دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تُو

حمزہ بھائی! میرے زیادہ تر رشتہ دار اب بھی گاؤں میں ہی رہتے ہیں۔ اور وہاں اب بھی بہت سی ایسی چیزیں مستعمل ہیں جو شہروں میں متروک یا معدوم ہو چکی ہیں۔
میرا اپنا بچپن بھی دس سال کی عمر تک گاؤں میں ہی گزرا تھا۔اور ایسی کئی چیزیں خود بھی دیکھیں یا استعمال کیں، جو اب گاؤں میں بھی کم کم دکھائی دیتی ہیں۔
م حمزہ بھائی! میری طرف سے بھی یہی!
 

سید عمران

محفلین
یہ تو ہوگئی خواتین کی بات۔ ذرا مرد حضرات کے پرانے معمولات پر بھی اک ذرا روشنی ڈال دیں تاکہ مرد حضرات کو بھی شکر ادا کرنے کا موقع مل جائے۔ :)
اگرچہ اسی مراسلہ میں مردوں کی تھوڑی مصروفیات ذکر کردی گئی تھیں۔۔۔
لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ ۔۔۔
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ۔۔۔
عورتوں کی بہ نسبت مردوں کی زندگی اتنی رنگا رنگ نہیں ہوتی۔۔۔
بس محفل بزم میں شعر و شاعری اور داد کے ڈونگرے سے ذرا خوش ہوگئے۔۔۔
بہت زیادہ عیاشی ہوگئی تو دوستوں یاروں میں بیٹھ کر تھوڑی گپ شپ لگالی۔۔۔
ورنہ میدان رزم میں توپوں اور بندوقوں کی خوفناک آوازیں سننا، خاک و خون میں ملنا۔۔۔
بابو جی کا دفتروں میں سارا دن فائلوں میں سر کھپانا، کمپیوٹر پر انگلیوں کی ٹِکا ٹِک مچانا، باس کی جھڑکیاں سننا، جی حضوری کرنا۔۔۔
سیلز والے کا ایک کسٹمر سے دوسرے کسٹمر تک بھاگ دوڑ کرنا، ان کو سمجھانا بجھانا، منانا۔۔۔
فیکٹری والے کا مشینوں کی دھوم دھاڑ، شورِ کان پھاڑ سہنا ۔۔۔
بھٹیوں کی تپش برداشت کرنا۔۔۔
مزدور پیشہ لوگوں کا اینٹیں ، سیمنٹ، مٹی، بجری ڈھونا۔۔۔
دکان داروں کا سارا دن پڑیا، تھیلیاں تولنا، پیکٹ بنانا بنانا کر گاہکوں کو دینا۔۔۔
کسانوں کا تپتی گرمیوں اور کڑکڑاتی سردیوں میں ہل چلانا، زمین سینچنا، بیج بونا، فصل کی رکھوالی کرنا، وقت آنے پر انہیں کاٹنا۔۔۔
ڈاکٹروں کا ایک کے بعد ایک لاتعدادمریض دیکھے جانا، آرام کے موقع کی تلاش کو ترسنا یا فارغ وقت میں مریضوں کی راہ تکنا۔۔۔
بال بچوں کو زندگی کی توانائی فراہم کرتے رہنے کی کوششوں میں لاغر ہوتے رہنا۔۔۔
اور بالآخر یہ آزار سہہ سہہ کر عورتوں سے پہلے مرجانا!!!
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
یہ "باندر کِلّہ" کس کس نے کھیلا ہے؟ اور سچ سچ بتانا بھیا اس میں مار کس کس کو پڑی ہے۔ :)

