اگلے ماہ میرے والد کو اس دنیا سے گزرے بارہ سال پورے ہو جائیں گے۔ بارہ سال۔۔۔ ابو جان ہی کی زبانی سنا کرتے تھے کہ بارہ سالوں میں پتھر بھی بدل جاتے ہیں۔ مگر ان کی سبھی باتیں ٹھیک کب تھیں؟
کافی پرانی بات ہے۔ خاندان کا ایک نوعمر چھوکرا ابو جان کے پاس کراچی پہنچا تھا اور انھوں نے اسے فضائیہ میں ملازم کروا دیا تھا۔ اس کے چند سال بعد وہ خود اپنی ملازمت چھوڑ کر پنجاب چلے آئے تھے۔ انھیں اپنے والد یعنی میرے دادا سے آٹھ ایکڑ زمین ورثے میں ملی تھی مگر مزاج ایسا قلندرانہ پایا تھا کہ وطن لوٹنے کے بعد بھائیوں سے واپس لینی ضروری نہ سمجھی۔ ایک دہائی گزری تھی کہ اسی خدا کے پاس جا پہنچے جس کے عشق میں عمر بھر گرفتار رہے تھے۔
ان کے بھائی ان جیسے نہ تھے۔ بلکہ ان جیسا تو کوئی بھی نہیں۔ خود ہم بھی نہیں۔ چچا کیسے ہوتے؟ وہ زمین پر قابض ہو گئے۔ میں نے ریڈیو سے ملنے والے ٹکوں اور ٹیوشن سے ملنے والی پائیوں سے گھر چلانا شروع کیا۔ سب امیدیں دم توڑ چکی تھیں کہ وہی چھوکرا، جو اب تایا ابو کا داماد بن چکا تھا، ایک بطلِ جلیل کی طرح منظر نامے پر ابھرا۔ اس نے آتے ہی چچاؤں کو زمین سے بیک بینی و دو گوش نکال باہر کیا اور۔۔۔ خود قابض ہو گیا۔
بارہ سال گزر چکے ہیں۔ میں بدل چکا ہوں۔ میرا شہر بدل چکا ہے۔ میرا ملک بدل چکا ہے۔ مگر پتھر نہیں بدلے۔
پنچایتوں سے لے کر عدالتوں تک جو کچھ بس میں تھا کر چکا۔ مجھ سے بہتر کون جانتا ہے کہ وطنِ عزیز میں حق اور صداقت کے کیا معانی ہیں اور ثبوت یا شہادت کس چڑیا کو کہتے ہیں۔ ہاں البتہ خدا بہت کچھ جانتا ہے۔ سو چند سال ہوئے کہ میں اپنے دادا اور باپ کی وراثت سے دستبردار ہو گیا ہوں۔ اس چھوکرے کی ڈاڑھی لٹک گئی ہے اور اس میں سفید بال آ گئے ہیں۔ وہ انھی گلیوں میں وضو کے قطرے ٹپکاتا ہوا مسجد آتا جاتا رہتا ہے۔ اس کی اولاد کی عمریں وہی ہو گئی ہیں جو ہماری ابو جان کی وفات کے وقت تھیں۔ ہمارے پاس اپنے باپ کا ترکہ نہ تھا۔ ان کے پاس ہمارے باپ کا ترکہ بھی ہے۔
میں نے اس سفر میں دو منزلیں دیکھی ہیں۔ دو نتائج اخذ کیے ہیں۔ دو مغالطے ملاحظہ کیے ہیں۔ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ قانون کسی تحریر کا نام نہیں۔ قانون اس قوت کا نام ہے جو کسی نظریے کے تحت عمل کرتی ہے۔ پاکستان کی بابت اہلِ وطن اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ یہاں ۷۳ء کا آئین نافذ ہے۔ حالانکہ اس کتابچے کو سرسری نظر سے دیکھنے ہی سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ ان ضابطوں کا شاید دسواں حصہ بھی عملی طور پر لاگو نہیں ہے۔ اگر نفاذ اسی کا نام ہے تو ہماری ریاست کو تسلیم کرنا چاہیے کہ اس میں مثلاً اسرائیلی، ترکی، جاپانی، سعودی وغیرہ آئین بھی نافذ العمل ہیں۔ اتنا تو ان کا بھی حق بنتا ہے!
