م حمزہ
محفلین
میں صبح سے شام تک بس ای میل ہی لکھتا رہتا ہوں۔ وہ بھی اپنے گاؤں والوں کو نہیں (مجھے یقین ہونے لگا ہے ہم ہی اصحاب کہف ہیں ) دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والوں کو۔کیا آپ کو دفتری کاموں کے لئے ای میل کی ضرورت نہیں ہوتی؟
میں صبح سے شام تک بس ای میل ہی لکھتا رہتا ہوں۔ وہ بھی اپنے گاؤں والوں کو نہیں (مجھے یقین ہونے لگا ہے ہم ہی اصحاب کہف ہیں ) دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والوں کو۔کیا آپ کو دفتری کاموں کے لئے ای میل کی ضرورت نہیں ہوتی؟
حمزہ بھائی! میرے زیادہ تر رشتہ دار اب بھی گاؤں میں ہی رہتے ہیں۔ اور وہاں اب بھی بہت سی ایسی چیزیں مستعمل ہیں جو شہروں میں متروک یا معدوم ہو چکی ہیں۔یاز بھائی میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ میں کیا لکھوں ۔ اور پھر یہ "ابھی بھی" ۔
یا پھر آپ علانیہ کہہ دیں کہ وہ گاؤں کے رشتہ دار م حمزہ ہے ۔
کل رات سے میں اسی کیلئے چلا رہا تھا۔ یہ آج بھی ہمارے گھر میں مستعمل ہے۔ البتہ آجکل بٹہ لکڑی کا استعمال میں ہے۔
دائیں جانب بٹہ ہے۔ اور یہ میرے سے زیادہ پرانا ہے۔
بائیں جاب ہاون دستہ ہے۔ یہ کم از کم پندرہ سال پرانا ہے۔
ہم نے تو بہت کھیلا ہے بچپن میں۔محفل میں اس کھیل کے کتنے کھلاڑی موجود ہیں ۔
ایسی سلیں لیکن زیادہ تر گول شکل کی آج بھی ہماری خاص ضروریات میں سے ہیں۔ ان پر گوشت کوٹ کر ہی رستہ اور گوشتابہ وغیرہ بنایا جاتا ہے۔ جن کے بغیر کوئی دعوت دعوت نہیں ہوتی۔ اس کا استعمال شہر و دیہات میں یکساں ہے۔ اس کی تصویریں عنقریب شیئر کرونگا۔
یہ ٹوٹی ہوئی سل ہے۔ یہ بھی غالباً 10،15 سال پرانی ہے۔
یہ ہمارے ہاں قریباً متروک ہے۔
چکی۔۔۔۔آج بھی اسکا استعمال کیا جاتا ہے۔ آٹا پیسنے کیلئے ۔ بلکہ ستو کی ایک خاص قسم کیلئے اسی کا استعمال کیا جاتا ہے۔باقی محفلین یہ دیکھیں
کامل اتفاق ہوتا اگر آپ تھا کی جگہ ہے لکھتیں۔سلائی کڑھائی کا کام بھی روز ہوتا تھا. پتا نہیں کیا کیا کاڑھا جاتا رہتا تھا اور گھر کے معمولات سے فارغ ہو کر سارا دن اس طرح وقت گزرتا کہ سب کڑھائی کر رہی ہیں اور باتیں کر رہی ہیں یا کچھ بُننا اور اس قسم کے مشاغل ہوتے تھے.
اب مشاغل انٹرنیٹ کی مرہون منت ہیں اور وہ سب سے بڑا ٹائم ایٹر ہے.
ایسے لکھیں گے تو میرا بلڈپریشر نارمل رہے گا۔مٹی کے اس طرح کے برتن کا استعمال بھی بچپن میں کافی دیکھا۔ اس میں سے کچھ ابھی بھی استعمال ہوتے ہیں۔
پنجابی نام اور اردو ترجمہ کچھ یوں تھا
تواکھڑی = پلیٹ
تولی = ہانڈی
چھونا = ڈھکن
صحنک = پرات
وغیرہ وغیرہ
گشتابہ ہمارے ایک محلہ دار کشمیری بھائی نے کھلایا تھا۔ایسی سلیں لیکن زیادہ تر گول شکل کی آج بھی ہماری خاص ضروریات میں سے ہیں۔ ان پر گوشت کوٹ کر ہی رستہ اور گوشتابہ وغیرہ بنایا جاتا ہے۔ جن کے بغیر کوئی دعوت دعوت نہیں ہوتی۔ اس کا استعمال شہر و دیہات میں یکساں ہے۔ اس کی تصویریں عنقریب شیئر کرونگا۔
واپس آنے کا ان کوئی ارادہ بھی نہ ہوگا۔گشتابہ ہمارے ایک محلہ دار کشمیری بھائی نے کھلایا تھا۔
ہمارے محلہ میں "آپ کی طرف والے" کشمیر کے کافی لوگ ہیں۔
یہ تو ہوگئی خواتین کی بات۔ ذرا مرد حضرات کے پرانے معمولات پر بھی اک ذرا روشنی ڈال دیں تاکہ مرد حضرات کو بھی شکر ادا کرنے کا موقع مل جائے۔آج پرانے وقتوں کی باتیں بڑوں سے سننا ایک فینٹسی لگتا ہے۔۔۔
