نوید صادق
محفلین
نوید صادق
میں جو گُم صُم سرِ سوادِ ذات
تار و پودِ سکوں سے اُلجھا ہوں
دیکھتا ہوں، ہوا میں لہراتے
مخملیں زرد رُو کنول کے پھول
ساحلِ خواب پر اُمنڈتی دُھند
جان لیوا سکوتِ صحرا میں
اپنے ہونے کی نفی کرتا ہوں
کش مکش کا سبب کسے معلوم
سایہ ابر میں مرا سایہ
کھو گیا ریت کی تہوں میں کہیں
جانتا ہوں، مگر نہیں کہتا
یہ غمِ کاہشِ وفا تو نہیں
شمع کی لَو کے اُس طرف کوئی
کتنے برسوں سے منتظر ہے مرا!!
٭
رات تہلیل ہو گئی مجھ میں
صبح میرے عیوب کھولے کیا
میں کہیں دور دشتِ وحشت میں
اپنے سائے سے الجھا بٹھا ہوں
بے بسی حد سے ما سَوا ہے یہاں
صبح بے رنگ، شام ہے بے کیف
سانس کی لَے کے ساتھ اٹھتا ہے
دل میں ہنگامہ نبود و بود
گردشِ خوں سوال کرتی ہے
اور کب تک چلے گا یہ سب کچھ!؟
لمحہ لمحہ سوال کرتا ہے
میرے ہونے میں کون حائل ہے
میری سوچوں پہ کس کا پہرا ہے
وہ جو برسوں سے منتظر تھا مرا
کوئی اُس کی خبر نہیں دےتا
ہر نفس یہ پیام آتا ہے
آس کی تان ٹوٹ جائے گی
زندگی ہار مان جائے گی!!
٭
(نوید صادق)
بہت تھک چُکا ہوں
غمِ دیگر
میں جو گُم صُم سرِ سوادِ ذات
تار و پودِ سکوں سے اُلجھا ہوں
دیکھتا ہوں، ہوا میں لہراتے
مخملیں زرد رُو کنول کے پھول
ساحلِ خواب پر اُمنڈتی دُھند
جان لیوا سکوتِ صحرا میں
اپنے ہونے کی نفی کرتا ہوں
کش مکش کا سبب کسے معلوم
سایہ ابر میں مرا سایہ
کھو گیا ریت کی تہوں میں کہیں
جانتا ہوں، مگر نہیں کہتا
یہ غمِ کاہشِ وفا تو نہیں
شمع کی لَو کے اُس طرف کوئی
کتنے برسوں سے منتظر ہے مرا!!
٭
آخری نظم
رات تہلیل ہو گئی مجھ میں
صبح میرے عیوب کھولے کیا
میں کہیں دور دشتِ وحشت میں
اپنے سائے سے الجھا بٹھا ہوں
بے بسی حد سے ما سَوا ہے یہاں
صبح بے رنگ، شام ہے بے کیف
سانس کی لَے کے ساتھ اٹھتا ہے
دل میں ہنگامہ نبود و بود
گردشِ خوں سوال کرتی ہے
اور کب تک چلے گا یہ سب کچھ!؟
لمحہ لمحہ سوال کرتا ہے
میرے ہونے میں کون حائل ہے
میری سوچوں پہ کس کا پہرا ہے
وہ جو برسوں سے منتظر تھا مرا
کوئی اُس کی خبر نہیں دےتا
ہر نفس یہ پیام آتا ہے
آس کی تان ٹوٹ جائے گی
زندگی ہار مان جائے گی!!
٭
(نوید صادق)
بہت تھک چُکا ہوں