کاشفی
محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
دُنیا سے مجھے مطلب ؟اس کی نہیں پروا ہے
دُنیا تو مری تم ہو، تم سے مری دنیا ہے
بیکار ہے ہر حسرت ، بےسود تمنّا ہے
آغاز میں ہنسنا ہے، انجام میں رونا ہے
کیا یہ بھی بتلادوں، تو کون ہے، تو کیا ہے
ہاں دیں ہے توہی میرا ، توہی مری دنیا ہے
اللہ رے رعنائی اس جلوہء کامل کی
دل محوِ تماشا تھا، دل محوِ تماشا ہے
دنیائے محبت سے میں کس لئے گھبراؤں
دنیائے محبت میں مرنا ہے نہ جینا ہے
کچھ رحم کرو اس پر، کچھ کھاؤ ترس اس پر
دل کو نہ مرے چھیڑو، دل عشق کا مارا ہے
آغاز بھی اچھا تھا، انجام بھی بہتر ہے
جب مجھ کو امیدیں تھیں اب دل کو سہارا ہے
چلتی ہے بہرصورت دریا میں مری کشتی
ہر موج ہے اک طوفاں، ہر موج کنارا ہے
کس واسطے شرمندہ ہوتے ہو بھلا آخر
بہزاد تو بیچارا تقدیر کا مارا ہے
(بہزاد لکھنوی)
دُنیا سے مجھے مطلب ؟اس کی نہیں پروا ہے
دُنیا تو مری تم ہو، تم سے مری دنیا ہے
بیکار ہے ہر حسرت ، بےسود تمنّا ہے
آغاز میں ہنسنا ہے، انجام میں رونا ہے
کیا یہ بھی بتلادوں، تو کون ہے، تو کیا ہے
ہاں دیں ہے توہی میرا ، توہی مری دنیا ہے
اللہ رے رعنائی اس جلوہء کامل کی
دل محوِ تماشا تھا، دل محوِ تماشا ہے
دنیائے محبت سے میں کس لئے گھبراؤں
دنیائے محبت میں مرنا ہے نہ جینا ہے
کچھ رحم کرو اس پر، کچھ کھاؤ ترس اس پر
دل کو نہ مرے چھیڑو، دل عشق کا مارا ہے
آغاز بھی اچھا تھا، انجام بھی بہتر ہے
جب مجھ کو امیدیں تھیں اب دل کو سہارا ہے
چلتی ہے بہرصورت دریا میں مری کشتی
ہر موج ہے اک طوفاں، ہر موج کنارا ہے
کس واسطے شرمندہ ہوتے ہو بھلا آخر
بہزاد تو بیچارا تقدیر کا مارا ہے