فرحت کیانی
لائبریرین
[ame=http://www.divshare.com/download/3978756-731]DivShare File - Dukh Sukh.mp3[/ame]
دکھ سکھ تھا ایک سب کا اپنا ہو یا بیگانہ
دکھ سکھ تھا ایک سب کا اپنا ہو یا بیگانہ
اک وہ بھی تھا زمانہ ، اک یہ بھی ہے زمانہ
دادا حیات تھے جب ، مٹی کا ایک گھر تھا
چوروں کا کوئی کھٹکا نہ ڈاکوؤں کا ڈر تھا
کھاتے تھے روکھی سوکھی سوتے تھے نیند گہری
شامیں بھری بھری تھیں، آباد تھی دوپہری
سنتوش تھا دلوں کو ، ماتھے پہ بل نہیں تھا
دل میں کپٹ نہیں تھا آنکھوں میں چھل نہیں تھا
تھے لوگ بھولے بھالے تھے لیکن تھے پیار والے
دنیا سے کتنی جلدی سب ہو گئے روانہ
دکھ سکھ تھا ایک سب کا اپنا ہو یا بیگانہ
اک وہ بھی تھا زمانہ ، اک یہ بھی ہے زمانہ
ابا کا وقت آیا تعلیم گھر میں آئی
تعلیم ساتھ اپنے تازہ وچار لائی
آگے روایتوں سے بڑھنے کا دھیان آیا
مٹی کا گھر ہٹا تو پکا مکان آیا
دفتر کی نوکری تھی تنخواہ کا سہارا
مالک پہ تھا بھروسہ ہو جاتا تھا گزارہ
پیسہ اگرچہ کم تھا ،پھر بھی نہ کوئی غم تھا
کیسا بھرا پُرا تھا اپنا غریب خانہ
دکھ سکھ تھا ایک سب کا اپنا ہو یا بیگانہ
اک وہ بھی تھا زمانہ ، اک یہ بھی ہے زمانہ
اب میرا دور ہے یہ، کوئی نہیں کسی کا
ہر آدمی اکیلا، ہر چہرہ اجنبی سا
آنسو نہ مسکراہٹ، جیون کا حال ایسا
اپنی خبر نہیں ہے مایا کا جال ایسا
پیسہ ہے مرتبہ ہے عزت وقار بھی ہے
نوکر ہیں یار چاکر بنگلہ ہے کار بھی ہے
زر پاس ہے زمیں ہے لیکن سکوں نہیں ہے
پانے کے واسطے کچھ کیا کیا پڑا گنوانا
دکھ سکھ تھا ایک سب کا اپنا ہو یا بیگانہ
اک وہ بھی تھا زمانہ ، اک یہ بھی ہے زمانہ
اے آنے والی نسلو، اے آنے والے لوگو
بھوگا ہے ہم نے جو کچھ وہ تم کبھی نہ بھوگو
جو دکھ تھا ساتھ اپنے تم سے قریب نہ ہو
پیڑا جو ہم نے جھیلی تم کو نصیب نہ ہو
جس طرح بھیڑ میں ہم زندہ رہے اکیلے
وہ زندگی کی محفل تم سے نہ کوئی لے لے
تم جس طرف سے گزرو میلہ ہو روشنی کا
راس آئے تم کو موسم اکیسویں صدی کا
ہم تو سکوں کو ترسے تم پر سکون برسے
آنند ہودلوں میں ، جیون لگے سہانہ
دکھ سکھ تھا ایک سب کا اپنا ہو یا بیگانہ
اک وہ بھی تھا زمانہ ، اک یہ بھی ہے زمانہ
دکھ سکھ تھا ایک سب کا اپنا ہو یا بیگانہ
اک وہ بھی تھا زمانہ ، اک یہ بھی ہے زمانہ
دکھ سکھ تھا ایک سب کا اپنا ہو یا بیگانہ
اک وہ بھی تھا زمانہ ، اک یہ بھی ہے زمانہ
دادا حیات تھے جب ، مٹی کا ایک گھر تھا
چوروں کا کوئی کھٹکا نہ ڈاکوؤں کا ڈر تھا
کھاتے تھے روکھی سوکھی سوتے تھے نیند گہری
شامیں بھری بھری تھیں، آباد تھی دوپہری
سنتوش تھا دلوں کو ، ماتھے پہ بل نہیں تھا
دل میں کپٹ نہیں تھا آنکھوں میں چھل نہیں تھا
تھے لوگ بھولے بھالے تھے لیکن تھے پیار والے
دنیا سے کتنی جلدی سب ہو گئے روانہ
دکھ سکھ تھا ایک سب کا اپنا ہو یا بیگانہ
اک وہ بھی تھا زمانہ ، اک یہ بھی ہے زمانہ
ابا کا وقت آیا تعلیم گھر میں آئی
تعلیم ساتھ اپنے تازہ وچار لائی
آگے روایتوں سے بڑھنے کا دھیان آیا
مٹی کا گھر ہٹا تو پکا مکان آیا
دفتر کی نوکری تھی تنخواہ کا سہارا
مالک پہ تھا بھروسہ ہو جاتا تھا گزارہ
پیسہ اگرچہ کم تھا ،پھر بھی نہ کوئی غم تھا
کیسا بھرا پُرا تھا اپنا غریب خانہ
دکھ سکھ تھا ایک سب کا اپنا ہو یا بیگانہ
اک وہ بھی تھا زمانہ ، اک یہ بھی ہے زمانہ
اب میرا دور ہے یہ، کوئی نہیں کسی کا
ہر آدمی اکیلا، ہر چہرہ اجنبی سا
آنسو نہ مسکراہٹ، جیون کا حال ایسا
اپنی خبر نہیں ہے مایا کا جال ایسا
پیسہ ہے مرتبہ ہے عزت وقار بھی ہے
نوکر ہیں یار چاکر بنگلہ ہے کار بھی ہے
زر پاس ہے زمیں ہے لیکن سکوں نہیں ہے
پانے کے واسطے کچھ کیا کیا پڑا گنوانا
دکھ سکھ تھا ایک سب کا اپنا ہو یا بیگانہ
اک وہ بھی تھا زمانہ ، اک یہ بھی ہے زمانہ
اے آنے والی نسلو، اے آنے والے لوگو
بھوگا ہے ہم نے جو کچھ وہ تم کبھی نہ بھوگو
جو دکھ تھا ساتھ اپنے تم سے قریب نہ ہو
پیڑا جو ہم نے جھیلی تم کو نصیب نہ ہو
جس طرح بھیڑ میں ہم زندہ رہے اکیلے
وہ زندگی کی محفل تم سے نہ کوئی لے لے
تم جس طرف سے گزرو میلہ ہو روشنی کا
راس آئے تم کو موسم اکیسویں صدی کا
ہم تو سکوں کو ترسے تم پر سکون برسے
آنند ہودلوں میں ، جیون لگے سہانہ
دکھ سکھ تھا ایک سب کا اپنا ہو یا بیگانہ
اک وہ بھی تھا زمانہ ، اک یہ بھی ہے زمانہ
دکھ سکھ تھا ایک سب کا اپنا ہو یا بیگانہ
اک وہ بھی تھا زمانہ ، اک یہ بھی ہے زمانہ