عادل ـ سہیل
محفلین
:::::: دُنیاکےپھول تباہ کُن ہیں :::::::
بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اِن اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ،بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :
دُنیا کے پُھول ، اس دُنیا میں ملنے والی ، نظر آنے والی ہر ایک ایسی چیز کو جو حق سے دُور کر دے ،کنایۃً دُنیا کے پھول کہا جاتا ہے ، کیونکہ اُن چیزوں کا حُسن و جمال اُن کی دلکشی ، قوت جاذبیت ،اور پھر جلد ہی اُن کا گل سڑ جانا کسی پھول کی طرح ہی ہوتا ہے ، دُنیا کی رعنائیوں اور راحتوں کو یہ نام اُن کے خالق اور مالک اللہ تبارک و تعالیٰ نے دِیا (((((وَلَا تَمُدَّنَّ عَينَيكَ إِلَى مَا مَتَّعنَا بِهِ أَزوَاجاً مِّنهُم زَهرَةَ الحَيَاةِ الدُّنيَا لِنَفتِنَهُم فِيهِ وَرِزقُ رَبِّكَ خَيرٌ وَأَبقَى:::اور (اے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)آپ اپنی نگاہیں اُن(چیزوں) کی طرف مت پھیلایے جِس کے ذریعے ہم نے کچھ لوگوں کو فائدے دے رکھے ہیں (یہ چیزیں تو صِرف )دُنیا کی زندگی کے پھول ہیں اور (بے شک)آپ کے رب کا رزق ہی خیر والا اور باقی رہنے والا ہے ))))) سورت طہ /آیت 131،
اور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے دُنیا میں موجود تہذیب و تمدن، مال و دولت سے اور اُن کے مصادر سےدُور ، صحراؤں کے درمیان، زمین کے اندرونی اور بیرونی خزانوں اور دُنیا کے پھولوں اور پھلوں سے تقریباً عاری ایک بستی میں کائنات کی سب سے مقدس ہستی کو دِکھایا گیا کہ دُنیا کی کنجیاں اُنہیں ، اُن کے ساتھیوں اور اُن سے منسوب بعد میں آتے رہنے والے لوگوں کو دی جائیں گی ، دُنیا کی زندگی کی خیر ان کے سامنے چشموں کی طرح پُھوٹ پڑے گی ،پس مال و جاہ ، دُنیاوی عِزت و حشمت ، اور اس کے پھل اور پھول ان کے ہاتھوں کے درمیان نہروں اور دریاؤں کی طرح بہہ اُٹھیں گے ،
قیامت تک آنے والے اپنے نام لیواؤں سے بے پناہ محبت کرنے والے ، ان پر شفقت و رحمت کرنے والے ، محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم یہ جاننے کے بعد اپنی امت کے لیے خوف زدہ ہوگئے کہ دُنیا کے پھل اور پھول سجاوٹ اور چکا چوند انہیں فتنے اور امتحانات میں مبتلا کر دے گی ، اور دُنیا کا مال اور حکمرانی خواہ وہ کسی ایک فرد پر ہی ہو ، کا مزہ انہیں اللہ سے بغاوت کی طرف لے جائے گا ، اور وہ دنیا کے پھول حاصل کرنے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے اور زیادہ ہوجانے میں اپنی قوتیں صرف کرنے لگیں گے ، اور اس کوشش میں حق داروں کی حق تلفی کرنے لگیں گے ، اور ایک دوسرے کی جان مال عزت کا خیال بھی نہ کریں گے اور طویل و عریض جھگڑوں میں رہ کر دُنیا کی بھلائی بھی نہ پا سکیں گے اور آخرت کی رسوائی کے بھی مستحق ہو جائیں گے ،
روؤف رحیم ، نبی کریم ، محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اسی فکر کو لیے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کوسامنے کھڑے ہوئے اور اللہ سبحانہُ و تعالیٰ کی عطاء کردہ مٹھاس اور محبت سے لبریز دِل میں سے، مبارک زبان پر سےیہ الفاظ ادا فرمائے :::
((((( إِنَّ مِمَّا أَخَافُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي ما يُفْتَحُ عَلَيْكُمْ من زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَزِينَتِهَا:::میں اپنے بعد تُم لوگوں کے لیے دُنیا کی اُن نعمتوں اور سجاوٹوں کے بارے میں خوف زدہ ہوں جو کہ تُم لوگوں پر کھول دی جائیں گی))))) مُتفقٌ علیہ ، صحیح البخاری/حدیث1396 /کتاب الزکاۃ /باب46 ،صحیح مُسلم /حدیث1052 /کتاب الزکاۃ/باب 41،
ایک اورروایت ہے کہ(((((لَا واللَّه ما أَخشَى عَلَيكُم أَيُّهَا الناس إلَّا ما يُخرِجُ الله لَكُم مِن زَهرَةِ الدُّنيَا::: نہیں ، اللہ کی قسم ، اے لوگو میں تمہارے بارے میں نہیں ڈرتا ، سوائے اُس سے(کہ )جو اللہ تُم لوگوں کے لیے دُنیا کے پھولوں میں سے نکال (کر تم لوگوں کو) دے گا))))) صحیح مُسلم / حدیث1052/ کتاب الزکاۃ/باب 41،
ایک اورروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ وَإِنَّ اللَّهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فيها فَيَنْظُرُ كَيْفَ تَعْمَلُونَ فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ فإن أَوَّلَ فِتْنَةِ بنى إِسْرَائِيلَ كانت في النِّسَاءِ::: بے شک یہ دُنیا سبز (شاداب اور)میٹھی ہے اور بلا شک اللہ تُم لوگوں کو اس میں وارث بنائے گاپس اللہ دیکھے گا کہ تُم لوگوں کیا کرتے ہو، لہذا تُم لوگ دُنیا سے بچو اور عورتوں سےبچو، یقینا ً بنی اِسرائیل کا پہلا فتنہ عورتوں میں تھا )))))صحیح مُسلم/حدیث2742 /کتاب الذِکر و الدُعا و التوبۃ و الاستغفار/باب26۔
روؤف اور رحیم رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنی اُمت کو اس دُنیا کے پھلوں اور پھولوں کی حقیقت صرف ایک ہی دفعہ نہیں بتائی بلکہ کئی مواقع پر بتاتے رہے جیسا کہ عَمر و بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا((((( فَأَبشِرُوا وَأَمِّلُوا ما يَسُرُّكُم فَوَاللَّهِ ما الفَقرَ أَخشَى عَلَيكُم وَلَكِنِّي أَخشَى عَلَيكُم أَن تُبسَطَ الدُّنيَا عَلَيكُم كما بُسِطَت عَلى مَن كان قَبلَكُم فَتَنَافَسُوهَا كما تَنَافَسُوهَا وَتُهلِكَكُم كما أَهلَكَتهُم:::پس تُم لوگ خوش خبری لو اور بھر جاؤ اُس سے جوتمہیں خوش کرتا ہے ، اللہ کی قسم میں تُم لوگوں کے بارے میں تُمارے لیے غُربت ہونےکی وجہ سے نہیں ڈرتا ہوں بلکہ اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تُم لوگوں پر دُنیاکھول دی جائے جیسا کہ تُم لوگوں سے پہلے والوں پر کھولی گئی اور پھر ان لوگوں نے اُس میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کے لیے کوشش کی ، جیسے بھی کی ، اور (اس بات سے ڈرتا ہوں کہ) یہ دُنیا تُم لوگوں کو بھی اسی طرح تباہ کر دے جس طرح اُن لوگوں کو تباہ کیا ))))))صحیح البخاری / حدیث 6061 / کتاب الرقاق / باب 7 ، صحیح مُسلم / حدیث 2961/ کتاب الزھد و الرقائق ،
اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ان فرامین مبارکہ ، اور خاص طور پر پہلے فرمان پر غور کیجیے کہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےانکار فرمایا (((لا::: نہیں ))) اور پھر اللہ کی قسم فرمائی (((واللہ::: اللہ کی قسم ))) پھر ایک اور انکار فرمایا (((ما أَخشَى عَلَيكُم::: لوگو میں تُمہارے بارے میں نہیں ڈرتا ))) اور پھر اس انکار میں سے ایک معاملے کو مستثنیٰ فرمایا (((إلَّا:::سوائے اُس سے))) ، ایک ہی بات میں تاکید