صبح صبح نماز سے فارغ ہوکر خواتین مدھانی چلارہی ہیں۔۔۔
مکھن نکال رہی ہیں۔۔۔
پراٹھے بنائے جارہے ہیں۔۔۔
باورچی خانے کی چمنی سے نکلتا دھواں علامت تھا کہ صبح سویرے زندگی بھرپور انگڑائی لے کر جاگ اٹھی ۔۔۔
دیسی گھی کے نرم گرم پراٹھے اور لسی یا چھاچھ ۔۔۔
ناشتے سے فارغ ہوکر گھر کی صفائی۔۔۔
کبھی بہت ساری عورتیں جمع ہوجاتیں ۔۔۔
اور چکی پر نہ جانے کیا کیا دَلا اور پسا جاتا۔۔۔
پھر فہد اشرف کی ڈھینکی پر گندم کو پھونکیں مار مار کر بھوسی اڑائی جاتی۔۔۔
خوشی اور تہوار کے مواقع پر سب خواتین مل کر دوپٹے رنگتیں۔۔۔
مہندی لگتی۔۔۔
چوڑیاں کھنکتیں۔۔۔
فضاؤں میں خوشیوں سے بھرپور قہقہے گُھلتے ۔۔۔
چولہے پر پتیلے چڑھتے، چمچے کھڑکتے ۔۔۔
لبے چوڑے دستر خوان بچھتے۔۔۔
لوگ آتے جاتے، کھاتے جاتے۔۔۔
سارا دن یہ سلسلہ چلتا ۔۔۔
دستر خوان کی رونقوں پر بہار رہتی۔۔۔
نوک جھوک ہوتی، پرانی رنجشیں نکلتیں۔۔۔
صلح صفائی ہوتی۔۔۔
اور کمزور ہوتے رشتے دوبارہ توانا ہوجاتے۔۔۔
مردانے کی بیٹھک میں خاندان والے، دوست اور پڑوسی آتے۔۔۔
پہلے مہمانوں کی آمد کے لیے تیاریوں کی بھاگ دوڑ۔۔۔
دور دراز سے آئے مسافروں کے لیے بستر بچھونے کا انتظام ۔۔۔
پھر ان کا استقبال کرنا۔۔۔
مہمان نوازی کرنا۔۔۔
مل بیٹھ کر خاندانی مسائل کے حل نکالنا۔۔۔
ضرورت مندوں کی فکر کرنا۔۔۔
آپس میں ہنسنا بولنا۔۔۔
اور ایک دوسرے کے کام آنا۔۔۔
اب یہ ساری باتیں مفقود ہوگئیں۔۔۔
ماضی کا حصہ بن گئیں۔۔۔
حال میں شاذ و نادر کہیں نظر آتی ہیں۔۔۔
خاندانی رشتوں کا استحکام خطرے میں پڑگیا۔۔۔
سچے رشتوں کی جگہ ہوائی مخلوق یعنی سماجی روابط نے لے لی۔۔۔
حقیقی رشتوں کی آنچ مدھم پڑگئی۔۔۔
نہ وہ میل ملاپ رہا نہ اہم مواقع پر ایک دوسرے کے یہاں کئی کئی دن رین بسیرا کرنا۔۔۔
کون فاقے سے، کس کے گھر میں پریشانی ہے۔۔۔
آج سے یہ مسئلہ دوسروں کا دردِ سر نہیں۔۔۔
کوئی بیمار پڑا تو واٹس ایپ کے میسج پر خیریت دریافت کی۔۔۔
یا چند منٹ ہاسپٹل کا وزٹ کرلیا۔۔۔
بیمار کے گھر والوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر موبائل اور کیبل کی فرضی دنیا میں واپس آگئے۔۔۔
اور پھر۔۔۔
ہر شخص اپنی ذات میں تنہا رہ گیا!!!
اس میں صرف دال دلتے ہیں۔ آٹے پیسنے والی اس سے تھوڑی بڑی ہوتی ہے۔چکی۔۔۔۔آج بھی اسکا استعمال کیا جاتا ہے۔ آٹا پیسنے کیلئے ۔ بلکہ ستو کی ایک خاص قسم کیلئے اسی کا استعمال کیا جاتا ہے۔
اگر چہ عام نہیں ہے۔
اسی سے یاد آیا کہ یاہو پہ پہلا ای میل ایڈریس اتنا پہلے بنایا تھا کہ اس وقت چار کیریکٹر کا پاس ورڈ بھی چلتا تھا۔ اس ایڈریس کو اب استعمال تو کم ہی کرتا ہوں، لیکن ویسے ابھی تک قائم ہے اسی پاس ورڈ کے ساتھ۔میں صبح سے شام تک بس ای میل ہی لکھتا رہتا ہوں۔ وہ بھی اپنے گاؤں والوں کو نہیں (مجھے یقین ہونے لگا ہے ہم ہی اصحاب کہف ہیں ) دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والوں کو۔
مٹی کے اس طرح کے برتن کا استعمال بھی بچپن میں کافی دیکھا۔ اس میں سے کچھ ابھی بھی استعمال ہوتے ہیں۔
پنجابی نام اور اردو ترجمہ کچھ یوں تھا
تواکھڑی = پلیٹ
تولی = ہانڈی
چھونا = ڈھکن
صحنک = پرات
وغیرہ وغیرہ
ٹھوٹھیاں تو ابھی بھی عام ملتی ہیں۔اور ہاں!
'کُجِیاں ٹُھٹِھیاں' کس نے استعمال کی ہیں بچپن میں محرم کے دنوں میں؟