پٹواری سے لے کر وزیرِ اعظم تک ہر کوئی عوام کو اسی قانون کی خلاف ورزی سے ڈراتا ہے۔ عدالت اسی قانون کی باندی ہے۔ عمران خان اپنے ملک کے لیے نکلتا ہے یا راحیل فاروق اپنی وراثت کے لیے، یہی دھمکی ملتی ہے کہ قانون اپنے ہاتھ میں مت لینا نہیں تو سزا پاؤ گے۔ کیسی مزے کی بات ہے؟ حق چھیننے کے لیے قانون کی پابندی ضروری نہیں۔ واپس لینے کے لیے لازم ہے۔ مغالطہ یہی ہے۔
ہمارے ملک میں ۷۳ء کا آئینِ نافذ نہیں ہے۔ یہ آئین مقدس نہیں ہے۔ ہمارا قانون واجب الاحترام نہیں ہے۔ اس کی حقیقی حیثیت محض اخبار کے ردی کاغذ کی سی ہے۔ جس میں پکوڑے بھی بیچے جا سکتے ہیں اور چوہے مار دوائیاں بھی۔ یہاں تک کہ آپ کا ملازم آپ کے کتے کا لید بھی اس میں لپیٹ کر پھینکنے لے جا سکتا ہے۔ وطن کی سلامتی اور آبرو پر کوئی قیامت نہیں ٹوٹتی۔ یقین کیجیے۔
جو اصل آئین ہے اس کے ساتھ ایسا کبھی نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً آپ جنابِ عمرؓ کے دور کے کسی شخص کی طرح اپنے سربراہ کے اثاثوں پر سوال نہیں کر سکتے۔ آپ کو اخبار میں لپیٹ کر کتے کے لید کی طرح دور کر دیا جائے گا۔ آپ کسی مسجد میں کھڑے ہو کر امام شافعیؒ کی طرح مثلاً شیعہ اور سنی سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم دونوں ٹھیک کہتے ہو اور میں بھی ٹھیک کہتا ہوں۔ آپ کو جلد امام شافعیؒ کے پاس پہنچا دیا جائے گا۔ اسے آئین کہتے ہیں۔ یہ اصل قانون ہے۔ میں یہاں یہ سوال نہیں اٹھا رہا کہ یہ ٹھیک ہے یا غلط۔ میری مراد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ آئین اور قانون درحقیقت کس چڑیا کے نام ہیں۔
ہم اس مغالطے میں بڑی دیر سے گرفتار ہیں۔ اس ہاتھی کی طرح جو بچپنے میں ایک کھونٹی سے باندھا جاتا ہے اور دیو بن جانے کے باوجود اسی سے بندھا رہتا ہے۔ ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ اصل قانون کیا ہے۔ مگر پھر کوئی قرمساق آتا ہے اور ہمیں مطلع کرتا ہے کہ قانون کی تحریر کیا ہے۔ اور قوم کا دیو قامت ہاتھی اپنی دم جتنی ایک کھونٹی کے آگے سجدے میں گر جاتا ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ آئین لفظوں کا نام نہیں۔ ورنہ میری شاعری ہی کیوں نہ ہو۔ آئین اس ضابطے کا نام ہے جس کے مطابق چیزیں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ کائنات کے قوانین کو دیکھیے۔ آپ کو حق الیقین حاصل ہو جائے گا جب آپ دیکھیں گے کہ اصول سمجھ میں آئے نہ آئے، عمل میں آ کر رہتا ہے۔ ہم کتنے احمق ہیں؟ کاغذ کے چند پرزوں اور کانوں میں گونجتے چند لفظوں کو مقدس سمجھتے ہیں۔ بدبخت ہے وہ قوم جو یہ بھی نہیں جانتی کہ قانون تقدیس طلب نہیں کرتا، پیدا کرتا ہے۔
