراصل سماجی نا انصافیوں کی پیداوار ہیں اور جب تک یہ نا انصافیاں ختم نہیں ہوتیں، طالبان ختم نہ ہوں گے، تو میں ہنس دیا۔ ڈاکٹر جوشن نے کہا کہ تم ہنستے کیوں ہو؟ میں نے جواب میں کہا کہ اگر آپ یہ باتیں پاکستان میں جا کر کریں تو لبرل فاشسٹ آپ کو طالبان کا ایجنٹ قرار دے کر امیر عزت خان کی طرح بم دھماکے میں ” پار “ کر دینے کا مشورہ دیں گے۔ یہ سن کر ڈاکٹر جوشن چند لمحوں کیلئے خاموش ہو گیا اور پھر کچھ توقف کے بعد کہنے لگا کہ نا انصافی، جہالت اور بے روزگاری سے جنم لینے والی عسکریت کو صرف فوجی طاقت سے ختم کرنا ممکن نہیں، اس کیلئے سیاسی و سماجی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
مسلمانوں پر ظلم صرف مسلمان کی سرزمین پر نہیں بلکہ جرمنی میں بھی ہو رہا ہے۔ جرمنی کی ایک عدالت میں 31 سالہ مصری خاتون مروا کا وحشیانہ قتل مغربی معاشروں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ مروا نے پچھلے سال اگست میں اپنے ایک جرمن ہمسائے ایلکس کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا۔ مروا نے الزام لگایا تھا کہ وہ ایک پارک میں اپنے تین سالہ بیٹے مصطفیٰ کے ساتھ کھیل رہی تھی کہ ایلکس وہاں آگیا اور اس نے میرے حجاب کی وجہ سے مجھے دہشت گرد اسلامسٹ کہا۔ جس دن عدالت نے ایلکس کو 750 یورو کا جرمانہ کیا تو ملزم نے عدالت میں خنجر سے مروا پر حملہ کر دیا۔ ملزم نے مروا پر خنجر کے 18 وار کئے۔ اس دوران مروا کا خاوند اسے بچانے آیا تو پولیس نے خاوند کو گولی مار دی اور ملزم محفوظ رہا۔ تین سالہ مصطفی کے سامنے اس کی حاملہ ماں کو قتل کر دیا گیا۔ ملزم ایلکس کا تعلق جرمنی کی نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی سے ہے، جو مسلمانوں کی مخالف ہے اور جرمنی میں مساجد کی تعمیر کے خلاف مظاہرے بھی کر چکی ہے۔ مجھے افسوس صرف ان پاکستانی لبرل فاشسٹوں پر ہے جو سوات میں ایک لڑکی پر کوڑے برسنے کی فلم دیکھ کر اسلام آباد سے واشنگٹن تک سڑکوں پر نکل آئے لیکن اپنے حجاب کی وجہ سے شہید کی جانے والی مروا کا خون انہیں نظر نہیں آیا۔ عورتوں پر کوڑے برسانے والے اور خنجروں کے وار کرنے والے دراصل ایک ہی طرح کے لوگ ہیں۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=361950
 

مہوش علی

لائبریرین
از حامد میر:
مجھے افسوس صرف ان پاکستانی لبرل فاشسٹوں پر ہے جو سوات میں ایک لڑکی پر کوڑے برسنے کی فلم دیکھ کر اسلام آباد سے واشنگٹن تک سڑکوں پر نکل آئے لیکن اپنے حجاب کی وجہ سے شہید کی جانے والی مروا کا خون انہیں نظر نہیں آیا۔ عورتوں پر کوڑے برسانے والے اور خنجروں کے وار کرنے والے دراصل ایک ہی طرح کے لوگ ہیں۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=361950
یہ شخص لبرل فاشسٹوں کا ذکر کرتا ہے کہ وہ طالبان کے ظلم کے خلاف سڑک پر نکلے،۔۔۔۔ مگر اس وقت یہ شخص اندھا اور بہرا ہوتا ہے جب میڈیا میں موجود مذہبی جنونی طالبان کی اس درندگی کو چھپانے کے لیے اس لڑکی پر ہونے والے ظلم و ستم کا ہی انکار کر رہے تھے۔

اور اس سے بڑھ کر اس شخص حامد میر کے متعلق یاد رکھئیے کہ جب پاکستانی طالبان کا ملا عمر کھل کر واہ فیکٹری میں خود کش حملوں کی ذمہ داری فخر کے ساتھ قبول کر رہا تھا اور مزید ایسے خود کش حملوں کی دھمکیاں دے رہا تھا تو یہ حامد میر اُس وقت بھی طالبان کی حمایت کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ ملا عمر کے بیان کر رہنے دیں اور واہ کینٹ میں یہ خود کش حملہ افغانستان کی حکومت نے کروایا ہے۔

اس حامد میر کو کوئی جا کر ہوش کے ناخن دے کہ طالبان کے اس ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کرنے والے صرف لبرل فاشسٹ ہی نہیں ہیں، بلکہ سب سے بڑا طبقہ اُن مظلوم پاکستانیوں کا ہے کہ جن کے ہزاروں عزیزوں کو طالبان فتنے نے بے گناہ قتل کر دیا، طالبان کے خلاف سب سے پہلے وہی لوگ مظلوم قبائلی کھڑے ہیں جو طالبان کے خلاف لشکر بنا کر اس فتنے کی روک تھام کی کوششیں کر رہے تھے، طالبان کے خلاف سوات کے عوام کی وہ اکثریت ہے جس نے انتخابات میں سب سے پہلے تمام مذہبی جماعتوں کو رد کرتے ہوئے سیکولر جماعتوں کو ووٹ دیے کہ وہ اس طالبانی فتنے سے انہیں بچائیں، طالبان کے خلاف ہر ہر وہ پاکستانی ہے جس نے ہزاروں معصوموں کا خون طالبان کے ہاتھوں ہوتے دیکھا اور مذہبی جنونیوں کے بہکاوے میں آ کر اندھے ہو کر اس خون سے آنکھیں بند نہ کیں اور اسے اسلامی شریعت کا لبادہ نہ اوڑھنے دیا۔ طالبان کے خلاف ہر وہ مسلمان ہے جس نے انکے خود کش حملوں کی پردہ پوشی نہیں کی اور انکے فتنے کو فتنہ قرار دیا۔

کاش یہ حامد میر کو لبرل فاشسٹوں کے علاوہ طالبان کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے یہ لاکھوں کڑوڑوں معصوم پاکستانی مسلمان بھی نظر آ جائیں۔
 
مجھے افسوس صرف ان پاکستانی لبرل فاشسٹوں پر ہے جو سوات میں ایک لڑکی پر کوڑے برسنے کی فلم دیکھ کر اسلام آباد سے واشنگٹن تک سڑکوں پر نکل آئے لیکن اپنے حجاب کی وجہ سے شہید کی جانے والی مروا کا خون انہیں نظر نہیں آیا۔ عورتوں پر کوڑے برسانے والے اور خنجروں کے وار کرنے والے دراصل ایک ہی طرح کے لوگ ہیں۔

یہ ان کے لیے ہے جو فہم رکھتے ہیں
 
درحقیقت مقامی طور پر جو گروپ اس وقت طالبان کے نام سے لڑرہے ہیں بہت سارے معاملات میں ان لوگوں نے حدود و قیود کا خیال نہیں رکھا ان پر جو سب سے زیادہ تنقید کی جاتی ہے وہ خودکش حملوں کے سلسلے میں ہے جس بے گناہوں کی جانوں کا زیاں ہوتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس سے پاکستانی طالبان کا گروپ اپنی مقبولیت اور اہمیت جو اس کو امریکی حکومت کے خلاف لڑنے سے مل سکتی تھی وہ بالکل ہی گنوا بیٹھا دوسری طرف پاکستانی حکومت ، امریکی حکومت ہیں اور ان کے پیسوں پر پلنے والے لبرل فاشسٹ ہیں‌ امریکی حکومت ڈرون حملے کرتی ہے جس سے اسی طرح بے گنا مارے جاتے ہیں جیسے خودکش حملوں میں اور پاکستانی حکومت جس کا فرض اپنے شہریوں‌کی حفاظت ہے اس کے عوض پیسے لیتی ہے اور خاموش رہتی ہے ساتھ ساتھ ایسے لبرل فاشسٹ موجود ہیں جو طالبان کے تو مخالف ہیں لیکن امریکی اور پاکستانی مظالم پر خاموش ہیں یہ اتنا بڑا تضاد ہے اور اتنی بڑی منافقت ہے جس کا کوئی جواب نہیں درحیقیت یہ اب درندوں کی لڑائی بن چکی ہے ۔
کچھ دنوں پہلے یہی باتیں اس فورم پر جناب محسن حجازی صاحب نے اپنے عمدہ پیرائے میں کی تھیں یہاں میں ان کو دوبارہ چسپاں کر دیتا ہوں‌ محسن کی ان باتوں کو حامد میر کی باتوں کے ساتھ پڑھیئے دیکھئے یہ صورت حال واضح ہو تی ہے یا نہیں۔
طالبان یا ظالمان جو بھی کہہ لیجئے بنیادی طور پر جو بھی جنگ لڑ رہے ہیں وہ امریکہ کے خلاف ہے۔ کہا جا سکتا ہےکہ صاحب ایسا نہیں بلکہ وہ تو ریاست پاکستان کے خلاف جا رہے ہیں۔ درحقیقت مسئلے کو غیر جانبداری سے دیکھئے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ان جنگجو گروہوں کے نزدیک حکومت پاکستان اور امریکہ میں کوئی فرق نہیں۔ حکومت پاکستان محض امریکی ایجنڈا آگے بڑھا رہی ہے۔ شاید یہ خبر بھی آپ کی نظر سے گزری ہو کہ امریکہ نے پاکستان میں سی آئی اے کے ایجنٹوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔
اب ہو یہ رہا ہے کہ فتوی دینے والے بھی امریکہ کے خلاف ہیں ۔
خودکش حملے کرنے والے بھی امریکہ کے خلاف ہیں۔
دونوں گروہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے خلاف ہیں جب کہ نظریاتی طور پر دونوں گروہوں میں کوئی بڑا بعد نہیں کم سے کم امریکہ کے مسئلے پر تو بالکل بھی نہیں۔
لیکن امریکیوں نے کمال مہارت سے ایسا افتراق کا بیج بویا ہے کہ دونوں طرف خون مسلم پانی کی طرح بہہ رہا ہے مگر فریقین بہت باریکی سے باہم مختلف ہیں۔

