فرخ منظور
لائبریرین
دُور کی آواز
میرے محبوب دیس کی گلیو!
تم کو اور اپنے دوستوں کو سلام
اپنے زخمی شباب کو تسلیم
اپنے بچپن کے قہقہوں کو سلام
عمر بھر کے لیے تمھارے پاس
رہ گئی ہے شگفتگی میری
آخری رات کے اداس دیو!
یاد ہے تم کو بے بسی میری؟
یاد ہے تم کو جب بھلائے تھے
عمر بھر کے کیے ہوئے وعدے
رسم و مذہب کی اک بچارن نے
ایک چاندی کے دیوتا کے لیے
جانے اس کارگاہِ ہستی میں
اس کو وہ دیوتا ملا کہ نہیں
میری کلیوں کا خون پی کر بھی
اس کا اپنا کنول کھلا کہ نہیں
آج کل اس کے اپنے دامن میں
پیار کے گیت ہیں کہ پیسے ہیں
تم کو معلوم ہو تو بتلانا
اس کے آنچل کے رنگ کیسے ہیں
مجھ کو آواز دو کہ صبح کی اوس
کیا مجھے اب بھی یاد کرتی ہے ؟
میرے گھر کی اداس چوکھٹ پر
کیا کبھی چاندنی اترتی ہے ؟
(مصطفیٰ زیدی)
میرے محبوب دیس کی گلیو!
تم کو اور اپنے دوستوں کو سلام
اپنے زخمی شباب کو تسلیم
اپنے بچپن کے قہقہوں کو سلام
عمر بھر کے لیے تمھارے پاس
رہ گئی ہے شگفتگی میری
آخری رات کے اداس دیو!
یاد ہے تم کو بے بسی میری؟
یاد ہے تم کو جب بھلائے تھے
عمر بھر کے کیے ہوئے وعدے
رسم و مذہب کی اک بچارن نے
ایک چاندی کے دیوتا کے لیے
جانے اس کارگاہِ ہستی میں
اس کو وہ دیوتا ملا کہ نہیں
میری کلیوں کا خون پی کر بھی
اس کا اپنا کنول کھلا کہ نہیں
آج کل اس کے اپنے دامن میں
پیار کے گیت ہیں کہ پیسے ہیں
تم کو معلوم ہو تو بتلانا
اس کے آنچل کے رنگ کیسے ہیں
مجھ کو آواز دو کہ صبح کی اوس
کیا مجھے اب بھی یاد کرتی ہے ؟
میرے گھر کی اداس چوکھٹ پر
کیا کبھی چاندنی اترتی ہے ؟
(مصطفیٰ زیدی)
آخری تدوین: