راحیل فاروق
محفلین
اگلے ماہ میرے والد کو اس دنیا سے گزرے بارہ سال پورے ہو جائیں گے۔ بارہ سال۔۔۔ ابو جان ہی کی زبانی سنا کرتے تھے کہ بارہ سالوں میں پتھر بھی بدل جاتے ہیں۔ مگر ان کی سبھی باتیں ٹھیک کب تھیں؟
کافی پرانی بات ہے۔ خاندان کا ایک نوعمر چھوکرا ابو جان کے پاس کراچی پہنچا تھا اور انھوں نے اسے فضائیہ میں ملازم کروا دیا تھا۔ اس کے چند سال بعد وہ خود اپنی ملازمت چھوڑ کر پنجاب چلے آئے تھے۔ انھیں اپنے والد یعنی میرے دادا سے آٹھ ایکڑ زمین ورثے میں ملی تھی مگر مزاج ایسا قلندرانہ پایا تھا کہ وطن لوٹنے کے بعد بھائیوں سے واپس لینی ضروری نہ سمجھی۔ ایک دہائی گزری تھی کہ اسی خدا کے پاس جا پہنچے جس کے عشق میں عمر بھر گرفتار رہے تھے۔
ان کے بھائی ان جیسے نہ تھے۔ بلکہ ان جیسا تو کوئی بھی نہیں۔ خود ہم بھی نہیں۔ چچا کیسے ہوتے؟ وہ زمین پر قابض ہو گئے۔ میں نے ریڈیو سے ملنے والے ٹکوں اور ٹیوشن سے ملنے والی پائیوں سے گھر چلانا شروع کیا۔ سب امیدیں دم توڑ چکی تھیں کہ وہی چھوکرا، جو اب تایا ابو کا داماد بن چکا تھا، ایک بطلِ جلیل کی طرح منظر نامے پر ابھرا۔ اس نے آتے ہی چچاؤں کو زمین سے بیک بینی و دو گوش نکال باہر کیا اور۔۔۔ خود قابض ہو گیا۔
بارہ سال گزر چکے ہیں۔ میں بدل چکا ہوں۔ میرا شہر بدل چکا ہے۔ میرا ملک بدل چکا ہے۔ مگر پتھر نہیں بدلے۔
پنچایتوں سے لے کر عدالتوں تک جو کچھ بس میں تھا کر چکا۔ مجھ سے بہتر کون جانتا ہے کہ وطنِ عزیز میں حق اور صداقت کے کیا معانی ہیں اور ثبوت یا شہادت کس چڑیا کو کہتے ہیں۔ ہاں البتہ خدا بہت کچھ جانتا ہے۔ سو چند سال ہوئے کہ میں اپنے دادا اور باپ کی وراثت سے دستبردار ہو گیا ہوں۔ اس چھوکرے کی ڈاڑھی لٹک گئی ہے اور اس میں سفید بال آ گئے ہیں۔ وہ انھی گلیوں میں وضو کے قطرے ٹپکاتا ہوا مسجد آتا جاتا رہتا ہے۔ اس کی اولاد کی عمریں وہی ہو گئی ہیں جو ہماری ابو جان کی وفات کے وقت تھیں۔ ہمارے پاس اپنے باپ کا ترکہ نہ تھا۔ ان کے پاس ہمارے باپ کا ترکہ بھی ہے۔
میں نے اس سفر میں دو منزلیں دیکھی ہیں۔ دو نتائج اخذ کیے ہیں۔ دو مغالطے ملاحظہ کیے ہیں۔ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ قانون کسی تحریر کا نام نہیں۔ قانون اس قوت کا نام ہے جو کسی نظریے کے تحت عمل کرتی ہے۔ پاکستان کی بابت اہلِ وطن اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ یہاں ۷۳ء کا آئین نافذ ہے۔ حالانکہ اس کتابچے کو سرسری نظر سے دیکھنے ہی سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ ان ضابطوں کا شاید دسواں حصہ بھی عملی طور پر لاگو نہیں ہے۔ اگر نفاذ اسی کا نام ہے تو ہماری ریاست کو تسلیم کرنا چاہیے کہ اس میں مثلاً اسرائیلی، ترکی، جاپانی، سعودی وغیرہ آئین بھی نافذ العمل ہیں۔ اتنا تو ان کا بھی حق بنتا ہے!
