یاز
محفلین
دو اسلام از ڈاکٹر غلام جیلانی برق ۔ 1
کچھ عرصہ قبل جارج آرویل جیسے نابغہ روزگار اور جینئس مصنف کی کتاب "اینیمل فارم" پڑھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ کیا اس طرح کا کوئی جینئس ہمارے ہاں بھی پیدا ہوا ہو گا۔ کافی غور کیا، لیکن کوئی خاص نام ذہن میں نہ آیا۔ پھر ایک دن ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی کتاب دو اسلام کے بارے میں پڑھنے کو ملا۔ ابھی صرف ابتدائیہ ہی پڑھا کہ فوراؐ دل سے آواز نکلی کہ ہاں ہمارے ہاں بھی جینئس لوگ ضرور پیدا ہوئے ہیں۔ یہ اور بات کہ ایک مخصوص ذہنی یا طبعی رجحان اور تربیت میں اندھی تقلید کی سخت تاکید وغیرہ کی بدولت ہم لوگوں نے ان کی قدر کرنے کی بجائے ان کو ملعون و مطعون ٹھہرایا یا وہ لوگ گمنامی وغیرہ میں ہی مر گئے۔
چند روز قبل میں نے پوری کتاب (یعنی دو اسلام) بھی مکمل پڑھ لی۔ اس کتاب پہ انشاءاللہ مزید گفتگو بھی کریں گے، جس میں اس کے کچھ حصوں سے اختلاف کا ذکر بھی کیا جا سکتا ہے۔ فی الحال اس کتاب کا ابتدائیہ ذیل میں نقل کر رہا ہوں۔ یہ ابتدائیہ بذاتِ خود ایک بے مثل اور کمال تحریر ہے۔
اس کا مواد محترم الف عین صاحب کی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے جہاں اس لنک پر اس کتاب کا تمام برقی ٹیکسٹ موجود ہے۔
میں قبلہ والد صاحب کے ساتھ امرتسر گیا۔ میں ایک چھوٹے سے گاؤں کا رہنے والا ، جہاں نہ بلند عمارات، نہ مصفا سڑکیں، نہ کاریں، نہ بجلی کے قمقمے اور نہ اس وضع کی دکانیں، دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ لاکھوں کے سامان سے سجی ہوئی دکانیں۔ اور بورڈ پر کہیں رام بھیجا سنت رام لکھا ہے، کہیں دُنی چند اگروال، کہیں سنت سنگھ سبل اور کہیں شادی لال فقیر چند۔ ہال بازار کے اس سرے سے اس سرے تک کسی مسلمان کی کوئی دکان نظر نہیں آئی۔ ہاں مسلمان ضرور نظر آئے۔ کوئی بوجھ اٹھا رہا تھا۔ کوئی گدھے لاد رہا تھا۔مالگدام سے بیل گاڑی پہ ہندو کا سامان لاد رہا تھا۔ کوئی کسی ٹال پہ لکڑیاں چیر رہا تھا۔ اور کوئی بھیک مانگ رہا تھا۔ غیر مسلم کاروں اور فٹنوں پر جا رہے تھے اور مسلمان اڑھائی من بوجھ کے نیچے دبا ہوا مشکل سے قدم اٹھا رہا تھا۔ ہندوؤں کے چہرے پر رونق بشاشت اور چمک تھی اور مسلمان کا چہرہ فاقہ مشقت فکر اور جھریوں کی وجہ سے افسردہ و مسخ شدہ۔
میں نے والد صاحب سے پوچھا !
"کیا مسلمان ہر جگہ اسی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں؟
والد صاحب: ہاں !