کےمختلف اسلوب اختیار فرمانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علہ آلہ وسلم کو اپنی اُمت سے کتنی محبت تھی اور وہ اس کے لیے کتنے فِکر مند رہا کرتے تھے اور اس پر دُنیا کے پھولوں کے فتنے سے کتنا ڈرتے تھے ، اور ہم آج اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین اور کاموں سے راہ فرار اختیار کرنے کرنے کے لیے طرح طرح کی تاویلات گھڑتے ہیں اور پھر بھی اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی محبت کے دعویٰ دار ہیں اور ان کی شفاعت حاصل ہونے کا یقین رکھتے ہیں ،
جی تو بات ہو رہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علہ آلہ وسلم کو اپنی اُمت کے لیے اُس پر دُنیا کے پھولوں کے فتنے سے ڈرتے تھے ، نہ تو اُس پر غربت کے فتنے سے ڈرتے تھے اور نہ ہی اس بات سے ڈرتے تھے کہ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُمت اُن کے بعد اِیمان اور اِسلام چھوڑ کر پھر سے کافر یا مُشرک بن جائے گی ، جیسا کہ عُقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ"""""صَلّى رُسول ُاللَّهِ صَلّی اللہ عَلِیہ ِ وعَلی آلہِ وسلّم على قَتلَى أُحُدٍ ثُمَّ صَعِدَ المِنبَرَ كَالمُوَدِّعِ لِلأَحيَاءِ وَالأَموَاتِ فقال::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُحد میں قتل ہوجانے والوں کی نماز جنازہ پڑھی اور پھر منبر پر جلوہ افروز ہوئے گویا کہ وہ زندہ اور مردہ کو الواداع فرما رہے ہوں ، تو اِرشاد فرمایا (((((إني فَرَطُكُم على الحَوضِ وَإِنَّ عَرضَهُ كما بَين آيلة إلى الجُحفَةِ إني لَستُ أَخشَى عَلَيكُم أَن تُشرِكُوا بَعدِي وَلَكِنِّي أَخشَى عَلَيكُم الدُّنيَا أَن تَنَافَسُوا فيها وَتَقتَتِلُوا فَتَهلِكُوا كما هَلَكَ مَن كان قَبلَكُم:::میں (قیامت والے دِن اپنے )حوض پر تُم لوگوں کا انتظار کروں گا اور اُس کی چوڑائی آیلہ سے جُحفہ تک کے برابر ہے ، میں تُم لوگوں کے بارے میں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ تُم لوگ میرے بعد (اِیمان اور اِسلام چھوڑ کر پھر سے) شرک کرو گے لیکن میں تُم لوگوں کے بارے میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تُم لوگ دُنیا (کے مال و متاع ) کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کرو گے اور ایک دوجے کوقتل کرو پس تباہ ہو جاو گے جیسے کہ تُم لوگوں سے پہلے والے تباہ ہوئے )))))
قال عُقبَةُ فَكَانَت آخِرَ ما رأيت رَسُولَ اللَّهِ صَلّی اللہ عَلِیہ ِ وعَلی آلہِ وسلّم عَلى المِنبَرِ ::: عُقبہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ، یہ وہ موقع تھا جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا منبر پر آخری دیدار کیا """"" صحیح مسلم /حدیث 2292/کتاب الفضائل/ باب 9 ،
(((ایک وضاحت ::: یہ واقعہ جہاد اُحد کے آٹھ سال بعد کا ہے ، پس اس روایت پر عقل مندوں کے اعتراضات کی کوئی گنجائش نہیں ، سنن البیہقی الکُبریٰ کی حدیث 6601 / کتاب الجنائز/ جماع أبواب غسل المیّت / باب52 ، میں یہ وضاحت ساتھ یہ موجود ہے )))