اب آ جائیے کتمان حق کی طرف۔خود کش حملوں کے بارے میں فتوی دے دینا کوئی بڑا کمال نہیں کیوں کہ متاثرہ فریق کمزور ہے۔ مشکل فتوی تو یہ ہے کہ کہا جائے کہ حکومت وقت چونکہ مسلمانوں کے قتل عام میں غیر مسلموں کا واضح مسلسل اور بھرپور ساتھ دے رہی ہے، سو ایسی صورت میں موجودہ حکومت سے ساتھ تعاون اور اطاعت سراسر ظلم ہے جو یقینی طور پر مزید بے گناہ خون مسلم پر منتنج ہو گا نیز مسلم معاشرے میں ابتری افراتفری اور عدم استحکام کا باعث بھی ہے جو صریحا دینی فرائض کی درست بجاآوری میں بھی مانع ہے جو کہ ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بنیادی مقاصد میں سے بھی ایک ہے سو تمام مسلمان اپنے اپنے دائرہ کارمیں حکومت وقت کو کم سے کم درجے میں دامے درمے سخنے یہ باور کروائیں کہ اس کی روش خود مسلمانوں کے خلاف معاندانہ اور قابل مذمت ہے۔

میرا خیال ہے کہ ایسے فتوی کے لیے کوئی بھی مولانا صاحب تیار نہیں ہوں گے کیوں کہ اس قدر جرات رندانہ کہ مالک عالم ہمارے ہاں الاماشااللہ ہی ہیں۔ ایسے عالم کو کم سے کم درجے میں اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا ہوں گے۔ اور باقی کی عمر ایجنسیوں کے تاریک تہہ خانوں میں بھی گزر سکتی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ بریلوی دیوبندی شیعہ کے خانوں کی بجائے محض مسلم عینک سے ہی مسئلے کو دیکھنا چاہئے ہمارے باہمی اختلافات اس قدر بڑے نہیں کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف ہی صف آرا ہو جائيں۔ کرہ ارض پر جہاں بھی مسلم کے ساتھ زیادتی ہو خواہ سنی یا شیعہ وہ محض مسلم اور کلمہ گو ہے سو ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے۔

اور اسے سے بھی ایک درجہ اوپر یہ کہ خواہ ہندو سکھ یہودی ہو یا عیسائی، کسی کے ساتھ بھی ظلم پوری انسانیت کا مسئلہ ہے خواہ ہو ہولوکاسٹ ہو یا ابوغریب اور گوانتاناموبے یا لال مسجد کا سانحہ۔ آخر کو ہم سب انسان ہیں۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=514526&postcount=26

مثال کے طور پر مفتی منیب الرحمن کی مثال لیجئے۔ چئیر مین رویت ہلال کمیٹی ایک سرکاری عہدہ۔ آٹھ سال مشرف کے دور میں اسی کرسی سے چپکے رہے لال مسجد جیسا بڑا سانحہ ہوا لیکن حضرت کی جانب سے مذمت کا ایک لفظ تک سننے کو نہ ملا استعفی وغیرہ تو دور کی بات ہے۔
ابھی جامعہ نعیمہ میں حالیہ بم دھماکے پر اچانک تقریر کرتے ہوئے مشرف پر برس پڑے فرمایا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب مشرف کا کیا دھرا ہے لال مسجد میں خون بہایا اپنے شہری اٹھا کر بیچے وغیرہ وغیرہ۔ ابھی ان کی بات منہ میں ہی تھی کہ جیو نے کٹ کر دیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چلیے تب تو مشرف ذمہ دار تھا اب ذمہ دار کون ہے؟ اس کا نام اب کیوں نہیں لیتے؟ یا اس کا نام بھی اگلے دور میں لیں گے؟ مشرف کا نام مشرف کے دور میں کیوں نہ لیا؟ اب زرداری صاحب ذمہ دار عہدے پر ہیں چاہیں تو سب کچھ درست کر سکتے ہیں ان کا نام کیوں نہیں لیتے؟ دنیا اس قدر پیاری ہے؟ عہدہ اور جان و مال اس قدر عزیز ہے؟ تو پھر یہود کے علما اور مسلم علما میں بعد ہی کتنا رہ گیا؟

:فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هٰذَا مِنْ عِندِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ , آیت:

تو ان لوگوں پر افسوس ہے جو اپنے ہاتھ سے تو کتاب لکھتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ یہ خدا کے پاس سے (آئی) ہے، تاکہ اس کے عوض تھوڑی سے قیمت (یعنی دنیوی منفعت) حاصل کریں۔ ان پر افسوس ہے، اس لیے کہ (بےاصل باتیں) اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور (پھر) ان پر افسوس ہے، اس لیے کہ ایسے کام کرتے ہیں
http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=514649&postcount=28
 
اس حامد میر کے منہ پر جا کر کوئی زور سے طمانچہ مارے
کیا اس تھریڈ میں بھی وہی کچھ ہونے جارہا ہے جو کہ ایک سابقہ تھریڈ میں کیا جاچکا ہے؟؟؟ نبیل آپ کا یہ فورم ایک معیاری اور مثالی فورم ہے بطور منتظم ، ان خاتون کو سمجھانے کا کام آُ پ ہی کر سکتے ہیں ۔کم از کم یہ بنیادی اخلاقیات کا ہی کچھ بھرم رکھیں ۔ پچھلی پار آپ نے ایک ایسی ہی تھریڈ مقفل کر دی تھی کچھ باتوں کے پیش نظر میں خاموش بھی ہو گیا تھا۔ لیکن حد برداشت اب کی بار شاید جواب دے جائے ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
درحقیقت مقامی طور پر جو گروپ اس وقت طالبان کے نام سے لڑرہے ہیں بہت سارے معاملات میں ان لوگوں نے حدود و قیود کا خیال نہیں رکھا ان پر جو سب سے زیادہ تنقید کی جاتی ہے وہ خودکش حملوں کے سلسلے میں ہے جس بے گناہوں کی جانوں کا زیاں ہوتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس سے پاکستانی طالبان کا گروپ اپنی مقبولیت اور اہمیت جو اس کو امریکی حکومت کے خلاف لڑنے سے مل سکتی تھی وہ بالکل ہی گنوا بیٹھا دوسری طرف پاکستانی حکومت ، امریکی حکومت ہیں اور ان کے پیسوں پر پلنے والے لبرل فاشسٹ ہیں‌ امریکی حکومت ڈرون حملے کرتی ہے جس سے اسی طرح بے گنا مارے جاتے ہیں جیسے خودکش حملوں میں اور پاکستانی حکومت جس کا فرض اپنے شہریوں‌کی حفاظت ہے اس کے عوض پیسے لیتی ہے اور خاموش رہتی ہے ساتھ ساتھ ایسے لبرل فاشسٹ موجود ہیں جو طالبان کے تو مخالف ہیں لیکن امریکی اور پاکستانی مظالم پر خاموش ہیں یہ اتنا بڑا تضاد ہے اور اتنی بڑی منافقت ہے جس کا کوئی جواب نہیں درحیقیت یہ اب درندوں کی لڑائی بن چکی ہے ۔
کچھ دنوں پہلے یہی باتیں اس فورم پر جناب محسن حجازی صاحب نے اپنے عمدہ پیرائے میں کی تھیں یہاں میں ان کو دوبارہ چسپاں کر دیتا ہوں‌ محسن کی ان باتوں کو حامد میر کی باتوں کے ساتھ پڑھیئے دیکھئے یہ صورت حال واضح ہو تی ہے یا نہیں۔

http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=514526&postcount=26


http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=514649&postcount=28

افسوس کہ طالبان نے امریکہ مخالفت اور اسلامی شریعت کے نام پر جو ابلیسی کرتوت کئے ہیں اور وحشت و درندگی پھیلائی ہے آج بھی لوگ اس پر پردہ ڈالنے کے لیے لولے لنگڑے بہانوں کا سہارا لے رہے ہیں۔

