دو قدم چاند مرے ساتھ جو چل پڑتا ہے

دو قدم چاند مرے ساتھ جو چل پڑتا ہے
شہر کا شہر تعاقب میں نکل پڑتا ہے
میں سرِ آب جلاتا ہوں فقط ایک چراغ
دوسرا آپ ہی تالاب میں جل پڑتا ہے
پیاس جب توڑتی ہے سر پہ مصیبت کے پہاڑ
کوئی چشمہ میری آنکھوں سے ابل پڑتا ہے
بے خیالی میں اسی راہ پہ چل پڑتا ہوں ہوں
جانتا بھی ہوں کہ اس راہ میں تھل پڑتا ہے
ایسا لگتا ہے کہ تو دیکھ رہا ہے مڑ کر
جب ہواؤں سے کسی شاخ میں بل پڑتا ہے
ٹوٹ جاتا ہے محبت کا تسلسل یکسر
'آج' کے بیچ میں جس وقت یہ 'کل' پڑتا ہے
درد بھی دیتا ہے دروازے پہ دستک دوشی
دل کی دھک دھک سے بھی خوابوں میں خلل پڑتا ہے
سعید دوشی
 
Top