کاشفی
محفلین
غزل
(سرور عالم راز سرور)
دِلوں کے درمیاں جھوٹی مروّت آہی جاتی ہے
ہو اُلفت خام تو بوئے سیاست آہی جاتی ہے
گِلا کیسا حسینوں سے بھلا نازک ادائی کا
“خدا جب حُسن دیتا ہے، نزاکت آہی جاتی ہے“
یہ ہے اک حادثہ یا حسن کی معجز نمائی ہے؟
نظر اُٹھتے ہی اُس کی اِک قیامت آہی جاتی ہے
یہ راہِ عشق ہے، اس میں ہزاروں موڑ آتے ہیں
بچاؤ لاکھ دامن پھر بھی تہمت آہی جاتی ہے
دل آخر دل ہے، سنبھلے گا کہاں تک منزلِ غم میں
لبِ آشفتہ خو پر آہِ حسرت آہی جاتی ہے
نہاں میری کہانی میں زمانے کا فسانہ ہے
کروں کیا درمیاں سب کی حکایت آہی جاتی ہے
جب اپنے ہی نہ ہوں اپنے، وہاں غیروں سے کیا شکوہ؟
کبھی تو کام غیروں کی رفاقت آہی جاتی ہے
“یہ دنیا ، بے وفا دُنیا، “خُدا نا آشنا دُنیا“
نہ چاہیں ہم مگر اِس پر طبیعت آہی جاتی ہے
(سرور عالم راز سرور)
دِلوں کے درمیاں جھوٹی مروّت آہی جاتی ہے
ہو اُلفت خام تو بوئے سیاست آہی جاتی ہے
گِلا کیسا حسینوں سے بھلا نازک ادائی کا
“خدا جب حُسن دیتا ہے، نزاکت آہی جاتی ہے“
یہ ہے اک حادثہ یا حسن کی معجز نمائی ہے؟
نظر اُٹھتے ہی اُس کی اِک قیامت آہی جاتی ہے
یہ راہِ عشق ہے، اس میں ہزاروں موڑ آتے ہیں
بچاؤ لاکھ دامن پھر بھی تہمت آہی جاتی ہے
دل آخر دل ہے، سنبھلے گا کہاں تک منزلِ غم میں
لبِ آشفتہ خو پر آہِ حسرت آہی جاتی ہے
نہاں میری کہانی میں زمانے کا فسانہ ہے
کروں کیا درمیاں سب کی حکایت آہی جاتی ہے
جب اپنے ہی نہ ہوں اپنے، وہاں غیروں سے کیا شکوہ؟
کبھی تو کام غیروں کی رفاقت آہی جاتی ہے
“یہ دنیا ، بے وفا دُنیا، “خُدا نا آشنا دُنیا“
نہ چاہیں ہم مگر اِس پر طبیعت آہی جاتی ہے