دکھ درد کی حدوں سے نکل جاؤں گا کبھی

عظیم

محفلین
غزل



دکھ درد کی حدوں سے نکل جاؤں گا کبھی
خوشیوں کے گیت زندگی میں گاؤں گا کبھی

اک چہرے کی جھلک جو میسر ہو مجھ کو تو
تارے بھی توڑ آسماں سے لاؤں گا کبھی

کس درجہ میرے دل کو تمنا ہے اس کی میں
دنیا میں فرد فرد کو بتلاؤں گا کبھی

یوں ہی گزار دوں گا میں اپنی تمام عمر
دل کو نہ اور یاد سے بہلاؤں گا کبھی

مجھ کو تلاش ہے تو محبت کے غم کی ہے
یہ جسم کیا کہ روح کو تڑپاؤں گا کبھی

اب تک تو دیکھنے پہ ہی ہوتا ہے کام ختم
بوسے کو اپنے دوست کے للچاؤں گا کبھی

آنکھوں میں نور ہے تو مزے زندگی کے لوں
مرنا ہے ایک دن مجھے مر جاؤں گا کبھی

میں خاک سے بنا ہوں تکبر سے میرا کام؟
رکھوں گا سر جھکا کے نہ اتراؤں گا کبھی

اس دشت میں جہاں کہ ہے بس غفلتوں کا راج
جھنڈا فقط وفا کا ہی لہراؤں گا کبھی





*****

 
آخری تدوین:
Top