میں: اللہ نے مسلمان کو بھی ہندو کی طرح دو ہاتھ، دو پاؤں اور ایک سر عطا کیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہندو تو زندگی کے مزے لوٹ رہا ہے اور مسلمان ہر جگہ حیوان سے بدتر زندگی بسر کر رہا ہے۔
والد صاحب: یہ دنیا مردار سے زیادہ نجس ہے اور اس کے متلاشی کتوں سے زیادہ ناپاک۔ اللہ نے یہ مردار ہندوؤں کے حوالے کر دیا ہے اور جنت ہمیں دے دی ہے۔ کہو کون فائدے میں رہا ؟ ہم یا وہ۔
میں: اگر دنیا واقعی مردار ہے تو آپ تجارت کیوں کرتے ہیں اور مال تجارت خریدنے کے لئے امرت سر تک کیوں آئے ؟ ایک طرف دنیاوی ساز و سامان خرید کر منافع کمانا اور دوسری طرف اسے مردار قرار دینا ، عجیب قسم کی منطق ہے۔
والد صاحب: بیٹا ! بزرگوں سے بحث کرنا سعادت مندی نہیں۔ جو کچھ میں نے تمھیں بتایا ہے وہ ایک حدیث کا ترجمہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا
"الدنیا جیفۃ و طلابھا کلاب" یہ دنیا ایک مردار ہے اور اس کے متلاشی کتے۔
حدیث کا نام سن کر میں ڈر گیا اور بحث بند کر دی۔ سفر سے واپس آ کر میں نے گاؤں کے مُلا سے اپنے شبہات کا اظہار کیا۔ اس نے بھی وہی جواب دیا۔ میرے دل میں اس معمے کو حل کرنے کی تڑپ پیدا ہوئی۔ لیکن
میرے قلب و نظر پہ تقلید کے پہرے بیٹھے ہوئے تھے۔ علم کم تھا اور فہم محدود۔ اس لئے معاملہ زیادہ الجھتا گیا۔
میں مسلسل چودہ برس تک حصول علم کے لئے مختلف علماء و صوفیا کے ہاں رہا۔ درس نظامی کی تکمیل کی۔ سینکڑوں واعظین کے وعظ سنے۔ بیسیوں دینی کتابیں پڑھیں۔ اور بالآخر مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام رائج کا ما حاصل یہ ہے:۔
۔۔ فرائض خمسہ یعنی توحید کا اقرار اور صلٰوۃ ، زکوٰۃ، صوم اور حج کی بجا آوری
۔۔ اذان کے بعد ادب سے کلمہ شریف پڑھنا
۔۔ مختلف رسوم مثلاً جمعرات، چہلم، گیارہویں وغیرہ کو باقاعدگی سے ادا کرنا
۔۔ قرآن کی عبارت پڑھنا
۔۔ اللہ کے ذکر کو سب سے بڑا عمل سمجھنا
۔۔ قرآن اور درود کے ختم کرانا
۔۔ اُچھل اُچھل کر حق ہو کے ورد کرنا
۔۔ نجات کے لئے کسی مرشد کی بیعت کرنا
۔۔ مردوں سے مرادیں مانگنا
۔۔ مزاروں پر سجدے کرنا
۔۔ غلیظ لباس کو پیغمبری لباس سمجھنا
۔۔ سڑکوں اور بازاروں میں سب کے سامنے ڈھیلا کرنا
۔۔ تعویذوں اور منتروں کو مشکل کشا سمجھنا
۔۔ آنحضرت کو عالم الغیب نیز حاضر و ناظر قرار دینا
۔۔ کسی بیماری یا مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے لئے مولوی جی کی ضیافت کرنا
۔۔ گناہ بخشوانے کے لئے قوالی سننا
۔۔ غیر مسلم کو ناپاک و نجس سمجھنا
۔۔ امام ابو حنیفہ کی فقہ پر ایمان لانا
۔۔ صحاح ستہ کو وحی سمجھنا
۔۔ تمام علوم جدیدہ مثلاً طبعیات ، ریاضیات، اقتصادیات ، تعمیرات وغیرہ کو کفر خیال کرنا
۔۔ غور و فکر اور اجتہاد و استنباط کو گناہ قرار دینا
۔۔ صرف کلمہ پڑھ کر بہشت میں پہنچ جانا
۔۔ ہر مشکل کا علاج عمل اور محنت سے نہیں بلکہ دعاؤں سے کرنا مثلاً سوتے وقت یہ دعا پڑھو ۔ اللھم باسمک اموت و احیی خواب میں خواجہ خضر کی زیارت ہو گی۔ جاگو تو بسم اللہ الذی احیانی بعد ما اماتنی کا ورد کرو، حوریں تمھارا منہ چاٹیں گی۔ سبحان اللہ و بحمد ہ کا جملہ منہ سے نکالو تو ساری زندگی کے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ وضو میں منہ دھوتے وقت جعلت قرۃ عینی فی الصلوۃ کا ورد کرو تو تمھیں حضرت آدم علیہ السلام کے دس لاکھ حج کا ثواب ملے گا۔ نماز کے بعد لاحول و لاقوۃ پڑھو تو سات آسمانوں اور سات زمینوں جتنا ثواب حاصل ہو گا۔ وغیرہ وغیرہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب علمائے کرام کے فیض سے میں تعلیمات اسلامی پر پوری طرح حاوی ہو گیا تو یہ حقیقت بھی مجھ پر واضح ہو گئی کہ خدا ہمارا، رسول ہمارا، فرشتے ہمارے، جنت ہماری، حوریں ہماری، زمین ہماری، آسمان ہمارا، الغرض سب کچھ کے مالک ہم ہیں اور باقی قومیں اس دنیا میں جھک مارنے کے لئے آئی ہیں۔ ان کی دولت ، عیش اور تنعم محض چند روزہ ہے۔ وہ بہت جلد جہنم کے پست ترین طبقے میں اوندھے پھینک دئیے جائیں گے اور ہم کمخواب و زربفت کے سوٹ پہن کر سرمدی بہاروں میں حوروں کے ساتھ مزے لوٹیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمانہ گزرتا گیا۔ انگریزی پڑھنے کے بعد علوم جدیدہ کا مطالعہ کیا۔ قلب و نظر میں وسعت پیدا ہوئی۔ اقوام و ملل کی تاریخ پڑھی تو مجھے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی 128 سلطنتیں مٹ چکی ہیں۔ حیرت ہوئی کہ جب اللہ ہمارا اور صرف ہمارا تھا تو اس نے خلافت عباسیہ کا وارث ہلاکو جیسے کافر کو کیوں بنایا۔ ہسپانیہ کے اسلامی تخت پہ فرونیاں کو کیوں بٹھایا۔ مغلیہ کا تاج الزبتھ کے سر پر کیوں رکھ دیا۔ بلغاریہ، ہنگری، رومانیہ، سرویہ، پولینڈ، کریمیا، یوکرائین، یونان اور بلغراد سے ہمارے آثار کیوں مٹا دئیے۔ فرانس سے بیک بینی دو گوش ہمیں کیوں نکالا۔ ٹیونس، مراکو، الجزائر اور لیبیا سے ہمیں کیوں رخصت کیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں رفع حیرت کے لئے مختلف علماء کے ہاں گیا۔ لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ میں نے اس مسئلے پر پانچ سات برس تک غور و فکر کیا۔ لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔ بدقسمتی سے یہ وہ دور تھا جب میں اسلام سے سخت دلبرداشتہ ہو چکا تھا اور سالہاسال سے تلاوت کلام اللہ ترک کر رکھی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن سحر کو بیدار ہوا۔ اوپر طاق میں قرآن شریف رکھا تھا۔ شغلاً اٹھایا ، کھولا اور پہلی آیت جو سامنے آئی وہ یہ تھی۔
اولم یردکم اھلکنا۔۔۔۔۔۔۔۔من بعد ھم قرنا اخرین۔
کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم ان سے پہلے کتنی اقوام کو تباہ کر چکے ہیں۔ ہم نے انھیں وہ شان و شوکت عطا کی تھی جو تمھیں نصیب نہیں ہوئی۔ ہم ان کے کھیتوں پر چھما چھم بارشیں برساتے تھے اور ان کے باغات میں شفاف پانی کی نہریں بہتی تھیں۔ لیکن جب انھوں نے ہماری راہیں چھوڑ دیں تو ہم نے انھیں تباہ کر دیا اور ان کا وارث کسی اور قوم کو بنا دیا۔
میری آنکھیں کھل گئیں۔ اندھی تقلید کی وہ تاریک گھٹائیں جو دماغی ماحول پر محیط تھیں یک بیک چھٹنے لگیں۔ اور اللہ کی سنت جاریہ کے تمام گوشے بے حجاب ہونے لگے۔ میں نے قرآن میں جا بجا یہ لکھا ہوا دیکھا کہ یہ دنیا دار العمل ہے۔ یہاں صرف عمل سے بیڑے پار ہوتے ہیں۔ ہر عمل کی جزا و سزا مقرر ہے۔ جسے نہ کوئی دعا ٹال سکتی ہے اور نہ دوا۔
لیس للانسان الا ماسعی ۔ یہاں صرف اپنی کوششیں ہی کام آتی ہیں۔ (القرآن)
میں سارا قرآن پڑھ گیا، اور کہیں بھی محض دعا یا تعویذ کا کوئی صلہ نہ دیکھا۔ کہیں بھی زبانی خوشامد کا اجر زمردیں محلات ، حوروں اور حجوں کی شکل میں نہ پایا۔ یہاں میرے کانوں نے صرف تلوار کی جھنکار سنی اور میری آنکھوں نے غازیوں کے وہ جھرمٹ دیکھے جو شہادت کی لازوال دولت حاصل کرنے کے لئے جنگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں کود رہے تھے۔ وہ دیوانے دیکھے جو عزم و ہمت کا علم ہاتھ میں لئے معانی حیات کی طرف باانداز طوفان بڑھ رہے تھے۔ اور وہ پروانے دیکھے جو کسی کے جمالِ جاں افروز پہ رہ رہ کے قربان ہو رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ حدیث و قرآن کی بتائی ہوئی راہوں میں اتنا فرق کیوں ہے۔ احادیث کی تاریخ پڑھی تو منکشف ہوا کہ کہیں تو اعدائے اسلام نے توہین اسلام کے لئے اور کہیں ہمارے ملا نے قرآن کے تیغ و سناں والے اسلام سے بچنے کی خاطر تقریباً چودہ لاکھ احادیث وضع کر رکھی ہیں۔ جہاں ایک ایک دعا کا صلہ لاکھ لاکھ محل دیا ہوا ہے۔