پٹواری سے لے کر وزیرِ اعظم تک ہر کوئی عوام کو اسی قانون کی خلاف ورزی سے ڈراتا ہے۔ عدالت اسی قانون کی باندی ہے۔ عمران خان اپنے ملک کے لیے نکلتا ہے یا راحیل فاروق اپنی وراثت کے لیے، یہی دھمکی ملتی ہے کہ قانون اپنے ہاتھ میں مت لینا نہیں تو سزا پاؤ گے۔ کیسی مزے کی بات ہے؟ حق چھیننے کے لیے قانون کی پابندی ضروری نہیں۔ واپس لینے کے لیے لازم ہے۔ مغالطہ یہی ہے۔
ہمارے ملک میں ۷۳ء کا آئینِ نافذ نہیں ہے۔ یہ آئین مقدس نہیں ہے۔ ہمارا قانون واجب الاحترام نہیں ہے۔ اس کی حقیقی حیثیت محض اخبار کے ردی کاغذ کی سی ہے۔ جس میں پکوڑے بھی بیچے جا سکتے ہیں اور چوہے مار دوائیاں بھی۔ یہاں تک کہ آپ کا ملازم آپ کے کتے کا لید بھی اس میں لپیٹ کر پھینکنے لے جا سکتا ہے۔ وطن کی سلامتی اور آبرو پر کوئی قیامت نہیں ٹوٹتی۔ یقین کیجیے۔
جو اصل آئین ہے اس کے ساتھ ایسا کبھی نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً آپ جنابِ عمرؓ کے دور کے کسی شخص کی طرح اپنے سربراہ کے اثاثوں پر سوال نہیں کر سکتے۔ آپ کو اخبار میں لپیٹ کر کتے کے لید کی طرح دور کر دیا جائے گا۔ آپ کسی مسجد میں کھڑے ہو کر امام شافعیؒ کی طرح مثلاً شیعہ اور سنی سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم دونوں ٹھیک کہتے ہو اور میں بھی ٹھیک کہتا ہوں۔ آپ کو جلد امام شافعیؒ کے پاس پہنچا دیا جائے گا۔ اسے آئین کہتے ہیں۔ یہ اصل قانون ہے۔ میں یہاں یہ سوال نہیں اٹھا رہا کہ یہ ٹھیک ہے یا غلط۔ میری مراد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ آئین اور قانون درحقیقت کس چڑیا کے نام ہیں۔
ہم اس مغالطے میں بڑی دیر سے گرفتار ہیں۔ اس ہاتھی کی طرح جو بچپنے میں ایک کھونٹی سے باندھا جاتا ہے اور دیو بن جانے کے باوجود اسی سے بندھا رہتا ہے۔ ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ اصل قانون کیا ہے۔ مگر پھر کوئی قرمساق آتا ہے اور ہمیں مطلع کرتا ہے کہ قانون کی تحریر کیا ہے۔ اور قوم کا دیو قامت ہاتھی اپنی دم جتنی ایک کھونٹی کے آگے سجدے میں گر جاتا ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ آئین لفظوں کا نام نہیں۔ ورنہ میری شاعری ہی کیوں نہ ہو۔ آئین اس ضابطے کا نام ہے جس کے مطابق چیزیں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ کائنات کے قوانین کو دیکھیے۔ آپ کو حق الیقین حاصل ہو جائے گا جب آپ دیکھیں گے کہ اصول سمجھ میں آئے نہ آئے، عمل میں آ کر رہتا ہے۔ ہم کتنے احمق ہیں؟ کاغذ کے چند پرزوں اور کانوں میں گونجتے چند لفظوں کو مقدس سمجھتے ہیں۔ بدبخت ہے وہ قوم جو یہ بھی نہیں جانتی کہ قانون تقدیس طلب نہیں کرتا، پیدا کرتا ہے۔
