فارقلیط رحمانی
لائبریرین
@راشداشرف،
بھیا
بہت شکریہ آپ کا، خوش رہیے۔ میرے لیے یہ اہم ہے
راشد اشرف بھائی کیا خیال ہے۔ ہندوستان سے آپ کی واپسی پر محفل پر آپ کی نگرانی میں ابنِ صفی پر ایک مذاکرہ منعقد نہ کروالیا جائے؟
પછી એવું પણ થતું હતું કે બધાં જ કામ પતાવીને લોકો કોઈક એવી વ્યક્તિની આસપાસ કૂંડાળું કરીને બેસતાં અને નોવેલ સાંભળતા. ઇબ્ને સફીએ ફરીદી સિરીઝમાં ૧૨૫ અને ઇમરાન સિરીઝમાં ૧૧૬ નોવેલ લખી. આ જાસૂસી નોવેલોનો સિલસિલો અલાહાબાદથી શરૂ થયો હતો. પછી તે પાકિસ્તાન આવ્યા તો ત્યાં લખવા લાગ્યા. પાકિસ્તાન આવી તેમણે વધારે નોવેલો લખી. કોઈ પણ નોવેલમાં બન્ને દેશોના કોઈ પણ શહેરના નામનો ઉલ્લેખ કરવામાં આવ્યો નહોતો, પરંતુ વાતાવરણ તો આ ઉપમહાદ્વીપનું જ. તેમના દીકરા અહમદ સફી કરાચી લિટરેચર ફેસ્ટિવલ ૨૦૧૨ના સ્ટેજ પર બેસી તેમના વિશે અનેક વાતો કરી રહ્યા હતા અને હોલ ભરેલો હતો. જોકે અસલ દાદ તો તેમના પર સંશોધન કરનાર રાશિદ અશરફ અને દિલ્હીમાં રહેતા ખાલિદ જાવેદને મળવી જોઈએ. ખાલિદ જાવેદની નજર હેઠળ જામિયા મિલિયા દિલ્હીમાં એક એમફિલ અને એક પીએચડી થીસિસ પર કામ થઈ રહ્યું છે. ઇબ્ને સફીની કેટલીક નોવેલોનું અંગ્રેજીમાં ભાષાંતર થઈ ચૂક્યું છે અને તેમના અનુવાદક ઉર્દૂના પ્રસિદ્ધ અદીબ શસુર્રહમાન ફારુકી છે. پھر ایسا بھی ہوتا تھا کہ سارے لوگ اپنا کام نبٹا کر کسی فرد کے ارد گرد حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے ابن صفی کے ناول سنتے۔ ابن صفی نے فریدی سیریز میں ۱۲۵ اور عمران سیریز میں ۱۱۶ ناول لکھے تھے۔ ان جاسوسی ناولوں کا سلسلہ الہ آباد سے شروع ہوا تھاپھر تقسیم ملک کے بعد وہ پاکستان پہنچے تو وہاں بھی لکھنے لگے۔پاکستان پہنچ کر انہوں نے اور زیادہ ناول لکھے۔ کسی بھی ناول میں دونوں ملکوں کے کسی بھی شہر کا ذکر نہیں کیا گیا۔ لیکن ماحول اور پس منظر تو برصغیر ہی کا تھا۔ کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ان کے صاحب زادے احمد صفی اسٹیج پر بیٹھ کر ان کے بارے میں باتیں کر رہے تھے اور ہال کھچا کھچ بھرا تھا حالانکہ اصل داد تو ان پر تحقیق کرنے والے @ راشداشرف، اور دہلی کے خالد جاوید کو ملنی چاہیے۔ خالد جاوید کی نگرانی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں ایک ایم فل اور ایک پی۔ایچ۔ ڈی۔ پر کام شروع ہو رہا ہے۔ ابن صفی کے چند ناولوں کا انگریزی میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ ان کے مترجم اردو کے مشہور نقاد شمس الرحمٰن فاروقی ہیں۔
ہندوستان کی ادبی کانفرنسوں اور سیمیناروں کی یہ روایت رہی ہے کہ جب کبھی مدعو اسکالرز کی تعداد اس قدر زیادہ ہو جاتی ہے کے متعینہ محدود وقت میں تمام اسکالرز سے ان کے تحقیقی مقالات پڑھوانا دُشوار ہو جاتا ہے تب متبادل طریقہ کار کے طور پر یہ کیا جاتا ہے کہ ہر اسکالرز کو اپنے مقالے کی تلخیص پیش کرنے کا موقع دِیا جاتا ہے۔ اب اگر اسکالرز نے پہلے سے تلخیص تیار نہ کی ہو تو سیمینارمیں جب ان کا نام پکارا جائے عین اس وقت ان کے لیے اپنے مقالے کی تلخیص کرنا ایک دُشوار امر ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا 400 الفاظ میں دس-بیس کی کمی بیشی سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔چونکہ آپ پڑوسی ملک سے تشریف لائیں گے، لہذا ہو سکتا ہے آپ کے ساتھ تلخیص پیش کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ اور آپ کو اپنا مکمل مقالہ پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ البتہ 400 سے 450 نہ ہونے پائیں اس بات کا خیال رکھیےگا۔ اس ناچیز کے پاس بھی ابن صفی کے ایک سو سے زائد ناولوں کی پی۔ڈی۔ایف فائلز موجود ہیں۔ بچپن میں یہ ناول خوب پڑھے ہیں۔ اب تو بہت کچھ یاد بھی نہیں رہا۔ البتہ کسی آسان سے موضوع پر طبع آزمائی میں اگر کامیابی حاصل ہوئی تو ممکن ہے شرکت کی کوشش ہم بھی کریں۔ چونکہ آپ کا مطالعہ تازہ بہ تازہ ہے، لہٰذا حسب ضرورت آپ سے مشورہ بھی کر لیں گے۔
میں بھی یہی لکھنے والا تھا کہ فارقلیط رحمانی کے گجراتی مضمون کا ماخذ کیا ہے؟۔ اگر وہ زاہدہ حنا کا ہی تھا، مراد اصل، تو بھائی فارقلیط نے ترجمے کا اصل میں ترجمہ کیا ہے!! اگر راشد اصل الفاظ پہچان گئے تو یہ دونوں ترجموں کی خوبی ہے!!!!
سیمنار کے موضوعات تو واقعی بہت گنجلک ہیں، برادرم خالد سعید سے ہی ان کا مطلب پوچھا جائے۔
میں بھی یہی لکھنے والا تھا کہ فارقلیط رحمانی کے گجراتی مضمون کا ماخذ کیا ہے؟۔ اگر وہ زاہدہ حنا کا ہی تھا، مراد اصل، تو بھائی فارقلیط نے ترجمے کا اصل میں ترجمہ کیا ہے!! اگر راشد اصل الفاظ پہچان گئے تو یہ دونوں ترجموں کی خوبی ہے!!!!
سیمنار کے موضوعات تو واقعی بہت گنجلک ہیں، برادرم خالد سعید سے ہی ان کا مطلب پوچھا جائے۔
سیمنار کے موضوعات تو واقعی بہت گنجلک ہیں، برادرم خالد سعید سے ہی ان کا مطلب پوچھا جائے۔