اس انکشاف کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ مسلمان ہر جگہ محض اسی لئے ذلیل ہو رہا ہے کہ اس نے قرآن کے عمل، محنت اور ہیبت والے اسلام کو ترک کر رکھا ہے۔ وہ اوراد و اوعیہ کے نشے میں مست ہے۔ اور اس کی زندگی کا تمام سرمایہ چند دعائیں اور چند تعویذ ہیں اور بس۔
اور ساتھ ہی یقین ہو گیا کہ اسلام دو ہیں۔ ایک قرآن کا اسلام جس کی طرف اللہ بلا رہا ہے۔ اور دوسرا وضعی حدیث کا اسلام جس کی تبلیغ پر ہمارے اسی لاکھ مُلا قلم اور پھیپھڑوں کا سارا زور صرف کر رہے ہیں۔
آئیے ذرا اس "حدیثی اسلام" پر ایک تنقیدی نظر ڈالیں۔
برق
کیمبل پور۔25 ستمبر 1949ء
کچھ عرصہ قبل جارج آرویل جیسے نابغہ روزگار اور جینئس مصنف کی کتاب "اینیمل فارم" پڑھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ کیا اس طرح کا کوئی جینئس ہمارے ہاں بھی پیدا ہوا ہو گا۔ کافی غور کیا، لیکن کوئی خاص نام ذہن میں نہ آیا۔ پھر ایک دن ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی کتاب دو اسلام کے بارے میں پڑھنے کو ملا۔ ابھی صرف ابتدائیہ ہی پڑھا کہ فوراؐ دل سے آواز نکلی کہ ہاں ہمارے ہاں بھی جینئس لوگ ضرور پیدا ہوئے ہیں۔ یہ اور بات کہ ایک مخصوص ذہنی یا طبعی رجحان اور تربیت میں اندھی تقلید کی سخت تاکید وغیرہ کی بدولت ہم لوگوں نے ان کی قدر کرنے کی بجائے ان کو ملعون و مطعون ٹھہرایا یا وہ لوگ گمنامی وغیرہ میں ہی مر گئے۔
چند روز قبل میں نے پوری کتاب (یعنی دو اسلام) بھی مکمل پڑھ لی۔ اس کتاب پہ انشاءاللہ مزید گفتگو بھی کریں گے، جس میں اس کے کچھ حصوں سے اختلاف کا ذکر بھی کیا جا سکتا ہے۔ فی الحال اس کتاب کا ابتدائیہ ذیل میں نقل کر رہا ہوں۔ یہ ابتدائیہ بذاتِ خود ایک بے مثل اور کمال تحریر ہے۔
اس کا مواد محترم الف عین صاحب کی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے جہاں اس لنک پر اس کتاب کا تمام برقی ٹیکسٹ موجود ہے۔
حرفِ اول از دو اسلام
یہ 1918 ء کا ذکر ہے۔میں قبلہ والد صاحب کے ساتھ امرتسر گیا۔ میں ایک چھوٹے سے گاؤں کا رہنے والا ، جہاں نہ بلند عمارات، نہ مصفا سڑکیں، نہ کاریں، نہ بجلی کے قمقمے اور نہ اس وضع کی دکانیں، دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ لاکھوں کے سامان سے سجی ہوئی دکانیں۔ اور بورڈ پر کہیں رام بھیجا سنت رام لکھا ہے، کہیں دُنی چند اگروال، کہیں سنت سنگھ سبل اور کہیں شادی لال فقیر چند۔ ہال بازار کے اس سرے سے اس سرے تک کسی مسلمان کی کوئی دکان نظر نہیں آئی۔ ہاں مسلمان ضرور نظر آئے۔ کوئی بوجھ اٹھا رہا تھا۔ کوئی گدھے لاد رہا تھا۔مالگدام سے بیل گاڑی پہ ہندو کا سامان لاد رہا تھا۔ کوئی کسی ٹال پہ لکڑیاں چیر رہا تھا۔ اور کوئی بھیک مانگ رہا تھا۔ غیر مسلم کاروں اور فٹنوں پر جا رہے تھے اور مسلمان اڑھائی من بوجھ کے نیچے دبا ہوا مشکل سے قدم اٹھا رہا تھا۔ ہندوؤں کے چہرے پر رونق بشاشت اور چمک تھی اور مسلمان کا چہرہ فاقہ مشقت فکر اور جھریوں کی وجہ سے افسردہ و مسخ شدہ۔
میں نے والد صاحب سے پوچھا !
"کیا مسلمان ہر جگہ اسی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں؟
والد صاحب: ہاں !
میں: اللہ نے مسلمان کو بھی ہندو کی طرح دو ہاتھ، دو پاؤں اور ایک سر عطا کیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہندو تو زندگی کے مزے لوٹ رہا ہے اور مسلمان ہر جگہ حیوان سے بدتر زندگی بسر کر رہا ہے۔
والد صاحب: یہ دنیا مردار سے زیادہ نجس ہے اور اس کے متلاشی کتوں سے زیادہ ناپاک۔ اللہ نے یہ مردار ہندوؤں کے حوالے کر دیا ہے اور جنت ہمیں دے دی ہے۔ کہو کون فائدے میں رہا ؟ ہم یا وہ۔
میں: اگر دنیا واقعی مردار ہے تو آپ تجارت کیوں کرتے ہیں اور مال تجارت خریدنے کے لئے امرت سر تک کیوں آئے ؟ ایک طرف دنیاوی ساز و سامان خرید کر منافع کمانا اور دوسری طرف اسے مردار قرار دینا ، عجیب قسم کی منطق ہے۔
والد صاحب: بیٹا ! بزرگوں سے بحث کرنا سعادت مندی نہیں۔ جو کچھ میں نے تمھیں بتایا ہے وہ ایک حدیث کا ترجمہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا
"الدنیا جیفۃ و طلابھا کلاب" یہ دنیا ایک مردار ہے اور اس کے متلاشی کتے۔
حدیث کا نام سن کر میں ڈر گیا اور بحث بند کر دی۔ سفر سے واپس آ کر میں نے گاؤں کے مُلا سے اپنے شبہات کا اظہار کیا۔ اس نے بھی وہی جواب دیا۔ میرے دل میں اس معمے کو حل کرنے کی تڑپ پیدا ہوئی۔ لیکن
میرے قلب و نظر پہ تقلید کے پہرے بیٹھے ہوئے تھے۔ علم کم تھا اور فہم محدود۔ اس لئے معاملہ زیادہ الجھتا گیا۔
میں مسلسل چودہ برس تک حصول علم کے لئے مختلف علماء و صوفیا کے ہاں رہا۔ درس نظامی کی تکمیل کی۔ سینکڑوں واعظین کے وعظ سنے۔ بیسیوں دینی کتابیں پڑھیں۔ اور بالآخر مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام رائج کا ما حاصل یہ ہے:۔
۔۔ فرائض خمسہ یعنی توحید کا اقرار اور صلٰوۃ ، زکوٰۃ، صوم اور حج کی بجا آوری
۔۔ اذان کے بعد ادب سے کلمہ شریف پڑھنا
۔۔ مختلف رسوم مثلاً جمعرات، چہلم، گیارہویں وغیرہ کو باقاعدگی سے ادا کرنا
۔۔ قرآن کی عبارت پڑھنا
۔۔ اللہ کے ذکر کو سب سے بڑا عمل سمجھنا
۔۔ قرآن اور درود کے ختم کرانا
۔۔ اُچھل اُچھل کر حق ہو کے ورد کرنا
۔۔ نجات کے لئے کسی مرشد کی بیعت کرنا
۔۔ مردوں سے مرادیں مانگنا
۔۔ مزاروں پر سجدے کرنا
۔۔ غلیظ لباس کو پیغمبری لباس سمجھنا
۔۔ سڑکوں اور بازاروں میں سب کے سامنے ڈھیلا کرنا
۔۔ تعویذوں اور منتروں کو مشکل کشا سمجھنا
۔۔ آنحضرت کو عالم الغیب نیز حاضر و ناظر قرار دینا
۔۔ کسی بیماری یا مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے لئے مولوی جی کی ضیافت کرنا
۔۔ گناہ بخشوانے کے لئے قوالی سننا
۔۔ غیر مسلم کو ناپاک و نجس سمجھنا
۔۔ امام ابو حنیفہ کی فقہ پر ایمان لانا
۔۔ صحاح ستہ کو وحی سمجھنا