دوسرا مغالطہ یہ ہے کہ پاکستانی ایک بری قوم ہیں۔ اپنوں سے لے کر غیروں تک سب یہی باور کرواتے ہیں۔ وجہ؟ وجہ یہ کہ پاکستانی فریب دیتے ہیں۔ بدعنوانی کرتے ہیں۔ شدت پسند ہیں۔ جاہل ہیں۔ غیرجمہوری ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
بچہ بگڑ جاتا ہے تو ماں باپ کو الزام دیا جاتا ہے۔ مگر خدا جانے کیوں پاکستانیوں کے جرائم کا الزام ریاست کو دینے کا رواج نہیں۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ۲۰۱۱ء میں برطانیہ جیسی کلاسیک تہذیب نے کیا کالک اپنے منہ پر ملی تھی۔ بربریت کا ایک لاوا تھا جو صدیوں کے تمدن کی مٹی جھاڑ کر لندن پر ابل پڑا تھا۔ کسی نے نہیں کہا کہ انگریز نہایت گھٹیا اور وحشی قوم ہیں۔ سب دیکھ رہے ہیں کہ امسال امریکہ نے اپنی تاریخ کا شاید سب سے بڑا مذاق سہا ہے۔ ایک شخص جس کی بات بات سے جہالت، حماقت اور رذالت ٹپکتی ہے اس ملک کا سربراہ بن گیا ہے۔ کسی نے نہیں کہا کہ امریکی قوم پاگلوں اور نفسیاتی مریضوں کے ایک ہجوم کا نام ہے۔ مگر ریاستِ پاکستان کے سب جرائم پاکستانیوں کے محضر نامے میں لکھے جاتے ہیں۔ افسوس، صد افسوس!
پنجابی کی ایک مثل ہے کہ چار کتاباں عرشوں لتھیاں پنجواں لتھا ڈنڈا۔ یعنی صحائفِ اربعہ کے بعد پانچواں عرش سے ڈنڈا نازل کیا گیا۔ اس لحاظ سے ڈنڈے کو خاتم الصحائف کہنا چاہیے۔ یہ حتمی اور اعلیٰ ترین درجے کی ہدایت ہے۔ دنیا کی کسی بھی ملت پر نافذ کیجیے۔ تیر کی طرح سیدھی ہو جائے گی۔ جیسے برطانوی ہیں۔ جیسے امریکی ہیں۔ جیسے جاپانی ہیں۔ جیسے اونٹوں کا پیشاب پینے والے بدو آج کل ہو گئے ہیں۔ مگر پاکستان میں یہ مہدی بیچارہ فراعین کا غلام ہے۔ اسے کسی قانون کے تحت کر دیا جائے تو مجال ہے پاکستانیوں کی کہ خلاف ورزی کا سوچیں بھی؟ آخر امریکیوں اور عربوں سے بھی گئے گزرے تو نہیں ہیں ہم۔
اس دوسرے مغالطے کو نہایت توجہ سے دور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہماری نفسیات میں ایک احساسِ جرم کی طرح بیٹھ گیا ہے۔ ہم خود اپنے لطیفے بناتے ہیں اور ہنستے ہیں۔ ہم بری قوم ہیں۔ ہم جاہل لوگ ہیں۔ ہم گھٹیا ہیں۔ ہم کام چور ہیں۔ ہم قانون شکن ہیں۔ نہیں۔ ہم انسان ہیں۔ سب جیسے۔ سب کی طرح ہم بھی ہجوم یا ملت کی حیثیت سے قانون تو درکنار، خدا سے بھی نہیں ڈرتے۔ سبھی کی طرح ہمیں بھی ایک ڈنڈا چاہیے جو راستی اور راستے کی طرف اشارے کرتا رہے۔ ہم بھی مہذب ہو جائیں گے۔ تہذیب اسی کا نام ہے۔ کہیں جا کر دیکھ لیجیے۔
قصہ مختصر، ہمیں ایک قانون چاہیے جس کے پاس نفاذ کا ڈنڈا ہو اور ایک ڈنڈا چاہیے جس کا نفاذ قانون کا پابند ہو۔ ہے کوئی قانون کے دلالوں اور ڈنڈے کی داشتاؤں میں سننے والا؟ سوچنے والا؟ سمجھنے والا؟

