نوید رزاق بٹ
محفلین
دَین
داتا کی دَین اور گُرو کی دَین آپس میں گتھم گتھا تھے۔
اسلحہ کئی دنوں سے ختم ہو چُکا تھا اور بارڈر کے پاس ایک کھیت میں چھپتے چھپاتے اچانک دونوں کا آمنا سامنا ہو گیا تھا۔ ایک دوسرے پر نظر پڑتے ہی دونوں بجلی کی تیزی سے ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے تھے۔ اور اب ہر ایک کی کوشش تھی کہ وہ دوسرے کا وجود جلد از جلد صفحہء ہستی سے مِٹا دے۔ اِس کشمکش میں گرو کی دین نے اپنے پنجے داتا کی دین کے کندھوں میں گاڑ رکھے تھے اور داتا کی دین گرو کی دین کا گلا گھونٹنے کی بے چین کوشش کر رہا تھا۔ یکایک گرو کی دین نے ٹانگ کی لانگڑی دیتے ہوئےایک زور دار جھٹکے سے داتا کی دین کو زمیں پر گرا لیا اور اُس کے اوپر سوار ہو کر پوری قوت سے اُس کا گلا دبانے لگا۔ نیچے داتا کی دین گرو کی دین کی دونوں کلائیاں ہاتھوں میں جکڑ کر اپنا گلا چھڑانے کی کوشش کر نے لگا۔ اُس نے کلائیاں اسقدر زور سے پکڑ رکھی تھیں کہ اگر دیوہیکل اور سخت جان گرو کی دین کی جگہ کوئی اور ہوتا تو یہ کلائیاں تک ریزہ ریزہ ہو چکی ہوتیں۔ مگر سخت جان گرو کی دین داتا کی دین کے گلے پر اپنی خونخوار گرفت مضبوط تر کئے جا رہا تھا اور دُور سے دیکھنے میں یُوں لگتا تھا جیسے چاروں ہاتھ مل کر داتا کی دین کا گلا گھونٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ موت کے اِس شکنجے میں پھنسے داتا کی دین کا چہرہ خونی سُرخ ہو رہا تھا اور اُس کی آنکھیں باہر کو آ رہی تھیں۔ اب وہ زور زور سے سانس کھینچنے کی کوشش کرنے لگا، مگر یہ کام ہر لمحے پہلے سے زیادہ مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ بے درد موت گرو کی دین کے کرخت پنجوں کی شکل میں اپنا منحوس گھیرا اُس کے گرد بدستور تنگ کئے جا رہی تھی۔ قریب تھا کہ اُس کی سانسیں ہمیشہ کے لئے تھم جاتیں۔
مگر سانس بھی تو ایک عجیب چیز ہے۔ جس قالب کو مل جائے وہ آسانی سے چھوڑتا نہیں۔
بقاء کی اِس بھیانک جنگ میں اچانک داتا کی دَین کے پورے وجود نے ایک غیر انسانی جھٹکا لیا ۔ اور پلک جھپک میں معاملہ اُلٹ چُکا تھا۔ اب داتا کی دین گرو کی دین کے سینے میں اپنا گھٹنا قاتل میخ کی طرح پیوست کئے اپنا ہاتھ قریب بڑے نوکیلے پتھر کی جانب بڑھا رہا تھا۔ موت کو اتنی قریب سے دیکھنے کے بعد کُچھ دیر کے لئے اُس میں ایک مافوق الفطرت قوت آ گئی تھی۔ اور گرو کی دَین کی جانب سے اُس کے ہاتھ کو روکنے کی پوری کوشش کے باوجود پتھر اُس کے ہاتھ میں آ گیا۔ اب اُس نے مشینی سُرعت سے پتھر ہوا میں بلند کیا تاکہ وہ پوری قوت سے نوکیلا پتھر گرو کی دین کی کھوپڑی میں دے مارے۔ نوکیلے پتھر کو دشمن کے ہاتھ میں بلند اور اپنی کھوپڑی کی طرف تیزی سے اُترتے دیکھ کر گرو کی دین نے آنکھیں زور سے بند کر لیں اور دھیما سا بڑبڑایا
"معاف کرِیں ماویں"۔
آواز کان میں پڑتے ہیں داتا کی دین کا ہاتھ ایک زبردست جھٹکے سے رُک گیا۔ ایک ہی لمحے میں سورج اُلٹی سمت میں ہزاروں پر غروب اور طلوع ہوا، اور اب داتا کی دین اپنے گاوں کے کھیتوں میں اپنے بھائی کے اوپر سوار اُس پر گھونسوں کی بارش کی تیاری کر رہا تھا۔ دُور سے ماں جی کی آواز آئی
"پتر چھڈ دے بھرا نُوں، تے آ کے لسی پی لو"۔
ماں جی کی آواز سُن کر داتا کی دین دیوانہ وار ہنسنے لگا، اور ہنستے ہنستے ایک جانب زمین پر لیٹ گیا۔ گرو کی دَین اُسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے تک رہا تھا۔
"ماں نُوں آکھیں لسی رج کے مٹھی بنائے"۔
تحریر: ابنِ مُنیب
داتا کی دَین اور گُرو کی دَین آپس میں گتھم گتھا تھے۔
اسلحہ کئی دنوں سے ختم ہو چُکا تھا اور بارڈر کے پاس ایک کھیت میں چھپتے چھپاتے اچانک دونوں کا آمنا سامنا ہو گیا تھا۔ ایک دوسرے پر نظر پڑتے ہی دونوں بجلی کی تیزی سے ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے تھے۔ اور اب ہر ایک کی کوشش تھی کہ وہ دوسرے کا وجود جلد از جلد صفحہء ہستی سے مِٹا دے۔ اِس کشمکش میں گرو کی دین نے اپنے پنجے داتا کی دین کے کندھوں میں گاڑ رکھے تھے اور داتا کی دین گرو کی دین کا گلا گھونٹنے کی بے چین کوشش کر رہا تھا۔ یکایک گرو کی دین نے ٹانگ کی لانگڑی دیتے ہوئےایک زور دار جھٹکے سے داتا کی دین کو زمیں پر گرا لیا اور اُس کے اوپر سوار ہو کر پوری قوت سے اُس کا گلا دبانے لگا۔ نیچے داتا کی دین گرو کی دین کی دونوں کلائیاں ہاتھوں میں جکڑ کر اپنا گلا چھڑانے کی کوشش کر نے لگا۔ اُس نے کلائیاں اسقدر زور سے پکڑ رکھی تھیں کہ اگر دیوہیکل اور سخت جان گرو کی دین کی جگہ کوئی اور ہوتا تو یہ کلائیاں تک ریزہ ریزہ ہو چکی ہوتیں۔ مگر سخت جان گرو کی دین داتا کی دین کے گلے پر اپنی خونخوار گرفت مضبوط تر کئے جا رہا تھا اور دُور سے دیکھنے میں یُوں لگتا تھا جیسے چاروں ہاتھ مل کر داتا کی دین کا گلا گھونٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ موت کے اِس شکنجے میں پھنسے داتا کی دین کا چہرہ خونی سُرخ ہو رہا تھا اور اُس کی آنکھیں باہر کو آ رہی تھیں۔ اب وہ زور زور سے سانس کھینچنے کی کوشش کرنے لگا، مگر یہ کام ہر لمحے پہلے سے زیادہ مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ بے درد موت گرو کی دین کے کرخت پنجوں کی شکل میں اپنا منحوس گھیرا اُس کے گرد بدستور تنگ کئے جا رہی تھی۔ قریب تھا کہ اُس کی سانسیں ہمیشہ کے لئے تھم جاتیں۔
مگر سانس بھی تو ایک عجیب چیز ہے۔ جس قالب کو مل جائے وہ آسانی سے چھوڑتا نہیں۔
بقاء کی اِس بھیانک جنگ میں اچانک داتا کی دَین کے پورے وجود نے ایک غیر انسانی جھٹکا لیا ۔ اور پلک جھپک میں معاملہ اُلٹ چُکا تھا۔ اب داتا کی دین گرو کی دین کے سینے میں اپنا گھٹنا قاتل میخ کی طرح پیوست کئے اپنا ہاتھ قریب بڑے نوکیلے پتھر کی جانب بڑھا رہا تھا۔ موت کو اتنی قریب سے دیکھنے کے بعد کُچھ دیر کے لئے اُس میں ایک مافوق الفطرت قوت آ گئی تھی۔ اور گرو کی دَین کی جانب سے اُس کے ہاتھ کو روکنے کی پوری کوشش کے باوجود پتھر اُس کے ہاتھ میں آ گیا۔ اب اُس نے مشینی سُرعت سے پتھر ہوا میں بلند کیا تاکہ وہ پوری قوت سے نوکیلا پتھر گرو کی دین کی کھوپڑی میں دے مارے۔ نوکیلے پتھر کو دشمن کے ہاتھ میں بلند اور اپنی کھوپڑی کی طرف تیزی سے اُترتے دیکھ کر گرو کی دین نے آنکھیں زور سے بند کر لیں اور دھیما سا بڑبڑایا
"معاف کرِیں ماویں"۔
آواز کان میں پڑتے ہیں داتا کی دین کا ہاتھ ایک زبردست جھٹکے سے رُک گیا۔ ایک ہی لمحے میں سورج اُلٹی سمت میں ہزاروں پر غروب اور طلوع ہوا، اور اب داتا کی دین اپنے گاوں کے کھیتوں میں اپنے بھائی کے اوپر سوار اُس پر گھونسوں کی بارش کی تیاری کر رہا تھا۔ دُور سے ماں جی کی آواز آئی
"پتر چھڈ دے بھرا نُوں، تے آ کے لسی پی لو"۔
ماں جی کی آواز سُن کر داتا کی دین دیوانہ وار ہنسنے لگا، اور ہنستے ہنستے ایک جانب زمین پر لیٹ گیا۔ گرو کی دَین اُسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے تک رہا تھا۔
"ماں نُوں آکھیں لسی رج کے مٹھی بنائے"۔
تحریر: ابنِ مُنیب