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ذریعے دی ہوئی خبر سچ ہوچکی اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُمت دُنیا کے پھولوں کے فتنے میں گم ہوچکی اور دِن بَدِن اُس میں مزید گِھرتی جارہی ہے ، کہ اب ہمارے سامنے میڈیا اور جدید سائنسی وسائل اور ایجادات کے ذریعے یہ پھول مزید خوبصورت اور واضح انداز میں آتے ہیں ، اور ان تک رسائی کہیں زیادہ آسان ہو چکی ہے ،
اِیمان اور اخلاق کو تباہ کرنے کے وسائل پہلے سے کہیں زیادہ اور آسانی کے ساتھ میسر ہو چکے ہیں اور تقریباً ہر ایک مُسلمان کی زندگی میں کسی نہ کسی طور داخل ہو چکے ہیں ، جہاں وہ نہ چاہتے ہوئےبھی اُن کی دراندازی سے محفوظ نہیں رہ پاتا ، اور ایک سچا مُسلمان اُس حالت میں پہنچ جاتا ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اس فرمان مُبارک میں بیان فرمایا (((((يَأتِي عَلىَ النَّاسِ زَمَانٌ الصَّابِرُ فِيهِمْ على دِينِهِ كَالْقَابِضِ على الْجَمْرِ ::: لوگوں پر ایسا وقت (بھی) آئے گا (کہ) جِس میں اپنے دِین پر صبر کرنے والامٹھی میں انگارہ پکڑنے والے کی طرح ہوگا ))))) سنن الترمذی /حدیث 2260/کتاب الفِتَن/باب 73 ، السلسلہ الاحادیث الصحیحہ /حدیث 945 ،
اور ایسے وقت میں اپنے دِین پر قائم رہنے والے مُسلمان کے اجر وثواب کے بارے میں یہ خوشخبری عطا فرمائی (((((إِنَّ مِن وَرَائِكُم زَمَانَ صَبرٍ لِلمُتَمَسِّكِ فيه أَجرُ خَمسِينَ شَهِيدًا::: بے شک تُم لوگوں کے بعد ایسا صبر کرنے والا وقت (آنا) ہے جِس میں (اسلام ) تھامے رہنے والے کے لیے پچاس شہداء کا ثواب ہو گا ))))) تو عُمر رضی اللہ عنہُ نے دریافت فرمایا """ يا رَسُولَ اللَّهِ مِنَّا أو منهم ::: یا رسول اللہ ہم میں سے (پچاس شہداء) یا اُن میں سے (پچاس شہدا ء کا ثواب؟) """ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاِرشاد فرمایا (((((مِنكُم ::: تُم لوگوں میں سے)))))المعجم الکبیر للطبرانی / حدیث10394/ و مِن مُسند عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہُ /آخری باب ، صحيح الجامع الصغیر و زیادتہ/حدیث2234 ،
اب ہم ایسے ہی پر فتن زمانے میں ہیں کہ جس میں اپنے دِین کے خلاف عقائد ، عبادات ، معاملات ہر طرف ہی بکھرے پڑے ہیں اور خُوب خُوب سجے سنورے ، بنے ٹھنے ، اِٹھلا اِٹھلا کر ہمیں ہمارے دِین اسلام سے دُور ہی دُور لیے جانے کی بھر پُور کوشش میں ہیں اور صد افسوس کی ہماری اکثریت دُنیا کے وقتی پھلوں کی آرائش اور دل پذیری کا شکار ہو چکی ہے ، اور اُن میں جو اب اپنے دِین اسلام کو اسی طرح تھامے ہوئے ہیں جِس طرح اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا حُکم ہے تو ان شاء اللہ اُس کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے پچاس شہیدوں کا ثواب ہے ،
کیا ہمارے لیے اتنی بڑی خوشخبری کافی نہیں؟ کیا دُنیا کے اِن عارضی فنا ہو جانے والے وقتی لذت والےپھلوں کی بجائے ((((( وَرِزقُ رَبِّكَ خَيرٌ وَأَبقَى::: اور (بے شک) آپ کے رب کا رزق ہی خیر والا اور باقی رہنے والا ہے ))))) اختیار کرنا اچھا نہیں ؟ ۔
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ ہر مسلمان کودُنیا کے پُر آفریب فانی اور خوفناک نتائج والے پھولوں کے فریب میں آنے سے محفوظ رکھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
عربی عبارات کو ٹھیک سے دیکھنے کے لیے """ یہاں """ اور """ یہاں """ سے دو خوبصورت عربی فونٹ اتار کر اپنے پی سی میں انسٹال کر لیجیے ، و السلام علیکم۔
بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اِن اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ،بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :
دُنیا کے پُھول ، اس دُنیا میں ملنے والی ، نظر آنے والی ہر ایک ایسی چیز کو جو حق سے دُور کر دے ،کنایۃً دُنیا کے پھول کہا جاتا ہے ، کیونکہ اُن چیزوں کا حُسن و جمال اُن کی دلکشی ، قوت جاذبیت ،اور پھر جلد ہی اُن کا گل سڑ جانا کسی پھول کی طرح ہی ہوتا ہے ، دُنیا کی رعنائیوں اور راحتوں کو یہ نام اُن کے خالق اور مالک اللہ تبارک و تعالیٰ نے دِیا (((((وَلَا تَمُدَّنَّ عَينَيكَ إِلَى مَا مَتَّعنَا بِهِ أَزوَاجاً مِّنهُم زَهرَةَ الحَيَاةِ الدُّنيَا لِنَفتِنَهُم فِيهِ وَرِزقُ رَبِّكَ خَيرٌ وَأَبقَى:::اور (اے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)آپ اپنی نگاہیں اُن(چیزوں) کی طرف مت پھیلایے جِس کے ذریعے ہم نے کچھ لوگوں کو فائدے دے رکھے ہیں (یہ چیزیں تو صِرف )دُنیا کی زندگی کے پھول ہیں اور (بے شک)آپ کے رب کا رزق ہی خیر والا اور باقی رہنے والا ہے ))))) سورت طہ /آیت 131،
اور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے دُنیا میں موجود تہذیب و تمدن، مال و دولت سے اور اُن کے مصادر سےدُور ، صحراؤں کے درمیان، زمین کے اندرونی اور بیرونی خزانوں اور دُنیا کے پھولوں اور پھلوں سے تقریباً عاری ایک بستی میں کائنات کی سب سے مقدس ہستی کو دِکھایا گیا کہ دُنیا کی کنجیاں اُنہیں ، اُن کے ساتھیوں اور اُن سے منسوب بعد میں آتے رہنے والے لوگوں کو دی جائیں گی ، دُنیا کی زندگی کی خیر ان کے سامنے چشموں کی طرح پُھوٹ پڑے گی ،پس مال و جاہ ، دُنیاوی عِزت و حشمت ، اور اس کے پھل اور پھول ان کے ہاتھوں کے درمیان نہروں اور دریاؤں کی طرح بہہ اُٹھیں گے ،
قیامت تک آنے والے اپنے نام لیواؤں سے بے پناہ محبت کرنے والے ، ان پر شفقت و رحمت کرنے والے ، محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم یہ جاننے کے بعد اپنی امت کے لیے خوف زدہ ہوگئے کہ دُنیا کے پھل اور پھول سجاوٹ اور چکا چوند انہیں فتنے اور امتحانات میں مبتلا کر دے گی ، اور دُنیا کا مال اور حکمرانی خواہ وہ کسی ایک فرد پر ہی ہو ، کا مزہ انہیں اللہ سے بغاوت کی طرف لے جائے گا ، اور وہ دنیا کے پھول حاصل کرنے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے اور زیادہ ہوجانے میں اپنی قوتیں صرف کرنے لگیں گے ، اور اس کوشش میں حق داروں کی حق تلفی کرنے لگیں گے ، اور ایک دوسرے کی جان مال عزت کا خیال بھی نہ کریں گے اور طویل و عریض جھگڑوں میں رہ کر دُنیا کی بھلائی بھی نہ پا سکیں گے اور آخرت کی رسوائی کے بھی مستحق ہو جائیں گے ،
روؤف رحیم ، نبی کریم ، محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اسی فکر کو لیے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کوسامنے کھڑے ہوئے اور اللہ سبحانہُ و تعالیٰ کی عطاء کردہ مٹھاس اور محبت سے لبریز دِل میں سے، مبارک زبان پر سےیہ الفاظ ادا فرمائے :::
