امین شارق
محفلین
الف عین سر
فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
پچھلی زمین کی غزل (عِشقیہ بات سے ڈر لگتا ہے) میں کچھ اور خیالات جمع ہوگئے تھے تو اس لئے اس غزل کو دو غزلہ کی صورت میں پیش کررہا ہوں۔
فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
پچھلی زمین کی غزل (عِشقیہ بات سے ڈر لگتا ہے) میں کچھ اور خیالات جمع ہوگئے تھے تو اس لئے اس غزل کو دو غزلہ کی صورت میں پیش کررہا ہوں۔
دِن کو بھی رات سے ڈر لگتا ہے
یعنی ظُلمات سے ڈر لگتا ہے
کیوں ہے سہمی ہوئی تُو اے دھرتی!
کیا سماوات سے ڈر لگتا ہے
حیف ہے حضرتِ انساں تُجھ پر
تُجھ کو جِنات سے ڈر لگتا ہے
کُچھ نہ کُچھ پڑھنے کا میں ہوں عادی
خالی صفحات سے ڈر لگتا ہے
جِن سے لوگوں کی دِل آزاری ہو
اُن مفادات سے ڈر لگتا ہے
ہر طرف ہائے ہُو کا ہے عالم
ہاتھ کو ہات سے ڈر لگتا ہے
جِس کو کہتا ہے زمانہ رشوت
ایسی سوغات سے ڈر لگتا ہے
رُک نہ جائے کہیں یہ سِینے میں
دِل کو صدمات سے ڈر لگتا ہے
اے خُدا! تیری مدد چاہتے ہیں
تیری آفات سے ڈر لگتا ہے
کِینہ و بُغض جو رکھے دِل میں
ایسے حٖضرات سے ڈر لگتا ہے
زِیست میں جِیت کی ہے خُو شارؔق
اِس لئے مات سے ڈر لگتا ہے
یعنی ظُلمات سے ڈر لگتا ہے
کیوں ہے سہمی ہوئی تُو اے دھرتی!
کیا سماوات سے ڈر لگتا ہے
حیف ہے حضرتِ انساں تُجھ پر
تُجھ کو جِنات سے ڈر لگتا ہے
کُچھ نہ کُچھ پڑھنے کا میں ہوں عادی
خالی صفحات سے ڈر لگتا ہے
جِن سے لوگوں کی دِل آزاری ہو
اُن مفادات سے ڈر لگتا ہے
ہر طرف ہائے ہُو کا ہے عالم
ہاتھ کو ہات سے ڈر لگتا ہے
جِس کو کہتا ہے زمانہ رشوت
ایسی سوغات سے ڈر لگتا ہے
رُک نہ جائے کہیں یہ سِینے میں
دِل کو صدمات سے ڈر لگتا ہے
اے خُدا! تیری مدد چاہتے ہیں
تیری آفات سے ڈر لگتا ہے
کِینہ و بُغض جو رکھے دِل میں
ایسے حٖضرات سے ڈر لگتا ہے
زِیست میں جِیت کی ہے خُو شارؔق
اِس لئے مات سے ڈر لگتا ہے