اور جو خدائی پاکستان میں طالبانی فتنے کے خلاف احتجاج کر رہی ہے اسے ابھی تک یہ لوگ لبرل فاشسٹوں کی صفوں میں بہانے بہانے سے ڈال کر ہر طرح کے الزامات ان کے سر لگا رہے ہیں۔

آپ نے جو محسن کی پوسٹ کا حوالہ دیا ہے، تو میں محسن کے ساتھ بحث میں الجھنا نہیں چاہتی تھی اس لیے میں نے کوئی اس ڈورے میں کوئی جواب نہیں دیا تھا، ورنہ بالعموم ان باتوں کا میں کئی مرتبہ جواب دے چکی ہوں۔

ذیل میں میں اپنی ان مراسلوں سے اقتباس دے رہی ہوں:

بھائی جی،
امریکہ کو خود آپ کے مجاہدین [القاعدہ و طالبان] نے اپنی حماقتوں و جہالت سے موقع دیا ہ [یا پھر شاید مجبور کیا ہے] کہ وہ افغانستان میں آئے۔
1۔ آپ پہلے یہ سوچیں کہ طالبان کو کس نے حق دیا تھا کہ وہ امریکی اسلحے اور سازش کے بھروسے اپنے ہی کئی لاکھ مسلمانوں کو قتل کرتے ہوئے افغانستان پر قابض ہو؟

2۔ پھر القاعدہ و طالبان کو کس نے حق دیا تھا کہ وہ دنیا بھر میں امریکی افواج کو چھوڑ کر معصوم نہتے شہریوں پر خود کش حملے کرواتے پھریں؟ [گیارہ ستمبر سے قبل ہی یہ اپنی خصلت کئی مرتبہ ظاہر کر چکے تھے اور اس درندگی کا فتوی یہ دیتے تھے کہ یہ شہری کیونکہ امریکہ کو ٹیکس دیتے ہیں اس لیے انہیں مارنا جائز ہے۔

3۔ اور اگر آج امریکہ افغانستان میں موجود ہے تو آپ لوگ ہزار چیختے رہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی اکثریت طالبان سے چھٹکارا چاہتی ہے اور ایک جمہوری حکومت کے خواب دیکھتی ہے کہ جہاں اسے طالبان اور دیگر مجاہد تنظیموں اور وار لارڈز سے نجات حاصل ہو، اور اسی لیے امریکہ کے تحت منعقد شدہ الیکشنز میں عوام کی اکثریت نے طالبانی دھمکیوں کے باوجود حصہ لیا اور اپنے پسندیدہ نمائندے مقرر کیے۔
تو اب آپ پھر ہزار چیختے رہیں، مگر دنیا کے نزدیک امریکہ کی افغانستان میں موجودگی بالکل جائز ہے۔
اور اس جواز کی دوسری اہم وجہ القاعدہ و طالبان کی دہشت گرد کاروائیاں ہیں جس میں وہ دوسرے ممالک میں معصوم نہتے شہریوں کا بھی قتل عام کرنے میں کچھ نہیں جھجھکتے۔ اور یہ وہ جواز ہے کہ جب تک قائم رہے گا اس وقت تک دنیا امریکہ کے ساتھ ہو گی کہ وہ اپنی افواج افغانستان میں بسائے رکھے۔

4۔ اور خود کش حملوں کے لیے آپ جتنی مرضی دلائل پیش کر دیں، مگر اس سے آپ کچھ ثابت نہیں کر پائیں گے، اور جب جوابی دلائل دیے جائیں گے تو آپ پھر ان دلائل سے فرار حاصل کریں گے۔
/۔اسلام نے اسی لیے کھل کر ان خود کش حملوں کو شروع سے ہی تاقیامت حرام قرار دے دیا ہے۔
/۔ آج جو امریکا ہم سے اتنا آگے ہے اسکا جواب ہرگز ہرگز خود کش حملے نہیں ہیں، بلکہ وہ علم کے میدان میں آگے پہنچا ہے اور جبتک ہم اس علم کے میدان میں پیچھے رہیں گے اُسوقت تک کسی صورت ممکن نہیں کہ ان خود کش حملوں سے علم کی میدان کا یہ گڑھا پاٹ سکیں۔
/۔ اور یاد رکھئیے، اسلام نے حالات کے مطابق کبھی براہ راست جہاد بالسیف پر صبر اور جہاد بالشعور کو ترجیح دی ہے۔
اسکی وجہ بالکل صاف ہے اور وہ یہ کہ آپ یہ خود کش حملے اپنی ہی معصوم نہتی عوام کو یرغمال اور ڈھال بنا کر کر رہے ہیں اور حملے کرنے کے بعد انہی کے پیچھے جا کر چھپ جاتے ہیں۔
اور عالمی انسانی ضمیر امریکا جیسی بڑی طاقتوں کو ابھی تک روکے ہوئے ہے کہ جوابا امریکہ "کھل" کر ان معصوموں کی جانوں کی پرواہ کیے بغیر ان خود کش حملہ آوروں پر حملہ نہ کرے، چاہے اس سے امریکا کا زیادہ نقصان ہی کیوں نہ ہوتا رہے۔
مگر یہ عالمی انسانی ضمیر آہستہ آہستہ کمزور ہوتا جا رہا ہے اور امریکا اور بقیہ پوری دنیا میں موجود انتہا پسند مضبوط ہوتے جا رہے ہیں، اور وہ دن دور نہیں جب یہ عالمی انسانی ضمیر ان انتہا پسندوں کے ہاتھوں ہار جائے گا اور اس دن امریکی طیارے "کبھی کبھار" نہیں بلکہ "کھل" کر اور بغیر کسی پرواہ کے آپکی معصوم نہتی شہری آبادی پر حملہ کر رہے ہوں گے اور طالبان پہلے کی پھر ان معصوم عوام کو خاک و خون میں لت پت ہونے کے لیے اکیلا چھوڑ کر خود پہاڑوں میں فرار ہوتے پھر رہے ہوں گے۔

اور اسرائیل کی مثال سامنے ہے۔ میرے دل کو یہ حقیقت بیان کرتے ہوئے بہت درد ہوتا ہے، مگر کیا کیا جائے کہ بغیر بتائے چارہ بھی نہیں کہ ادھر کچھ لوگ ہیں جو آنکھیں کھولنے کے لیے تیار ہی نہیں۔

/۔ ذرا ہمت کر کے یہ بتا دیں کہ حماس نے اسرائیل میں آخری خود کش حملہ کب کیا تھا؟
/۔ اور اگر پچھلے اتنے سارے عرصے میں خود کش حملہ نہیں کیا تو اسکی وجوہات کیا ہیں؟

دیکھئیے، ان خود کش حملوں کی وجہ سے اسرائیل میں عالمی انسانی ضمیر کمزور پڑا اور اسرائیل کو موقع مل گیا کہ وہ قوت استعمال کرتے ہوئے اور بغیر شہری آبادی کی پرواہ کیے ہوئے اپنی کاروائیاں کر سکے۔ اور اسرائیل میں سب سے پہلے انتہا پسند مضبوط ہو کر حکومت میں آئے، اور پھر انہوں نے ہر روز فلسطین پر بمباری کی اور آپکے خود کش حملہ آور کچھ نہ کر سکے۔
اور چونکہ ان اسرائیل انتہا پسند حکومت کے اقدامات سے خود کش حملے رک گئے، تو اس سے یہ انتہا پسند لوگ بمقابلہ انسان دوست قوتوں کے [جو طاقت کے استعمال پر یقین نہیں رکھتیں] اور زیادہ مضبوط ہو گئے۔