Bandar_Qilla.jpg
 

فہد اشرف

محفلین
آج پرانے وقتوں کی باتیں بڑوں سے سننا ایک فینٹسی لگتا ہے۔۔۔
صبح صبح نماز سے فارغ ہوکر خواتین مدھانی چلارہی ہیں۔۔۔
مکھن نکال رہی ہیں۔۔۔
پراٹھے بنائے جارہے ہیں۔۔۔
باورچی خانے کی چمنی سے نکلتا دھواں علامت تھا کہ صبح سویرے زندگی بھرپور انگڑائی لے کر جاگ اٹھی ۔۔۔
دیسی گھی کے نرم گرم پراٹھے اور لسی یا چھاچھ ۔۔۔
ناشتے سے فارغ ہوکر گھر کی صفائی۔۔۔
کبھی بہت ساری عورتیں جمع ہوجاتیں ۔۔۔
اور چکی پر نہ جانے کیا کیا دَلا اور پسا جاتا۔۔۔
پھر فہد اشرف کی ڈھینکی پر گندم کو پھونکیں مار مار کر بھوسی اڑائی جاتی۔۔۔
خوشی اور تہوار کے مواقع پر سب خواتین مل کر دوپٹے رنگتیں۔۔۔
مہندی لگتی۔۔۔
چوڑیاں کھنکتیں۔۔۔
فضاؤں میں خوشیوں سے بھرپور قہقہے گُھلتے ۔۔۔
چولہے پر پتیلے چڑھتے، چمچے کھڑکتے ۔۔۔
لبے چوڑے دستر خوان بچھتے۔۔۔
لوگ آتے جاتے، کھاتے جاتے۔۔۔
سارا دن یہ سلسلہ چلتا ۔۔۔
دستر خوان کی رونقوں پر بہار رہتی۔۔۔
نوک جھوک ہوتی، پرانی رنجشیں نکلتیں۔۔۔
صلح صفائی ہوتی۔۔۔
اور کمزور ہوتے رشتے دوبارہ توانا ہوجاتے۔۔۔
مردانے کی بیٹھک میں خاندان والے، دوست اور پڑوسی آتے۔۔۔
پہلے مہمانوں کی آمد کے لیے تیاریوں کی بھاگ دوڑ۔۔۔
دور دراز سے آئے مسافروں کے لیے بستر بچھونے کا انتظام ۔۔۔
پھر ان کا استقبال کرنا۔۔۔
مہمان نوازی کرنا۔۔۔
مل بیٹھ کر خاندانی مسائل کے حل نکالنا۔۔۔
ضرورت مندوں کی فکر کرنا۔۔۔
آپس میں ہنسنا بولنا۔۔۔
اور ایک دوسرے کے کام آنا۔۔۔
اب یہ ساری باتیں مفقود ہوگئیں۔۔۔
ماضی کا حصہ بن گئیں۔۔۔
حال میں شاذ و نادر کہیں نظر آتی ہیں۔۔۔
خاندانی رشتوں کا استحکام خطرے میں پڑگیا۔۔۔
سچے رشتوں کی جگہ ہوائی مخلوق یعنی سماجی روابط نے لے لی۔۔۔
حقیقی رشتوں کی آنچ مدھم پڑگئی۔۔۔
نہ وہ میل ملاپ رہا نہ اہم مواقع پر ایک دوسرے کے یہاں کئی کئی دن رین بسیرا کرنا۔۔۔
کون فاقے سے، کس کے گھر میں پریشانی ہے۔۔۔
آج سے یہ مسئلہ دوسروں کا دردِ سر نہیں۔۔۔
کوئی بیمار پڑا تو واٹس ایپ کے میسج پر خیریت دریافت کی۔۔۔
یا چند منٹ ہاسپٹل کا وزٹ کرلیا۔۔۔
بیمار کے گھر والوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر موبائل اور کیبل کی فرضی دنیا میں واپس آگئے۔۔۔
اور پھر۔۔۔
ہر شخص اپنی ذات میں تنہا رہ گیا!!!
نہیں یادِ ماضی پہ آہیں بھرتی ہیں۔۔۔
ان کاموں میں بے شک محنت تو تھی۔۔۔
لیکن اس محنت مشقت کا پھل صحت کی صورت میں ملتا تھا۔۔۔
ہمارے اکثر بزرگوں کی عمر نوے برس کی ہوئی۔۔۔
اس کے باوجود وہ یورک ایسڈ، تیزابیت، بلڈ پریشر، دل کے امراض، گھٹنوں اور جوڑوں کی تکالیف سے ناآشنا تھا۔۔۔
نماز کھڑے ہوکر پڑھتے تھے۔۔۔
مساجد میں کرسیوں کا تو وہم و گمان تک نہ تھا۔۔۔
ڈپریشن کا لفظ بھی کبھی نہ سنا تھا۔۔۔
چوں کہ مختلف وجوہات سے ہمارا واسطہ لوگوں سے رہتا ہے۔۔۔
اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ آج بے شمار لوگ ڈپریشن میں مبتلا ہوگئے۔۔۔
اس کی ایک بڑی وجہ ہے دوستوں، رشتے داروں سے دوری، ان سے اختلاط کی کمی، آپس میں نہ ہنسا نہ بولنا نہ دل کی بھڑاس نکالنا۔ دل کے غم دل ہی دل میں پکاتے رہنا ۔۔۔
اور بالآخر نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوجانا!!!
وہ تو ہے۔۔۔
محنت مشقت سے تو جان چھڑالی۔۔۔
مگر بیماریوں کا آزار مول لیا۔۔۔
بھاگ دوڑ نہیں تو کھانا ہضم نہیں، بدہضمی کی شکایت، قبض کا مسئلہ، جوڑوں کی جکڑن۔۔۔
پسینہ نکالنے والے کام نہیں تو پٹھوں کی اکڑن، طبیعت میں کسل مندی اور دماغ کی تر و تازگی مفقود!!!
اگرچہ اسی مراسلہ میں مردوں کی تھوڑی مصروفیات ذکر کردی گئی تھیں۔۔۔
لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ ۔۔۔
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ۔۔۔
عورتوں کی بہ نسبت مردوں کی زندگی اتنی رنگا رنگ نہیں ہوتی۔۔۔
بس محفل بزم میں شعر و شاعری اور داد کے ڈونگرے سے ذرا خوش ہوگئے۔۔۔
بہت زیادہ عیاشی ہوگئی تو دوستوں یاروں میں بیٹھ کر تھوڑی گپ شپ لگالی۔۔۔
ورنہ میدان رزم میں توپوں اور بندوقوں کی خوفناک آوازیں سننا، خاک و خون میں ملنا۔۔۔
بابو جی کا دفتروں میں سارا دن فائلوں میں سر کھپانا، کمپیوٹر پر انگلیوں کی ٹِکا ٹِک مچانا، باس کی جھڑکیاں سننا، جی حضوری کرنا۔۔۔
سیلز والے کا ایک کسٹمر سے دوسرے کسٹمر تک بھاگ دوڑ کرنا، ان کو سمجھانا بجھانا، منانا۔۔۔
فیکٹری والے کا مشینوں کی دھوم دھاڑ، شورِ کان پھاڑ سہنا ۔۔۔
بھٹیوں کی تپش برداشت کرنا۔۔۔
مزدور پیشہ لوگوں کا اینٹیں ، سیمنٹ، مٹی، بجری ڈھونا۔۔۔
دکان داروں کا سارا دن پڑیا، تھیلیاں تولنا، پیکٹ بنانا بنانا کر گاہکوں کو دینا۔۔۔
کسانوں کا تپتی گرمیوں اور کڑکڑاتی سردیوں میں ہل چلانا، زمین سینچنا، بیج بونا، فصل کی رکھوالی کرنا، وقت آنے پر انہیں کاٹنا۔۔۔
ڈاکٹروں کا ایک کے بعد ایک لاتعدادمریض دیکھے جانا، آرام کے موقع کی تلاش کو ترسنا یا فارغ وقت میں مریضوں کی راہ تکنا۔۔۔
بال بچوں کو زندگی کی توانائی فراہم کرتے رہنے کی کوششوں میں لاغر ہوتے رہنا۔۔۔
اور بالآخر یہ آزار سہہ سہہ کر عورتوں سے پہلے مرجانا!!!
کیا یہ نثری نظمیں ہیں :thinking:
 
اسی سے یاد آیا کہ یاہو پہ پہلا ای میل ایڈریس اتنا پہلے بنایا تھا کہ اس وقت چار کیریکٹر کا پاس ورڈ بھی چلتا تھا۔ اس ایڈریس کو اب استعمال تو کم ہی کرتا ہوں، لیکن ویسے ابھی تک قائم ہے اسی پاس ورڈ کے ساتھ۔
میں نے 99 یا 2000 میں بنایا تھا پہلا ای میل، یاہو پر ہی۔
 
میں نے یاہو ای میل اکاؤنٹ 1997ء میں بنایا تھا اور ابھی تک وہی استعمال کر رہا ہوں۔ :)
میں اس وقت کچھ زیادہ جذباتی ہوا کرتا تھا اس لیے اس اکاؤنٹ کی آئی ڈی تھی فنڈامینٹلسٹ۔ایم۔ :p
پھر کچھ عرصہ بعد یاہو پر ہی اپنے نام سے بنایا جو، جی میل کا اکاؤنٹ بننے تک مستعمل رہا۔ :)
 
پٹھو گول گرما گرم تو نہیں ہے یہ کہیں؟
غالبا ایسا ہی کچھ نام تھا ایک کھیل کا۔
پٹھو گرم گیند اور پتھروں کی قطار سے کھیلا جاتا ہے. جب کہ بندر کلا سبھی کھیلنے والوں کے جوتوں کو اکٹھا کر کے کھیلا جاتا ہے.
 

محمد وارث

لائبریرین
اللہ تیرا شکرا ہے جو مجھے ایسی گیم سے بچائے رکھا
مزے کی کھیل ہے حمزہ صاحب۔ ہوشیار اور تیز طرار کھلاڑی زیادہ تر اس میں مار نہیں کھاتے اور بچ جاتے ہیں، تھوڑا سا کمزور کھلاڑی بیچارہ پھنس جاتا ہے اور بہت بیدردی سے مار کھاتا ہے لیکن کھیلتا پھر بھی ہے۔ میں نے نہیں دیکھا کہ کسی نے مار کی وجہ سے نہ کھیلا ہو۔ :)
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
آج پرانے وقتوں کی باتیں بڑوں سے سننا ایک فینٹسی لگتا ہے۔۔۔
صبح صبح نماز سے فارغ ہوکر خواتین مدھانی چلارہی ہیں۔۔۔
مکھن نکال رہی ہیں۔۔۔
پراٹھے بنائے جارہے ہیں۔۔۔
باورچی خانے کی چمنی سے نکلتا دھواں علامت تھا کہ صبح سویرے زندگی بھرپور انگڑائی لے کر جاگ اٹھی ۔۔۔
دیسی گھی کے نرم گرم پراٹھے اور لسی یا چھاچھ ۔۔۔
ناشتے سے فارغ ہوکر گھر کی صفائی۔۔۔
کبھی بہت ساری عورتیں جمع ہوجاتیں ۔۔۔
اور چکی پر نہ جانے کیا کیا دَلا اور پسا جاتا۔۔۔
پھر فہد اشرف کی ڈھینکی پر گندم کو پھونکیں مار مار کر بھوسی اڑائی جاتی۔۔۔
خوشی اور تہوار کے مواقع پر سب خواتین مل کر دوپٹے رنگتیں۔۔۔
مہندی لگتی۔۔۔
چوڑیاں کھنکتیں۔۔۔
فضاؤں میں خوشیوں سے بھرپور قہقہے گُھلتے ۔۔۔
چولہے پر پتیلے چڑھتے، چمچے کھڑکتے ۔۔۔
لبے چوڑے دستر خوان بچھتے۔۔۔
لوگ آتے جاتے، کھاتے جاتے۔۔۔
سارا دن یہ سلسلہ چلتا ۔۔۔
دستر خوان کی رونقوں پر بہار رہتی۔۔۔
نوک جھوک ہوتی، پرانی رنجشیں نکلتیں۔۔۔
صلح صفائی ہوتی۔۔۔
اور کمزور ہوتے رشتے دوبارہ توانا ہوجاتے۔۔۔
مردانے کی بیٹھک میں خاندان والے، دوست اور پڑوسی آتے۔۔۔
پہلے مہمانوں کی آمد کے لیے تیاریوں کی بھاگ دوڑ۔۔۔
دور دراز سے آئے مسافروں کے لیے بستر بچھونے کا انتظام ۔۔۔
پھر ان کا استقبال کرنا۔۔۔
مہمان نوازی کرنا۔۔۔
مل بیٹھ کر خاندانی مسائل کے حل نکالنا۔۔۔
ضرورت مندوں کی فکر کرنا۔۔۔
آپس میں ہنسنا بولنا۔۔۔
اور ایک دوسرے کے کام آنا۔۔۔
اب یہ ساری باتیں مفقود ہوگئیں۔۔۔
ماضی کا حصہ بن گئیں۔۔۔
حال میں شاذ و نادر کہیں نظر آتی ہیں۔۔۔
خاندانی رشتوں کا استحکام خطرے میں پڑگیا۔۔۔
سچے رشتوں کی جگہ ہوائی مخلوق یعنی سماجی روابط نے لے لی۔۔۔
حقیقی رشتوں کی آنچ مدھم پڑگئی۔۔۔
نہ وہ میل ملاپ رہا نہ اہم مواقع پر ایک دوسرے کے یہاں کئی کئی دن رین بسیرا کرنا۔۔۔
کون فاقے سے، کس کے گھر میں پریشانی ہے۔۔۔
آج سے یہ مسئلہ دوسروں کا دردِ سر نہیں۔۔۔
کوئی بیمار پڑا تو واٹس ایپ کے میسج پر خیریت دریافت کی۔۔۔
یا چند منٹ ہاسپٹل کا وزٹ کرلیا۔۔۔
بیمار کے گھر والوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر موبائل اور کیبل کی فرضی دنیا میں واپس آگئے۔۔۔
اور پھر۔۔۔
ہر شخص اپنی ذات میں تنہا رہ گیا!!!
ناسٹالجیا کا مرض لاعلاج ہے
 
Top