---
برائے خصوصی اطلاع:
فرقان احمد اور arifkarim
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
کیسی مزے کی بات ہے؟ حق چھیننے کے لیے قانون کی پابندی ضروری نہیں۔ واپس لینے کے لیے لازم ہے۔ مغالطہ یہی ہے۔
یہی تو اصل المیہ ہے۔ الیکشن میں دھاندلی کرتے وقت قانون پر چلنے کی ضرورت نہیں البتہ انصاف کیلئے قانون پر چلنا ہوگا۔
 

عثمان

محفلین
پراثر الفاظ ہیں۔
لیکن آج کل میری کوشش ہلکے پھلکے موضوعات پر توجہ مرکوز رکھنے کی ہے۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
آپ کی تحریر میں جان تو ہے، اور اس میں شک شبہ کی گنجائش نہ ہے اور آپ نے اس موضوع کو لے کر کافی پراثر باتیں کی ہیں جو سیدھی دل میں اتر گئی ہیں۔ ہمارے ہاں عمومی طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ قانون تو بن گئے، اب ان پر عمل درآمد کون کروائے گا۔ میرے خیال میں تو یوں ہے کہ ادارے طاقت ور ہو جائیں تب ہی ایسا ممکن ہے کہ عصرِ حاضر کے چیلنجز اور موجودہ دور کے بنیادی تقاضوں کے پیش نظر وہ انصاف اور قانون کے ضابطوں پر چلنے لگ جائیں اور یوں آئین و قانون کے نفاذ کی عملی صورت پیدا ہو جائے۔ معاملہ یہ ہے کہ شعور بیداری کا عمل سست روی سے جاری ہے تاہم یہ ایک ایسا ارتقائی عمل ہے جو کہ بہرصورت ہو کر رہنا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب ادارے اپنی طاقت حاصل کر لیں گے اور ان اداروں کو چلانے والے افراد بھی بے خوفی سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے لگ جائیں گے تاہم اس کے لیے بہت وقت لگے گا، شاید ایسا تب ہو گا جب ہم میں سے زیادہ تر لوگ اس دارِ فانی سے کوچ کر جائیں گے۔ فی الوقت تو میں اور آپ شعور بیداری کا کام ہی کر سکتے ہیں اور آپ کی جانب سے شروع کردہ یہ لڑی اسی عمل کا حصہ ہے۔ جلد یا بدیر، یہاں پر بھی بہ امر مجبوری قوانین کے نفاذ کی عملی صورتیں پیدا ہو جائیں گی۔ مثال کے طور پر موجودہ پنجاب حکومت سے یہ توقع نہ تھی کہ یہ زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کریں گے اور پٹواریوں کی بددعائیں لیں گے تاہم ایسا کرنا وقت کا تقاضا تھا اور چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے حکمرانوں کو اس طرف توجہ دینا پڑ گئی تھی۔ اب بھی اس سسٹم میں کئی جھول ہوں گے تاہم یہ بھی دور ہو جائیں گے۔میں تو سمجھتا ہوں، جلد یا بدیر، ہر شعبے میں اصلاحات ہوں گی اور قانون کے نفاذ کی صورتیں بھی پیدا ہوں گی تاہم اس رفتار کو تیز کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے آپ کے والد محترم کی بات سے اتفاق کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہوں کہ بارہ سال میں پتھر بھی بدل جاتے ہیں یعنی کہ وقت کے ساتھ ساتھ تغیر کی صورتیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ مجھے تو قوی امید ہے کہ ایک عشرہ اور گزر گیا تو معاملات مزید بہتری کی طرف جائیں گے۔ ہاں، بعض اوقات یوں ہو جاتا ہے کہ سٹیٹس کو کی قوتیں زمانے کے چلن کو بھی بریک لگا کر ترقیء معکوس کی صورت پیدا کرتی ہیں تاہم جب دھکا لگ چکا ہو تو پھر بہت کچھ ہو کر ہی رہتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جلد یا بدیر، اس ملک میں بھی آئین و قانون کی حکمرانی ہو گی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم بھی دیگر اقوام کی طرح باشعور ہو چکے ہوں گے کیوں کہ ہمارے اندر بھی آخر کس چیز کی کمی ہے؟ آیوڈین کی :) نہیں، تو پھر؟ یوں بھی اس حوالے سے آپ سے متفق ہوں کہ ہم بھی دنیا کی کسی قوم سے صلاحیتوں کے لحاظ سے کم نہیں ہیں۔ جب ہم گوروں کے دیس میں جا کر آئین و قانون کے پابند ہو سکتے ہیں تو پھر، یہاں کیوں نہیں؟؟؟ یقین جانیے، ایک لاوہ ہے جو پک رہا ہے اور ایک دن پھٹ پڑے گا اور یہاں بھی بہت کچھ بدلے گا، خوب اتھل پتھل ہو گی، بھونچال آ جائے گا تاہم سٹیٹس کو کی قوتیں بھی بڑی سیانی ہوا کرتی ہیں، جیسے جیسے مسائل آتے ہیں ان کے حساب سے خود کو تبدیل کرتی رہتی ہیں تاہم اصل معاملہ یہی ہے کہ جو معاشرہ لازمی تبدیلی کی زد میں آ جائے تو پھر وہاں تبدیلی آ کر ہی رہتی ہے۔
 