اور بھائی جی،
یہ وہ حقیقت ہے جو بہتر ہے کہ نہ بھولی جائے۔ طالبان خود کش حملہ آور اسی روڈ میپ پر چل رہے ہیں۔ اسی لیے امریکہ کو افغانستان میں اپنی فوجیں رکھنے کو مزید اور مزید جواز ملتا جا رہا ہے۔ اور چونکہ حملہ آور پاکستانی سرحدوں کے اندر سے کاروائیاں کر رہے ہیں، اس لیے امریکہ کو یہ جواز بھی ملتا جا رہا ہے کہ وہ اپنی کاروائیوں کا دائرہ کار پاکستان کے اندر تک پھیلا دے۔
اور آپ لوگ اپنے تمام تر احتجاج کے باوجود دنیا میں اپنا مقام کھوتے جا رہے ہیں اور دنیا کا کوئی ملک آپ کی مدد کے لیے تیار نہیں۔
ذرا سوچئیے کہ واقعی یہ خود کش حملے ہی آج کی ضرورت ہیں؟ اور یہ خود کش حملے ہمیں کہاں لے جا سکتے ہیں۔
///////////////////////////////////////////
اور طالبان ان فدائی حملے کرنے میں حسن بن صباح کی سنت کی پیروی نہیں کر رہے [میری تحقیق کے مطابق حسن بن صباح ایک تاریخی حقیقت نہیں بلکہ افسانوی کردار ہے]۔۔۔۔۔۔ بلکہ اسلامی تاریخ میں کسی مسلم گروہ کی جانب سے سب سے پہلا فدائی خود کش حملہ ابن ملجم خارجی نے خلیفہ چہارم علی ابن ابی طالب پر کیا تھا، اور آج طالبان اسی کی سنت پر عمل کر رہے ہیں
لنک
اور ذیل کا اقتباس خاور برادر کو جواب تھا کہ جب امریکی ڈرونز حملوں پر طالبانی جہاد کو بھول بھال کر پاکستانی فوج کا رونا رو رہے تھے۔

یہ جو آپ آج جہاد بالشعور کو برا بھلا کہہ رہے ہیں تو اگر آپ نے یہ جہاد بالشعور کر لیا ہوتا تو آج یہ دن ہی نہ دیکھنا پڑتا اور پوری قوم ایک پلیٹ فارم پر مجتمع ہوتی۔
یہ جہاد بالشعور [جس میں علمی و ٹیکنالوجی جہاد، تبلیغی جہاد وغیرہ سب شامل ہیں] نہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ ان انتہا پسندوں نے ملک کو اُس گڑھے میں دھکیل دیا ہے کہ جس میں صرف تاریکیاں ہی تاریکیاں ہیں۔
اور آپ جیسے جہاد بالسیف پر اکسانے والے تو وہ ہیں جو کہ اپنی طاقت کی اتنی بڑی بڑی بڑکیں مارا کرتے تھے ۔۔۔۔۔ تو کیا آپ کا آج دم نکل گیا ہے کہ امریکہ حملے پر حملے کر رہا ہے اور آپ خود باہر نکل کر مقابلہ کرنے کے آج پاک آرمی کی دھائیاں دے رہے ہیں؟ تو کہاں ہے آج آپ کی طالبان؟ کیا آج بھی ماضی کی طرح پھر سے ہمیشہ کی طرح پہاڑوں میں مفرور ہے اور ہمیشہ کی طرح پاکستان کی معصوم شہری آبادی کو امریکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ گئی ہے؟

یہ ہمارے اپنے انتہا پسند ہیں کہ جنہوں نے امریکا کی یہ مصیبت قوم پر نازل کروائی ہے۔ اور کل جب میں کہتی تھی کہ آپ کی ان دہشت گردیوں کے نتیجے میں جب امریکہ آئے گا تو قوم و ملک کا بہت نقصان ہو گا، تو اُس وقت یہ لوگ مجھے بزدلی کے طعنے دیتے تھے، مگر آج خود بزدلوں کی طرح بیٹھے ہوئے صرف پاک فوج پاک فوج کی دھائیاں مچائے ہوئے ہیں۔
لنک
میرے پاس اپنے بہت سے مراسلوں کے لنکز موجود ہیں۔ مگر میں ان پر اکتفا کرتی ہوں کہ یہ آنکھ کھولنے کے لیے کافی ہیں۔

حامد میر جیسے لوگ ہزار کوشش کر لیں اور ان لاکھوں کڑوڑوں پاکستانی مسلمانوں کے طالبانی فتنے کے خلاف احتجاج کو فاشسٹ لبرل کے پردے ڈال کر چھپانے کی کوشش کر لیں مگر یہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکیں گے اور انکی منافقتوں کے پردے لپٹ کر رہیں گے اور حق کا بول بالا ہو گا۔ انشاء اللہ۔

*************************
از ابن حسن:
کیا اس تھریڈ میں بھی وہی کچھ ہونے جارہا ہے جو کہ ایک سابقہ تھریڈ میں کیا جاچکا ہے؟؟؟
کیا دو رخا مزاج ہے صاحب کا کہ جس کے نزدیک عزت صرف حامد میر جیسے لوگوں کی ہے اور جب مشرف صاحب کو اس سے بڑھ کر ہزاروں باتیں کہی جا رہی ہوتی ہیں تو اس پر ان صاحب کو کوئی تکلیف نہیں تھی۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،
مہوش بہن، اگر آپ کو نذیر ناجی کے خلاف کوئی قابل اعتراض بات نظر آئی ہے تو اسے ضرور رپورٹ کریں۔ یہاں پر کئی مرتبہ نذیر ناجی کی ریکارڈ شدہ ٹیلی فون گفتگو کے روابط پوسٹ کیے گئے ہیں جنہیں ہم نے فوری طور پر حذف کر دیا تھا، لیکن اس شخص کی اصلیت سے سب لوگ بخوبی واقف ہیں۔ اس لیے نذیر ناجی کی آڑ میں نامناسب الفاظ کے استعمال کا جواز نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
شکریہ۔
میں نے نذیر ناجی کے متعلق پہلے چیزیں پہلے ہی حذف کر دی تھیں۔ حامد میر کے متعلق بھی میں نے مواد حذف کر دیا ہے۔
 
اوپر کی جانے والی پوسٹ جو کہ حامد میر کہ ایک کالم پر مشتمل تھی اس میں بنیادی طور ایک بات کہی گئی تھی جس کا کوئی جواب اس طولانی تقریر میں موجود نہیں ہے۔ جو باتیں آپ نے بیان فرمائیں ہیں ان کے متعدد بار جوابات اسی فورم میں دئیے جاچکے ہیں دوسری بات یہ کہ یہ کالم خصوصا پاکستان کے حوالے سے ہے نہ کہ افغانستان کے حوالے سے اور اس میں سیدھے سیدھے سوالات پوچھے گئے ہیں جن کے جوابات درکار ہیں‌ تاہم اگر آپ اپنے جذباتی انداز کو ایک طرف رکھ کر بات کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں تو سو بسم اللہ ہم اب ابتدا کیے دیتے ہیں
1۔ اس بات کو شروع کرنے کا شوق آپ کو کہاں سے ہے یعنی اس وقت پاکستان افغانستان اور خطے کہ جو ممالک امریکا کے ہاتوں جن مسائل کا شکار ہیں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں‌ بری طرح الجھ چکے ہیں کیا ہم ان کی بالکل بنیاد سے چلیں یا آپ ڈائریکٹ پاکستان کے حوالے سے بات کرنا چاہتی ہیں بیان کیجئے ۔ اور انشاء اللہ اس حوالے سے آپ کی تمام غلط فہمیوں کا ازالہ کر دیا جائے گا۔
2۔ اب اس کالم کے حوالے سے کچھ باتیں۔
جیسا کہ میں نے اوپر کہا تھا کہ حامد میر نے اپنے کالم میں ایک اہم بات کی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ جوشن کے حوالے سے نیز خود اپنا نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب تک امریکا اس خطے میں موجود ہے وہ اپنے مخصوص سیاسی و معاشی مقاصد کے حصول کے لیے اس خطے کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے اور وہ ایسا کرتا رہے گا نیز ڈرون حملے پاکستان اور پاکستانیوں کے حق میں نہیں ہیں اور خود کش حملہ آور زیادہ تر وہی ہیں جو ڈرون حملوں کا شکار بنتے ہیں۔ چنانچہ پاکستانی عوام کو یکساں موقف اپنانا چاہییے خودکش حملہ آوروں سمیت پاکستانی حکومت اور امریکیوں کی بھی اسی طرح مذمت ہونی چاہیے جو کہ بے گناہوں کی جانوں کے زیاں کا سبب بن رہے ہیں ۔
آپ بیان کیجئے اس بات میں اس موقف میں آپ کو کیا اعتراض ہے۔اوپر جو باتیں آپ نے بیان کی ہیں  ان میں آپ کا یہ بیان بھی موجود ہے
اور جو خدائی پاکستان میں طالبانی فتنے کے خلاف احتجاج کر رہی ہے اسے ابھی تک یہ لوگ لبرل فاشسٹوں کی صفوں میں بہانے بہانے سے ڈال کر ہر طرح کے الزامات ان کے سر لگا رہے ہیں۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بات آُپ سمجھ نہیں پارہپی ہیں یہاں ان لوگوں کو لبرل فاشسٹ نہیں کہا جارہا جو پاکستانی طالبان کے خلاف احتجاج کرتے ہیں بلکہ ان کو کہا جارہا ہے جو امریکی مظالم کے خلاف آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں یا جو اس سلسلے میں امریکی خیرات بھی لے رہے ہیں

