محمداحمد
لائبریرین
السلام علیکم،
یہ کلام تقریباً ڈیڑھ دو ماہ پرانا ہے ، اُن دنوں طبیعت میں روانی تھی ، سو یہ غزل سے دو غزلہ ہوگیا۔ احباب کےاعلیٰ ذوق کی نذر:
دو غزلہ
رات بھر سوچتے رہے صاحب
آپ کس مخمصے میں تھے صاحب؟
اس نے 'کاہل 'کہا محبت سے
ہنس دیئے ہم پڑے پڑے صاحب
گرم چائے، کتاب، تنہائی
اور ہوتے ہیں کیا مزے صاحب
اب یہ جانے کی ضد!قیامت ہے
آپ آئے ہی کس لئے صاحب
اُس نے دیکھا نہ پھر کسی کو بھی
جس کو دیکھا تھا آپ نے صاحب
شہر میں بھی ہے ایک دیوانہ
قیس کے دشت سے پرے صاحب
دور رکھ دل کو خوش جمالوں سے
کیا خبر کس پہ مر مٹے صاحب
چَیٹ کرتے ہیں بچے رومن میں
جانتے ہیں الف نہ ب صاحب!
ایک بچے نے کھٹکھٹایا در
"پھول لے لیجئے بڑے صاحب"
پہلے بھی اختلاط کم کم تھا
اس قدر اجنبی نہ تھے صاحب
کیا کہا میرا نام ہے خط پر ؟
غور سے دیکھیے ارے صاحب!
کاغذی پھول سونگھ بیٹھا میں
خوشنما دیکھنے میں تھے صاحب
باغ میں مجھ پہ ہنس رہے تھے کل
پیڑ تھے کچھ ہرے بھرے صاحب
*****
کیا کہوں کیسا حال ہے صاحب
کوئی آئے ،گلے ملے صاحب
سانس لیتا ہوں، تن سلامت ہے
دل کا احوال چھوڑیے صاحب
کل سنائی ہے نظم "تنہائی"
دوستوں میں گھرے ہوئے صاحب
کشمکش، رنج ، بے یقینی، خوف
خواب کیا خاک دیکھیے صاحب
سب معائب سمجھ لیے ہم نے
کچھ محاسن بھی ہم میں تھے صاحب؟
ہم ہیں اک مصرعِ غلط ہم پر
خطِ تنسیخ پھیریئے صاحب
خُلق، شستہ زباں ، شگفتہ لوگ
یاد ماضی کی چھوڑیے صاحب!
کیا عجب ہے، مری گلی والے
جانتے ہی نہیں مجھے صاحب!
پوچھتے ہیں غزال آ آ کر
کون سے دشت میں رہے صاحب؟
شہر صحرا کو کھا گیا جب سے
دشت صحرا میں کب رہے صاحب
ایک دن اُس نے الوداع کہا
اور ہم دیکھتے رہے صاحب
کس قدر ماند پڑ گئی تصویر
ڈائری میں دھرے دھرے صاحب
ایک دیرینہ ربط تھا اُن سے
اُس گلی میں جو پیڑ تھے صاحب!
سنگ باری پہ ایک دیوانہ
ہوش والوں سے کیا کہے صاحب!
میں نے جا کر کہا کہ احمد ہوں
اس نے پوچھا کہ" کون سے؟" صاحب
محمد احمدؔ
یہ کلام تقریباً ڈیڑھ دو ماہ پرانا ہے ، اُن دنوں طبیعت میں روانی تھی ، سو یہ غزل سے دو غزلہ ہوگیا۔ احباب کےاعلیٰ ذوق کی نذر:
دو غزلہ
رات بھر سوچتے رہے صاحب
آپ کس مخمصے میں تھے صاحب؟
اس نے 'کاہل 'کہا محبت سے
ہنس دیئے ہم پڑے پڑے صاحب
گرم چائے، کتاب، تنہائی
اور ہوتے ہیں کیا مزے صاحب
اب یہ جانے کی ضد!قیامت ہے
آپ آئے ہی کس لئے صاحب
اُس نے دیکھا نہ پھر کسی کو بھی
جس کو دیکھا تھا آپ نے صاحب
شہر میں بھی ہے ایک دیوانہ
قیس کے دشت سے پرے صاحب
دور رکھ دل کو خوش جمالوں سے
کیا خبر کس پہ مر مٹے صاحب
چَیٹ کرتے ہیں بچے رومن میں
جانتے ہیں الف نہ ب صاحب!
ایک بچے نے کھٹکھٹایا در
"پھول لے لیجئے بڑے صاحب"
پہلے بھی اختلاط کم کم تھا
اس قدر اجنبی نہ تھے صاحب
کیا کہا میرا نام ہے خط پر ؟
غور سے دیکھیے ارے صاحب!
کاغذی پھول سونگھ بیٹھا میں
خوشنما دیکھنے میں تھے صاحب
باغ میں مجھ پہ ہنس رہے تھے کل
پیڑ تھے کچھ ہرے بھرے صاحب
*****
کیا کہوں کیسا حال ہے صاحب
کوئی آئے ،گلے ملے صاحب
سانس لیتا ہوں، تن سلامت ہے
دل کا احوال چھوڑیے صاحب
کل سنائی ہے نظم "تنہائی"
دوستوں میں گھرے ہوئے صاحب
کشمکش، رنج ، بے یقینی، خوف
خواب کیا خاک دیکھیے صاحب
سب معائب سمجھ لیے ہم نے
کچھ محاسن بھی ہم میں تھے صاحب؟
ہم ہیں اک مصرعِ غلط ہم پر
خطِ تنسیخ پھیریئے صاحب
خُلق، شستہ زباں ، شگفتہ لوگ
یاد ماضی کی چھوڑیے صاحب!
کیا عجب ہے، مری گلی والے
جانتے ہی نہیں مجھے صاحب!
پوچھتے ہیں غزال آ آ کر
کون سے دشت میں رہے صاحب؟
شہر صحرا کو کھا گیا جب سے
دشت صحرا میں کب رہے صاحب
ایک دن اُس نے الوداع کہا
اور ہم دیکھتے رہے صاحب
کس قدر ماند پڑ گئی تصویر
ڈائری میں دھرے دھرے صاحب
ایک دیرینہ ربط تھا اُن سے
اُس گلی میں جو پیڑ تھے صاحب!
سنگ باری پہ ایک دیوانہ
ہوش والوں سے کیا کہے صاحب!
میں نے جا کر کہا کہ احمد ہوں
اس نے پوچھا کہ" کون سے؟" صاحب
محمد احمدؔ