۔۔ تمام علوم جدیدہ مثلاً طبعیات ، ریاضیات، اقتصادیات ، تعمیرات وغیرہ کو کفر خیال کرنا
۔۔ غور و فکر اور اجتہاد و استنباط کو گناہ قرار دینا
۔۔ صرف کلمہ پڑھ کر بہشت میں پہنچ جانا
۔۔ ہر مشکل کا علاج عمل اور محنت سے نہیں بلکہ دعاؤں سے کرنا مثلاً سوتے وقت یہ دعا پڑھو ۔ اللھم باسمک اموت و احیی خواب میں خواجہ خضر کی زیارت ہو گی۔ جاگو تو بسم اللہ الذی احیانی بعد ما اماتنی کا ورد کرو، حوریں تمھارا منہ چاٹیں گی۔ سبحان اللہ و بحمد ہ کا جملہ منہ سے نکالو تو ساری زندگی کے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ وضو میں منہ دھوتے وقت جعلت قرۃ عینی فی الصلوۃ کا ورد کرو تو تمھیں حضرت آدم علیہ السلام کے دس لاکھ حج کا ثواب ملے گا۔ نماز کے بعد لاحول و لاقوۃ پڑھو تو سات آسمانوں اور سات زمینوں جتنا ثواب حاصل ہو گا۔ وغیرہ وغیرہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب علمائے کرام کے فیض سے میں تعلیمات اسلامی پر پوری طرح حاوی ہو گیا تو یہ حقیقت بھی مجھ پر واضح ہو گئی کہ خدا ہمارا، رسول ہمارا، فرشتے ہمارے، جنت ہماری، حوریں ہماری، زمین ہماری، آسمان ہمارا، الغرض سب کچھ کے مالک ہم ہیں اور باقی قومیں اس دنیا میں جھک مارنے کے لئے آئی ہیں۔ ان کی دولت ، عیش اور تنعم محض چند روزہ ہے۔ وہ بہت جلد جہنم کے پست ترین طبقے میں اوندھے پھینک دئیے جائیں گے اور ہم کمخواب و زربفت کے سوٹ پہن کر سرمدی بہاروں میں حوروں کے ساتھ مزے لوٹیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمانہ گزرتا گیا۔ انگریزی پڑھنے کے بعد علوم جدیدہ کا مطالعہ کیا۔ قلب و نظر میں وسعت پیدا ہوئی۔ اقوام و ملل کی تاریخ پڑھی تو مجھے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی 128 سلطنتیں مٹ چکی ہیں۔ حیرت ہوئی کہ جب اللہ ہمارا اور صرف ہمارا تھا تو اس نے خلافت عباسیہ کا وارث ہلاکو جیسے کافر کو کیوں بنایا۔ ہسپانیہ کے اسلامی تخت پہ فرونیاں کو کیوں بٹھایا۔ مغلیہ کا تاج الزبتھ کے سر پر کیوں رکھ دیا۔ بلغاریہ، ہنگری، رومانیہ، سرویہ، پولینڈ، کریمیا، یوکرائین، یونان اور بلغراد سے ہمارے آثار کیوں مٹا دئیے۔ فرانس سے بیک بینی دو گوش ہمیں کیوں نکالا۔ ٹیونس، مراکو، الجزائر اور لیبیا سے ہمیں کیوں رخصت کیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں رفع حیرت کے لئے مختلف علماء کے ہاں گیا۔ لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ میں نے اس مسئلے پر پانچ سات برس تک غور و فکر کیا۔ لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔ بدقسمتی سے یہ وہ دور تھا جب میں اسلام سے سخت دلبرداشتہ ہو چکا تھا اور سالہاسال سے تلاوت کلام اللہ ترک کر رکھی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن سحر کو بیدار ہوا۔ اوپر طاق میں قرآن شریف رکھا تھا۔ شغلاً اٹھایا ، کھولا اور پہلی آیت جو سامنے آئی وہ یہ تھی۔
