دِل کی آوارگی سے ڈرتا ہوں غزل نمبر 158 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
دِل کی آوارگی سے ڈرتا ہوں
اِس لئے دِل لگی سے ڈرتا ہوں

ہِجر کا غم بھی عِشق میں ہے دِل!
تیری آزردگی سے ڈرتا ہوں

دِل کہیں عِشق مت سمجھ لینا
اُن کی وابستگی سے ڈرتا ہوں

دستِ گُلچیں سے بچ نہ پائے گا
پُھول کی تازگی سے ڈرتا ہوں

بعد جِس کے ملال سہنا پڑے
ایسی شائستگی سے ڈرتا ہوں

دِل دہلتا ہے ایک آہٹ پر
خُود کی موجودگی سے ڈرتا ہوں

ہو زمانہ خفا ملال نہیں
تیری ناراضگی سے ڈرتا ہوں

ہے میسر مُجھے سمندر پر
پِھر بھی میں تِشنگی سے ڈرتا ہوں

خوف آتا ہے اِن پتنگوں سے
ایسی دیوانگی سے ڈرتا ہوں

ہر کِسی کو جو بے خِرد سمجھے
ایسی فرزانگی سے ڈرتا ہوں

آشنا میرے ہو کہاں، تیری
دیکھ بیگانگی سے ڈرتا ہوں

اے اجل آ کہ اب نہیں جِینا
اب تو میں زِندگی سے ڈرتا ہوں

ہے رِیا کاری کا مُجھے خطرہ
اے خُدا بندگی سے ڈرتا ہوں

پردہ رکھنا مرا مرے مولیٰ
کیوں کہ شرمندگی سے ڈرتا ہوں

تو غنی کردے اے خُدا مجھ کو
میں کہ لاچارگی سے ڈرتا ہوں

ہائے دِل کا میں کیا کروں
شارؔق
اِس کی وارفتگی سے ڈرتا ہوں
 

یاسر شاہ

محفلین
"گی" سے پہلے حرف کی ایک سی حرکت ہونا ضروری ہے۔
مثلاً آپ مطلع کے ہی قافیے دیکھیے۔ آوارْگی۔ دل لَگی۔
باقی اسی طرح آپ سب قافیوں کو ایک مرتبہ دیکھ لیں۔
قافیے کی حد تک تو غزل ٹھیک ہے بھائی۔
"آوارگی" میں میرے خیال سے" ر" مفتوح ہے۔جیسے زندہ سے زندگی بنا("د" مفتوح) ویسے ہی آوارہ سے آوارگی('ر" مفتوح)۔ناراضگی البتہ غلط ہے ناراضی درست ہے۔واللہ اعلم بالصواب۔
 

الف عین

لائبریرین
قافیے کی حد تک تو غزل ٹھیک ہے بھائی۔
"آوارگی" میں میرے خیال سے" ر" مفتوح ہے۔جیسے زندہ سے زندگی بنا("د" مفتوح) ویسے ہی آوارہ سے آوارگی('ر" مفتوح)۔ناراضگی البتہ غلط ہے ناراضی درست ہے۔واللہ اعلم بالصواب۔
ناراضگی کےعلاوہ لاچارگی بھی غلط لگ رہا ہے، لاچاری ہی کافی ہے،" لاچارہ" کوئی لفظ نہیں جس سے "گی" لگا کراس بنایا جائے
 

الف عین

لائبریرین
دِل کی آوارگی سے ڈرتا ہوں
اِس لئے دِل لگی سے ڈرتا ہوں
درست
ہِجر کا غم بھی عِشق میں ہے دِل!
تیری آزردگی سے ڈرتا ہوں
دل سے خطاب کرنے کی ضرورت؟
دل کی آزردگی سے.... صاف مصرع ہے، لیکن پہلا مصرع گنجلک ہے
دِل کہیں عِشق مت سمجھ لینا
اُن کی وابستگی سے ڈرتا ہوں
یہ بھی دل سے خطاب ہے؟ عر واضح نہیں

