ملک حبیب
محفلین
دِل پر بنی رہی کبھی جاں پر بنی رہی
شہرِ وجود میں مرے اِک سنسنی رہی
اپنے وجود سے ہی جھگڑتے رہے صدا
ہم سے ہماری ذات کی ہی دشمنی رہی
میں آئینہ مزاج ہوں کچھ تو خیال کر
سُنتے ہیں پتھروں کی تو ہم سے ٹھنی رہی
کیسے شبِ فراق کا ہو ماجرا بیاں
بس ہم ہی جانتے ہیں جو حالت بنی رہی
غیروں سے میل جول تو اچھا رہا مگر
اپنوں سے گر رہی بھی تو بس دشمنی رہی
ظلمت کے دور میں بھی یونہی منفرد رہے
آنکھوں کے اِن دِیوں میں صدا روشنی رہی
دنیا مرے وجود کو کرتی رہی تلاش
مجھ پر ترے خیال کی چادر تنی رہی
ہم دھوپ کے حصار میں جلتے رہے حبیب
وہ جس جگہ رہے وہاں چھاؤں گھنی رہی
کلام ملک حبیب
شہرِ وجود میں مرے اِک سنسنی رہی
اپنے وجود سے ہی جھگڑتے رہے صدا
ہم سے ہماری ذات کی ہی دشمنی رہی
میں آئینہ مزاج ہوں کچھ تو خیال کر
سُنتے ہیں پتھروں کی تو ہم سے ٹھنی رہی
کیسے شبِ فراق کا ہو ماجرا بیاں
بس ہم ہی جانتے ہیں جو حالت بنی رہی
غیروں سے میل جول تو اچھا رہا مگر
اپنوں سے گر رہی بھی تو بس دشمنی رہی
ظلمت کے دور میں بھی یونہی منفرد رہے
آنکھوں کے اِن دِیوں میں صدا روشنی رہی
دنیا مرے وجود کو کرتی رہی تلاش
مجھ پر ترے خیال کی چادر تنی رہی
ہم دھوپ کے حصار میں جلتے رہے حبیب
وہ جس جگہ رہے وہاں چھاؤں گھنی رہی
کلام ملک حبیب