دو غزلہ: ’لہروں سے لڑتے لڑتے کنارا تو کٹ گیا‘ اور ’موسم کتابِ زیست کے اوراق الٹ گیا ‘

احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
یہ زمین کوئی سال بھر پہلے ذہن میں آئی تھی . کچھ اشعار ہوئے جو میں نے نظر ثانی کے لئے چھوڑ دئے . کچھ عرصہ گزرنے کے بعد چند اور اشعار ہوئے جن کا مزاج سابقہ اشعار سے جدا تھا ، لہٰذا انہیں مختلف غزل میں شامل کیا گیا . دونوں غزلوں کی نوک پلک سنوار کر پیش کر رہا ہوں . حسب سابق آپ کی رائے کا انتظار رہیگا .

لہروں سے لڑتے لڑتے کنارا تو کٹ گیا
پانی مگر خود آپ بھی ملبے سے اٹ گیا

کردار میں جب اپنے کوئی دم نہیں رہا
میں خود ہی زندگی کے فسانے سے ہٹ گیا

اب جان ہے نہ جان بچانے کی فکر ہے
اچھا ہوا کہ روز کا جھگڑا نمٹ گیا

رکھنے تھے کچھ اصول تو کچھ حاجتیں بھی تھیں
آخر کو میں بھی سینکڑوں خانوں میں بٹ گیا

تھی روشنی کے شہر میں وحشت کچھ اس قدر
گھبرا کے میرا سایہ بھی مجھ سے لپٹ گیا

کل تک تھا شاہِ وقت کو دعویٰ خدائی کا
پھر یوں ہوا کہ وقت کا پانسا پلٹ گیا

سمجھا جو وصفِ جزو تو سمجھا میں شانِ کل
چھایا تھا جو شعور پہ کہرا وہ چھٹ گیا

منزل ملی تو شوقِ سفر پھر ہوا جواں
میں دو قدم تھا دور کہ واپس پلٹ گیا

عابدؔ ہے بھاگنے میں کہاں مشکلوں کا حل
جیتی اسی نے جنگ جو میداں میں ڈٹ گیا



موسم کتابِ زیست کے اوراق الٹ گیا
اک نام پڑھ کے جیسے کلیجہ ہی پھٹ گیا

انجام یہ ہے آمدِ فصلِ بہار کا
جو پھول کِھل رہا تھا وہ ڈالی سے کٹ گیا

اپنوں کو آزما کے بڑا دکھ ملا ، مگر
آنکھوں پہ جو پڑا تھا وہ پردہ تو ہٹ گیا

غم کو تھی شاید ایک سہارے کی جستجو
اس کو ملا جو میں تو وہ مجھ سے چمٹ گیا

تنہائیوں کا میری یہی راز ہے کہ میں
اک شخص کے فراق میں دنیا سے کٹ گیا

مجھ کو ہوا نہ یاد خرد کا کوئی سبق
لیکن جنوں نے جو بھی رٹایا سو رٹ گیا

کوشش بھی خود ستائی کی ناکام ہو گئی
اس کی نگاہ میں مرا رتبہ بھی گھٹ گیا

دیکھا مجھے کسی نے کچھ ایسی ادا سے آج
سارا جہان ایک نظر میں سمٹ گیا

عابدؔ بس ایک دوست کے جانے کی دیر تھی
محفل میں رونقیں نہ رہیں ، جی اچٹ گیا

نیازمند ،
عرفان عابدؔ
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
واہ بہت خوب عرفان بھائی۔ حسب عادت اچھے اشعار ہیں۔