آخری تدوین:
راحیل بھائی اللہ تعالیٰ آپ کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے۔ فرقان بھائی کا کہنا درست ہے کہ ملتی جلتی کہانیاں ہیں۔میرے والدِ محترم کے ساتھ بھی کچھ ایسے حالات پیش آئے تھے اور پھر انھیں اپنے حالات سنوارنے میں چالیس سال کا عرصہ لگا۔ میں حقوق غصب کرنے والوں کے نام اس لیے نہیں لیناچاہتاکہ وہ دنیا سے جا چکے ہیں؛ والدِ محترم بھی جا چکے ہیں لیکن الحمد للہ آج ان کے اور ہمارے سٹیٹس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ شاید یہ اللہ تعالیٰ کا انصاف ہےیا والدین کی مشقت کا نتیجہ۔
آپ کا قانون کی بہتری کا مطالبہ بالکل درست ہے۔ میں متفق ہوں۔پاکستانی قوم کی تہذیب کے ارتقا کا مطالعہ کیا جائے تو بھی وہی مسائل سامنے آتے ہیں جن کا آپ نے بیان کیا۔ اپنی اس تحریر کو کالم کی صورت کسی اخبار میں دیجیے تاکہ زیادہ بڑے پیمانے پر لوگ اس حوالے سے سوچ سکیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کوخوش رکھے۔آمین۔
 
ڈنڈے کی حد تک تو بات بالکل صحیح ہے ۔ اور یہ ڈنڈا اوپر سے نیچے تک آئے یا نیچے سے اوپر تک ۔ دونوں صورتوں میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے ۔

مجھے ایک چیز ہمیشہ کیفیوژ کرتی ہے ۔ آپ کے حالات کو اگر دیکھا جائے بلکہ فرقان بھائی کی بات کے تنا ظر میں بھی کہ ہر گھر میں اس سے ملتی جُلتی کہانیاں موجود ہیں ۔ میرا پوائنٹ یہ ہے کہ اگر میرے ساتھ میرا چچا کچھ بُرا کرتا ہے تو اس کی ذمہ دار ریاست ہے یا وہ فرد ؟؟؟
مانا کہ ریاست کا نظام ٹھیک ہو تو وہ اسے پکڑ کے سزا دے گی ۔ مجھے میرا حق واپس ملے گا لیکن کیا اس ڈنڈے سے دنیا میں بُرے لوگ ختم ہو جائیں گے ؟؟جب تک ڈنڈا رہے گا تب تک برائی دبی رہے گی ۔ختم نہیں ہو گی ۔ تو کیا یہ ایک دیر پا حل ہے ؟؟ ڈنڈے کے زور پہ کسی سے کتنی دیر نمازیں پڑھوائی جا سکتی ہیں ؟؟ جس سے پڑھوائیں گے وہ ہو سکتا ہے بغیر وضو کے ہی پڑھتا رہے ۔ جب دلوں میں منافقت ہو تو ڈنڈاکب تک کسی کو سیدھا رکھ سکتا ہے ؟؟

یہ تو ایک بات ہو گئی ۔ دوسری :

اسلامی ریاست ہو یا کو ئی اور بہترین نظام کیا ہوتا ہے ؟؟ جس میں تبدیلی یا درستگی اوپر سے نیچے آئے ؟ مطلب یہ کہ سربراہ ٹھیک ہو تو وہ سب کو ٹھیک کر دے ۔ یا نیچے سے اوپر ؟؟ کہ ہر کوئی اپنے آپ کو ٹھیک کرلے ۔ پھر انہی لوگوں میں سے کسی ایک کو سربراہ بنا دیا جائے ۔
 
تفصیلی جواب کی متقاضی پوسٹ۔
مکمل پڑھ چکا ہوں۔ کئی منتشر باتیں ذہن میں ہیں۔
جیسے ہی وقت ملا اور ان کو کوئی ترتیب دے سکا تو پوسٹ کر دوں گا۔

اللہ تعالیٰ آپ کے والدِ گرامی کے درجات بلند فرمائے، سیئات سے درگزر فرمائے اور حسنات کو قبول فرمائے۔ آمین
 

فرقان احمد

محفلین
میرا پوائنٹ یہ ہے کہ اگر میرے ساتھ میرا چچا کچھ بُرا کرتا ہے تو اس کی ذمہ دار ریاست ہے یا وہ فرد ؟؟؟
زیادہ قصور تو چچا کا ہے تاہم سسٹم کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر دوسروں کا استحصال کرنا آسان ہوتا ہے۔

ریاست کا نظام ٹھیک ہو تو وہ اسے پکڑ کے سزا دے گی ۔ مجھے میرا حق واپس ملے گا لیکن کیا اس ڈنڈے سے دنیا میں بُرے لوگ ختم ہو جائیں گے ؟؟جب تک ڈنڈا رہے گا تب تک برائی دبی رہے گی ۔ختم نہیں ہو گی ۔ تو کیا یہ ایک دیر پا حل ہے ؟؟
برائی تو شاید کبھی ختم نہ ہو گی۔ اصلاحِ احوال کی تدابیر اختیار کرنے سے معاشرے میں پھیلی ہوئی خرابیوں کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

اسلامی ریاست ہو یا کو ئی اور بہترین نظام کیا ہوتا ہے ؟؟ جس میں تبدیلی یا درستگی اوپر سے نیچے آئے ؟ مطلب یہ کہ سربراہ ٹھیک ہو تو وہ سب کو ٹھیک کر دے ۔ یا نیچے سے اوپر ؟؟ کہ ہر کوئی اپنے آپ کو ٹھیک کرلے ۔ پھر انہی لوگوں میں سے کسی ایک کو سربراہ بنا دیا جائے ۔
تبدیلی یک دم نہیں آ سکتی ہے اور وہی تبدیلی سود مند ہوتی ہے جو بتدریج آئے۔ اگر خوش قسمتی سے سربراہ نسبتاً بہتر بندہ مل جائے تو تبدیلی کی رفتار تیز ہو سکتی ہے۔
 
"اس چھوکرے کی داڑھی لٹک گئی ہے، اس میں سفید بال آگئے ہیں، وہ انہی گلیوں میں وضو کے قطرے ٹپکاتا ہوا مسجد آتا جاتا ہے"
!!

مجھے اجازت دیجئے کہ اس کا ایک اور نظر سے جائزہ پیش کروں۔
جیسا کہ دوسرے لوگ کہہ چکے ہیں، ہر گھر میں ایسی ہی کہانی ہے، میرے دادا کی زمین ان کے چچا نے ہتھیا لی تھی۔ اگر قابض شخص کا ایمان ہو کہ قیامت کے دن اس زمین کو اس کی گردن کا طوق بنایا جائے گا، تو کیا ممکن ہے وہ ایسا کرے؟؟ صاف ظاہر ہے کہ ایسا شخص اس بات پہ یقین نہیں رکھتا۔
حقیقی اور نافذ العمل آئین کی مثال جو آپ نے بیان کی، کیا یہی ایمان پہ منطبق نہیں ہوتی؟
کیا ایسےشخص میں اور مرتد میں کوئی حقیقی فرق ہے؟؟
مگر یہی شخص مرتد کو قتل کرنے اور گستاخ کا سزا دینے میں پیش پیش ہوگا!!
 

squarened

معطل
اگر قابض شخص کا ایمان ہو کہ قیامت کے دن اس زمین کو اس کی گردن کا طوق بنایا جائے گا، تو کیا ممکن ہے وہ ایسا کرے؟؟ صاف ظاہر ہے کہ ایسا شخص اس بات پہ یقین نہیں رکھتا۔
حقیقی اور نافذ العمل آئین کی مثال جو آپ نے بیان کی، کیا یہی ایمان پہ منطبق نہیں ہوتی؟
کیا ایسےشخص میں اور مرتد میں کوئی حقیقی فرق ہے؟؟