دوسرا مغالطہ یہ ہے کہ پاکستانی ایک بری قوم ہیں۔ اپنوں سے لے کر غیروں تک سب یہی باور کرواتے ہیں۔ وجہ؟ وجہ یہ کہ پاکستانی فریب دیتے ہیں۔ بدعنوانی کرتے ہیں۔ شدت پسند ہیں۔ جاہل ہیں۔ غیرجمہوری ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
بچہ بگڑ جاتا ہے تو ماں باپ کو الزام دیا جاتا ہے۔ مگر خدا جانے کیوں پاکستانیوں کے جرائم کا الزام ریاست کو دینے کا رواج نہیں۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ۲۰۱۱ء میں برطانیہ جیسی کلاسیک تہذیب نے کیا کالک اپنے منہ پر ملی تھی۔ بربریت کا ایک لاوا تھا جو صدیوں کے تمدن کی مٹی جھاڑ کر لندن پر ابل پڑا تھا۔ کسی نے نہیں کہا کہ انگریز نہایت گھٹیا اور وحشی قوم ہیں۔ سب دیکھ رہے ہیں کہ امسال امریکہ نے اپنی تاریخ کا شاید سب سے بڑا مذاق سہا ہے۔ ایک شخص جس کی بات بات سے جہالت، حماقت اور رذالت ٹپکتی ہے اس ملک کا سربراہ بن گیا ہے۔ کسی نے نہیں کہا کہ امریکی قوم پاگلوں اور نفسیاتی مریضوں کے ایک ہجوم کا نام ہے۔ مگر ریاستِ پاکستان کے سب جرائم پاکستانیوں کے محضر نامے میں لکھے جاتے ہیں۔ افسوس، صد افسوس!
پنجابی کی ایک مثل ہے کہ چار کتاباں عرشوں لتھیاں پنجواں لتھا ڈنڈا۔ یعنی صحائفِ اربعہ کے بعد پانچواں عرش سے ڈنڈا نازل کیا گیا۔ اس لحاظ سے ڈنڈے کو خاتم الصحائف کہنا چاہیے۔ یہ حتمی اور اعلیٰ ترین درجے کی ہدایت ہے۔ دنیا کی کسی بھی ملت پر نافذ کیجیے۔ تیر کی طرح سیدھی ہو جائے گی۔ جیسے برطانوی ہیں۔ جیسے امریکی ہیں۔ جیسے جاپانی ہیں۔ جیسے اونٹوں کا پیشاب پینے والے بدو آج کل ہو گئے ہیں۔ مگر پاکستان میں یہ مہدی بیچارہ فراعین کا غلام ہے۔ اسے کسی قانون کے تحت کر دیا جائے تو مجال ہے پاکستانیوں کی کہ خلاف ورزی کا سوچیں بھی؟ آخر امریکیوں اور عربوں سے بھی گئے گزرے تو نہیں ہیں ہم۔
اس دوسرے مغالطے کو نہایت توجہ سے دور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہماری نفسیات میں ایک احساسِ جرم کی طرح بیٹھ گیا ہے۔ ہم خود اپنے لطیفے بناتے ہیں اور ہنستے ہیں۔ ہم بری قوم ہیں۔ ہم جاہل لوگ ہیں۔ ہم گھٹیا ہیں۔ ہم کام چور ہیں۔ ہم قانون شکن ہیں۔ نہیں۔ ہم انسان ہیں۔ سب جیسے۔ سب کی طرح ہم بھی ہجوم یا ملت کی حیثیت سے قانون تو درکنار، خدا سے بھی نہیں ڈرتے۔ سبھی کی طرح ہمیں بھی ایک ڈنڈا چاہیے جو راستی اور راستے کی طرف اشارے کرتا رہے۔ ہم بھی مہذب ہو جائیں گے۔ تہذیب اسی کا نام ہے۔ کہیں جا کر دیکھ لیجیے۔
قصہ مختصر، ہمیں ایک قانون چاہیے جس کے پاس نفاذ کا ڈنڈا ہو اور ایک ڈنڈا چاہیے جس کا نفاذ قانون کا پابند ہو۔ ہے کوئی قانون کے دلالوں اور ڈنڈے کی داشتاؤں میں سننے والا؟ سوچنے والا؟ سمجھنے والا؟
