امین شارق
محفلین
الف عین سر یاسر شاہ
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
یہ غزل میں نے مشاعرے کے لئے لکھی تھی اور استاد محترم سے اصلاح بھی کرائی ہے۔
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
یہ غزل میں نے مشاعرے کے لئے لکھی تھی اور استاد محترم سے اصلاح بھی کرائی ہے۔
دِل کو ہی چُپ کراؤں یا دیکھوں جِگر کو میں
حیراں ہُوں عاشقی میں چلُوں کِس ڈگر کو میں
اِک سِمت مے کدہ ہے تو اِک سِمت کُوئے یار
آتا نہیں سمجھ میں کہ جاؤں کِدھر کو میں
رُسوا رقیب سے نہ یوں ہوتا ہزار بار
اے کاش جان لیتا تری رہگزر کو میں
گُزرے ہیں مُجھ پہ عِشق میں کیا کیسے سانحے؟
مِل جائے تو بتاؤں گا اُس بے خبر کو میں
بٹتی ہیں رب کی رحمتیں ہر صبح دہر میں
یہ جانتا اگر تو نہ سوتا سحر کو میں
یا رب مرے دُکھوں کا مداوا کرے گا کون؟
تیرے سِوا دِکھاؤں کِسے چشمِ تر کو میں
منزل ملے گی گر رہی رحمت خُدا کی ساتھ
لے کر خُدا کا نام چلا ہُوں سفر کو میں
معلُوم راستے کی ہیں دُشواریاں مُجھے
اُڑنے سے قبل دیکھ جو لیتا ہُوں پر کو میں
ہوتی نہیں قبول دعا ایک بھی مری
اللہ سے مانگتا ہُوں دُعا میں اثر کو میں
راہِ شباب میں کئی ملِتے ہیں ماہ رُو
کِس کِس سے کِس طرح سے بچاؤں نظر کو میں
عقلِ سلیم روکتی ہے عِشق سے مگر
کیا جانتا نہیں ہُوں دِلِ مُنتظر کو میں
کم بخت عِشق مار نہ ڈالے کہیں ہمیں
بے چین وہ وہاں ہیں، پریشاں اِدھر کو میں
اے یار تیری مطلبی دُنیا کو چھوڑ کر
اِک روز چلا جاؤں گا وِیراں نگر کو میں
کہتے ہیں جِس کو نفس وہ گھوڑا ہے بے لگام
اچھی طرح سمجھ چُکا اِس جانور کو میں
مُحسن کو بدلہ ظُلم سے دیتے نہیں جناب
دیتا ہے چھاؤں، کِس لئے کاٹُوں شجر کو میں؟
شارؔق خُدا کرے کہ وِصالِ صنم ہو یوں
سوجاؤں رکھ کے یار کے زانُو پہ سر کو میں
حیراں ہُوں عاشقی میں چلُوں کِس ڈگر کو میں
اِک سِمت مے کدہ ہے تو اِک سِمت کُوئے یار
آتا نہیں سمجھ میں کہ جاؤں کِدھر کو میں
رُسوا رقیب سے نہ یوں ہوتا ہزار بار
اے کاش جان لیتا تری رہگزر کو میں
گُزرے ہیں مُجھ پہ عِشق میں کیا کیسے سانحے؟
مِل جائے تو بتاؤں گا اُس بے خبر کو میں
بٹتی ہیں رب کی رحمتیں ہر صبح دہر میں
یہ جانتا اگر تو نہ سوتا سحر کو میں
یا رب مرے دُکھوں کا مداوا کرے گا کون؟
تیرے سِوا دِکھاؤں کِسے چشمِ تر کو میں
منزل ملے گی گر رہی رحمت خُدا کی ساتھ
لے کر خُدا کا نام چلا ہُوں سفر کو میں
معلُوم راستے کی ہیں دُشواریاں مُجھے
اُڑنے سے قبل دیکھ جو لیتا ہُوں پر کو میں
ہوتی نہیں قبول دعا ایک بھی مری
اللہ سے مانگتا ہُوں دُعا میں اثر کو میں
راہِ شباب میں کئی ملِتے ہیں ماہ رُو
کِس کِس سے کِس طرح سے بچاؤں نظر کو میں
عقلِ سلیم روکتی ہے عِشق سے مگر
کیا جانتا نہیں ہُوں دِلِ مُنتظر کو میں
کم بخت عِشق مار نہ ڈالے کہیں ہمیں
بے چین وہ وہاں ہیں، پریشاں اِدھر کو میں
اے یار تیری مطلبی دُنیا کو چھوڑ کر
اِک روز چلا جاؤں گا وِیراں نگر کو میں
کہتے ہیں جِس کو نفس وہ گھوڑا ہے بے لگام
اچھی طرح سمجھ چُکا اِس جانور کو میں
مُحسن کو بدلہ ظُلم سے دیتے نہیں جناب
دیتا ہے چھاؤں، کِس لئے کاٹُوں شجر کو میں؟
شارؔق خُدا کرے کہ وِصالِ صنم ہو یوں
سوجاؤں رکھ کے یار کے زانُو پہ سر کو میں