مقبول
محفلین
محترم الف عین صاحب
اور دیگر اساتذہ کرام
پروفیسر حسین سحر کی ایک کافی مشہور غزل ہے جس کا ایک مصرع ہے “پتّا گرا تو درسِ فنا دے گیا مجھے” ۔ اس زمین میں نے کچھ کہنا چاہا تو اشعار کی دو مختلف فضائیں بنتی نظر آئیں ۔ یوں مجھے تین اشعار کے اضافہ سے اسے دو غزلہ کرنا پڑا جو میں آپ کی خدمت میں اصلاح کے لیے پیش کر رہا ہوں
غزل ۱
خود بے لباس تھا جو ردا دے گیا مجھے
جینے کا ایک ڈھنگ نیا دے گیا مجھے
گذرے قریب سے نہ ترےعشق کی ہوا
روتے ہوئے فقیر دُعا دے گیا مجھے
انجیل اس کے پاس، مرے پاس تھی زمیں
لے کر زمین مجھ سے خدا دے گیا مجھے
رکھنا اسے سنبھال کے ایمان کی طرح
بجھتا ہوا، ہوا میں دیا دے گیا مجھے
مقبول مجھ سے لوگ ہیں ملتے یہ سوچ کر
موسیٰ گیا تو اپنا عصا دے گیا مجھے
غزل ۲
کہتے ہیں لوگ آ کے دوا دے گیا مجھے
پیالہ وُہ جب بھی زہر بھرا دے گیا مجھے
بچھڑا تو چاہتا تھا، مروں اس کے ہجر میں
خود بے وفا تھا درسِ وفا دے گیا مجھے
جاتے ہوئے کہا کہ میں لکھتا رہوں خطوط
بھولوں نہ میں اسے یہ سزا دے گیا مجھے
مانگا جو میں نے ہاتھ تو وُہ خود پسندشخص
اوقات میں رہوں مَیں، صلا دے گیا مجھے
مقبول، مَیں بلاؤں گا دربار میں اسے
میرا نصیب جب بھی ہما دے گیا مجھے
اور دیگر اساتذہ کرام
پروفیسر حسین سحر کی ایک کافی مشہور غزل ہے جس کا ایک مصرع ہے “پتّا گرا تو درسِ فنا دے گیا مجھے” ۔ اس زمین میں نے کچھ کہنا چاہا تو اشعار کی دو مختلف فضائیں بنتی نظر آئیں ۔ یوں مجھے تین اشعار کے اضافہ سے اسے دو غزلہ کرنا پڑا جو میں آپ کی خدمت میں اصلاح کے لیے پیش کر رہا ہوں
غزل ۱
خود بے لباس تھا جو ردا دے گیا مجھے
جینے کا ایک ڈھنگ نیا دے گیا مجھے
گذرے قریب سے نہ ترےعشق کی ہوا
روتے ہوئے فقیر دُعا دے گیا مجھے
انجیل اس کے پاس، مرے پاس تھی زمیں
لے کر زمین مجھ سے خدا دے گیا مجھے
رکھنا اسے سنبھال کے ایمان کی طرح
بجھتا ہوا، ہوا میں دیا دے گیا مجھے
مقبول مجھ سے لوگ ہیں ملتے یہ سوچ کر
موسیٰ گیا تو اپنا عصا دے گیا مجھے
غزل ۲
کہتے ہیں لوگ آ کے دوا دے گیا مجھے
پیالہ وُہ جب بھی زہر بھرا دے گیا مجھے
بچھڑا تو چاہتا تھا، مروں اس کے ہجر میں
خود بے وفا تھا درسِ وفا دے گیا مجھے
جاتے ہوئے کہا کہ میں لکھتا رہوں خطوط
بھولوں نہ میں اسے یہ سزا دے گیا مجھے
مانگا جو میں نے ہاتھ تو وُہ خود پسندشخص
اوقات میں رہوں مَیں، صلا دے گیا مجھے
مقبول، مَیں بلاؤں گا دربار میں اسے
میرا نصیب جب بھی ہما دے گیا مجھے