امریکہ کو خود آپ کے مجاہدین [القاعدہ و طالبان] نے اپنی حماقتوں و جہالت سے موقع دیا ہ [یا پھر شاید مجبور کیا ہے] کہ وہ افغانستان میں آئے۔
1۔ آپ پہلے یہ سوچیں کہ طالبان کو کس نے حق دیا تھا کہ وہ امریکی اسلحے اور سازش کے بھروسے اپنے ہی کئی لاکھ مسلمانوں کو قتل کرتے ہوئے افغانستان پر قابض ہو؟

2۔ پھر القاعدہ و طالبان کو کس نے حق دیا تھا کہ وہ دنیا بھر میں امریکی افواج کو چھوڑ کر معصوم نہتے شہریوں پر خود کش حملے کرواتے پھریں؟ [گیارہ ستمبر سے قبل ہی یہ اپنی خصلت کئی مرتبہ ظاہر کر چکے تھے اور اس درندگی کا فتوی یہ دیتے تھے کہ یہ شہری کیونکہ امریکہ کو ٹیکس دیتے ہیں اس لیے انہیں مارنا جائز ہے
۔
گو کہ یہ باتیں کی مرتبہ یہاں صاف کی جاچکی ہیں تاہم میں ایک بار پھر ان پر بات کرنے پر آمادہ ہوں لیکن جیسا کہ میں نمبر 1 میں کہ چکا ہوں کہ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کہاں‌سے بات شروع کرتی ہیں۔

۔ اور خود کش حملوں کے لیے آپ جتنی مرضی دلائل پیش کر دیں، مگر اس سے آپ کچھ ثابت نہیں کر پائیں گے، اور جب جوابی دلائل دیے جائیں گے تو آپ پھر ان دلائل سے فرار حاصل کریں گے۔
/۔اسلام نے اسی لیے کھل کر ان خود کش حملوں کو شروع سے ہی تاقیامت حرام قرار دے دیا ہے۔
/۔ آج جو امریکا ہم سے اتنا آگے ہے اسکا جواب ہرگز ہرگز خود کش حملے نہیں ہیں، بلکہ وہ علم کے میدان میں آگے پہنچا ہے اور جبتک ہم اس علم کے میدان میں پیچھے رہیں گے اُسوقت تک کسی صورت ممکن نہیں کہ ان خود کش حملوں سے علم کی میدان کا یہ گڑھا پاٹ سکیں۔

حامد میر کے اپنے کالم میں اس کا اچھا جواب موجود ہے وہ دوبارہ پڑھیئے گو کہ یہ آپ کی پرانی پوسٹ ہے اور اس جگہ غیر متعلق ہے تاہم اس کا جواب بہت سادہ ہے اور وہ یہ کہ خودکش حملے تو حرام اور غلط ہیں لیکن ڈرون حملے بھی جائز نہیں اس کی مذمت کیجئے۔

یہ وہ حقیقت ہے جو بہتر ہے کہ نہ بھولی جائے۔ طالبان خود کش حملہ آور اسی روڈ میپ پر چل رہے ہیں۔ اسی لیے امریکہ کو افغانستان میں اپنی فوجیں رکھنے کو مزید اور مزید جواز ملتا جا رہا ہے۔ اور چونکہ حملہ آور پاکستانی سرحدوں کے اندر سے کاروائیاں کر رہے ہیں، اس لیے امریکہ کو یہ جواز بھی ملتا جا رہا ہے کہ وہ اپنی کاروائیوں کا دائرہ کار پاکستان کے اندر تک پھیلا دے۔
ایک اہم بات آُ نظر انداز نہ کیجئے تو بہتر ہو گا کہ افغانستان امریکا کا حصہ نہیں ہے بلکہ امریکا خود ایک غاصب کی حیثیت رکھتا ہے وہ ایک علاقائی غنڈہ کی حیثت سے افغانستان پر قابض ہے اور اگر پاکستانی طالبان بالفرض پاکستانی سرحدوں کو عبور کر کہ افغانستان پر حملہ آور ہو تے ہیں تو اس چیز کو حل کرنے کہ اور بہت سارے طریقے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکی اور نیٹو افوج جو سرحدوں پر بیئٹھی ہیں یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان لوگوں کو روکیں نہ کہ ڈرون حملے کر کہ مزید بے گناہوں کی جان لیں ؟؟؟؟؟؟ گویا اپنی نااہلی کی سزا وہ ہمارے بے گناہ لوگوں سے لیں گی؟؟؟اور تف ہے پاکستانی حکومت پر جو اپنے بے گنا شہریوں‌کا دفاع نہ کر پائے خودکش حمہ آوروں سے بھی اور امریکی ڈرونز سے بھی۔؟؟؟
اور طالبان ان فدائی حملے کرنے میں حسن بن صباح کی سنت کی پیروی نہیں کر رہے [میری تحقیق کے مطابق حسن بن صباح ایک تاریخی حقیقت نہیں بلکہ افسانوی کردار ہے]۔۔۔۔۔۔ بلکہ اسلامی تاریخ میں کسی مسلم گروہ کی جانب سے سب سے پہلا فدائی خود کش حملہ ابن ملجم خارجی نے خلیفہ چہارم علی ابن ابی طالب پر کیا تھا، اور آج طالبان اسی کی سنت پر عمل کر رہے ہیں
 
یہ ایک ور انتہائی غیر متعلقہ چیز آپ نے یہاں پوسٹ کی ہے بہتر ہے کہ آئندہ آُپ جتنی متعلقہ باتیں کریں اتنا ہی میرا وقت بچے گا۔

ی
ہ جو آپ آج جہاد بالشعور کو برا بھلا کہہ رہے ہیں تو اگر آپ نے یہ جہاد بالشعور کر لیا ہوتا تو آج یہ دن ہی نہ دیکھنا پڑتا اور پوری قوم ایک پلیٹ فارم پر مجتمع ہوتی۔
یہ جہاد بالشعور [جس میں علمی و ٹیکنالوجی جہاد، تبلیغی جہاد وغیرہ سب شامل ہیں] نہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ ان انتہا پسندوں نے ملک کو اُس گڑھے میں دھکیل دیا ہے کہ جس میں صرف تاریکیاں ہی تاریکیاں ہیں۔
اور آپ جیسے جہاد بالسیف پر اکسانے والے تو وہ ہیں جو کہ اپنی طاقت کی اتنی بڑی بڑی بڑکیں مارا کرتے تھے ۔۔۔۔۔ تو کیا آپ کا آج دم نکل گیا ہے کہ امریکہ حملے پر حملے کر رہا ہے اور آپ خود باہر نکل کر مقابلہ کرنے کے آج پاک آرمی کی دھائیاں دے رہے ہیں؟ تو کہاں ہے آج آپ کی طالبان؟ کیا آج بھی ماضی کی طرح پھر سے ہمیشہ کی طرح پہاڑوں میں مفرور ہے اور ہمیشہ کی طرح پاکستان کی معصوم شہری آبادی کو امریکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ گئی ہے؟

یہ ہمارے اپنے انتہا پسند ہیں کہ جنہوں نے امریکا کی یہ مصیبت قوم پر نازل کروائی ہے۔ اور کل جب میں کہتی تھی کہ آپ کی ان دہشت گردیوں کے نتیجے میں جب امریکہ آئے گا تو قوم و ملک کا بہت نقصان ہو گا، تو اُس وقت یہ لوگ مجھے بزدلی کے طعنے دیتے تھے، مگر آج خود بزدلوں کی طرح بیٹھے ہوئے صرف پاک فوج پاک فوج کی دھائیاں مچائے ہوئے ہیں۔
شاید اسی کو کہتے ہیں کہ ظالم مارے بھی ار رونے بھی نہ دے۔ کیا خوب ہر بات کے ذمہ دار ہمارے ہی انتہا پسند ہیں اور یہ امریکا شاید اتنا مظلوم ہے اتنا فرشتہ ہے کہ بس ۔ کیا کہنے اس منطق کے امریکا سے لڑو تو انتہا پسند اور اپنی فوج کی طرف دیکھو کہ شاید وہ ڈرونز کے خلاف کچھ کرے تو بزدل کیا کہنے کیا کہنے۔کیا آپ بتا ئیں گی کہ سرحد کا ایک مظلوم پٹھان جو خودکش حملوں کے خلاف ہے وہ امریکی ڈرونز کا شکار کیوں بن رہا ہے اس نے کوئی مصیبت نہیں بلائی وہ رائٹ ونگ میں بھی نہیں‌ کیوں وہ اور اس کے اہل خانہ ڈرونز میں مر رہے ہیں؟؟؟؟

