دُوسرا رُخ

Nadir Khan Sargiroh

محفلین
دُوسرا رُخ
( نادر خان سَرگِروہ ۔ ۔ ۔ سعودی عرب)

جب شام کا دھندلکا اَٹنے لگتا ہے ۔ پرندے اپنے گھونسلوں کو لَوٹنے لگتے ہیں ۔ جن کے گھونسلے نہیں ہوتے ، وہ بھی کہیں نہ کہیں لَوٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ رات موقع ملتے ہی اپنی سیاہ چادر تان دیتی ہے ، تاکہ لوگ اِسے اوڑھ کرچُپ سو سکیں ، لیکن کچھ لوگ چادر سے باہر پاؤں پھیلا ہی دیتے ہیں۔ اُن میں پروانے بھی ہوتے ہیں۔ جن کے جھنڈکے جھنڈ، نہ معلوم کس مشین سے نکل نکل کر اُڑنے لگتے ہیں، اپنی اُسی مہم کی طرف ، جسے اُن کے اُڑنکو باپ داداؤں نے سَر کیے بغیر ۔ ۔ ۔ نسل در نسل اُن تک منتقل کیا ہے ۔


آج کوئی نہ کوئی پروانہ شمع کو بجھا کر ہی لوٹے گا ۔ ہاں ۔۔۔۔ ! یہی اُس کی مہم ہے ۔ دراصل پروانے کو رات کی تاریکی عزیز ہوتی ہے ۔اور شمع ہے کہ اُس کی مطلوبہ تاریکی کا پردہ چاک کر دیتی ہے۔ پروانے کو اگرشمع سے واقعی عشق ہوتا تو وہ دن میں بھی اُس کے گرد منڈلاتا نظر آتا۔ دن کے اُجالے میں آپ کتنی ہی شمعیں جلا کر دیکھ لیں، ایک بھی پروانہ ڈھونڈے نہ ملے گا۔


بات ہو رہی تھی مہم کی ۔۔۔ شمع کو بجھانے والی مہم کی ۔ جس کے لیے پروانے ایک نئے جوش کے ساتھ ہر طرف بھِنبھنارہے تھے۔ ایک جگہ چند پروانے شمع کی پھڑکتی لَو سے زور آزمائی کرتے پائے گئے ۔ شمع جلتی رہی اور پروانوں کو بھی ایک ایک کرکے جلاتی رہی ۔ دیکھنے والے یہ سمجھتے رہے کہ پروانے شمع پر جان چھڑک رہے ہیں۔


رات کے آخری سِرے تک یہ سب کچھ چلتا رہا ۔ آخر کار رات نے تھک کر اپنی سیاہ چادر کھینچ لی ۔ سورج کی کرنیں۔۔۔ روشنی کے تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہو ہو کر زمین پرپہنچنے لگیں۔ گھوڑوں کی ٹاپ سے شمع کو روشن کرنے والے کی آنکھ کھل گئی اور اُس نے پروانوں کو جلانے کا پروانہ شمع سے واپس لے لیا ، یعنی ایک ہی پھونک میں اُسے بجھا دیا۔ بجھی ہوئی شمع کے گرد کئی بے پر اور بے جان پروانے بکھرے ہُوئے پائے گئے۔ اِس منظر پر کچھ نئے اشعار کہے گئے ۔ پوری پوری غزل کہی گئی۔ شاعر کو نئی زمین ملی، ادیب کو نیا پلاٹ ملا ۔ پھر نئے سِرے سے ۔۔۔ لفظوں کے ہیر پھیر سے شمع اور پروانے کی داستانِ عشق لکھی گئی ۔ لیکن پسِ پردہ کہانی کچھ اور تھی ۔ مگر یہ بات وہی جانتے تھے جو جل چکے تھے۔ یا پھر وہ جانتی تھی جس نے اُنھیں جلادیا تھا ۔۔۔ اور خاموش تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔ہ۔۔۔۔۔۔۔
مئی دو ہزار تیرہ
 
Top