---
برائے خصوصی اطلاع:
فرقان احمد اور arifkarim
کافی پرانی بات ہے۔ خاندان کا ایک نوعمر چھوکرا ابو جان کے پاس کراچی پہنچا تھا اور انھوں نے اسے فضائیہ میں ملازم کروا دیا تھا۔ اس کے چند سال بعد وہ خود اپنی ملازمت چھوڑ کر پنجاب چلے آئے تھے۔ انھیں اپنے والد یعنی میرے دادا سے آٹھ ایکڑ زمین ورثے میں ملی تھی مگر مزاج ایسا قلندرانہ پایا تھا کہ وطن لوٹنے کے بعد بھائیوں سے واپس لینی ضروری نہ سمجھی۔ ایک دہائی گزری تھی کہ اسی خدا کے پاس جا پہنچے جس کے عشق میں عمر بھر گرفتار رہے تھے۔
ان کے بھائی ان جیسے نہ تھے۔ بلکہ ان جیسا تو کوئی بھی نہیں۔ خود ہم بھی نہیں۔ چچا کیسے ہوتے؟ وہ زمین پر قابض ہو گئے۔ میں نے ریڈیو سے ملنے والے ٹکوں اور ٹیوشن سے ملنے والی پائیوں سے گھر چلانا شروع کیا۔ سب امیدیں دم توڑ چکی تھیں کہ وہی چھوکرا، جو اب تایا ابو کا داماد بن چکا تھا، ایک بطلِ جلیل کی طرح منظر نامے پر ابھرا۔ اس نے آتے ہی چچاؤں کو زمین سے بیک بینی و دو گوش نکال باہر کیا اور۔۔۔ خود قابض ہو گیا۔
بارہ سال گزر چکے ہیں۔ میں بدل چکا ہوں۔ میرا شہر بدل چکا ہے۔ میرا ملک بدل چکا ہے۔ مگر پتھر نہیں بدلے۔
پنچایتوں سے لے کر عدالتوں تک جو کچھ بس میں تھا کر چکا۔ مجھ سے بہتر کون جانتا ہے کہ وطنِ عزیز میں حق اور صداقت کے کیا معانی ہیں اور ثبوت یا شہادت کس چڑیا کو کہتے ہیں۔ ہاں البتہ خدا بہت کچھ جانتا ہے۔ سو چند سال ہوئے کہ میں اپنے دادا اور باپ کی وراثت سے دستبردار ہو گیا ہوں۔ اس چھوکرے کی ڈاڑھی لٹک گئی ہے اور اس میں سفید بال آ گئے ہیں۔ وہ انھی گلیوں میں وضو کے قطرے ٹپکاتا ہوا مسجد آتا جاتا رہتا ہے۔ اس کی اولاد کی عمریں وہی ہو گئی ہیں جو ہماری ابو جان کی وفات کے وقت تھیں۔ ہمارے پاس اپنے باپ کا ترکہ نہ تھا۔ ان کے پاس ہمارے باپ کا ترکہ بھی ہے۔
میں نے اس سفر میں دو منزلیں دیکھی ہیں۔ دو نتائج اخذ کیے ہیں۔ دو مغالطے ملاحظہ کیے ہیں۔ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ قانون کسی تحریر کا نام نہیں۔ قانون اس قوت کا نام ہے جو کسی نظریے کے تحت عمل کرتی ہے۔ پاکستان کی بابت اہلِ وطن اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ یہاں ۷۳ء کا آئین نافذ ہے۔ حالانکہ اس کتابچے کو سرسری نظر سے دیکھنے ہی سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ ان ضابطوں کا شاید دسواں حصہ بھی عملی طور پر لاگو نہیں ہے۔ اگر نفاذ اسی کا نام ہے تو ہماری ریاست کو تسلیم کرنا چاہیے کہ اس میں مثلاً اسرائیلی، ترکی، جاپانی، سعودی وغیرہ آئین بھی نافذ العمل ہیں۔ اتنا تو ان کا بھی حق بنتا ہے!