چودھری صاحب آپ لوگوں کو پاکستانی ہونے سے نکالنے میں جتنے جری ہیں اتنے ہی اسلام سے نکالنے میں بھی ہیں؟
اگر آپ ایسے ترازو پر تول کر لوگوں کو مرتد بنائیں گے تو قبضہ کرنے والوں کا نمبر بعد میں آئے گا، پہلے تو تارک نماز، روزہ،حج، زکوٰۃ مرتد ہوں گے پھر ہر طرح کے حقوق غصب کرنے والے، جھوٹ بولنے والے، کم تولنے والے ۔ نکالتے جائیں شاید آپ کے علاوہ کوئی باقی نہ بچے
 

ربیع م

محفلین
اس چھوکرے کی ڈاڑھی لٹک گئی ہے اور اس میں سفید بال آ گئے ہیں۔ وہ انھی گلیوں میں وضو کے قطرے ٹپکاتا ہوا مسجد آتا جاتا رہتا ہے۔
إِنَّ أَعْمَالَ بَنِي آدَمَ تُعْرَضُ كُلَّ خَمِيسٍ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ فَلَا يُقْبَلُ عَمَلُ قَاطِعِ رَحِمٍ .
رواه أحمد
بنی آدم کے اعمال ہر جمعرات جمعہ کی رات اللہ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں لیکن قطع رحمی کرنے والے کے اعمال قبول نہیں کئے جاتے۔


مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ يُعَجِّلَ اللَّهُ لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا مَعَ مَا يَدَّخِرُ لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ الْبَغْيِ وَقَطِيعَةِ الرَّحمِ
الترمذي، أبو داود، ابن ماجه، أحمد
کوئی گناہ بھی "سرکشی" اور "قطع رحمی" سے زیادہ اس بات کا مستحق نہیں کہ اللہ رب العزت اس کے کرنے والے کو آخرت میں اس کیلئے ذخیرہ کردہ عذاب کے ساتھ ساتھ دنیا کے عذاب میں بھی جلدی کریں۔
 
چودھری صاحب آپ لوگوں کو پاکستانی ہونے سے نکالنے میں جتنے جری ہیں اتنے ہی اسلام سے نکالنے میں بھی ہیں؟
اگر آپ ایسے ترازو پر تول کر لوگوں کو مرتد بنائیں گے تو قبضہ کرنے والوں کا نمبر بعد میں آئے گا، پہلے تو تارک نماز، روزہ،حج، زکوٰۃ مرتد ہوں گے پھر ہر طرح کے حقوق غصب کرنے والے، جھوٹ بولنے والے، کم تولنے والے ۔ نکالتے جائیں شاید آپ کے علاوہ کوئی باقی نہ بچے
حضور نہ تو پاکستان میرے والد صاحب کی میراث ہے اور نہ اسلام کہ لوگوں کو بے دخل کرتا پھروں۔ بس جب نظریات اور رویوں کا تضاد نظر آتا ہے تو اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔
تو جناب آپ کیلئے سوال یہ ہے کہ، پہلے تارک نماز اور بعد میں حقوق غصب کرنے والے کو کیوں نکالا جائے؟
سب کو ایک ساتھ ہی کیوں نہ نکالا جائے؟
:D
 
چودھری صاحب آپ لوگوں کو پاکستانی ہونے سے نکالنے میں جتنے جری ہیں اتنے ہی اسلام سے نکالنے میں بھی ہیں؟
اگر آپ ایسے ترازو پر تول کر لوگوں کو مرتد بنائیں گے تو قبضہ کرنے والوں کا نمبر بعد میں آئے گا، پہلے تو تارک نماز، روزہ،حج، زکوٰۃ مرتد ہوں گے پھر ہر طرح کے حقوق غصب کرنے والے، جھوٹ بولنے والے، کم تولنے والے ۔ نکالتے جائیں شاید آپ کے علاوہ کوئی باقی نہ بچے

مجھے یہ چودھری لگتا ہے اسلام سے پھرے لا ہے کہ اسلام امن کا مذہب ہے منافقین کا نہیں۔ میری رائے میں تمام فارن فنڈڈ مزہبی رہنماؤں کو الٹا لٹکا کر درے لگانے چاہیں تاوقتیکہ توبہ نہ کرلیں۔
 
