غزل قاضی
محفلین
دِل کو مہر و مہ و انجم کے قریں رکھنا ہے
اِس مسافر کو مگر خاک نشیں رکھنا ہے
سہہ لیا بوجھ بہت کوزہ و چوب و گِل کا
اب یہ اسباب ِ سفر ہم کو کہیں رکھنا ہے
ایک سیلاب سے ٹوٹا ہے ابھی ظلم کا بند
ایک طوفاں کو ابھی زیر ِ زمیں رکھنا ہے
رات ہر چند کہ سازش کی طرح ہے گہری
صبح ہونے کا مگر دل میں یقیں رکھنا ہے
دَرد نے پوری طرح کی نہیں تہذیب اس کی
ابھی اِس دل کو ترا حلقہ نشیں رکھنا ہے
پروین شاکر
( انکار )
اِس مسافر کو مگر خاک نشیں رکھنا ہے
سہہ لیا بوجھ بہت کوزہ و چوب و گِل کا
اب یہ اسباب ِ سفر ہم کو کہیں رکھنا ہے
ایک سیلاب سے ٹوٹا ہے ابھی ظلم کا بند
ایک طوفاں کو ابھی زیر ِ زمیں رکھنا ہے
رات ہر چند کہ سازش کی طرح ہے گہری
صبح ہونے کا مگر دل میں یقیں رکھنا ہے
دَرد نے پوری طرح کی نہیں تہذیب اس کی
ابھی اِس دل کو ترا حلقہ نشیں رکھنا ہے
پروین شاکر
( انکار )