((((( إِنَّ مِمَّا أَخَافُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي ما يُفْتَحُ عَلَيْكُمْ من زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَزِينَتِهَا:::میں اپنے بعد تُم لوگوں کے لیے دُنیا کی اُن نعمتوں اور سجاوٹوں کے بارے میں خوف زدہ ہوں جو کہ تُم لوگوں پر کھول دی جائیں گی))))) مُتفقٌ علیہ ، صحیح البخاری/حدیث1396 /کتاب الزکاۃ /باب46 ،صحیح مُسلم /حدیث1052 /کتاب الزکاۃ/باب 41،
ایک اورروایت ہے کہ(((((لَا واللَّه ما أَخشَى عَلَيكُم أَيُّهَا الناس إلَّا ما يُخرِجُ الله لَكُم مِن زَهرَةِ الدُّنيَا::: نہیں ، اللہ کی قسم ، اے لوگو میں تمہارے بارے میں نہیں ڈرتا ، سوائے اُس سے(کہ )جو اللہ تُم لوگوں کے لیے دُنیا کے پھولوں میں سے نکال (کر تم لوگوں کو) دے گا))))) صحیح مُسلم / حدیث1052/ کتاب الزکاۃ/باب 41،
ایک اورروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ وَإِنَّ اللَّهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فيها فَيَنْظُرُ كَيْفَ تَعْمَلُونَ فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ فإن أَوَّلَ فِتْنَةِ بنى إِسْرَائِيلَ كانت في النِّسَاءِ::: بے شک یہ دُنیا سبز (شاداب اور)میٹھی ہے اور بلا شک اللہ تُم لوگوں کو اس میں وارث بنائے گاپس اللہ دیکھے گا کہ تُم لوگوں کیا کرتے ہو، لہذا تُم لوگ دُنیا سے بچو اور عورتوں سےبچو، یقینا ً بنی اِسرائیل کا پہلا فتنہ عورتوں میں تھا )))))صحیح مُسلم/حدیث2742 /کتاب الذِکر و الدُعا و التوبۃ و الاستغفار/باب26۔
روؤف اور رحیم رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنی اُمت کو اس دُنیا کے پھلوں اور پھولوں کی حقیقت صرف ایک ہی دفعہ نہیں بتائی بلکہ کئی مواقع پر بتاتے رہے جیسا کہ عَمر و بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا((((( فَأَبشِرُوا وَأَمِّلُوا ما يَسُرُّكُم فَوَاللَّهِ ما الفَقرَ أَخشَى عَلَيكُم وَلَكِنِّي أَخشَى عَلَيكُم أَن تُبسَطَ الدُّنيَا عَلَيكُم كما بُسِطَت عَلى مَن كان قَبلَكُم فَتَنَافَسُوهَا كما تَنَافَسُوهَا وَتُهلِكَكُم كما أَهلَكَتهُم:::پس تُم لوگ خوش خبری لو اور بھر جاؤ اُس سے جوتمہیں خوش کرتا ہے ، اللہ کی قسم میں تُم لوگوں کے بارے میں تُمارے لیے غُربت ہونےکی وجہ سے نہیں ڈرتا ہوں بلکہ اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تُم لوگوں پر دُنیاکھول دی جائے جیسا کہ تُم لوگوں سے پہلے والوں پر کھولی گئی اور پھر ان لوگوں نے اُس میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کے لیے کوشش کی ، جیسے بھی کی ، اور (اس بات سے ڈرتا ہوں کہ) یہ دُنیا تُم لوگوں کو بھی اسی طرح تباہ کر دے جس طرح اُن لوگوں کو تباہ کیا ))))))صحیح البخاری / حدیث 6061 / کتاب الرقاق / باب 7 ، صحیح مُسلم / حدیث 2961/ کتاب الزھد و الرقائق ،
اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ان فرامین مبارکہ ، اور خاص طور پر پہلے فرمان پر غور کیجیے کہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےانکار فرمایا (((لا::: نہیں ))) اور پھر اللہ کی قسم فرمائی (((واللہ::: اللہ کی قسم ))) پھر ایک اور انکار فرمایا (((ما أَخشَى عَلَيكُم::: لوگو میں تُمہارے بارے میں نہیں ڈرتا ))) اور پھر اس انکار میں سے ایک معاملے کو مستثنیٰ فرمایا (((إلَّا:::سوائے اُس سے))) ، ایک ہی بات میں تاکید کےمختلف اسلوب اختیار فرمانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علہ آلہ وسلم کو اپنی اُمت سے کتنی محبت تھی اور وہ اس کے لیے کتنے فِکر مند رہا کرتے تھے اور اس پر دُنیا کے پھولوں کے فتنے سے کتنا ڈرتے تھے ، اور ہم آج اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین اور کاموں سے راہ فرار اختیار کرنے کرنے کے لیے طرح طرح کی تاویلات گھڑتے ہیں اور پھر بھی اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی محبت کے دعویٰ دار ہیں اور ان کی شفاعت حاصل ہونے کا یقین رکھتے ہیں ،
جی تو بات ہو رہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علہ آلہ وسلم کو اپنی اُمت کے لیے اُس پر دُنیا کے پھولوں کے فتنے سے ڈرتے تھے ، نہ تو اُس پر غربت کے فتنے سے ڈرتے تھے اور نہ ہی اس بات سے ڈرتے تھے کہ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُمت اُن کے بعد اِیمان اور اِسلام چھوڑ کر پھر سے کافر یا مُشرک بن جائے گی ، جیسا کہ عُقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ"""""صَلّى رُسول ُاللَّهِ صَلّی اللہ عَلِیہ ِ وعَلی آلہِ وسلّم على قَتلَى أُحُدٍ ثُمَّ صَعِدَ المِنبَرَ كَالمُوَدِّعِ لِلأَحيَاءِ وَالأَموَاتِ فقال::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُحد میں قتل ہوجانے والوں کی نماز جنازہ پڑھی اور پھر منبر پر جلوہ افروز ہوئے گویا کہ وہ زندہ اور مردہ کو الواداع فرما رہے ہوں ، تو اِرشاد فرمایا (((((إني فَرَطُكُم على الحَوضِ وَإِنَّ عَرضَهُ كما بَين آيلة إلى الجُحفَةِ إني لَستُ أَخشَى عَلَيكُم أَن تُشرِكُوا بَعدِي وَلَكِنِّي أَخشَى عَلَيكُم الدُّنيَا أَن تَنَافَسُوا فيها وَتَقتَتِلُوا فَتَهلِكُوا كما هَلَكَ مَن كان قَبلَكُم:::میں (قیامت والے دِن اپنے )حوض پر تُم لوگوں کا انتظار کروں گا اور اُس کی چوڑائی آیلہ سے جُحفہ تک کے برابر ہے ، میں تُم لوگوں کے بارے میں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ تُم لوگ میرے بعد (اِیمان اور اِسلام چھوڑ کر پھر سے) شرک کرو گے لیکن میں تُم لوگوں کے بارے میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تُم لوگ دُنیا (کے مال و متاع ) کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کرو گے اور ایک دوجے کوقتل کرو پس تباہ ہو جاو گے جیسے کہ تُم لوگوں سے پہلے والے تباہ ہوئے )))))
قال عُقبَةُ فَكَانَت آخِرَ ما رأيت رَسُولَ اللَّهِ صَلّی اللہ عَلِیہ ِ وعَلی آلہِ وسلّم عَلى المِنبَرِ ::: عُقبہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ، یہ وہ موقع تھا جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا منبر پر آخری دیدار کیا """"" صحیح مسلم /حدیث 2292/کتاب الفضائل/ باب 9 ،
(((ایک وضاحت ::: یہ واقعہ جہاد اُحد کے آٹھ سال بعد کا ہے ، پس اس روایت پر عقل مندوں کے اعتراضات کی کوئی گنجائش نہیں ، سنن البیہقی الکُبریٰ کی حدیث 6601 / کتاب الجنائز/ جماع أبواب غسل المیّت / باب52 ، میں یہ وضاحت ساتھ یہ موجود ہے )))
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ذریعے دی ہوئی خبر سچ ہوچکی اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُمت دُنیا کے پھولوں کے فتنے میں گم ہوچکی اور دِن بَدِن اُس میں مزید گِھرتی جارہی ہے ، کہ اب ہمارے سامنے میڈیا اور جدید سائنسی وسائل اور ایجادات کے ذریعے یہ پھول مزید خوبصورت اور واضح انداز میں آتے ہیں ، اور ان تک رسائی کہیں زیادہ آسان ہو چکی ہے ،
اِیمان اور اخلاق کو تباہ کرنے کے وسائل پہلے سے کہیں زیادہ اور آسانی کے ساتھ میسر ہو چکے ہیں اور تقریباً ہر ایک مُسلمان کی زندگی میں کسی نہ کسی طور داخل ہو چکے ہیں ، جہاں وہ نہ چاہتے ہوئےبھی اُن کی دراندازی سے محفوظ نہیں رہ پاتا ، اور ایک سچا مُسلمان اُس حالت میں پہنچ جاتا ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اس فرمان مُبارک میں بیان فرمایا (((((يَأتِي عَلىَ النَّاسِ زَمَانٌ الصَّابِرُ فِيهِمْ على دِينِهِ كَالْقَابِضِ على الْجَمْرِ ::: لوگوں پر ایسا وقت (بھی) آئے گا (کہ) جِس میں اپنے دِین پر صبر کرنے والامٹھی میں انگارہ پکڑنے والے کی طرح ہوگا ))))) سنن الترمذی /حدیث 2260/کتاب الفِتَن/باب 73 ، السلسلہ الاحادیث الصحیحہ /حدیث 945 ،
اور ایسے وقت میں اپنے دِین پر قائم رہنے والے مُسلمان کے اجر وثواب کے بارے میں یہ خوشخبری عطا فرمائی (((((إِنَّ مِن وَرَائِكُم زَمَانَ صَبرٍ لِلمُتَمَسِّكِ فيه أَجرُ خَمسِينَ شَهِيدًا::: بے شک تُم لوگوں کے بعد ایسا صبر کرنے والا وقت (آنا) ہے جِس میں (اسلام ) تھامے رہنے والے کے لیے پچاس شہداء کا ثواب ہو گا ))))) تو عُمر رضی اللہ عنہُ نے دریافت فرمایا """ يا رَسُولَ اللَّهِ مِنَّا أو منهم ::: یا رسول اللہ ہم میں سے (پچاس شہداء) یا اُن میں سے (پچاس شہدا ء کا ثواب؟) """ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاِرشاد فرمایا (((((مِنكُم ::: تُم لوگوں میں سے)))))المعجم الکبیر للطبرانی / حدیث10394/ و مِن مُسند عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہُ /آخری باب ، صحيح الجامع الصغیر و زیادتہ/حدیث2234 ،
اب ہم ایسے ہی پر فتن زمانے میں ہیں کہ جس میں اپنے دِین کے خلاف عقائد ، عبادات ، معاملات ہر طرف ہی بکھرے پڑے ہیں اور خُوب خُوب سجے سنورے ، بنے ٹھنے ، اِٹھلا اِٹھلا کر ہمیں ہمارے دِین اسلام سے دُور ہی دُور لیے جانے کی بھر پُور کوشش میں ہیں اور صد افسوس کی ہماری اکثریت دُنیا کے وقتی پھلوں کی آرائش اور دل پذیری کا شکار ہو چکی ہے ، اور اُن میں جو اب اپنے دِین اسلام کو اسی طرح تھامے ہوئے ہیں جِس طرح اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا حُکم ہے تو ان شاء اللہ اُس کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے پچاس شہیدوں کا ثواب ہے ،
کیا ہمارے لیے اتنی بڑی خوشخبری کافی نہیں؟ کیا دُنیا کے اِن عارضی فنا ہو جانے والے وقتی لذت والےپھلوں کی بجائے ((((( وَرِزقُ رَبِّكَ خَيرٌ وَأَبقَى::: اور (بے شک) آپ کے رب کا رزق ہی خیر والا اور باقی رہنے والا ہے ))))) اختیار کرنا اچھا نہیں ؟ ۔
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ ہر مسلمان کودُنیا کے پُر آفریب فانی اور خوفناک نتائج والے پھولوں کے فریب میں آنے سے محفوظ رکھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
عربی عبارات کو ٹھیک سے دیکھنے کے لیے """ یہاں """ اور """ یہاں """ سے دو خوبصورت عربی فونٹ اتار کر اپنے پی سی میں انسٹال کر لیجیے ، و السلام علیکم۔