مجھے یہ چودھری لگتا ہے اسلام سے پھرے لا ہے کہ اسلام امن کا مذہب ہے منافقین کا نہیں۔ میری رائے میں تمام فارن فنڈڈ مزہبی رہنماؤں کو الٹا لٹکا کر درے لگانے چاہیں تاوقتیکہ توبہ نہ کرلیں۔
يخَاطِبني السَّفيهُ بِكُلِّ قُبْحٍ
فأكرهُ أن أكونَ له مجيبا
بے وقوف مجھے اپنی تمام تر قبیحات کے ساتھ پکارتا ہے
اور میں ناپسند کرتا ہوں کہ اسے جواب دوں
يزيدُ سفاهة ً فأزيدُ حلماً
كعودٍ زادهُ الإحراقُ طيبا
وہ اپنی بے وقوفی میں بڑھتا جاتا ہے اور میں اپنے حلم میں
اس عود کی مانند جو جلنے سے مزید خوشبو دار ہو جاتی ہے۔

بشکریہ بدر الفاتح
 
يخَاطِبني السَّفيهُ بِكُلِّ قُبْحٍ
فأكرهُ أن أكونَ له مجيبا
بے وقوف مجھے اپنی تمام تر قبیحات کے ساتھ پکارتا ہے
اور میں ناپسند کرتا ہوں کہ اسے جواب دوں
يزيدُ سفاهة ً فأزيدُ حلماً
كعودٍ زادهُ الإحراقُ طيبا
وہ اپنی بے وقوفی میں بڑھتا جاتا ہے اور میں اپنے حلم میں
اس عود کی مانند جو جلنے سے مزید خوشبو دار ہو جاتی ہے۔

بشکریہ بدر الفاتح

فارن فنڈڈ مذہبی رہنما ہی بےوقوف منافق ہوتا ہے جو اپنی جڑوں کو خود کاٹتا ہے
 

squarened

معطل
حضور نہ تو پاکستان میرے والد صاحب کی میراث ہے اور نہ اسلام کہ لوگوں کو بے دخل کرتا پھروں۔ بس جب نظریات اور رویوں کا تضاد نظر آتا ہے تو اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔
تو جناب آپ کیلئے سوال یہ ہے کہ، پہلے تارک نماز اور بعد میں حقوق غصب کرنے والے کو کیوں نکالا جائے؟
سب کو ایک ساتھ ہی کیوں نہ نکالا جائے؟
:D

بے شک آپ تو سب کو ساتھ ہی نکال دیں گے، البتہ میرے ذہن میں یہ بات آئی تھی قبضہ کرنے پر سات زمینوں کے طوق کی وعید ہے، اسلام سے خروج کی نہیں، البتہ ترک نماز پر تو زیادہ تعداد میں ایسی احادیث ہیں جن میں بے نمازی کا اسلام میں کوئی حصّہ نہیں ہے فرمایا گیا ہے۔ پھر "مرتدین" بہت زیادہ نہیں ہو گئے؟
یاد رہے اللہ کی مصلحت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی گناہ سرزد ہوئے ہیں
 

عاطف ملک

محفلین
آپ جنابِ عمرؓ کے دور کے کسی شخص کی طرح اپنے سربراہ کے اثاثوں پر سوال نہیں کر سکتے۔
متفق
آپ کسی مسجد میں کھڑے ہو کر امام شافعیؒ کی طرح مثلاً شیعہ اور سنی سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم دونوں ٹھیک کہتے ہو اور میں بھی ٹھیک کہتا ہوں
سو فیصد درست
حق چھیننے کے لیے قانون کی پابندی ضروری نہیں۔ واپس لینے کے لیے لازم ہے
یہی تو ہمارا المیہ ہے۔
بہت خوبصورت تحریر ہے۔
اللہ آپ کے والد کے دجات کو بلند فرمائے اور
آپ کے اور آپ کے خاندان کیلیے دنیا اور آخرت میں آسانیاں عطا فرمائے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پاکستان (اور برصغیر) میں بہت سارے اس طرح کے مسائل کمبائنڈ فیملی سسٹم کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، فی زمانہ اس کو بدلنے کی ضرورت ہے!
 
Top