پٹواری سے لے کر وزیرِ اعظم تک ہر کوئی عوام کو اسی قانون کی خلاف ورزی سے ڈراتا ہے۔ عدالت اسی قانون کی باندی ہے۔ عمران خان اپنے ملک کے لیے نکلتا ہے یا راحیل فاروق اپنی وراثت کے لیے، یہی دھمکی ملتی ہے کہ قانون اپنے ہاتھ میں مت لینا نہیں تو سزا پاؤ گے۔ کیسی مزے کی بات ہے؟ حق چھیننے کے لیے قانون کی پابندی ضروری نہیں۔ واپس لینے کے لیے لازم ہے۔ مغالطہ یہی ہے۔
ہمارے ملک میں ۷۳ء کا آئینِ نافذ نہیں ہے۔ یہ آئین مقدس نہیں ہے۔ ہمارا قانون واجب الاحترام نہیں ہے۔ اس کی حقیقی حیثیت محض اخبار کے ردی کاغذ کی سی ہے۔ جس میں پکوڑے بھی بیچے جا سکتے ہیں اور چوہے مار دوائیاں بھی۔ یہاں تک کہ آپ کا ملازم آپ کے کتے کا لید بھی اس میں لپیٹ کر پھینکنے لے جا سکتا ہے۔ وطن کی سلامتی اور آبرو پر کوئی قیامت نہیں ٹوٹتی۔ یقین کیجیے۔
جو اصل آئین ہے اس کے ساتھ ایسا کبھی نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً آپ جنابِ عمرؓ کے دور کے کسی شخص کی طرح اپنے سربراہ کے اثاثوں پر سوال نہیں کر سکتے۔ آپ کو اخبار میں لپیٹ کر کتے کے لید کی طرح دور کر دیا جائے گا۔ آپ کسی مسجد میں کھڑے ہو کر امام شافعیؒ کی طرح مثلاً شیعہ اور سنی سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم دونوں ٹھیک کہتے ہو اور میں بھی ٹھیک کہتا ہوں۔ آپ کو جلد امام شافعیؒ کے پاس پہنچا دیا جائے گا۔ اسے آئین کہتے ہیں۔ یہ اصل قانون ہے۔ میں یہاں یہ سوال نہیں اٹھا رہا کہ یہ ٹھیک ہے یا غلط۔ میری مراد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ آئین اور قانون درحقیقت کس چڑیا کے نام ہیں۔
ہم اس مغالطے میں بڑی دیر سے گرفتار ہیں۔ اس ہاتھی کی طرح جو بچپنے میں ایک کھونٹی سے باندھا جاتا ہے اور دیو بن جانے کے باوجود اسی سے بندھا رہتا ہے۔ ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ اصل قانون کیا ہے۔ مگر پھر کوئی قرمساق آتا ہے اور ہمیں مطلع کرتا ہے کہ قانون کی تحریر کیا ہے۔ اور قوم کا دیو قامت ہاتھی اپنی دم جتنی ایک کھونٹی کے آگے سجدے میں گر جاتا ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ آئین لفظوں کا نام نہیں۔ ورنہ میری شاعری ہی کیوں نہ ہو۔ آئین اس ضابطے کا نام ہے جس کے مطابق چیزیں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ کائنات کے قوانین کو دیکھیے۔ آپ کو حق الیقین حاصل ہو جائے گا جب آپ دیکھیں گے کہ اصول سمجھ میں آئے نہ آئے، عمل میں آ کر رہتا ہے۔ ہم کتنے احمق ہیں؟ کاغذ کے چند پرزوں اور کانوں میں گونجتے چند لفظوں کو مقدس سمجھتے ہیں۔ بدبخت ہے وہ قوم جو یہ بھی نہیں جانتی کہ قانون تقدیس طلب نہیں کرتا، پیدا کرتا ہے۔
