یہ تو ہوگئی خواتین کی بات۔ ذرا مرد حضرات کے پرانے معمولات پر بھی اک ذرا روشنی ڈال دیں تاکہ مرد حضرات کو بھی شکر ادا کرنے کا موقع مل جائے۔
اگرچہ اسی مراسلہ میں مردوں کی تھوڑی مصروفیات ذکر کردی گئی تھیں۔۔۔
لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ ۔۔۔
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ۔۔۔
عورتوں کی بہ نسبت مردوں کی زندگی اتنی رنگا رنگ نہیں ہوتی۔۔۔
بس محفل بزم میں شعر و شاعری اور داد کے ڈونگرے سے ذرا خوش ہوگئے۔۔۔
بہت زیادہ عیاشی ہوگئی تو دوستوں یاروں میں بیٹھ کر تھوڑی گپ شپ لگالی۔۔۔
ورنہ میدان رزم میں توپوں اور بندوقوں کی خوفناک آوازیں سننا، خاک و خون میں ملنا۔۔۔
بابو جی کا دفتروں میں سارا دن فائلوں میں سر کھپانا، کمپیوٹر پر انگلیوں کی ٹِکا ٹِک مچانا، باس کی جھڑکیاں سننا، جی حضوری کرنا۔۔۔
سیلز والے کا ایک کسٹمر سے دوسرے کسٹمر تک بھاگ دوڑ کرنا، ان کو سمجھانا بجھانا، منانا۔۔۔
فیکٹری والے کا مشینوں کی دھوم دھاڑ، شورِ کان پھاڑ سہنا ۔۔۔
بھٹیوں کی تپش برداشت کرنا۔۔۔
مزدور پیشہ لوگوں کا اینٹیں ، سیمنٹ، مٹی، بجری ڈھونا۔۔۔
دکان داروں کا سارا دن پڑیا، تھیلیاں تولنا، پیکٹ بنانا بنانا کر گاہکوں کو دینا۔۔۔
کسانوں کا تپتی گرمیوں اور کڑکڑاتی سردیوں میں ہل چلانا، زمین سینچنا، بیج بونا، فصل کی رکھوالی کرنا، وقت آنے پر انہیں کاٹنا۔۔۔
ڈاکٹروں کا ایک کے بعد ایک لاتعدادمریض دیکھے جانا، آرام کے موقع کی تلاش کو ترسنا یا فارغ وقت میں مریضوں کی راہ تکنا۔۔۔
بال بچوں کو زندگی کی توانائی فراہم کرتے رہنے کی کوششوں میں لاغر ہوتے رہنا۔۔۔
اور بالآخر یہ آزار سہہ سہہ کر عورتوں سے پہلے مرجانا!!!