امین شارق
محفلین
الف عین سر یاسر شاہ
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
دِن نکلتا ہے، رات ڈھلتی ہے
ایسے ہی کائنات چلتی ہے
غم ،خوشی آتے جاتے رہتے ہیں
زِندگی کروٹیں بدلتی ہے
جیسے بدلیں مِزاج یار ترے
رُت بھی کب اِس طرح بدلتی ہے؟
اے خُدا! میں بھی رِزق چاہتا ہوں
تیرے ٹُکڑوں پہ خلق پلتی ہے
یہ کرم تیرا ہے مرے مولیٰ
آئی آفت ہمیشہ ٹلتی ہے
پِھر رُلاتی ہے تیری یاد مُجھے
جب طبیعت ذرا سنبھلتی ہے
کوئی اس کو نہیں ہرا پایا
موت کے آگے کِس کی چلتی ہے
جان نکلے گی جِسم سے لیکن
آرزُو دِل سے کب نکلتی ہے؟
اِس کی قِسمت میں لکھا ہے بُجھنا
زِندگی مِثلِ شمع جلتی ہے
زِندگی ایسی برف ہے شارؔق
دِھیرے دِھیرے سے جو پِگھلتی ہے
ایسے ہی کائنات چلتی ہے
غم ،خوشی آتے جاتے رہتے ہیں
زِندگی کروٹیں بدلتی ہے
جیسے بدلیں مِزاج یار ترے
رُت بھی کب اِس طرح بدلتی ہے؟
اے خُدا! میں بھی رِزق چاہتا ہوں
تیرے ٹُکڑوں پہ خلق پلتی ہے
یہ کرم تیرا ہے مرے مولیٰ
آئی آفت ہمیشہ ٹلتی ہے
پِھر رُلاتی ہے تیری یاد مُجھے
جب طبیعت ذرا سنبھلتی ہے
کوئی اس کو نہیں ہرا پایا
موت کے آگے کِس کی چلتی ہے
جان نکلے گی جِسم سے لیکن
آرزُو دِل سے کب نکلتی ہے؟
اِس کی قِسمت میں لکھا ہے بُجھنا
زِندگی مِثلِ شمع جلتی ہے
زِندگی ایسی برف ہے شارؔق
دِھیرے دِھیرے سے جو پِگھلتی ہے