نوید ناظم
محفلین
جب انسان دکھ کو زندگی سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے تو اور بھی دکھی ہو جاتا ہے، کیونکہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ آنکھ کا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کو رونا بھی پڑے گا۔ کوئی اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کر سو جاتا ہے تو کوئی رات بھر جاگتا رہتا ہے۔ ہر آنکھ میں بصارت نہیں ہوتی، مگر آنسو ہر آنکھ میں ہوتے ہیں۔ یہ بات اتنے دکھ والی بھی نہیں کہ دکھ ہر انسان کا نصیب ہے۔ خالق نے جیسے انسان کو پیدا فرمایا ہے ویسے ہی دکھ کو بھی پیدا فرمایا ہے۔ ہم کسی تخلیق پر اس لیے اعتراض نہیں کر سکتے کہ وہ ہماری منشاء نہیں ہے۔ ہم صرف محسوس کر سکتے ہیں، دکھ کے زمانوں میں دکھ کو اور سکھ کے زمانوں میں سکھ کو۔۔۔۔ ہماری دنیا اصل میں دکھ کی دنیا ہے۔ یہ ہجر کا عالم ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں مگر یہاں لوگ ایک دوسرے سے بچھڑتے ہیں۔ یہاں کوئی انسان تنہائی سے نہیں بچ سکتا بھلے ساری زندگی ہجوم کے اندر گزار دے، اسی طرح کوئی انسان جدائی سے بھی نہیں بچ سکتا چاہے ہمیشہ ساتھ رہنے کا عہد کیوں نہ کرچکا ہو۔ اور یہ باتیں دکھ کی باتیں ہیں۔ دکھ زندگی کی کتاب کا ضروری باب ہے۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور نہیں۔ یہ کسی نہ کسی صورت انسان کے ساتھ رہتا ہے۔ محبت کرنے والے راتوں کو دکھ کا چراغ جلا کر اس کا طواف کرتے ہیں، جیسے پروانے شمع کے گرد محوِ پرواز ہوں۔ یہ آج کی بات نہیں ہے، یہ ازل کی بات ہے۔۔۔۔۔ دکھ انسان کے لیے ہے اورانسان دکھ کے لیے، مگر جیسے ہجر، وصال کی راہ ہے اُسی طرح دکھ، سکھ کا رستہ ہے۔ دکھ قبول کرنے سے دکھ دینے والا خوش ہوتا ہے، اور دکھ دینے والا خوش ہو جائے تو ایسے دکھ پر ہزار سکھ قربان۔ اسی لیے تو بزرگ فرماتے ہیں۔۔۔
"دکھ قبول محمد بخشا
راضی رہن پیارے"
"دکھ قبول محمد بخشا
راضی رہن پیارے"
آخری تدوین: