دو شعر

امر شہزاد

محفلین
آج آفس میں اپنی باسکٹ خالی کرتے ہوئے پرانے نوٹ پیڈ سے اپنے دو شعر ملے ہیں۔
تاریخ تو یاد نہیں‌کہ کب کے ہیں ، اور میرا خیال ہے کہ بس یہی تواٰم ہی تھے مزید نہیں ہو سکے۔

ریگزارِحیات میں اب کے، چلو قصداً سراب دیکھتے ہیں
زندگی جس امید میں گزرے، آو ایک ایساخواب دیکھتے ہیں

پیش بینی نظر کو وہ بخشی ہے کہ حیران کر دیا اُس نے
اب شگوفے بہار کی رت میں بھی خزاں کے عذاب دیکھتے ہیں
 
Top