دستِ گُلچیں سے بچ نہ پائے گا
پُھول کی تازگی سے ڈرتا ہوں
ٹھیک
بعد جِس کے ملال سہنا پڑے
ایسی شائستگی سے ڈرتا ہوں
ٹھیک ہے مگر مفہوم عجیب ہے
دِل دہلتا ہے ایک آہٹ پر
خُود کی موجودگی سے ڈرتا ہوں
درست
ہو زمانہ خفا ملال نہیں
تیری ناراضگی سے ڈرتا ہوں
قافیہ؟
ہے میسر مُجھے سمندر پر
پِھر بھی میں تِشنگی سے ڈرتا ہوں
پر بمعنی مگر اچھا نہیں، الفاظ بدل کر پہلا مصرع پھر کہو
خوف آتا ہے اِن پتنگوں سے
ایسی دیوانگی سے ڈرتا ہوں
درست
ہر کِسی کو جو بے خِرد سمجھے
ایسی فرزانگی سے ڈرتا ہوں

آشنا میرے ہو کہاں، تیری
دیکھ بیگانگی سے ڈرتا ہوں

اے اجل آ کہ اب نہیں جِینا
اب تو میں زِندگی سے ڈرتا ہوں

ہے رِیا کاری کا مُجھے خطرہ
اے خُدا بندگی سے ڈرتا ہوں
اوپر کے سارے ٹھیک
پردہ رکھنا مرا مرے مولیٰ
کیوں کہ شرمندگی سے ڈرتا ہوں
مرا مرے مو... میں تنافر کی سی کیفیت ہے
تو غنی کردے اے خُدا مجھ کو
میں کہ لاچارگی سے ڈرتا ہوں
قافیہ غلط
ہائے دِل کا میں کیا کروں شارؔق
اِس کی وارفتگی سے
درست
 

امین شارق

محفلین
الف عین سر نوازش ہے آپ کی کہ آپ توجہ دیتے ہیں کچھ تبدیلیاں کی ہیں سر اور کچھ وضاحتیں ہیں۔۔۔
پہلا مصرع تبدیل کیا ہے۔
باعثِ ہِجر دُور عِشق سے ہوں
دِل کی آزردگی سے ڈرتا ہوں

پہلا مصرع تبدیل کیا ہے۔
عِشق دِل کو کہیں نہ ہو جائے
اُن کی وابستگی سے ڈرتا ہوں

اس شعر میں کہنا چاہتا تھا کہ اگر کوئی ہم سے شائستگی سے اخلاق سے پیار سے بات کرتا ہے تو ہمیں اس کی عادت ہوجاتی ہے پھر کبھی اس کا لہجہ بدلتا ہے تو ہمیں ملال ہوتا ہے
بعد جِس کے ملال سہنا پڑے
ایسی شائستگی سے ڈرتا ہوں

ناراضگی کا استعمال میں نے کئی اشعار میں دیکھا ہے جیسے ایک مثال
ذرا سی بات پہ ناراضگی اگر ہے یہی
تو پھر نبھے گی کہاں دوستی اگر ہے یہی

مرتضیٰ برلاس
اہل خانہ کی بھی ناراضگی کی باتیں کر
خود سے خود کی کبھی آوارگی کی باتیں کر

اختر روڑکوی

چلیں ناراضگی کو ہٹاکر رنجیدگی کردیتے ہیں
ہو زمانہ خفا ملال نہیں
تیری رنجیدگی سے ڈرتا ہوں

پہلا مصرع تبدیل کیا ہے۔
ایک دریا ہے میرے پاس مگر
پِھر بھی میں تِشنگی سے ڈرتا ہوں
پہلا مصرع تبدیل کیا ہے۔

پردہ رکھنا خدا گناہوں کا
کیوں کہ شرمندگی سے ڈرتا ہوں

قافیہ تبدیل کیا ہے
تو غنی کردے اے خُدا مجھ کو
میں کہ محتاجگی سے ڈرتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
یہ اصول یاد رکھو کہ "گی" صرف ان الفاظ میں سابقہ بن سکتا ہے جو "ہ" پر ختم ہوتے ہوں۔ زندہ سے زندگی، سنجیدہ سے سنجیدگی، شائستہ سے شائستگی وغیرہ
مرتضی برلاس اچھے شاعر سہی، لیکن مستند نہیں مانے جا سکتے۔ اور روڑکوی صاحب کا تو نام بھی نہیں سنا! بہرحال ناراضگی غلط ہی رہے گی۔
اسی طرح محتاجگی بھی غلط ہے، محض محتاجی ہوتا ہے
باعثِ ہِجر دُور عِشق سے ہوں
دِل کی آزردگی سے ڈرتا ہوں
تقابل ردیفین کے سقم کے علاوہ دو لخت اب بھی ہے
باقی اشعار اب درست ہیں سوائے محتاجگی کے
 
Top