کاشفی
محفلین
غزل
(زرقا مفتی)
دُنیا کو ملا چین، مجھے رنج ملا ہے
ہر اشکِ تمنا کا لہو رنگ ہوا ہے
آلام کی کثرت کا گلہ جب بھی کیا ہے
اعمال کے نامے میں ہوئی درج خطا ہے
فردا کے دلاسے پہ فقط میں ہی رہوں کیوں
امروز کی راحت پہ بھی کچھ حق تو مرا ہے
یہ لوگ کسی حال میں خوش ہو نہیں سکتے
بے فیض زمانے سے کنارا ہی بھلا ہے
یاجوج و ماجوج ہیں یا کوئی بلا ہے
دُنیا میں کیا پھیلی یہ قیامت کی وبا ہے
ابلیس کی مانند تکبّر میں رہا ہے
انسان تو ہر دور میں فرعون بنا ہے
یہ ظلم یہ بیداد نئی بات نہیں ہے
یہ اہلِ حشم کا تو وطیرہ یہ رہا ہے
کیا فرض نیابت کا نبھائے گا خُدایا
تشکیل کو آدم کی یہ انسان چلا ہے
ایمان کو چھوڑا ہے وسواس میں گھِر کر
اوہام کی دُنیا میں یوں غرقاب ہوا ہے
معمور ترے نور سے یہ کون و مکاں ہیں
ان چاند ستاروں میں تری ہی تو ضیا ہے
عرفان کی ضو دے کے مجھے شمس بنا دے
پتھر کو ضیا دے کے قمر تو نے کیا ہے
(زرقا مفتی)
دُنیا کو ملا چین، مجھے رنج ملا ہے
ہر اشکِ تمنا کا لہو رنگ ہوا ہے
آلام کی کثرت کا گلہ جب بھی کیا ہے
اعمال کے نامے میں ہوئی درج خطا ہے
فردا کے دلاسے پہ فقط میں ہی رہوں کیوں
امروز کی راحت پہ بھی کچھ حق تو مرا ہے
یہ لوگ کسی حال میں خوش ہو نہیں سکتے
بے فیض زمانے سے کنارا ہی بھلا ہے
یاجوج و ماجوج ہیں یا کوئی بلا ہے
دُنیا میں کیا پھیلی یہ قیامت کی وبا ہے
ابلیس کی مانند تکبّر میں رہا ہے
انسان تو ہر دور میں فرعون بنا ہے
یہ ظلم یہ بیداد نئی بات نہیں ہے
یہ اہلِ حشم کا تو وطیرہ یہ رہا ہے
کیا فرض نیابت کا نبھائے گا خُدایا
تشکیل کو آدم کی یہ انسان چلا ہے
ایمان کو چھوڑا ہے وسواس میں گھِر کر
اوہام کی دُنیا میں یوں غرقاب ہوا ہے
معمور ترے نور سے یہ کون و مکاں ہیں
ان چاند ستاروں میں تری ہی تو ضیا ہے
عرفان کی ضو دے کے مجھے شمس بنا دے
پتھر کو ضیا دے کے قمر تو نے کیا ہے