مطلع میں پانی کا اٹنا اور وہ بھی سے ملبے سے۔ اور کنارہ کٹنا ۔ یہ سب لفظیات مجھے کچھ ۔نا موافق اور گنجلک سی محسوس ہوئیں۔ اٹنا کا لفظ اشیاء پر خشک مٹی گرد وغیرہ کی تہہ جمنے کے لیےخاص ہوتا ہے جو طویل عرصے سے مترروک ہوں۔ پانی کے لیے یہ مناسب نہیں لگا ۔
عین ممکن ہے یہ میرا ہی تاثر ہو۔
دوسرے اچٹنا شاید نظر کے لیے ہوتا ہے ۔ دل کے لیے اچاٹ ہونا زیادہ مناسب ہو ۔ عین ممکن ہے یہ بھی میرا ذاتی احساس ہو ۔
خیر یہ معمولی ملاحظات ہیں ۔ دوغزلے پر اتنا اثر نہیں ۔اشعار پر لطف ہیں ہمیشہ کی طرح ہی۔
 

الف عین

لائبریرین
پانی کا اٹنا مجھے بھی اٹ پٹا لگا، بعد میں سید عاطف علی کا مراسلہ لڑھا۔ لیکن جی اچٹنا تو مجھے عجیب نہیں لگا، اس طرح بولا تو جاتا ہے اور شاید اساتذہ سے اسناد بھی مل جائیں
باقی دو غزلہ خوب ہے ماشاء اللہ
 
واہ بہت خوب عرفان بھائی۔ حسب عادت اچھے اشعار ہیں۔

مطلع میں پانی کا اٹنا اور وہ بھی سے ملبے سے۔ اور کنارہ کٹنا ۔ یہ سب لفظیات مجھے کچھ ۔نا موافق اور گنجلک سی محسوس ہوئیں۔ اٹنا کا لفظ اشیاء پر خشک مٹی گرد وغیرہ کی تہہ جمنے کے لیےخاص ہوتا ہے جو طویل عرصے سے مترروک ہوں۔ پانی کے لیے یہ مناسب نہیں لگا ۔
عین ممکن ہے یہ میرا ہی تاثر ہو۔
دوسرے اچٹنا شاید نظر کے لیے ہوتا ہے ۔ دل کے لیے اچاٹ ہونا زیادہ مناسب ہو ۔ عین ممکن ہے یہ بھی میرا ذاتی احساس ہو ۔
خیر یہ معمولی ملاحظات ہیں ۔ دوغزلے پر اتنا اثر نہیں ۔اشعار پر لطف ہیں ہمیشہ کی طرح ہی۔
عاطف بھائی، نوازش کے لئے بےحد ممنون ہوں . بہت شکریہ ! ’کنارا کٹنا‘ اور ’جی اچٹنا‘ تو عام ہیں . میں دونوں کی ایک ایک مثال پیش کر رہا ہوں . دوسری مثال عین میری غزل کی زمین میں ہے . در اصل تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ اس زمین میں درجنوں غزلیں ہیں .
مرے دریا نے اپنے ہی کنارے کاٹ ڈالے
بپھرتے پانیوں کو اب سہارا کون دیگا (افتخار قیصر)
ایسی وہ بھاری مجھ سے ہوئی کون سی خطا
جس سے یہ دل اداس ہوا جی اچٹ گیا (نظیر اکبرآبادی)

البتہ ’پانی کا ملبے سے اٹنا‘ عام نہیں ہے . تاہم مجھے اس فقرے میں کوئی عیب نہیں محسوس ہوا . غور کیجئے کہ ’اٹنا‘ کے معنی ہیں ’اوپر تک بھرا ہونا‘ (دیکھئے پلاٹس یا مولوی عبدالحق کی لغت.) اردو لغت کے مطابق اس لفظ کے معنی ہیں ’گرد و غبار یا سامان وغیرہ سے بھرا ہونا.‘ یہ سچ ہے کہ اس لفظ کا استعمال عموماً گرد سے ڈھکا ہوا ہونے کے لئے کیا جاتا ہے، لیکن ایسی کوئی شرط نہیں ہے . اس وقت کوئی مثال دستیاب نہیں ہے ، لیکن میں نے عام زبان اور نثر میں ’کمرے کا سامان سے اٹا ہونا‘ اور ’کوڑے دان کا کوڑے سے اٹا ہونا‘ جیسے فقرے دیکھے اور سنے ہیں . میری ناچیز رائے میں ’پانی کا ملبے سے اٹنا‘ قابل قبول ہے .
 
پانی کا اٹنا مجھے بھی اٹ پٹا لگا، بعد میں سید عاطف علی کا مراسلہ لڑھا۔ لیکن جی اچٹنا تو مجھے عجیب نہیں لگا، اس طرح بولا تو جاتا ہے اور شاید اساتذہ سے اسناد بھی مل جائیں
باقی دو غزلہ خوب ہے ماشاء اللہ
محترم اعجاز صاحب ، اظہار خیال اور پذیرائی کا بہت بہت شکریہ ! ’پانی کا ملبے سے اٹنا‘ پر عاطف صاحب کو میرا جواب ملاحظہ فرمائیے .
 

جاسمن

لائبریرین
بہت خوب!
خوبصورت اشعار ہیں۔
خاص طور پہ پہلی غزل کے اشعار تو بہت ہی اچھے ہیں۔
کردار میں جب اپنے کوئی دم نہیں رہا
میں خود ہی زندگی کے فسانے سے ہٹ گیا
واہ واہ!!
اب جان ہے نہ جان بچانے کی فکر ہے
اچھا ہوا کہ روز کا جھگڑا نمٹ گیا
کیا بات ہے!!
رکھنے تھے کچھ اصول تو کچھ حاجتیں بھی تھیں
آخر کو میں بھی سینکڑوں خانوں میں بٹ گیا
بہت ہی خوب!!
 
اٹ جو کہ اردو زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معانی میل ، جھمگٹ اور گرد و غبار وغیرہ کے ہیں ۔
پانی مگر خود آپ بھی ملبے سے اٹ گیا۔
تو جب ملبے کا ذکر ہو گیا تو اٹ کا لگانا نہ صرف غیر مناسب ہے بلکہ غیر اصولی بھی ہے۔ یہ عام صورت میں ہے اگر صرف لفظ اٹ استعمال ہوتا لیکن جب اٹ گیا استعمال کیا گیا ہے تو اسے اٹ جانے کے معنی میں لیا جائے گا جو کہ بالکل درست مفہوم پیش کریگے۔
اٹ جانے کا لغوی معنی بھر جانا یا جمع ہو جانا ہے۔
شکریہ سلامت رہیں۔
معذرت اگر کچھ غلط کہا ہو۔
 
اللہ اللہ ۔۔ لاجواب شعر
جو پھول کھل رہا تھا وہ ڈالی سے کٹ گیا
واہ ۔۔ واہ
کیا زندہ جاوید مطلع کہا ہے کنارے کا کٹنا اور پھر پانی کا اٹ جانا
آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے

بہت عمدہ ۔۔۔ واہ واہ

مقطع بھی خوب است ۔۔۔ واہ
عامر صاحب ، نگاہ کرم اور حوصلہ افزائی کے لئے بےحد ممنون ہوں . بہت شکریہ ، جزاک الله !
 