کیا دو رخا مزاج ہے صاحب کا کہ جس کے نزدیک عزت صرف حامد میر جیسے لوگوں کی ہے اور جب مشرف صاحب کو اس سے بڑھ کر ہزاروں باتیں کہی جا رہی ہوتی ہیں تو اس پر ان صاحب کو کوئی تکلیف نہیں تھی۔
گڈ۔ آپ کے مشرف صاحب آپ کو مبارک ہوں خدا وند کریم مشرف صاحب اور ان کے حامیوں کو کل قیامت میں یکجا کریں۔ جہاں تک حامد میر کا تعلق ہے میں نہ حامد میر کا حامی ہوں نہ مخالف اور نہ ہی مداح۔آپ کے انداز تحریر کو دیکھتے ہوئے میں نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ کہیں‌آپ اسی رو میں دوبارہ ذاتیات پر نہ اتر آئیں اور اسی حوالے سے انتظامیہ کو بھی ہوشیار کیا تھا۔ باقی اگر حامد میر پر یا کسی پر ایسی تنقید کرنی ہے جو دلائل سے مزین ہو تو بصد شوق کریں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
طالبان کے دفاع کے متعلق ان بہانوں کا پول میں پہلے کئی مرتبہ کھول چکی ہوں۔
مجھے طالبانی فتنے کی اصلیت کے متعلق مزید لکھنے کی ضرورت نہیں رہی کہ قوم کو خود اس کا ادراک ہو چکا ہے۔ شکر الحمدللہ۔
اور اب عوام امریکہ مخالفت اور اسلامی شریعت کے نام پر پھیلنے والے فتنے سے بہت اچھی طرح نہ صرف واقف ہو چکے ہیں بلکہ اسکے خلاف سرگرم بھی ہیں اور اپنی خاموشی کو توڑ چکے ہیں۔
از ابن حسن:
کیا آپ بتا ئیں گی کہ سرحد کا ایک مظلوم پٹھان جو خودکش حملوں کے خلاف ہے وہ امریکی ڈرونز کا شکار کیوں بن رہا ہے اس نے کوئی مصیبت نہیں بلائی وہ رائٹ ونگ میں بھی نہیں‌ کیوں وہ اور اس کے اہل خانہ ڈرونز میں مر رہے ہیں؟؟؟؟

کیسے آپ نے طالبانی فتنہ و فساد و خون و غارت سے آنکھیں موند رکھی ہیں۔ طالبان نے جن ہزاروں لاکھوں معصوم پاکستانیوں کو امریکہ مخالفت کے نام پر خون میں نہلا دیا ہے اور قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے تو ان مظلوموں نے تو امریکہ کو نہیں بلایا تھا۔ ان معصوموں کے خون کا حساب کون دے گا؟

اور آپ امریکی ڈرونز حملوں کا فقط بہانہ بنا رہے ہیں، ورنہ اگر واقعی سنجیدہ ہوتے تو سب سے پہلے طالبانی فتنے کو فی النار کر کے قوم کو اندرونی طور پر مضبوط کرتے۔ جس دن طالبانی فتنہ ختم ہو جائے گا، اس دن پاکستانی قوم پہلی مرتبہ سینہ ٹھونک کر امریکہ کے خلاف کھڑی ہو سکے گی اور امریکہ کے پاس کوئی بہانہ نہ ہو گا کہ وہ ڈرونز حملے جاری رکھ سکے۔

اب چاہے اس طالبانی فتنے کو ختم ہونے میں ایک ہفتہ لگے یا کئی سال، اسکو ختم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ یہ قرآنی حکم ہے کہ فتنے کو مارہ یہاں تک کہ وہ ختم ہو جائے یا اس کا زور ٹوٹ جائے یا پھر وہ توبہ کر کے اپنے فتنے سے باز آ جائے۔ یہ طالبانی فتنے آپ جیسے حضرات ہی کے تعاون و نصرت و حمایت سے شروع ہوا تھا اور ان کے جرم میں آپ جیسے اور حامد میر جیسے حضرات بہت بڑے شریک کار ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ قوم کو اس فتنے کا اسقدر ادراک ہو چکا ہے کہ اب چاہے سالوں لگ جائیں مگر وہ لڑنے کے لیے تیار ہیں بجائے اسکے کہ پھر وہی طالبانی دور واپس آتا دیکھیں جس میں مظلوموں کو مکھی مچھروں کی طرح طالبان دوبارہ قتل کر رہے ہوں۔

بہرحال یہ سب باتیں میں تفصیل سے پہلے لکھ چکی ہوں۔ مزید اس موضوع پر لکھنے کی بجائے میں اب مزید ان موضوعات پر لکھنا چاہوں گی جو ابھی تک چھپے ہوئے ہیں اور ان تاریک پردوں کو دور کرنا بہت لازم ہے تاکہ حق آشکار ہو سکے۔ انشاء اللہ۔
 

گرائیں

محفلین
مہوش آپ نے تو ابن حسن صاحب کے اس سوال کا جواب ہی گول کر دیا:

انھوں نے پوچھا تھا :
کیا آپ بتا ئیں گی کہ سرحد کا ایک مظلوم پٹھان جو خودکش حملوں کے خلاف ہے وہ امریکی ڈرونز کا شکار کیوں بن رہا ہے اس نے کوئی مصیبت نہیں بلائی وہ رائٹ ونگ میں بھی نہیں‌ کیوں وہ اور اس کے اہل خانہ ڈرونز میں مر رہے ہیں؟؟؟؟

اور آپ نے یہ کہا :

بھائی جی،
امریکہ کو خود آپ کے مجاہدین [القاعدہ و طالبان] نے اپنی حماقتوں و جہالت سے موقع دیا ہ [یا پھر شاید مجبور کیا ہے] کہ وہ افغانستان میں آئے۔
1۔ آپ پہلے یہ سوچیں کہ طالبان کو کس نے حق دیا تھا کہ وہ امریکی اسلحے اور سازش کے بھروسے اپنے ہی کئی لاکھ مسلمانوں کو قتل کرتے ہوئے افغانستان پر قابض ہو؟

آج کل آپ کے ممدوح باراک اوبامہ اس قتل عام کی تحقیق کروا رہے ہیں جس میں قندوز سے شبرغان جاتے ہوئے 2500 سے زیادہ طالبان سپاہیوں / لڑاکا لوگوں کو کنٹینروں میں بند کر کے مار دیا گیا تھا، اور رہی سہی کسر کنٹینروں پر فائرنگ کر کے پوری کی گئی تھی۔ یہ میں نہیں، طالبان حامی رائٹ ونگ میڈیا نہیں، آپ کے غیر جانبدار ادارے جیسے کہ بی بی سی، نیوز ویک اور نیو یارک ٹائمز جیسے ادارے کہہ رہے ہیں۔

کیاآپ ان 2500 لوگوں کے اس وحشیانہ قتل عام کی مذمت کر پائیں گی؟ مجھے یقین ہے آپ ضرور کریں گی کیونکہ آپ رائٹ ونگ میڈیا کی طرح جاہل اور آنکھ بند کر کے ظلم کی حمایت کرنے والوں میں ہر گز شامل نہیں، آپ عقل و فہم کی بنیاد پر دلائل دیتی ہیں اور ذاتیات میں الجھنے سے پرہیز کرتی ہیں۔ واضح رہے کہ جنرل رشید دوستم جس کے حکم پر دشت لیلی کا قتل عام ہوا تھا آج کل افغانستان کا وزیر دفاع ہے۔۔ (غالبا(۔۔۔
 

گرائیں

محفلین
Thursday, July 16, 2009
Ikram Sehgal

President Obama on Monday ordered US security officials to look into allegations that the Bush administration resisted efforts to investigate a CIA-backed Afghan warlord over the killings of hundreds of pro-Taliban prisoners in 2001. The prisoners were in the custody of Gen Abdul Rashid Dostum, a prominent warlord who served as chief of staff of Afghanistan's post-Taliban army and remains a prominent member of the Karzai government. The killings of hundreds of Pakistani citizens contributed to the emergence of Maulana Fazlullah as a militant leader in Swat. Obama told CNN's Anderson Cooper that "the indication that this had not been properly investigated was just recently brought to my attention."

On Dec 8, 2001, I had written, "Rashid Dostum, who is a law unto himself in his Uzbek home base of Mazar-i-Sharif, sees others as interlopers. The foreign fighters in Konduz who were tricked into surrendering to Rashid Dostum were dead men walking, given his track record there was no way they would ever walk out of Qila-i-Janghi alive. However one cannot for a moment believe or accept that civilised nations like the USA and UK will countenance such a massacre of prisoners in cold blood, whatever the circumstances." For eight years till Obama came along, the atrocity was ignored. Maybe there is hope for justice in this world after all.

Witnesses told The New York Times and Newsweek in 2002 that over a three-day period hundreds of Taliban prisoners were slain in the desperate uprising in Qila-i-Janghi fortress prison which was put down by Dostum's troops in November 2001. The survivors were stuffed into closed metal shipping containers and given no food or water. Many suffocated or were killed when guards shot into the containers. A recently declassified 2002 State Department intelligence report states that one source concluded that about 1, 500 Taliban prisoners died, including hundreds of Pakistanis. Most of them were those who had been led into Afghanistan from Pakistan by Sufi Mohammad. Their bodies lie buried in a mass grave in Dasht-i-Leili, a stretch of desert just outside Shebergan. Fearful of the anger of the parents of the young innocents he abandoned to their deaths, Sufi Mohammad, the Pied Piper of Konduz, and darling of the Pakistani electronic media for some time this year, chose to stay safe in prison in Pakistan, ceding authority by default to his brutal son-in-law, Maulana Fazlullah.

Desperately attempting to get attention of the powers-that-were, I had written almost five years ago to the day on July 12, 2003, "Our religiously idealistic young men went to fight the Soviets in great numbers, these were fresh recruits from the Madrasas motivated by their religious leaders (like Sufi Mohammad) to go to the help of Afghans, not out of love of money but out of love for their brethren in Islam. And what did they get in return? The Afghan element among the Taliban force defending Kabul melted away at the approach of Northern Alliance (mostly Tajik) troops, leaving a screen of Pakistanis within Kabul. Almost to a man these Pakistanis were murdered cold in blood by the Tajiks. In many cases the poor Pakistanis were made to lie down in drains and than shot dead like dogs. Worse happened in Konduz, where a force of 8,000 Taliban led by Mullah Dadullah negotiated a surrender to "General" Rashid Dostum commanding the "Jumbish Milli," and Mullah Atta Mohammad of the Northern Alliance. About a 1,000 or so hardened fighters refused to surrender and broke out, about 6,000 (a majority of them Pakistanis) were tricked into surrendering to Dostum by their leader Mullah Dadullah. There is an Indian canard picked up by some in Pakistan that 6,000 Pakistanis were airlifted from Konduz overnight, even the US with all its aviation resources would not be able to evacuate 300 each night from the Konduz airstrip in those circumstances. Almost all the Afghans, including Mullah Dadullah, were given food and water (it was the month of Ramazan) by Dostum and allowed to go off into the night. The Pakistanis paid the price for their (Afghan's) freedom. Arabs, Chechen and (mostly) Pakistanis were packed into container trucks. On Nov 29, 2001, the first convoy of 13 trucks (each packed with about 150 prisoners) set out from Qala Zeini for Shebergan. The next day another convoy of trucks came to Shebergan. According to Newsweek's eyewitness accounts, most were tied up like cattle, this fate was especially reserved for Pakistanis. Many had already died due to dehydration and suffocation, more than a 100 dead in some containers, only 20 or 30 surviving. The International Red Cross representatives applied to see the "Qila Janghi" prison on Nov 29 but were not given permission till Dec 10, 2001." Despite the abundance of evidence, nobody in Pakistan's ever discussed this atrocity. Mention was barely made in the media, Shebergan never happened!

Given Obama's directive, will Rashid Dostum, one of the most brutal warlords in a country that is known for its cruelty and bestiality even in normal circumstances, survive his criminal war excesses? More importantly, will those CIA operatives who not only participated in this crime but were accessories to the cold-blooded murders be indicted by the US government? By the way Rashid Dostum maintains one of his wives in Islamabad, or did till very recently, through whose benevolent courtesy is (or was) this local "logistics" arrangement possible? Osur rulers certainly lack self-respect in accommodating even outright war criminals. Those in positions of authority during Musharraf's reign are accessories to war crimes by their deliberate criminal negligence in not making Sufi Mohammad answer for his cowardice and turning a blind eye to Dostum. Will the final act of Konduz and Shebergan be enacted in Swat? Will the blood of our youth being spilt in Swat wake this nation to the bloody excesses perpetrated and those responsible be indicted? If Kargil is an example, they never will be!



The writer is a defence and political analyst. Email: isehgal@pathfinder9.com

http://thenews.com.pk/daily_detail.asp?id=188193
 

عین عین

لائبریرین
سرحد کا ایک مظلوم پٹھان جو خودکش حملوں کے خلاف ہے وہ امریکی ڈرونز کا شکار کیوں بن رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی طرح‌ ایک سوال یہ بھی ہے کہ عام مسلمان جو امریکا کے یا مغربی یلغار کے خلاف ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ کیوں طالبان کے خود کش حملوں‌ میں مر رہا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔ خود کش حملہ آور عام افراد کو بھی لے جاتا ہے اپنے ساتھ ’جنت‘ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے یہ حق کس نے دیا؟ لوگ جینا چاہتے ہیں‌۔ تو یہ کون ہیں جو ان کو جنت میں لے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امریکی یا کافر یا دشمن کے ساتھ ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟ وہی امریکی بمباری میں‌ بھی ہو رہا ہے۔ سادہ سی بات ہے
 

arifkarim

معطل
ارے لوگو؟!؟!؟!؟
یہ دوغلے کھیل کون کھیل رہا ہے، اسکی تلاش کرو۔ یہ تو بالکل ایسا ہی ہے کہ ہم پتلہ شو پر زورو شور سے اپنے دلائل ثابت کرنے کی کوشش کریں لیکن پتلے نچانے والے کو بالکل ہی نظر انداز کردیں۔
اگر کسی نے یہاں Zionist ایجنڈا پڑھا ہو تو اسکو خود ہی ۹/۱۱ کی حقیقت آشکار ہو جائے گی!
 
بہرحال یہ سب باتیں میں تفصیل سے پہلے لکھ چکی ہوں۔ مزید اس موضوع پر لکھنے کی بجائے میں اب مزید ان موضوعات پر لکھنا چاہوں گی جو ابھی تک چھپے ہوئے ہیں اور ان تاریک پردوں کو دور کرنا بہت لازم ہے تاکہ حق آشکار ہو سکے۔ انشاء اللہ
۔
مجھے آپ سے یہی‌امید تھی۔ بہت شکریہ
بہتر ہے کہ آئیندہ آپ میرا وقت ضائع کرنے سے گریز کریں۔
 
سرحد کا ایک مظلوم پٹھان جو خودکش حملوں کے خلاف ہے وہ امریکی ڈرونز کا شکار کیوں بن رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی طرح‌ ایک سوال یہ بھی ہے کہ عام مسلمان جو امریکا کے یا مغربی یلغار کے خلاف ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ کیوں طالبان کے خود کش حملوں‌ میں مر رہا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔ خود کش حملہ آور عام افراد کو بھی لے جاتا ہے اپنے ساتھ ’جنت‘ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے یہ حق کس نے دیا؟ لوگ جینا چاہتے ہیں‌۔ تو یہ کون ہیں جو ان کو جنت میں لے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امریکی یا کافر یا دشمن کے ساتھ ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟ وہی امریکی بمباری میں‌ بھی ہو رہا ہے۔ سادہ سی بات ہے

عین عین صاحب اس تھریڈ کے شروع میں جو حامد میر کا کالم دیا گیا ہے وہ ذرا غور سے پڑھئیے آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا۔
 

arifkarim

معطل
ویسے یہ "ڈاکٹر" جوش صاحب نے جو انکشافات کئے ہیں، انکے لئے یہی پیغام دوں گا کہ انہوں نے کوئی بہت بڑا معرکہ نہیں‌مارا۔ مغربی حکومتیں صدیوں سے یہی کرتی آئی ہیں۔ یعنی دوسری قوموں کے قدرتی وسائل پر قبضہ، انسانی ہمدردی کی آڑ میں!
 