اولم یردکم اھلکنا۔۔۔۔۔۔۔۔من بعد ھم قرنا اخرین۔
کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم ان سے پہلے کتنی اقوام کو تباہ کر چکے ہیں۔ ہم نے انھیں وہ شان و شوکت عطا کی تھی جو تمھیں نصیب نہیں ہوئی۔ ہم ان کے کھیتوں پر چھما چھم بارشیں برساتے تھے اور ان کے باغات میں شفاف پانی کی نہریں بہتی تھیں۔ لیکن جب انھوں نے ہماری راہیں چھوڑ دیں تو ہم نے انھیں تباہ کر دیا اور ان کا وارث کسی اور قوم کو بنا دیا۔
میری آنکھیں کھل گئیں۔ اندھی تقلید کی وہ تاریک گھٹائیں جو دماغی ماحول پر محیط تھیں یک بیک چھٹنے لگیں۔ اور اللہ کی سنت جاریہ کے تمام گوشے بے حجاب ہونے لگے۔ میں نے قرآن میں جا بجا یہ لکھا ہوا دیکھا کہ یہ دنیا دار العمل ہے۔ یہاں صرف عمل سے بیڑے پار ہوتے ہیں۔ ہر عمل کی جزا و سزا مقرر ہے۔ جسے نہ کوئی دعا ٹال سکتی ہے اور نہ دوا۔
لیس للانسان الا ماسعی ۔ یہاں صرف اپنی کوششیں ہی کام آتی ہیں۔ (القرآن)
میں سارا قرآن پڑھ گیا، اور کہیں بھی محض دعا یا تعویذ کا کوئی صلہ نہ دیکھا۔ کہیں بھی زبانی خوشامد کا اجر زمردیں محلات ، حوروں اور حجوں کی شکل میں نہ پایا۔ یہاں میرے کانوں نے صرف تلوار کی جھنکار سنی اور میری آنکھوں نے غازیوں کے وہ جھرمٹ دیکھے جو شہادت کی لازوال دولت حاصل کرنے کے لئے جنگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں کود رہے تھے۔ وہ دیوانے دیکھے جو عزم و ہمت کا علم ہاتھ میں لئے معانی حیات کی طرف باانداز طوفان بڑھ رہے تھے۔ اور وہ پروانے دیکھے جو کسی کے جمالِ جاں افروز پہ رہ رہ کے قربان ہو رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ حدیث و قرآن کی بتائی ہوئی راہوں میں اتنا فرق کیوں ہے۔ احادیث کی تاریخ پڑھی تو منکشف ہوا کہ کہیں تو اعدائے اسلام نے توہین اسلام کے لئے اور کہیں ہمارے ملا نے قرآن کے تیغ و سناں والے اسلام سے بچنے کی خاطر تقریباً چودہ لاکھ احادیث وضع کر رکھی ہیں۔ جہاں ایک ایک دعا کا صلہ لاکھ لاکھ محل دیا ہوا ہے۔
اس انکشاف کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ مسلمان ہر جگہ محض اسی لئے ذلیل ہو رہا ہے کہ اس نے قرآن کے عمل، محنت اور ہیبت والے اسلام کو ترک کر رکھا ہے۔ وہ اوراد و اوعیہ کے نشے میں مست ہے۔ اور اس کی زندگی کا تمام سرمایہ چند دعائیں اور چند تعویذ ہیں اور بس۔
اور ساتھ ہی یقین ہو گیا کہ اسلام دو ہیں۔ ایک قرآن کا اسلام جس کی طرف اللہ بلا رہا ہے۔ اور دوسرا وضعی حدیث کا اسلام جس کی تبلیغ پر ہمارے اسی لاکھ مُلا قلم اور پھیپھڑوں کا سارا زور صرف کر رہے ہیں۔
آئیے ذرا اس "حدیثی اسلام" پر ایک تنقیدی نظر ڈالیں۔
برق
کیمبل پور۔25 ستمبر 1949ء
آخری تدوین: