دُعا

متلاشی

محفلین
السلام علیکم!
کافی عرصہ پہلہ ایک نظم لکھی تھا جس کا نام تھا ’’دُعا‘‘ آپ کی خدمتِ عالیہ بہ نیت اصلاح عرض ہے

الہی مجھ کو تو ذوقِ مسیحائی عطا کر
زنگِ دلاں دُور کرے ، وہ دوائی عطا کر
دامنِ عصیاں دھو کر رخِ زندگی موڑ دے
اس قلب شکستہ کو وہ روشنائی عطا کر
میری بے سمت جستجو کو جو اک نشان دے
اس بے نام زندگی کو وہ آشنائی عطا کر
اُٹھے جس سمت نظر، دنیا ہی بدل جائے
اِ ن بے نور آنکھوں کو وہ بینائی عطا کر
میرے تخیل سے ہو روشن اک جہانِ نو
میری سوچ کو ایسی کوئی گہرائی عطا کر
تیرا نام ہو لب پر نہ ہو کوئی دوسرا
ذیشاں کو وہ خلوت وہ تنہائی عطا کر

محمد ذیشان نصر
المعروف بہ متلاشی
 

الف عین

لائبریرین
پہلی بات تو یہ کہ یہ نظم نہیں، غزل کا فارم ہے۔ دعائیہ غزل کہہ سکتے ہو۔ بحر میں فٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔

الہی مجھ کو تو ذوقِ مسیحائی عطا کر
زنگِ دلاں دُور کرے ، وہ دوائی عطا کر
//پہلا مصرع ’مسیحائی‘ کی وجہ سے پرابلم کر رہا ہے/دوسرا مصرع یوں ہو سکتا ہے۔
دلوں کا زنگ مٹا دے، وہی دوائی دے
لیکن مفہوم؟ خدا سے دوائی مانگ رہے ہو، یا اپنے ہاتھوں میں وہ اثر؟

دامنِ عصیاں دھو کر رخِ زندگی موڑ دے
اس قلب شکستہ کو وہ روشنائی عطا کر
//گناہ دھو کے مری زندگی کا رخ یوں موڑ
اندھیرا دل ہے مرا، اس کو روشنائی دے
ویسے روشنائی کا محل تو نہیں ہے یہاں؟)

میری بے سمت جستجو کو جو اک نشان دے
اس بے نام زندگی کو وہ آشنائی عطا کر
عطا کرے مری بے سمت جستجو کو نشاں
ہے زندگی مری بے نام، آشنائی دے

اُٹھے جس سمت نظر، دنیا ہی بدل جائے
اِ ن بے نور آنکھوں کو وہ بینائی عطا کر
نظر اٹھاؤں جہاں/جدھر اٹھاؤں نظر سب جہاں بدل جائے
دوسرا مصرع ۔۔ بینائی یہاں وزن میں نہیں آتا، اور کوئی دوسرا لفظ استعمال کرنے سے مطلب فوت ہو جاتا ہے۔

میرے تخیل سے ہو روشن اک جہانِ نو
میری سوچ کو ایسی کوئی گہرائی عطا کر
//میں جب بھی چاہوں تو کر دوں جہانِ نو روشن
۔۔ دوسرے مصرع کی گہرائی وزن میں نہیں آ رہی ہے۔

تیرا نام ہو لب پر نہ ہو کوئی دوسرا
ذیشاں کو وہ خلوت وہ تنہائی عطا کر
// مقطع میں بھی ’تنہائی‘ کا قافیہ وزن میں نہیں آتا۔
مختصر یہ کہ دوائی، روشنائی،آشنائی ممکن قوافی ہی درست وزن میں آ سکے ہیں۔دوسرے قوافی نہیں۔
 
Top