اٹ جو کہ اردو زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معانی میل ، جھمگٹ اور گرد و غبار وغیرہ کے ہیں ۔
پانی مگر خود آپ بھی ملبے سے اٹ گیا۔
تو جب ملبے کا ذکر ہو گیا تو اٹ کا لگانا نہ صرف غیر مناسب ہے بلکہ غیر اصولی بھی ہے۔ یہ عام صورت میں ہے اگر صرف لفظ اٹ استعمال ہوتا لیکن جب اٹ گیا استعمال کیا گیا ہے تو اسے اٹ جانے کے معنی میں لیا جائے گا جو کہ بالکل درست مفہوم پیش کریگے۔
اٹ جانے کا لغوی معنی بھر جانا یا جمع ہو جانا ہے۔
شکریہ سلامت رہیں۔
معذرت اگر کچھ غلط کہا ہو۔
عامر صاحب ، میں آپ کا موقف صاف طور پر سمجھ نہیں سکا . اگر آپ یہ فرما رہے ہیں کہ ’ملبے‘ کے ساتھ ’اٹنا‘ کا استعمال غیر مناسب اور غیر اصولی ہے تو پھر یہاں کون سا فعل مناسب ہے ؟ کوئی اور فعل یہاں قافیہ کے طور پر شاید نہ کھپے ، لیکن میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کے خیال میں یہاں جملہ کیسے مکمّل ہو گا . اگر آپ یہ فرما رہے ہیں کہ ’اٹنا‘ بذات خود مکمّل مفہوم بیان کرتا ہے ، تو یہ بھی وضاحت طلب ہے . از راہ کرم کوئی سند فراہم کریں . میں نے ’اٹنا‘ کے ساتھ ہمیشہ اس چیز کا ذکر دیکھا ہے جس سے ’اٹنے‘ کا امر واقع ہوتا ہے . چند مثالیں دیکھئے .
پہلے تو وہ مثالیں پیش ہیں جن میں ’گرد یا مٹی سے اٹنے‘ کا ذکر ہے . غور کیجئے کہ ’اٹنے‘ کا استعمال عموماً ’گرد‘ یا ’مٹی‘ کے لئے ہی ہوتا ہے . اس کے باوجود یہاں ’گرد‘ یا ’مٹی‘ کو حذف نہیں کیا گیا .
تازہ ہوا کی آس میں پردے اٹھا دئے
بس یہ ہوا کہ گرد میں سامان اٹ گیا (ہوش جونپوری)
جھاڑا پونچھا تھا ابھی صبح کو ہی خانۂ یاد
شام تک اٹ گیا پھر گردِ فراموشی سے (فرحت احساس)
عالم میں جاں کے مجھ کو تنزّہ تھا اب تو میں
آلودگئ جسم سے ماٹی میں اٹ گیا (میر)
اور اب ایسی مثالیں پیش ہیں جن میں ’اٹنے‘ کا امر ’گرد‘ یا ’مٹی‘ کے علاوہ دوسری چیزوں سے عمل میں آ رہا ہے . ان سے ثابت ہوتا ہے کہ ’اٹنے‘ کا استعمال ’گرد‘ یا ’مٹی‘ کے علاوہ دیگر چیزوں کے لئے بھی روا ہے .
ساحل تمام اشکِ ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا (شکیب جلالی)
نویدِ صبح کا خورشید ہے کہاں یا رب
شبِ حیات کی ظلمت میں اٹ گیا ہوں میں (اقبال مجیدی)
وہ گل بھی زہر خند کی شبنم سے اٹ گئے
جو شاخسارِ دردِ محبّت کی آس تھے (ظہور نظر)
 
ساحل تمام اشکِ ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا (شکیب جلالی)
نویدِ صبح کا خورشید ہے کہاں یا رب
شبِ حیات کی ظلمت میں اٹ گیا ہوں میں (اقبال مجیدی)
وہ گل بھی زہر خند کی شبنم سے اٹ گئے
جو شاخسارِ دردِ محبّت کی آس تھے (ظہور نظ
تینوں اشعار میں اٹ گئے یا گیا اٹ جانےیا جانا کے معنی میں ہے یعنی کہ بھر جانا
ندامت کے آنسوؤں سےساحل کا بھر جانا
ویسے ہی
ملبے سے پانی کا بھر جانا مطلب رستے کا بند ہو جانا
 
اس سطر پر غور کیجیے

تینوں اشعار میں اٹ گئے یا گیا اٹ جانےیا جانا کے معنی میں ہے یعنی کہ بھر جانا
ندامت کے آنسوؤں سےساحل کا بھر جانا
ویسے ہی
ملبے سے پانی کا بھر جانا مطلب رستے کا بند ہو جانا

عامر صاحب ، وضاحت کا شکریہ ! یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ میرے ناچیز مصرعے سے مطمئن ہیں .
 
Top