ابن محمد جی
محفلین
دکھاوے کی عبادت نہیں چاہئے !
ایمان و یقین ایک قلبی کیفیت ہے اور دین کی ساری عمارت کا دارو مدار قلبی کیفیات پر ہے۔ تمام عبادات صرف ادائیگی تک ہی محدود نہیں بلکہ خالص نیت اور دل کا اخلاص بھی ضروری ہے ۔ جیسا کہ حدیث جبرائیل امین میں ہے حضور ﷺ سے سوال کیا گیا کہ احسان کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا اللہ کی عبادت ایسے کی جائے جیسے تم اللہ کو روبرو دیکھ رہے ہو اور اگر اتنا حوصلہ نہ ہو تو پھر یہ یقین ضرور ہو کہ اﷲ تجھے دیکھ رہا ہے۔
ہمیں کسی عدالت یا صاحب عزت و احترام شخصیت کے سامنے پیش ہونا ہو تو ہم کتنے محتاط ہوتے ہیں ،کوئی اونچا دم تک نہیں لیتا، سرگوشی نہیں کرتا ،ہر لمحہ مؤ دب رہ کر بات پوری توجہ سے کرتا اور سنتا ہے۔ اب سوچئے جب حضور الہٰی ہو اور اللہ کریم کے حکم کی بجا آوری ہو اور اللہ کریم رو برو ہو تو بندے کی کیفیت کیا ہونی چاہئے؟ اسی کیفیت کا نام احسان ہے۔ احسان کیلئے اللہ کریم نے حج کا ایک نسخہ تجویز فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’حج اور عمرہ میرے لئے کرو اور بہت احسن طریقے سے پورا کرو‘‘۔حج پر جانے سے قبل اس کے تمام فرائض ، واجبات اور سنن کو اچھی طرح سیکھ کر جانا چاہئے اکثر ہوتا یہ ہے کہ ہمیں مسائل کاعلم نہیں ہوتا نہ سیکھ کر جاتے ہیں کہ کونسا کام کس وقت کرنا ہے ؟یہ لاپرواہی اس ساری محنت کو ضائع کر دیتی ہے ۔
شاہ و گدا اس سے قبل قیمتی لباس میں تھے یا عام اور سادہ کو اتار کر دو اَن سلی چادروں میں اس طرح ہو جاتے ہیں جیسے آدمی کو کفن دیا جاتا ہے ۔ زندگی میں ایسا لباس پہنے اللہ کے حضور پیش ہو کر اس کے گھر کا طواف کرتا ہے۔بیت اللہ شریف میں اللہ کے روبرو حضور حق کا مشاہدہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اللہ کی ذاتی تجلیات آرہی ہیں۔ ہر کوئی پکار رہا ہے ، اے اللہ میں حاضر ہوں ، تیرا کوئی شریک نہیں ساری خوبیاں تمام نعمتیں اور ساری سلطنت تیری ہے میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں ۔ حضور ﷺ
کا فرمان ہے کہ یہ ایک ایسی عبادت ہے جسے ادا کرنے کے بعد انسان ایسا ہو جاتا ہے جیسا کہ آج ہی دنیا میں آیا ہو یعنی گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے ۔ حج ایک دوا ہے جیسا کہ دنیا میں زندگی کو بچانے والی آخری دوا کوLife saving drug کہتے ہیں ۔حج بھی اپنے طور پر آخری علاج ہے اور اتنا کامیاب کہ زندگی میں ایک مرتبہ کا حج ساری زندگی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے کافی ہے۔ دل کا اخلاص حج کے ساتھ جڑا ہے لیکن اگر حج ادا کرنے کے بعد بھی کسی کا دل نہیں بدلا تو پھر ایسا شخص لا علاج ہے ۔ پھر سمجھو کہ وہ مر ہی جائے گا ۔ مادی موت میں جسم سے روح الگ ہو جاتی ہے لیکن ایسی موت کو تو شہید بھی شکست دے دیتا ہے۔اس لئے اسکومردہ کہنے اور سوچنے پر بھی اللہ تعالیٰ نے پابندی لگا دی ہے جبکہ ہمارے سامنے اس کے جسم کے پرخچے اڑ گئے۔ہم نے اُس کو دفنا یا بھی لیکن اللہ کریم اس کو مردہ کہنے سے منع فرما رہے ہیں۔
اصل چیز دل کی زندگی ہے۔علامہ اقبال نے فرمایا:
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں توکچھ بھی نہیں
عقل کی مجبوری ہے اسے ماننا پڑتا ہے کہ اس کارخانے کو چلانے والی کوئی طاقت ہے۔دل اگر اس اثر کو قبول کر لے تو نگاہ سارے اعمال کی راہنمائی کرتی ہے۔سارا کردار سدھر جاتا ہے بعض لوگ باتوں میں تو حیران کر دیتے ہیں لیکن اللہ جانتا ہے کہ آپﷺ کی مخالفت آپﷺ کی سنت کے خلاف کام کرتے ہیں اور زمین پر فساد برپا کرتے ہیں۔کیونکہ دل میں تسلیم کی وہ کیفیت نہیں پا سکے۔حیرت ہے ایسی دانش پر جبکہ قرآن ساری اولاد آدم کیلئے کس قدرمفصل بیان ہے جس میں عقلی دلائل بھی ہیں نقلی دلائل بھی۔ گزشتہ اقوام عالم کو بطور مثال پیش کرتا ہے پہلی کتابوں کے حوالے بھی دیتا ہے اس کو ہر حکم انسانی شعور اور عقل کے مطابق ہے اور یہ نصیحت ان لوگوں کیلئے ہے جو متقین ہیں جو اللہ سے اپنا تعلق استوار کر لیتے ہیں اللہ کے نبی ﷺ سے اپنا دل لگا لیتے ہیں اور اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کی اطاعت پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں اور وہ ہدایت کا سفر اختیار کر لیتے ہیں۔ان مسافرین ہدایت کیلئے قرآن مجید رہبر ہے ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں اپنے ساتھ چلانا اور اللہ کی بارگاہ میں پہنچا دیتا ہے۔لیکن یہ دانش ور محروم کیوں رہ گئے؟
قرآن کریم کا مفہوم ہے کہ ایسے لوگ ہونگے جو دنیا کے حصول کیلئے ساری عبادات کر لیں گے۔ آپ ﷺ کے عہد مبارک میں آپﷺ کے ارشادات اور سنت کی مخالفت ان لوگوں نے کی جن کے مقاصددنیا کے مفادات تھے۔ میدانِ عمل میں ایسے لوگ آ جاتے ہیں جنکے مقاصد دین کے بجائے دنیا ہوں تو پھر فساد برپا ہوتے ہیں
آج کے اندازے کے مطابق ہر تیسرا بندہ حاجی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہیں تبدیلی نہیں آ رہی؟ افراد بدل رہے ہیں نہ ممالک۔ہم بہتری کے بجائے ابتری کی طرف جا رہے ہیں۔کیا لوگوں کا مزاج بدل گیا؟ کیا عمل میں کچھ فرق پڑ گیا؟ اگر نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ حج کیا ہی نہیں بالکل اسی طرح جیسے ایک دوائی کھائی ہے لیکن اثر نہیں ہوا تو اس کا مطلب ہے یا دوائی اصلی نہیں تھی یا پرہیز نہیں کی۔حج جودوائی ہے بندے کی سوچ اور کردار بدلنے کی وہ تو اصلی ہے لیکن بد پرہیزی ہوئی جسکی وجہ سے دل پر عظمتِ الہٰی ثبت ہی نہیں ہوئی اور بندہ واپس آ کر بھی فساد ہی پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔فساد صرف تقریروں سے ہی نہیں پھیلتا بلکہ عمل سے زیادہ پھلتا ہے۔ آئیں!پھر سے حج سمیت سارے اعمال کو دل کی گہرائی اور عظمت الہٰی کے احساس کے ساتھ کریں اور گھر سے لیکر ملک بلکہ دنیا بھر میں امن قائم کریں اور یہ دنیا چونکہ دارالعمل ہے لھذا یہ کام عمل سے ہی ہو گااور اس بات کا خیال رکھیں کہ اللہ کریم کسی حال میں فساد پسند نہیں کرتے۔اللہ حج کو ہماری اصلاح کا زریعہ بنائے۔آمین
ازافادات :۔ امیر محمد اکرم اعوان