دو انتہاوٴں کے درمیان!..........

سویدا

محفلین
دو انتہاوٴں کے درمیان!..........​

محمد شفیع چترالی

وطن عزیز پاکستان کو اس وقت جن خطرناک داخلی اور خارجی چیلنجوں کا سامنا ہے، ان کے پیش نظر ہونا تو یہ چاہئے کہ پوری قوم متحد اور متفق ہو اور اندرونی و بیرونی دشمن قوتوں کا مل کر ایک مشترکہ قومی لائحہ عمل کے ساتھ مقابلہ کیا جائے، دنیا کی تمام سمجھدار اور ذمہ دار قومیں ایسے مواقع پر یہی کچھ کرتی ہیں مگر یہ ایک بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ اس وقت ہم پاکستانی بحیثیت قوم بری طرح انتشار اور خلفشار کا شکار ہیں اور قومی اہمیت کا کوئی بھی اہم ایشو ایسا نہیں ہے جس پر ہمارے ہاں مکمل اور قابل اطمینان اتفاق رائے پایا جاتا ہو۔ ہم نے توگویا انگریزی مقولے کے مطابق صرف”کبھی بھی متفق نہ ہونے“پر اتفاق کیا ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان کو بدامنی، خود کش حملوں اور تخریب کاری کے واقعات کے جس عفریت کا سامنا ہے، اس سے نمٹنے کی کوئی مشترکہ قومی حکمت عملی، اجتماعی وژن اور تعمیری سوچ کہیں نظر نہیں آتی بلکہ اگر یوں کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہو کہ ہم ابھی تک اس مسئلے کی بنیادی تشخیص ہی نہیں کر سکے ہیں۔ ہر طرف سے بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملتی ہیں اور حکومتی سطح پر بھی متضاد بیانات، بے معنیٰ دعووٴں اور کھوکھلے اعلانات کے سوا کچھ دیکھنے سننے کو نہیں ملتا۔
اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ قومی رائے عامہ کی تشکیل اور رہنمائی کرنے والے ادارے اور اشخاص بھی دو واضح گروپوں میں تقسیم ہوچکے ہیں اور” غیرت لابی“ اور” اس کی ضد لابی “کی اصطلاحات ایجاد کر کے ایک دوسری کے خلاف زبانی گولہ کا سلسلہ تیز کردیا گیا ہے۔ اس بحثا بحثی اور ضدا ضدی میں دونوں گروپ اپنی اپنی انتہاوٴں کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور حقائق کی دنیا بیچ میں خالی چھوڑ دی جارہی ہے جہاں قوم کا اکثریتی طبقہ سرگرداں ہے اور اس کی رہنمائی کا کوئی سامان نہیں ہوپارہا۔ مثال کے طور پر ایک گروہ پاکستان میں تمام خرابیوں کی جڑ ”مذہبی انتہا پسندی“ کو قرار دیتا ہے جو اس کی نظر میں جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ دور کی پیداوار ہے، اس گروہ کے خیال میں پاکستانی حکومت کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نہیں ہے کہ وہ بھرپور فوجی کارروائیاں کرکے انتہاپسندوں کا قلع قمع کردے، یہ گروہ پاکستان کی موجودہ بدامنی میں کسی خارجی قوت مثلاً امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے ملوث ہونے کے امکان کو”سازشی نظریہ“ قرار دے کر سختی سے رد کردیتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ پاکستان کو ان قوتوں کو اپنا دشمن نہیں سمجھنا چاہئے جبکہ دوسرے گروہ کے نزدیک امریکہ، بھارت اور اسرائیل ہی پاکستان کے اندر تباہی و بربادی کے ذمہ دار ہیں۔ یہ گروہ پاکستان میں عسکریت پسندی اور انتہاپسندی کے وجود کو یا تو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا یا اسے کوئی بڑا مسئلہ نہیں سمجھتا۔
پھر ان دونوں گروہوں نے اسلام، انسانیت اور حب الوطنی کے بھی اپنے اپنے معیارات مقرر کئے ہیں مثلاً پہلے گروہ کو اسلامی تعلیمات اورانسانیت کا واویلا صرف اس وقت یاد آجاتا ہے جب اسلام آباد، لاہور اور پشاور جیسے شہروں میں تخریب کاری کا کوئی واقعہ یا خود کش حملہ ہو جاتا ہے اور اس میں بے گناہ لوگ لقمہٴ اجل بنتے ہیں، ایسے حملوں کے بعد ہی علماء سے فتوے طلب کئے جاتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف آخری دم تک لڑنے کے عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے جبکہ دوسرا گروہ اسلام اور انسانیت کا حوالہ صرف فاٹا اور سرحد میں فوجی کارروائیوں میں عام شہریوں کے مارے جانے پر ہی پیش کرتا ہے۔ پہلا گروہ سرحد اور فاٹا میں عام ہلاکتوں کو” کولیٹرل ڈیمیج“ قرار دے کر جواز فراہم کردیتا ہے جبکہ دوسرا گروہ تخریب کاری اور خود کش حملوں میں بے گناہ افراد کے مارے جانے کو یہ کہہ کر ہلکا دکھانے کی کوشش کرتا ہے کہ اصل ہدف تو فلاں سرکاری عمارت یا شخصیت تھی یا یہ کہ اس کارراوئی میں خارجی قوتیں ملوث ہیں،کوئی مسلمان ایسا نہیں کرسکتا۔ پہلے طبقے نے لال مسجد آپریشن کی کھل کر حمایت کی بلکہ اس وقت کی حکومت کو اس پر اکسایا اور اسے یہ یاد نہیں رہا کہ اس آپریشن کے دوران خانہ ٴخدا کا تقدس کس حد تک پامال کیا جائے گا اور اس میں کتنے معصوم بچوں اوربچیوں کا خون بہے گا جبکہ دوسرے طبقے نے پریڈ لائن مسجد کو ”مسجد ضرار“ سے غلط طور پرتشبیہ دے کر خانہٴ خدا کی بے حرمتی کے سنگین جرم کو جائز باور کرانے کی کوشش کی۔
حالانکہ اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ دونوں طرز فکر انتہا پسندی پر مبنی اور غیر حقیقت پسندانہ ہیں اور اصل حقیقت ان دونوں انتہاؤں کے درمیان رہ کر ہی تلاش کی جاسکتی ہے۔ مثلاً یہ سچ ہے کہ پاکستان کے اندر عسکریت پسندی اور انتہا پسندی ایک بڑے خطرے کی شکل میں موجود ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ خارجی قوتوں بالخصوص امریکہ کی بڑھتی ہوئی مداخلت بھی کوئی کم خطرہ نہیں ہے۔ دوسری طرف یہ سچ ہے کہ پاکستان کو اصل خطرہ امریکہ اور بھارت سے ہے لیکن یہ بھی ایک بڑی سچائی ہے کہ پاکستان کے اندر مصروف عسکریت پسند گروہ بھی، خواہ ان کی ساخت و پرداخت کے جو بھی اسباب ہوں، پاکستان کے دشمن بن چکے ہیں ۔ہمیں عسکریت پسندی کے خطرے کا بھی مقابلہ کرنا ہے اور خارجی خطرات سے بھی ہوشیار رہنا ہے۔ پاکستان کے اندر دہشت گردی کے بہت سے واقعات میں خارجی ہاتھ کا ملوث ہونا بھی اکثر قومی حلقوں کے نزدیک مسلمہ ہے جبکہ مقامی عسکریت پسند گروپوں کی جانب سے ایسے بہت سے واقعات کی ذمہ داری قبول کرنا بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ پھر ان خارجی قوتوں اور بعض عسکریت پسند گروپوں کے درمیان بالواسطہ اور بلا واسطہ، شعوری اور غیر شعوری تعلق کا امکان بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات ہر باشعور پاکستانی سمجھتا ہے کہ ملک کی موجودہ ناگفتہ بہ صورتحال اور سرحد اور قبائلی علاقوں میں شورش کا نائن الیون کے بعد اختیار کی گئی پالیسیوں سے براہ راست تعلق ہے جبکہ اس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر بھی کوئی چارہ نہیں کہ معاملات کے اس سطح پر پہنچ جانے کے اور بھی کئی ایسے اسباب ہیں جن کا نائن الیون سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات اور انسانیت کے حوالے سے دیکھیں تو بیگناہ انسانوں کا خون بہانا ہر لحاظ سے ایک قابل مذمت امر ہے اور ہمیں اس کی بلا تخصیص مذمت کرنی چاہئے، چاہے یہ فعل ”اسلام کے تحفظ“ کی جنگ لڑنے والے عسکریت پسند کریں یا ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے مقدس ادارے۔ اندرون ملک فوجی کارروائیوں کے حوالے سے صرف آئی ایس پی آر کے بیانات پر ایمان رکھنے کا نتیجہ ہم سانحہ مشرقی پاکستان کی صورت میں بھگت چکے ہیں، اب ہمارے آزاد میڈیا کو بھی عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کرنے کے مواقع ملنے چاہئیں۔ بے گناہوں کا قتل ہر لحاظ سے غیر انسانی فعل ہے، چاہے یہ اسلام آباد اور لاہور میں پیش آئے یا سوات اور وزیرستان میں۔ خانہ ٴخدا کی بے حرمتی ایک ناقابل برداشت جرم ہے چاہے یہ لال مسجد آپریشن کی شکل میں ہو یا پریڈ لائن مسجد پر دہشت گرد حملے کی شکل میں ۔ دہشت گردی پر علماء سے فتویٰ طلب کرنا بہت ہی مستحسن ہے تاہم حکومت کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت کے جواز یا عدم جواز سے متعلق بھی علماء سے فتویٰ طلب کرنا چاہئے۔ ہمیں معاملات کو صرف ایک ہی پہلو پر دیکھنے کی بجائے اب تصویر کے دونوں رخ دیکھنے اور ایک متوازن، معتدل اور حقیقت پسندانہ سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا اور تمام داخلی و خارجی خطرات کا یکساں ادراک کرکے ان کے مقابلے میں مشترکہ قومی لائحہ عمل کی تشکیل پر اتفاق کرنا ہوگا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=401675
 

سویدا

محفلین
میں حیران ہوں‌کہ بھائی محمد شفیع صاحب نے میرے جذبات کی ترجمانی کیسے کی
میری رائے بھی یہی ہے جس کا اظہار کچھ روز قبل محفل پر ہی میں‌کرچکا ہوں‌
اور اتفاق سے آج روزنامہ جنگ میں‌یہ کالم شائع ہوا ہے
توارد شاید اسی کا نام ہے
 
Top