دوسرا مغالطہ یہ ہے کہ پاکستانی ایک بری قوم ہیں۔ اپنوں سے لے کر غیروں تک سب یہی باور کرواتے ہیں۔ وجہ؟ وجہ یہ کہ پاکستانی فریب دیتے ہیں۔ بدعنوانی کرتے ہیں۔ شدت پسند ہیں۔ جاہل ہیں۔ غیرجمہوری ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
بچہ بگڑ جاتا ہے تو ماں باپ کو الزام دیا جاتا ہے۔ مگر خدا جانے کیوں پاکستانیوں کے جرائم کا الزام ریاست کو دینے کا رواج نہیں۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ۲۰۱۱ء میں برطانیہ جیسی کلاسیک تہذیب نے کیا کالک اپنے منہ پر ملی تھی۔ بربریت کا ایک لاوا تھا جو صدیوں کے تمدن کی مٹی جھاڑ کر لندن پر ابل پڑا تھا۔ کسی نے نہیں کہا کہ انگریز نہایت گھٹیا اور وحشی قوم ہیں۔ سب دیکھ رہے ہیں کہ امسال امریکہ نے اپنی تاریخ کا شاید سب سے بڑا مذاق سہا ہے۔ ایک شخص جس کی بات بات سے جہالت، حماقت اور رذالت ٹپکتی ہے اس ملک کا سربراہ بن گیا ہے۔ کسی نے نہیں کہا کہ امریکی قوم پاگلوں اور نفسیاتی مریضوں کے ایک ہجوم کا نام ہے۔ مگر ریاستِ پاکستان کے سب جرائم پاکستانیوں کے محضر نامے میں لکھے جاتے ہیں۔ افسوس، صد افسوس!
پنجابی کی ایک مثل ہے کہ چار کتاباں عرشوں لتھیاں پنجواں لتھا ڈنڈا۔ یعنی صحائفِ اربعہ کے بعد پانچواں عرش سے ڈنڈا نازل کیا گیا۔ اس لحاظ سے ڈنڈے کو خاتم الصحائف کہنا چاہیے۔ یہ حتمی اور اعلیٰ ترین درجے کی ہدایت ہے۔ دنیا کی کسی بھی ملت پر نافذ کیجیے۔ تیر کی طرح سیدھی ہو جائے گی۔ جیسے برطانوی ہیں۔ جیسے امریکی ہیں۔ جیسے جاپانی ہیں۔ جیسے اونٹوں کا پیشاب پینے والے بدو آج کل ہو گئے ہیں۔ مگر پاکستان میں یہ مہدی بیچارہ فراعین کا غلام ہے۔ اسے کسی قانون کے تحت کر دیا جائے تو مجال ہے پاکستانیوں کی کہ خلاف ورزی کا سوچیں بھی؟ آخر امریکیوں اور عربوں سے بھی گئے گزرے تو نہیں ہیں ہم۔
اس دوسرے مغالطے کو نہایت توجہ سے دور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہماری نفسیات میں ایک احساسِ جرم کی طرح بیٹھ گیا ہے۔ ہم خود اپنے لطیفے بناتے ہیں اور ہنستے ہیں۔ ہم بری قوم ہیں۔ ہم جاہل لوگ ہیں۔ ہم گھٹیا ہیں۔ ہم کام چور ہیں۔ ہم قانون شکن ہیں۔ نہیں۔ ہم انسان ہیں۔ سب جیسے۔ سب کی طرح ہم بھی ہجوم یا ملت کی حیثیت سے قانون تو درکنار، خدا سے بھی نہیں ڈرتے۔ سبھی کی طرح ہمیں بھی ایک ڈنڈا چاہیے جو راستی اور راستے کی طرف اشارے کرتا رہے۔ ہم بھی مہذب ہو جائیں گے۔ تہذیب اسی کا نام ہے۔ کہیں جا کر دیکھ لیجیے۔
قصہ مختصر، ہمیں ایک قانون چاہیے جس کے پاس نفاذ کا ڈنڈا ہو اور ایک ڈنڈا چاہیے جس کا نفاذ قانون کا پابند ہو۔ ہے کوئی قانون کے دلالوں اور ڈنڈے کی داشتاؤں میں سننے والا؟ سوچنے والا؟ سمجھنے والا؟
---
برائے خصوصی اطلاع:
فرقان احمد اور arifkarim
آخری تدوین: