نیرنگ خیال
لائبریرین
شانِ نزول:
دیروز دورانِ مجلس ایک خبر نما افسانے پر تبصرہ فرماتے ہوئے حسن رحمن شدید جذباتی ہوگئے۔ عمومی دنوں میں وہ انتہائی ٹھنڈے مزاج کے انسان ہیں، لیکن کمزور لمحے سبھی انسانوں پر آتے ہیں۔ اسی جذباتی گفتگو کے دوران انہوں نے انتہائی سنجیدگی سے بیان دیا کہ انسان اگر ٹماٹر خریدنے کی بھی کہانی بیان کرے، تو اس میں ایسا کچھ خاص ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کے ذہن میں رہ جائے۔ کہا تو انہوں نے اور بھی بہت کچھ، مگر ہمارے کند ذہن میں ٹماٹر اٹک کر رہ گئے۔ آخر کیسے ٹماٹروں کی خریداری میں فلمی رنگ گھولے جائیں۔۔۔ ساری رات عجیب و غریب خواب آتے رہے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ سڑک پر چلے جا رہے ہیں۔ ہاتھ میں ٹماٹر کا تھیلا ہے۔ ایکا ایکی ایک سائیکل والا ٹکراتا ہے، سارے ٹماٹر سڑک پر بکھر جاتے ہیں۔ کچھ سڑک کنارے نالی میں جا گرتے ہیں۔جیب میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو اور ٹماٹر خریدنے کے روپے نہیں ہیں۔ ایسے حقیقت بھرے خواب۔ اٹھ کر خود کو کوستے ہیں۔ گالیاں بکتے ہیں۔ کہ کہاں فلمی خواب۔ جہاں ایک حسینہ آتی ہے۔ آنچل لہراتی ہے۔ ہیرو کے ہاتھ سے ٹماٹروں کا تھیلا چھوٹ کر زمین پر جا گرتا ہے۔ اور وہ لہراتا ڈولتا اس حسینہ مہ جبینہ کے پیچھے پیچھے میکانکی انداز میں چلتا چلا جاتا ہے۔ اور کہاں۔۔۔ ایک آدمی۔۔۔۔ ایک آدمی۔۔۔ اور وہ بھی سائیکل پر سوار۔۔۔ خواب میں بھی کوئی گاڑی نہ آکر ٹکرائی۔۔۔۔ ڈر کے مارے بقیہ رات نیند نہیں آئی کہ کہیں دوسرا سائیکل سوار ٹماٹروں کا وہ تھیلا بھی نہ گرا دے جو دوست سے روپے ادھار مانگ کر لیا ہے۔ تف ہے ایسے بےرونق اور بدسلیقہ خوابوں پر۔
دو کلو ٹماٹر:
اس کے رخسار سے خون ایک پتلی سی لکیر کی صورت بہہ کر گردن تک جا کر جم گیا تھا۔ بظاہر یہ کسی تیز دھار آلے کی ہلکی سی کھرونچ معلوم ہوتی تھی۔ گریبان کے دو بٹن ٹوٹے ہوئے تھے، اور سامنے کی جیب آدھی ادھڑ کر ہوا میں جھول رہی تھی۔ پیشانی کے پاس ایک چھوٹا سا گومڑ ابھرا ہوا تھا، اور کان کے پیچھے ایک گہرا نیل معلوم ہوتا تھا۔ بایاں کف پھٹا ہوا تھا۔ اس سب کے باوجود اس کی چال میں ایک وقار تھا۔ہر شخص اس کو عجیب نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اور اِس حلیے کے متعلق قسم قسم کی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں۔ لیکن وہ ان سب سے بےپروا تیز تیز قدموں سے گلی کے اختتام پر موجود چھوٹی سی مارکیٹ کی طرف جا رہا تھا۔سبزی کے ٹھیلے کے سامنے آ کر اس کے قدم رک گئے۔ ٹھیلے پر پہلے سے چند مرد و خواتین سبزیوں کی خریداری میں مصروف تھے۔ وہ ان کے پیچھے ٹھہر گیا۔ سبزی والے نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور پھر دیکھتا ہی رہا۔ سبھی لوگ سبزی فروش کے چونکنے پر اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔ دو کلو ٹماٹر دے دو۔ اس نے تمکنت بھرے لہجے میں سبزی فروش سے کہا۔
یہ ایک متوسط طبقے کا نمائندہ گھر تھا۔ داخلی دروازے کے ساتھ ہی ٹی وی لاونج اور بائیں طرف ڈرائنگ روم کا دروازہ۔ ٹی وی لاونج سے گزر ایک بیڈ روم ۔ لیکن اِس بیڈ روم اور ٹی وی لاونج کے درمیان میں دیوارِگریہ تھی۔ یعنی مطبخ۔ ٹی وی پر اس وقت فٹبال کا میچ جاری تھا، اور صاحبِ خانہ ٹی وی کے سامنے رکھے صوفے پر ٹانگیں پھیلائے، ساتھ اپنا لیپ ٹاپ کا بیگ رکھے، دنیا و مافیہا سے بے خبر ٹی وی پر نظریں گاڑے بیٹھے تھے۔ گویا انہیں یہ خطرہ ہے کہ اگر پلک بھی جھپکی تو پورا میچ دوبارہ دیکھنا پڑے گا۔ بیگم صاحبہ نے ایک نظر صاحب پر ڈالی اور کہا۔جوتے اتار دیتے۔ اتار دیتا ہوں۔ صاحب نے ٹی وی پر نظریں گاڑے گاڑے گھمبیر آواز میں جواب دیا۔ کپڑے بدل لیں، جب سے دفتر سے لوٹے ہیں، یہیں بیٹھے ہیں، گویا کسی نے گوند سے چپکا دیا ہے۔ صاحب نے پہلی بار ٹی وی سے نظریں ہٹا کر ایک غصیلی نظر بیگم پر ڈالی، مگر خاموش رہے اور دوبارہ ٹی وی کی طرف متوجہ ہوگئے۔ بیگم صاحبہ کچن کے اندر چلی گئیں، لیکن ان کی آواز پہلے سے زیادہ واضح اور بلند سنائی دینے لگی۔ کس عذاب میں پھنس گئی ہوں۔ پورا دن کام کرو۔ ان کے نخرے اٹھاؤ۔ ان کے بچوں کے نخرے اٹھاؤ۔ سبزی چھیلتے چھیلتے بیگم صاحبہ پر یکلخت راز کھلا کہ ٹماٹر نہیں ہیں۔ دن میں جب سبزی والا گلی میں آیا تھا تو وہ ٹماٹر لینا بھول گئی تھیں۔ نہیں! وہ بھولی نہیں تھیں، انہیں لگا کہ ایک دو ٹماٹر پڑے ہیں، چنانچہ آج ٹماٹر لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر یہ کیا! گھر میں تو ٹماٹر ہی نہیں ہے۔ انہوں نے وہیں سے پھنکارتے ہوئے لہجے میں آواز دی۔ سنتے ہیں؟ اِدھر آئیں! میاں صاحب چاروناچار صوفے سے اٹھے اور باورچی خانہ میں آگئے۔ جی! انہوں نے خشونت بھرے لہجے میں کہا۔ بیگم جو پہلے ہی بھری بیٹھی تھیں۔ یہ کیسے بول رہے ہیں آپ؟ جائیں ٹماٹر لے کر آئیں ابھی کہ ابھی! وگرنہ مجھ سے کچھ مت مانگیے گا کھانے کو۔ انہوں نے گھی کے اندر چمچہ ہلاتے ہوئے تقریبا چیختے ہوئے کہا۔ کیا ہوگیا ہے تمہیں؟ کیا تم پاگل ہو؟ صاحب کے لہجے میں تلخی عو د کر آئی۔ جانے کس لمحےڈوئی خود ہی اڑتی ہوئی صاحب کی پیشانی سے جا ٹکرائی۔ غیر مرئی قوتوں نے بیگم کے دائیں ہاتھ پر قبضہ کر لیا اور صاحب کا گریبان کھینچ لیا۔ گریبان چھڑایا تو بایاں ہاتھ کسی نادیدہ قوت کے زیر اثر رخسار پر پڑا اورلمبے ناخن نے اپنے نقوش میاں کے چہرے پر چھوڑ دیے۔ صاحب نے پلٹنے کی کوشش کی تو اسی نادیدہ قوت نے، جو اب بیگم صاحبہ کے مکمل وجود پر قابض ہوچکا تھی، کھینچنے کی کوشش کی، جس سے جیب جاتی رہی اور سٹیل کا گلاس کان کے نیچے اپنے رنگ چھوڑ گیا۔ زمین پر لیٹے لیٹے صاحب نے صلح کی سفید جھنڈی بلند کی، جو ان کا اپنا ہی کف تھا۔اور گھر سے نکل گئے۔ پیچھے سے بیگم صاحبہ کی آواز آ رہی تھی۔ رکیے۔ سنیے! حلیہ تو درست کرتے جائیں۔ لوگ کیا کہیں گے؟
سبزی فروش کی دکان پر ہر آنکھ سوالیہ انداز میں اس کی طرف اٹھی ہوئی تھی۔ لیکن وہ سب سے بےپروا اپنا وقار بحال رکھے، بغیر کسی سے بات کیے ایسے ظاہر کرتا رہا جیسے یہ لوگ کچھ ایسا دیکھ رہے ہیں، جو اُسے نہیں پتا۔ ٹماٹر کا تھیلا لے کر پلٹتے وقت، اسے وہ وقت یاد آرہا تھا، جب وہ قومی باکسنگ فاتح کے عشق میں گرفتار ہوا تھا۔ تمام دوست اس کے عشق پر ہنستے تھے۔ اور پھر جس دن وہ اظہار کے لیے گیا، تو اس کے دوستوں نے اسے بار بار منع کیا۔ اور پھر جاتے وقت اسے اپنے دوست کی آواز آ رہی تھی۔ "پِٹے گا سالا!"۔ اس نے گھر کی اور مُڑتے ہوئے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔ اور دل میں سوچا۔ کاش! اسی دن پِٹ گیا ہوتا۔
نیرنگ خیال
19 جنوری 2025
دیروز دورانِ مجلس ایک خبر نما افسانے پر تبصرہ فرماتے ہوئے حسن رحمن شدید جذباتی ہوگئے۔ عمومی دنوں میں وہ انتہائی ٹھنڈے مزاج کے انسان ہیں، لیکن کمزور لمحے سبھی انسانوں پر آتے ہیں۔ اسی جذباتی گفتگو کے دوران انہوں نے انتہائی سنجیدگی سے بیان دیا کہ انسان اگر ٹماٹر خریدنے کی بھی کہانی بیان کرے، تو اس میں ایسا کچھ خاص ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کے ذہن میں رہ جائے۔ کہا تو انہوں نے اور بھی بہت کچھ، مگر ہمارے کند ذہن میں ٹماٹر اٹک کر رہ گئے۔ آخر کیسے ٹماٹروں کی خریداری میں فلمی رنگ گھولے جائیں۔۔۔ ساری رات عجیب و غریب خواب آتے رہے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ سڑک پر چلے جا رہے ہیں۔ ہاتھ میں ٹماٹر کا تھیلا ہے۔ ایکا ایکی ایک سائیکل والا ٹکراتا ہے، سارے ٹماٹر سڑک پر بکھر جاتے ہیں۔ کچھ سڑک کنارے نالی میں جا گرتے ہیں۔جیب میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو اور ٹماٹر خریدنے کے روپے نہیں ہیں۔ ایسے حقیقت بھرے خواب۔ اٹھ کر خود کو کوستے ہیں۔ گالیاں بکتے ہیں۔ کہ کہاں فلمی خواب۔ جہاں ایک حسینہ آتی ہے۔ آنچل لہراتی ہے۔ ہیرو کے ہاتھ سے ٹماٹروں کا تھیلا چھوٹ کر زمین پر جا گرتا ہے۔ اور وہ لہراتا ڈولتا اس حسینہ مہ جبینہ کے پیچھے پیچھے میکانکی انداز میں چلتا چلا جاتا ہے۔ اور کہاں۔۔۔ ایک آدمی۔۔۔۔ ایک آدمی۔۔۔ اور وہ بھی سائیکل پر سوار۔۔۔ خواب میں بھی کوئی گاڑی نہ آکر ٹکرائی۔۔۔۔ ڈر کے مارے بقیہ رات نیند نہیں آئی کہ کہیں دوسرا سائیکل سوار ٹماٹروں کا وہ تھیلا بھی نہ گرا دے جو دوست سے روپے ادھار مانگ کر لیا ہے۔ تف ہے ایسے بےرونق اور بدسلیقہ خوابوں پر۔
دو کلو ٹماٹر:
اس کے رخسار سے خون ایک پتلی سی لکیر کی صورت بہہ کر گردن تک جا کر جم گیا تھا۔ بظاہر یہ کسی تیز دھار آلے کی ہلکی سی کھرونچ معلوم ہوتی تھی۔ گریبان کے دو بٹن ٹوٹے ہوئے تھے، اور سامنے کی جیب آدھی ادھڑ کر ہوا میں جھول رہی تھی۔ پیشانی کے پاس ایک چھوٹا سا گومڑ ابھرا ہوا تھا، اور کان کے پیچھے ایک گہرا نیل معلوم ہوتا تھا۔ بایاں کف پھٹا ہوا تھا۔ اس سب کے باوجود اس کی چال میں ایک وقار تھا۔ہر شخص اس کو عجیب نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اور اِس حلیے کے متعلق قسم قسم کی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں۔ لیکن وہ ان سب سے بےپروا تیز تیز قدموں سے گلی کے اختتام پر موجود چھوٹی سی مارکیٹ کی طرف جا رہا تھا۔سبزی کے ٹھیلے کے سامنے آ کر اس کے قدم رک گئے۔ ٹھیلے پر پہلے سے چند مرد و خواتین سبزیوں کی خریداری میں مصروف تھے۔ وہ ان کے پیچھے ٹھہر گیا۔ سبزی والے نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور پھر دیکھتا ہی رہا۔ سبھی لوگ سبزی فروش کے چونکنے پر اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔ دو کلو ٹماٹر دے دو۔ اس نے تمکنت بھرے لہجے میں سبزی فروش سے کہا۔
یہ ایک متوسط طبقے کا نمائندہ گھر تھا۔ داخلی دروازے کے ساتھ ہی ٹی وی لاونج اور بائیں طرف ڈرائنگ روم کا دروازہ۔ ٹی وی لاونج سے گزر ایک بیڈ روم ۔ لیکن اِس بیڈ روم اور ٹی وی لاونج کے درمیان میں دیوارِگریہ تھی۔ یعنی مطبخ۔ ٹی وی پر اس وقت فٹبال کا میچ جاری تھا، اور صاحبِ خانہ ٹی وی کے سامنے رکھے صوفے پر ٹانگیں پھیلائے، ساتھ اپنا لیپ ٹاپ کا بیگ رکھے، دنیا و مافیہا سے بے خبر ٹی وی پر نظریں گاڑے بیٹھے تھے۔ گویا انہیں یہ خطرہ ہے کہ اگر پلک بھی جھپکی تو پورا میچ دوبارہ دیکھنا پڑے گا۔ بیگم صاحبہ نے ایک نظر صاحب پر ڈالی اور کہا۔جوتے اتار دیتے۔ اتار دیتا ہوں۔ صاحب نے ٹی وی پر نظریں گاڑے گاڑے گھمبیر آواز میں جواب دیا۔ کپڑے بدل لیں، جب سے دفتر سے لوٹے ہیں، یہیں بیٹھے ہیں، گویا کسی نے گوند سے چپکا دیا ہے۔ صاحب نے پہلی بار ٹی وی سے نظریں ہٹا کر ایک غصیلی نظر بیگم پر ڈالی، مگر خاموش رہے اور دوبارہ ٹی وی کی طرف متوجہ ہوگئے۔ بیگم صاحبہ کچن کے اندر چلی گئیں، لیکن ان کی آواز پہلے سے زیادہ واضح اور بلند سنائی دینے لگی۔ کس عذاب میں پھنس گئی ہوں۔ پورا دن کام کرو۔ ان کے نخرے اٹھاؤ۔ ان کے بچوں کے نخرے اٹھاؤ۔ سبزی چھیلتے چھیلتے بیگم صاحبہ پر یکلخت راز کھلا کہ ٹماٹر نہیں ہیں۔ دن میں جب سبزی والا گلی میں آیا تھا تو وہ ٹماٹر لینا بھول گئی تھیں۔ نہیں! وہ بھولی نہیں تھیں، انہیں لگا کہ ایک دو ٹماٹر پڑے ہیں، چنانچہ آج ٹماٹر لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر یہ کیا! گھر میں تو ٹماٹر ہی نہیں ہے۔ انہوں نے وہیں سے پھنکارتے ہوئے لہجے میں آواز دی۔ سنتے ہیں؟ اِدھر آئیں! میاں صاحب چاروناچار صوفے سے اٹھے اور باورچی خانہ میں آگئے۔ جی! انہوں نے خشونت بھرے لہجے میں کہا۔ بیگم جو پہلے ہی بھری بیٹھی تھیں۔ یہ کیسے بول رہے ہیں آپ؟ جائیں ٹماٹر لے کر آئیں ابھی کہ ابھی! وگرنہ مجھ سے کچھ مت مانگیے گا کھانے کو۔ انہوں نے گھی کے اندر چمچہ ہلاتے ہوئے تقریبا چیختے ہوئے کہا۔ کیا ہوگیا ہے تمہیں؟ کیا تم پاگل ہو؟ صاحب کے لہجے میں تلخی عو د کر آئی۔ جانے کس لمحےڈوئی خود ہی اڑتی ہوئی صاحب کی پیشانی سے جا ٹکرائی۔ غیر مرئی قوتوں نے بیگم کے دائیں ہاتھ پر قبضہ کر لیا اور صاحب کا گریبان کھینچ لیا۔ گریبان چھڑایا تو بایاں ہاتھ کسی نادیدہ قوت کے زیر اثر رخسار پر پڑا اورلمبے ناخن نے اپنے نقوش میاں کے چہرے پر چھوڑ دیے۔ صاحب نے پلٹنے کی کوشش کی تو اسی نادیدہ قوت نے، جو اب بیگم صاحبہ کے مکمل وجود پر قابض ہوچکا تھی، کھینچنے کی کوشش کی، جس سے جیب جاتی رہی اور سٹیل کا گلاس کان کے نیچے اپنے رنگ چھوڑ گیا۔ زمین پر لیٹے لیٹے صاحب نے صلح کی سفید جھنڈی بلند کی، جو ان کا اپنا ہی کف تھا۔اور گھر سے نکل گئے۔ پیچھے سے بیگم صاحبہ کی آواز آ رہی تھی۔ رکیے۔ سنیے! حلیہ تو درست کرتے جائیں۔ لوگ کیا کہیں گے؟
سبزی فروش کی دکان پر ہر آنکھ سوالیہ انداز میں اس کی طرف اٹھی ہوئی تھی۔ لیکن وہ سب سے بےپروا اپنا وقار بحال رکھے، بغیر کسی سے بات کیے ایسے ظاہر کرتا رہا جیسے یہ لوگ کچھ ایسا دیکھ رہے ہیں، جو اُسے نہیں پتا۔ ٹماٹر کا تھیلا لے کر پلٹتے وقت، اسے وہ وقت یاد آرہا تھا، جب وہ قومی باکسنگ فاتح کے عشق میں گرفتار ہوا تھا۔ تمام دوست اس کے عشق پر ہنستے تھے۔ اور پھر جس دن وہ اظہار کے لیے گیا، تو اس کے دوستوں نے اسے بار بار منع کیا۔ اور پھر جاتے وقت اسے اپنے دوست کی آواز آ رہی تھی۔ "پِٹے گا سالا!"۔ اس نے گھر کی اور مُڑتے ہوئے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔ اور دل میں سوچا۔ کاش! اسی دن پِٹ گیا ہوتا۔
نیرنگ خیال
19 جنوری 2025