دو غزلیں - غالب و اکبر الٰہ آبادی

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتاا
اگر اور جیتے رہتے ، یہی انتظار ہوتا

ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا

تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا

رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا

غم اگر چہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غم روزگار ہوتا

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے؟شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا

ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا؟
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

اسے کون دیکھ سکتا، کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا

یہ مسائل تصّوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے ،جو نہ بادہ خوار ہوتا

اسداللہ خان غالب




نہ یہ رنگ طبع ہوتا نہ یہ دل میں جوش ہوتا
یہ جنوں اگر نہ ہوتا تو کہاں یہ ہوش ہوتا

غمِ دہر سے بچاتا ہے بشر کو مست رہنا
مجھے شاعری نہ آتی تو میں بادہ نوش ہوتا

تمہیں دیکھ سن کے فطرت نے یہ نقش کھینچے ورنہ
نہ یہ ہوتی چشم نرگس نہ یہ گل کا گوش ہوتا

دل و دیں ہیں سب کے صدقے جو وہ خود نما بنا ہے
کوئی زندہ ہی نہ رہتا جو وہ خود فروش ہوتا

نہ ابھارتا جو گردوں تو وہ کیوں یہ ظلم کرتے
کچھ اثر فغاں میں ہوتا تو میں کیوں خموش ہوتا

حسن نظامی اکبر کا کلام سن کے بولے
میں تجھے ولی سمجھتا جو تو خرقہ پوش ہوتا

اکبر الٰہ آبادی
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب۔
مجھے شاعری نہ آتی تو بادہ نوش ہوتا
اصل میں یوں ہونا چاہئے
مجھے شاعری نہ آتی تو میں بادہ نوش ہوتا
 
Top