گرائیں

محفلین
مہوش علی صاحبہ، میں نے آپ سے جو سوال پوچھا ہے، براہ مہربانی اس کا جواب یہاں دیں، اور کسی اور دھاگے میں ڈھکے چھپے الفاظ میں مجھ پر طنز کرنے سے گریز کریں۔
 

گرائیں

محفلین
مہوش علی صاحبہ میں ابھی بھی آپ کی طرف سے دشت لیلی میں رشید دوستم کی مرضی پر کیے گئے قتل عام کی مذمت کا منتظر ہوں۔

کہاں ہے آپ کی نام نہاد انصاف پسندی؟
 

مہوش علی

لائبریرین
مہوش علی صاحبہ میں ابھی بھی آپ کی طرف سے دشت لیلی میں رشید دوستم کی مرضی پر کیے گئے قتل عام کی مذمت کا منتظر ہوں۔

کہاں ہے آپ کی نام نہاد انصاف پسندی؟

ہر ظلم سے، ہر ظالم سے انصاف ہونا چاہیے اور ظلم کا حساب ہونا چاہیے، اور صدر اوباما سے مجھے صدر بش کی نسبت زیادہ اچھی امیدیں ہیں [یہ نہیں کہ میں انکی حمایتی ہوں، بلکہ یہ بش اور اوبامہ کی نسبت کا فرق ہے]۔ صدر اوباما کو یہ تحقیقات بہت پہلے کروا لینی چاہیے تھیں، بلکہ امریکہ کے لیے بہتر تھا کہ یہ تحقیقات اس واقعے کے فورا بعد بش کے زمانے میں ہو جاتیں۔

دوسری طرف جو ان پر فریق مخالف کی طرف سے "جان بوجھ" کر قتل کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے، مجھے ابتک اسکی دلیل نہیں مل سکی ہے۔
ابتک کی سامنے آنے والی خبروں کے مطابق میں یہ سمجھ سکی ہوں کہ Intention ان لوگوں کو قتل کرنے کی نہیں تھی، بلکہ انکی جہالت کہ یہ سمجھ ہی نہ سکے کہ ایک کنٹینر میں یوں لوگوں کو بھر دینے سے انکی موت یقینی ہے۔
اگر انکی نیت واقعی قتل کی ہوتی تو اس کے مواقع انہیں کنٹینر سفر شروع ہونے سے قبل حاصل تھے، یا پھر نئی جیل میں لے جا کر قتل کر سکتے تھے، یا پھر وہ دو چار لوگ جو ان کنٹینرز میں مرنے سے بچ گئے اور بعد میں انہوں نے یہ کہانی بیان کی، ان کو بھی مار دیا جاتا۔

چنانچہ تحقیقات کے نتیجے میں جو بھی بات سامنے آئے، اسکے مطابق سزا ملنی چاہیے۔ اگر عمدا قتل عام تھا تو عمدا قتل کی سزا ملنی چاہیے، اور اگر سہوا ہوا تو بھی اس سہوا غلطی کی سزا ملنی چاہیے۔ دنیا میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہونا چاہیے کہ شتر بے مہار کی طرح انسانوں کا قتل کرتا پھرے [طالبان کو بھی اسلام کے نام پر یہ حق حاصل نہیں]

*********************

میں اس موضوع میں مزید الجھنا تو نہیں چاہتی تھی، مگر:

کیا آپ بتا ئیں گی کہ سرحد کا ایک مظلوم پٹھان جو خودکش حملوں کے خلاف ہے وہ امریکی ڈرونز کا شکار کیوں بن رہا ہے اس نے کوئی مصیبت نہیں بلائی وہ رائٹ ونگ میں بھی نہیں‌ کیوں وہ اور اس کے اہل خانہ ڈرونز میں مر رہے ہیں؟؟؟؟ہے

پہلے تو یہ بتایا جائے کہ مجھ سے یہ مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے کہ اس سوال کا جواب دوں؟ نہ میں یہ ڈرونز حملے کر رہی ہوں اور نہ کسی کو مار رہی ہوں۔ لہذا مجھ سے اس سوال کرنا بنیادی طور پر غلط ہے۔

اور جب میں معصوم بے گناہوں کو مرتا دیکھتی ہوں تو اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ یا اللہ تو ہمیں دانا دشمن دے دے، مگر جاہل و وحشی درندہ صفت احمق دوست/ ہم ملکی نہ دے کہ جس کی ان بری خصلتوں کے عذاب کا ایک حصہ بے گناہوں کو یقینی طور پر جھیلنا پڑے کہ گیہوں کے ساتھ ہمیشہ گھن بھی پس جاتا ہے۔

انہی امریکیوں نے سازش کرتے ہوئے طالبان کی ناجائز پیدائش کروائی، انہیں پالا پوسا، ہتھیار فراہم کیے کہ سب سے پہلے افغان معصوموں کا یہ خون پئیں۔ پھر یہی طالبان تھے جو جہاد کی ڈینگیں مار رہے تھے اور جب امریکہ نے حملہ کیا تو اپنی معصوم نہتی عوام و عورتوں بچوں کو امریکہ طیاروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر پہاڑوں پر اچھلتے پھر رہے تھے اور فرار ہونے کے لیے پناہ گاہیں ڈھونڈ رہے تھے۔ ان امریکی ڈرونز حملوں میں مرنے والے معصوم پاکستانیوں کی باری تو بہت بعد کی بات ہے، مگر ان جاہل و بے وقوف جہاد کی ڈینگیں مارنے والوں کی لائی ہوئی تباہی اس سے قبل لاکھوں معصوم افغانوں کا خون پی چکی ہے، مگر پھر بھی ہماری قوم کو ہوش نہ آیا اور انہوں نے میڈیا پر ان رائیٹ ونگ والوں کو ناچنے دیا اور نتیجہ آج یہ نکلا کہ یہ تباہی ہمارے اپنے گھر میں ہو رہی ہے۔

اور ان صاحبان کا میں کیا حال بیان کروں جو آج امرکی ڈرونز حملوں کا رونا تو رو رہے ہوتے ہیں، مگر یہ دیکھنے سے قاصر ہیں کہ ان ڈرونز سے ہزار گنا زیادہ معصوم پاکستانیوں کا خون ان طالبانی درندوں نے بہا دیا ہے، مگر انکے خلاف کچھ شاذ و نادر ہی کوئی لفظ نکلتا ہے، الٹا یہ ہر اُس شخص کے گلے پڑ جاتے ہیں جو اس طالبانی درندگی کے خلاف احتجاج کرتا ہے اور اسے امریکہ پٹھو اور لبرل فاشسٹ کا نام دے دیتا ہے۔

امریکی درونز حملے انکے اس رونے دھونے کے ڈھکوسلوں اور امریکہ کے خلاف جہاد کی ڈینگوں سے بند ہونے والے نہیں اور نہ ہی ان بے چارے معصوم پشتون برادران کی مصائب میں کمی ہونے والی ہے جو امریکی ڈرونز حملوں میں بھی مر رہا ہے اور طالبان کے ہاتھوں بھی مر رہا ہے اور طالبان کے خلاف لشکر کشی کر کے بھی مر رہا ہے۔

ہمیں اگر اپنے ان معصوم پشتون عوام کو ان دونوں فتنوں کے ہاتھوں مرنے سے بچانا ہے تو اسکا واحد حل یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنے ملک کے اندر موجود اس طالبانی فتنے کا سر کچل دیا جائے اور اسے اس حد تک کمزور کر دیا جائے کہ یہ ناکارہ ہو جائے۔ اس ہی کے بعد قوم اندرونی طور اتنی مضبوط ہو پائے گی کہ بیرونی خطرات سے مقابلہ کر سکے۔ جس دن یہ طالبانی فتنہ کچلا گیا وہ ان امریکہ ڈرونز حملوں کا آخری دن ہو گا اور پھر اس کے پاس کوئی اور حیلہ نہ ہو گا کہ وہ ان حملوں کو جاری رکھ سکے۔ اس دن نہ صرف پاکستان اقوام متحدہ، بلکہ دنیا کے ہر ہر فورم پر امریکہ کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر ڈرونز حملوں کو جواب دے سکے گا، اور نہ صرف پاکستان، بلکہ خود امریکی عوام کا غالب حصہ پاکستان کے حق میں ہو گا۔

اور انصاف کی بات یہ ہے کہ مجھے موجودہ حکومت سے جتنا مرضی اختلاف ہو، مگر اس معاملے میں جو الزامات رائیٹ ونگ میڈیا حکومت پر لگاتا ہے وہ سراسر غلط اور جھوٹ ہیں۔ یہ چیز موجودہ حکومت کے اختیار سے باہر ہے کہ وہ ان ڈرونز حملوں کو روک سکے، اور جو یہ جہاد کی ڈینگیں مارنے والے احمق ہیں، انہیں پھر یاد کرنا چاہیے کہ انکی ایسی ہی ڈینگوں کے نتیجے میں ڈرونز تو ایک طرف رہیں، امریکی بی 52 بمبار طیارے بارود بھر بھر کر افغانستان میں حملے کر رہے تھے اور بے تحاشہ مخلوق خدا ماری جا رہی تھی، مگر مشکل ہے کہ ہماری ان باتوں سے یہ عقل پکڑ سکیں، اور افسوسناک پہلو ہی یہ ہے کہ انہیں عقل اسی وقت آئے گی جب پھر سے امریکی طیارے بارود بھر بھر کر حملے کر رہے ہوں گے اور یہ پھر سے نہتی عوام کو ان امریکی طیاروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر پہاڑوں میں فرار ہوتے پھر رہے ہوں گے اور نہ صرف معصوم پشتون آبادی، بلکہ پورے پاکستان کی معصوم آبادی انکی اس حماقت کا صلہ بھگت رہی ہو گی۔

مرد نادان کو نصیحت بے کار۔

اب اللہ ہی انہیں ہدایت دے تو دے، یا پھر شاید جب امریکی بم ان پر برس رہے ہوں تو اُس وقت انہیں عقل آ رہی ہو۔
 
Top