عرفان علوی
محفلین
احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
یہ زمین کوئی سال بھر پہلے ذہن میں آئی تھی . کچھ اشعار ہوئے جو میں نے نظر ثانی کے لئے چھوڑ دئے . کچھ عرصہ گزرنے کے بعد چند اور اشعار ہوئے جن کا مزاج سابقہ اشعار سے جدا تھا ، لہٰذا انہیں مختلف غزل میں شامل کیا گیا . دونوں غزلوں کی نوک پلک سنوار کر پیش کر رہا ہوں . حسب سابق آپ کی رائے کا انتظار رہیگا .
لہروں سے لڑتے لڑتے کنارا تو کٹ گیا
پانی مگر خود آپ بھی ملبے سے اٹ گیا
کردار میں جب اپنے کوئی دم نہیں رہا
میں خود ہی زندگی کے فسانے سے ہٹ گیا
اب جان ہے نہ جان بچانے کی فکر ہے
اچھا ہوا کہ روز کا جھگڑا نمٹ گیا
رکھنے تھے کچھ اصول تو کچھ حاجتیں بھی تھیں
آخر کو میں بھی سینکڑوں خانوں میں بٹ گیا
تھی روشنی کے شہر میں وحشت کچھ اس قدر
گھبرا کے میرا سایہ بھی مجھ سے لپٹ گیا
کل تک تھا شاہِ وقت کو دعویٰ خدائی کا
پھر یوں ہوا کہ وقت کا پانسا پلٹ گیا
سمجھا جو وصفِ جزو تو سمجھا میں شانِ کل
چھایا تھا جو شعور پہ کہرا وہ چھٹ گیا
منزل ملی تو شوقِ سفر پھر ہوا جواں
میں دو قدم تھا دور کہ واپس پلٹ گیا
عابدؔ ہے بھاگنے میں کہاں مشکلوں کا حل
جیتی اسی نے جنگ جو میداں میں ڈٹ گیا
موسم کتابِ زیست کے اوراق الٹ گیا
اک نام پڑھ کے جیسے کلیجہ ہی پھٹ گیا
انجام یہ ہے آمدِ فصلِ بہار کا
جو پھول کِھل رہا تھا وہ ڈالی سے کٹ گیا
اپنوں کو آزما کے بڑا دکھ ملا ، مگر
آنکھوں پہ جو پڑا تھا وہ پردہ تو ہٹ گیا
غم کو تھی شاید ایک سہارے کی جستجو
اس کو ملا جو میں تو وہ مجھ سے چمٹ گیا
تنہائیوں کا میری یہی راز ہے کہ میں
اک شخص کے فراق میں دنیا سے کٹ گیا
مجھ کو ہوا نہ یاد خرد کا کوئی سبق
لیکن جنوں نے جو بھی رٹایا سو رٹ گیا
کوشش بھی خود ستائی کی ناکام ہو گئی
اس کی نگاہ میں مرا رتبہ بھی گھٹ گیا
دیکھا مجھے کسی نے کچھ ایسی ادا سے آج
سارا جہان ایک نظر میں سمٹ گیا
عابدؔ بس ایک دوست کے جانے کی دیر تھی
محفل میں رونقیں نہ رہیں ، جی اچٹ گیا
نیازمند ،
عرفان عابدؔ
یہ زمین کوئی سال بھر پہلے ذہن میں آئی تھی . کچھ اشعار ہوئے جو میں نے نظر ثانی کے لئے چھوڑ دئے . کچھ عرصہ گزرنے کے بعد چند اور اشعار ہوئے جن کا مزاج سابقہ اشعار سے جدا تھا ، لہٰذا انہیں مختلف غزل میں شامل کیا گیا . دونوں غزلوں کی نوک پلک سنوار کر پیش کر رہا ہوں . حسب سابق آپ کی رائے کا انتظار رہیگا .
لہروں سے لڑتے لڑتے کنارا تو کٹ گیا
پانی مگر خود آپ بھی ملبے سے اٹ گیا
کردار میں جب اپنے کوئی دم نہیں رہا
میں خود ہی زندگی کے فسانے سے ہٹ گیا
اب جان ہے نہ جان بچانے کی فکر ہے
اچھا ہوا کہ روز کا جھگڑا نمٹ گیا
رکھنے تھے کچھ اصول تو کچھ حاجتیں بھی تھیں
آخر کو میں بھی سینکڑوں خانوں میں بٹ گیا
تھی روشنی کے شہر میں وحشت کچھ اس قدر
گھبرا کے میرا سایہ بھی مجھ سے لپٹ گیا
کل تک تھا شاہِ وقت کو دعویٰ خدائی کا
پھر یوں ہوا کہ وقت کا پانسا پلٹ گیا
سمجھا جو وصفِ جزو تو سمجھا میں شانِ کل
چھایا تھا جو شعور پہ کہرا وہ چھٹ گیا
منزل ملی تو شوقِ سفر پھر ہوا جواں
میں دو قدم تھا دور کہ واپس پلٹ گیا
عابدؔ ہے بھاگنے میں کہاں مشکلوں کا حل
جیتی اسی نے جنگ جو میداں میں ڈٹ گیا
موسم کتابِ زیست کے اوراق الٹ گیا
اک نام پڑھ کے جیسے کلیجہ ہی پھٹ گیا
انجام یہ ہے آمدِ فصلِ بہار کا
جو پھول کِھل رہا تھا وہ ڈالی سے کٹ گیا
اپنوں کو آزما کے بڑا دکھ ملا ، مگر
آنکھوں پہ جو پڑا تھا وہ پردہ تو ہٹ گیا
غم کو تھی شاید ایک سہارے کی جستجو
اس کو ملا جو میں تو وہ مجھ سے چمٹ گیا
تنہائیوں کا میری یہی راز ہے کہ میں
اک شخص کے فراق میں دنیا سے کٹ گیا
مجھ کو ہوا نہ یاد خرد کا کوئی سبق
لیکن جنوں نے جو بھی رٹایا سو رٹ گیا
کوشش بھی خود ستائی کی ناکام ہو گئی
اس کی نگاہ میں مرا رتبہ بھی گھٹ گیا
دیکھا مجھے کسی نے کچھ ایسی ادا سے آج
سارا جہان ایک نظر میں سمٹ گیا
عابدؔ بس ایک دوست کے جانے کی دیر تھی
محفل میں رونقیں نہ رہیں ، جی اچٹ گیا
نیازمند ،
عرفان عابدؔ
آخری تدوین: